لاگ ان
اتوار 11 ذوالقعدہ 1445 بہ مطابق 19 مئی 2024
لاگ ان
اتوار 11 ذوالقعدہ 1445 بہ مطابق 19 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
اتوار 11 ذوالقعدہ 1445 بہ مطابق 19 مئی 2024
اتوار 11 ذوالقعدہ 1445 بہ مطابق 19 مئی 2024

ڈاکٹر محمد رشید ارشد

مدیر غزالی فورم

حرم کی پاسبانی

حرم کی پاسبانی سے متعلق علامہ اقبالؔ کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا‌‌ بخاکِ کاشغر
 

 یہ حرم جس کا ذکر علامہ اقبالؔ کی شاعری میں ہوتا ہے، اس کے متعلق ایک ضابطہ سمجھ لینا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ علامہ اقبالؔ نے اپنے کلام میں بہت سے الفاظ علامت  کے طور پر استعمال کیے ہیں  مثلاً شاہین، لالۂ صحرائی، شیخ، برہمن وغیرہ، ایسے ہی حرم کا لفظ وہ بہت استعمال کرتے ہیں۔ حرم بظاہر ایک جگہ ہے، جیسے حرم سے مراد حرمِ مکی یعنی خانۂ کعبہ ہے جو مسلمانوں کا مرکز ہے، پھر حرم سے مراد امتِ مسلمہ بھی ہے۔ اُنھوں نے پیرِ حرم کا لفظ استعمال کیا، یہی پیرِ حرم ہے جو اکثر بیچ کھاتا ہے، ابھی میں نے آپ کے سامنے عرض کیا ہے کہ حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا۔ تو علامہ بعض اوقات امت کو حرم کہتے ہیں اور بعض اوقات حرم کا لفظ کسی نظریے، کسی ڈسکورس کے لیے بھی بولتے ہیں، جیسے ایک جگہ کہا کہ:

عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحیدِ اُمَم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
 

 تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے، اس کا مطلب ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی ٹیکسٹ نہیں، کوئی نظریہ، کوئی ڈسکورس نہیں ہے، جبکہ ہمارے پاس ہماری ایک دینی روایت ہے۔ ’پیر و مرید‘ میں جب علامہ نے مشکلات بیان کیں کہ امتِ مسلمہ کی اس زبوں حالی کی کیا وجہ ہے؟ تو وہاں پیرِ رومی نے یہی جواب دیا کہ:

دستِ ہر نااہل بيمارت کند
سوے مادر آ کہ تيمارت کند
 

ہر نا اہل کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر تم نے اپنے آپ کو بیمار کر دیا ہے، ماں کی طرف آؤ کہ وہ تمھاری تیمار داری کرے۔ اور یہاں ماں کا بالکل صحیح ترجمہ ہو گا کہ جو تمھارا مدر ڈسکورس اور تمھاری روایت ہے، اس کی طرف آؤ۔ علامہ اقبالؔ نے ایک اور جگہ کہا:

مقامِ خویش اگر خواہی دریں دَیر
بحق دل بند و راہِ مصطفیٰ رَو
 

کہ اس دَیر میں، اس بت کدے میں، اس دنیا میں اگر کوئی مقام و مرتبہ چاہتے ہو تو حق تعالیٰ کے ساتھ دل لگا لو اور رسول اللہﷺ کے رستے پہ چل پڑو۔ اور یہاں پر بھی وہ اپنے مرشد ہی کے پیروکار ہیں، مولانا روم نے کہا تھا کہ:

من بندهٔ قرآنم اگر جانِ دارم
من خاکِ درِ محمدِ مُختارم
 

میں قرآن کا غلام ہوں، جب تک میری جان میں جان ہے۔ اورمیں محمدِ مختارﷺ کی راہ کی خاک ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اس امت کے لیے آبرو مندی کی اگر کوئی راہ ہے تو وہ یہی راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا اور رسول اللہﷺ کی راہ پر چلنا۔

