برائے مہربانی درج ذیل کے بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ کیا یہ درست ہے؟ اور کیا اس کے مطابق کیا سمندر سے نکلنے والی ہر چیز کھائی جاسکتی ہے؟ جیسے کیکڑا، جھینگا، شارک، آکٹوپس، کستورا مچھلی(Oyester)، سشی(Sushi)، وغیرہ
’’کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو سمندر سے نکلتی ہے اور صرف سمندر میں رہتی ہے، حلال ہے اور اس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے:’’تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے‘‘(المائدۃ:96)۔ مزید ایک حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے آپﷺ کے دور میں لوگ وہیل اور بڑی مچھلیاں کھایا کرتے تھے۔
الجواب باسم ملهم الصواب
احناف کے نزدیک سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی حلال ہے، شارک مچھلی کی اقسام میں داخل ہونے کی وجہ سے حلال ہے۔ مچھلی کے علاوہ دیگر سمندری مخلوقات یعنی کیکڑا، آکٹوپس اور کستورا حلال نہیں۔ الغرض کسی بھی سمندری مخلوق کے حلال ہونے یا نہ ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ مخلوق لغۃً، عقلاً و عرفاً مچھلی کی قسم ہے یا نہیں۔ اگر مچھلی کی قسم ہے تو حلال ہے ورنہ حلال نہیں۔ جھینگے پر مچھلی کی تعریف صادق آتی ہے یا نہیں اس میں اہل لغت اور ماہرین حیوانات کا آپس میں اختلاف ہے، اسی بناء پر جھینگے کی حلت و حرمت مختلف فیہ ہے، ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جھینگا حلال ہے متاخرین احناف میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا عبد الحی لکھنویؒ، مولانا عبد الرحیم لاجپوریؒ جھینگے کی حلت کے قائل ہیں۔ جبکہ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا خلیل احمد صاحب سہانپوریؒ نے اس کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ مفتی کفایت اللہ صاحب احتیاط کرنے کا حکم فرماتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے میں تشدد مناسب نہیں۔ البتہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں حلت اور حرمت میں تعارض ہو جائے تو جانب حرمت کو ترجیح ہوتی ہے۔ اس لیے جھینگا کھانے سے احتیاط کرنا اولیٰ اور بہتر ہے۔
رسول الله ﷺ نے فرمایا: أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ أَمَّا الْمَيْتَتَانِ: فَالْجَرَادُ وَالْحُوتُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ فَالطِّحَالُ وَالْكَبِدُ. (الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، ٢٢/٤٣٠)
ترجمہ: ’’ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے ہیں: دو مردارٹڈی اور مچھلی ہیں اور دو خون تلی اور جگر ہیں‘‘۔
(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولداً في ماء نجس ولو طافيةً مجروحةً، وهبانية، (غير الطافي) علی وجه الماء الذي مات حتف أنفه. (قوله: ولو متولداً في ماء نجس) فلا بأس بأكلها للحال؛ لحله بالنص. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح)
أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصةً؛ فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وهذا قول أصحابنا – رضي الله عنهم. (بدائع الصنائع، کتاب الذبائح والصیود)
تکملۃ فتح الملھم: 3/424۔427 (الناشر: داراحیاء التراث العربی): وأما الروبیان أو الإربیان الذي یسمی في اللغۃ المصریۃ: ’’جمبري‘‘ وفي اللغۃ الأردیۃ: ’’جھینگا‘‘ وفي الإنکلیزیۃ: ''SHRIMP" أو "PRAWN" فلا شک في حلتہ عند الأئمۃ الثلاثۃ؛ لأن جمیع حیوانات البحر حلال عندہم۔ وأما عند الحنفیۃ، فیتوقف جوازہ علی أنہ سمک أولا، فذکر غیر واحد من أہل اللغۃ أنہ نوع من السمک، قال ابن درید في جمہرۃ اللغۃ: ۳؍۴۱۴: وإربیان ضربٌ من السمک، وأقرہ في القاموس وتاج العروس: ۱؍۱۴۶۔ وکذٰلک قال الدمیري في حیاۃ الحیوان: ۱؍۴۷۳: الروبیان ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ وأفتی غیر واحد من الحنفیۃ بجوازہ بناءً علی ذٰلک، مثل صاحب الحمادیۃ۔
وقال شیخ مشایخنا التہانوي ؒ في إمداد الفتاویٰ: ۴؍۱۰۳: لم یثبت بدلیل أن للسمک خواصٌ لازمۃٌ تنتفی السمکیۃُ بانتفائہا، فالمدار علی قول العدول المبصرین … وإن حیوۃ الحیوان‘‘ للدمیري الذي یبحث عن ماہیات الحیوان یصرح بأن الروبیان ہو سمک صغیر . . . فإني مطمئن إلی الآن بأنہ سمك – ولعل اللّٰہ یحدث بعد ذٰلک أمرًا …۔ ولکن خبراء علم الحیوان الیوم لا یعتبرونہ سمکًا، ویذکرونہ کنوع مستقل، ویقولون: إنہ من أسرۃ السرطان دون السمک . . . وربما یرجع ہٰذا القول بأن المعہود من الشریعۃ في أمثال ہٰذہ المسائل الرجوع إلی العرف المتفاہم بین الناس، دون التدقیق في الأبحاث النظریۃ، فلا ینبغي التشدید في مسئلۃ الإربیان عند الإفتاء، ولا سیما في حالۃ کون المسئلۃ مجتہدًا فیہا من أصلہا، ولا شک أنہ حلال عند الأئمۃ الثلاثۃ، وأن اختلاف الفقہاء یورث التخفیف کما تقرر في محلہ، غیر أن الاجتناب عن أکلہ أحوط وأولیٰ وأحریٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔
سوال میں جس آیت کا حوالہ درج ہے وہ یہ ہے: اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُه مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّيَّارَةِ وَ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا. (المائدة:96) ترجمہ: ’’تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے‘‘۔
اس آیت میں دراصل حالت احرام کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب تک تم احرام میں ہو تم پر سمندر کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال اور خشکی کا شکار حرام ہے۔ یہ بیان نہیں کیا گیا کہ سمندر میں موجود ہر مخلوق حلال ہے، اگر آیت مبارکہ میں یہی معنیٰ مراد ہوتے تو آیت کے اگلے حصے کا مطلب یہ بنتا کہ احرام سے حلال ہونے کے بعدخشکی کے ہر شکار کا کھانا تم پر حلال ہے۔ حالانکہ یہ مطلب کسی کے نزدیک درست نہیں۔
قال أصحابنا لا يؤكل من حيوان الماء إلا السمك وهو قول الثوري…وقال الشافعی ما يعيش في الماء حل أكله وأخذه ذكاته…واحتج من أباح حيوان الماء كله بقوله تعالی أحل لكم صيد البحر وهو علی جميعه إذ لم يخصص شيئا منه ولا دلالة فيه علی ما ذكروا لأن قوله تعالی أحل لكم صيد البحر إنما هو علی إباحة اصطياد ما فيه للمحرم ولا دلالة فيه علی أكله والدليل عليه أنه عطف عليه قوله وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما فخرج الكلام مخرج بيان اختلاف حكم صيد البر. (أحكام القرآن للجصاص، 4/ 145)
اسی طرح سوال ميں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے بخاری میں اس حدیث کے مکمل الفاظ یہ ہیں:
سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: غَزَوْنَا جَيْشَ الخَبَطِ، وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا، فَأَلْقَی البَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا لَمْ نَرَ مِثْلَهُ، يُقَالُ لَهُ العَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ، فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ فَأَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: كُلُوا فَلَمَّا قَدِمْنَا المَدِينَةَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «كُلُوا، رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ، أَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ» فَأَتَاهُ بَعْضُهُمْ فَأَكَلَهُ. (صحيح البخاري، ٥/ ١٦٧)
ترجمہ:’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جیش الخبط یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والے لشکر کے ساتھ جہاد کے لئے جانے والوں میں میں بھی شریک تھا، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس لشکر کے امیر بنائے گئے تھے چنانچہ ( جب) ہم سخت بھوکے ہوئے تو دریا ( سمندر) نے ایک مری ہوئی مچھلی (اپنے کنارے پر) پھینک دی ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی اس قسم کی مچھلی کو عنبر کہا جاتا تھا۔ہم نے اس میں سے آدھے مہینے تک ( بڑی فراخی کے ساتھ) کھایا، پھر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی کھڑی کی تو اس کے نیچے سے ایک اونٹ سوار ( بڑی آسانی کے ساتھ) گزر گیا، اس کے بعد جب ہم ( مدینہ واپس) آئے تو ہم نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اس واقعہ کا ذکر کیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ جس رزق کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پہنچایا ہے اس کو کھاؤ اور اگر اس مچھلی میں کوئی حصہ تمہارے پاس ( باقی) ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ ۔ چنانچہ ہم نے اس مچھلی کا کچھ حصہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا‘‘۔
اس حدیث کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس سمندری مخلوق کا گوشت تناول فرمایا وہ ایک بڑی مچھلی تھی جسے عنبر کہا جاتا تھا۔ چنانچہ اس روایت سے مچھلی کے علاوہ دیگر جانوروں کی حلت ثابت نہیں ہوتی۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3869 :