اب ہم جس امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں، اس امتِ مسلمہ کے بارے میں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اب ایک خیالی اور رومانوی تصور ہے، اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ بات جزوی طور پر ٹھیک ہے، یعنی امتِ مسلمہ کے جو عوام ہیں، اُن کے اندر تو ابھی بھی امت کا احساس، امت کا درد ہے، لیکن ان کے جو حکمران ہیں، جو درحقیقت قابض ہیں، اُن کے ہاں امت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یعنی یہ آپ کو معلوم ہو گا کہ پرویز مشرف صاحب جب آئے تھے تو اُنھوں نے ایک نعرہ دیا تھا: ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘، اور بڑا عجیب سا لگا تھا کہ یہ تو بہت عجیب سی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ فرق صرف یہ تھا کہ انھوں نے کہہ دیا، باقی سب کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے، ’’سب سے پہلے ایران‘‘، ’’سب سے پہلے ترکی‘‘، ’’سب سے پہلے مراکش‘‘، ’’سب سے پہلے سعودی عرب‘‘، ’’سب سے پہلے تیونس‘‘ وغیرہ۔ مشرف نے برملا کہہ دیا  ورنہ امتِ مسلمہ کے جتنے حکمران ہیں، اُن سب کا مائنڈ سیٹ یہی ہے، وہ بالکل ایک خاص طرح کے نیشنلسٹک مائنڈ سیٹ کے اندر کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک  مفکر بینیڈکٹ اینڈرسن نے نیشن ا سٹیٹس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ imagined communitiesہیں، یہ مصنوعی طور پر بنائی گئی ہیں۔ لیکن آج ہمیں بد قسمتی سے لگتا ہے کہ شاید امت کا پورا تصور ایک خیالی   کمیونٹی کا سا  بن گیا ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اب معاملہ یہ ہوا ہے کہ ہم لوگ جو ما بعدِ استعمار معاشروں میں رہتے ہیں،  ایک المیے کا شکار ہیں، اور وہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام اور یہاں کی ریاست ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے ہیں، ان کے درمیان ایک ٹکراؤ کی کیفیت ہے۔ یعنی عوام اگرچہ بے عمل ہیں لیکن اُن کے آدرش اور  اُن کی تمنائیں نیک ہیں، اُن کے احساسات و جذبات ابھی بھی دینی ہیں، لیکن یہ  ان کے حکمران بنیادی طور پر ایک استعماری دور کی پیداوار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہمیں ہندوستان کے اندر ایک ایسی خاص نسل پیدا کرنی ہے جو اپنی رنگت اور خون میں تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق میں انگریز ہو۔ یعنی ان کی آرا،  ان کے اخلاق، اور ان کی مکمل ذہانت انگریزوں جیسی  ہو۔ اگر آپ نے دیکھنا ہو  کہ یہ گورا صاحب کہاں پائے جاتے ہیں تو یہ پوسٹ کالونیلز اسٹیٹ کو چلانے والے جتنے بھی بڑے ادارے ہیں، مثلاً، جوڈیشل بیوروکریسی، سول بیوروکریسی، ملٹری بیوروکریسی اور ان تینوں کی اکیڈمیز، جوڈیشل اکیڈمی، سول سروس اکیڈمی اور کاکول اکیڈمی، وہاں یہ کالے انگریز پائے جاتے ہیں۔ آج بھی کالونیل ماسٹرز جو چھوڑ کر گئے تھے، ان کی بالا دستی ہے۔ ان کے تربیت یافتہ لوگ ہی ہم پر مسلط ہیں، اورایسے ہی لوگوں  کے بارے میں جگر نے کہا تھا:

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
 

تو تمام پوسٹ کالونیل سوسائٹیز میں یہ اپنے وارث چھوڑ کر گئے تھے اور وہی وارث ہم پر مسلط ہیں، جو ان کی میراث کو لے کر چل رہے ہیں، اور جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہیں۔ ان کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا کہ:

ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
 

 پھر جو تعلیمی نظام اُنھوں نے دیا ہے، اُس تعلیمی نظام سے وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں سی ایس لوئس (مشہور عیسائی مفکر اور فلسفی) نے اپنے ۱۹۳۰ء میں انگلینڈ کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ہمارے تعلیمی ادراوں میں جو بچے پل رہے ہیں اور ہم جن بچوں کو وہاں تیارکر رہے ہیں،وہ’’trousered apes‘‘ یعنی پتلون پہنے ہوئے بندرہیں۔ تو اسی طریقے سے ہم پر جو لوگ مسلط ہیں، بنیادی طور پر وہ مغرب کےنقال ہیں، وہ اپنے فرنگی آقا اور مالک کی خوش نودی کو دیکھتے ہیں۔ تو کالونیل دور سے جو لوٹ مار شروع ہوئی تھی، وہ آج تک چل رہی ہے۔ علامہ اقبالؔ کی ایک نظم ہے جس میں وہ مسولینی کی زبان سے کہتے ہیں کہ:

آلِ سیزر چوبِ نے کی آبیاری میں رہے
اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشتِ دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاج
 

اہلِ روم گانے بجانے اور کھانے پکانے میں پورے یورپ سے آگے تھے چنانچہ مسولینی یورپ کی استعماری قوتوں سے کہتا ہے کہ تم چاہتے ہو آلِ سیزر محض موسیقی میں مشغول رہیں اور تم بنجر علاقے بھی نہ چھوڑو، وہاں پر بھی قبضہ کرلو۔ اب اگلا مصرع بہت زبردست ہے اور یہ گویا پوری جدید تہذیب کی تسوید ہے:

پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
 

سارے  استعماری منصوبے کو تم نے ایک مُهَذَّب کارنامے کے طور پر پیش کیا۔ تم نے کہا کہ اصل میں ہم مُهَذَّب و گئے ہیں، یہ لوگ جو جانوروں کی طرح ہیں، ہم نے ان کو بھی تہذیب سے آراستہ کرنا ہے،اس کے لیے تم نے تہذیب کے پردے میں غارت گری اور آدم کُشی کی ہے۔ایک جگہ اقبالؔ نے کہا:

 

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہرِ ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
 

مجھے فطرت نے ملکوتی جوہر عطا کیے ہیں، اگرچہ میں خاکی ہوں لیکن خاک سے میرا تعلق نہیں ہے۔ اب جو جدید مغرب ہے، اس کے ہاں خاکی ہونا دو طریقے سے ہے، علامہ اقبالؔ نے اپنے خطبات میں ایک لفظ استعمال کیا ہے: ارتھ روٹڈ نیس۔ تو ایک تصور مغرب کے ہاں خاکی ہونے کا ہے کہ وہ انسان کو محض ایک خاکی مادی وجود سمجھتے ہیں جو آب و گِل سے بنا ہے۔ وہ انسان کے اندر کسی روحانی عنصر کو نہیں مانتے، علامہ اقبالؔ نے کہا کہ:

در نگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے منزل است
 

افرنگ کی نگاہ میں آدمی آب و گل کا مجموعہ ہے اور اُس کے تصور میں  زندگی کے کارواں کی کوئی منزل ہی نہیں ہے۔ تو ہر چیز آب و گِل سے مل کے بنی ہے:

علم و فن، دین و سیاست، عقل و دل
زوج زوج اندر طوافِ آب و گِل
 

اس دور میں چاہے علم ہو یا فن ہو، علم کا لفظ سائنس اور ٹیکنالوجی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ علم و فن ہو، دین و سیاست ہو، عقل و دل ہو، یہ سب گروہ گروہ، یہ آب و گِل، مٹی اور پانی کا طواف کر رہے ہیں۔ اور یہ بات کہ انسان ایک روحانی وجود ہے، یہ چیز اُن کے ہاں سے چلی گئی، اقبالؔ نے کہا کہ:

خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اُس کا دلِ بے نیاز
 

انسان کے اندر خاکی عنصر کے ساتھ ساتھ ایک نوری عنصر بھی ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: انسان میں بہیمیت بھی ہے اور مَلَکِیّت بھی ہے۔ سعدی رحمہ اللہ نے کہا کہ:

آدمی زادہ طرفہ معجون است
از فرشتہ سرشتہ وز حیوان
 

یہ آدم زاد ایک عجیب مرکب ہے، اس کے اندر فرشتوں کی سرشت بھی ہے اور اُس کے اندر ایک حیوانی عنصر بھی ہے۔ لیکن فرنگ کے نزدیک انسان محض ایک مادی وجود ہے اور یہ دنیا کی پہلی تہذیب ہے جو سراسر ایک ظاہری اور مادی تہذیب ہے، یہ مادے سے آگے کسی چیز کو نہیں مانتی۔ مغرب کے افکار میں تین چیزوں کے مقابل میں تین چیزیں آ گئیں:خدا کے مقابل میں کائنات، روح کے مقابل میں جسم، اور حیاتِ اخروی کے مقابل میں حیاتِ دنیوی۔ تو اب دیکھیے کہ خدا، روح اور آخرت، یہ سب کے سب عالم الغیب سے متعلق ہیں، اور کائنات، جسم اور حیاتِ دنیوی، یہ سب کے سب عالمِ شہادت سے متعلق ہیں۔ مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ غیب کا انکار ہے، اس نے ہر چیز کو شہود کے طور  پردیکھا:

خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
 

تو ایک یہ جو تصور پیدا ہوا ہے کہ مادیت ہی اصل ہو گئی، روحانیت کا انکار کر دیا۔ علامہ اقبالؔ نے ایک اور جگہ کہا کہ تین بڑے سوالات ہوتے ہیں:

عالم از رنگ است و بے رنگی است حق
چیست عالم چیست آدم چیست حق
 

یہ جو دنیا ہے، یہ رنگین ہے اور حق بے رنگ ہے۔ عالم کیا ہے، آدم کیا ہے اور حق کیا ہے؟ عالم بھی مادی ہے کہ یہ مادی دنیا ہے۔ اسی طرح اُنھوں نے آدم کو بھی مادی وجود کہا اور حقیقت کے بارے میں بھی کہا کہ جوانتہائی حقیقت ہے، وہ بھی مادہ ہی ہے،مادے کے سوا کچھ بھی پایا نہیں جاتا۔ تو مغربی تہذیب میں ایک مسئلہ یہ ہوا ہے کہ وہاں پر انسان کو ایک مادی وجود بنا دیا گیا ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ وہاں پر انسانوں کو زمین، وطن سے جوڑ دیا گیا ہے۔ پھر نظامِ سرمایہ داری نے اسی فکرِ غرب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا:

ایں بنوک ایں فکرِ چالاکِ یہود
نورِ حق از سینۂ آدم ربود
 

یہ  بینک کا ادارہ چالاک یہودی کے فکر کا شاخسانہ ہے۔ ان بینکوں نے آدم کے سینے سے نورِ حق کو نکال دیا ہے:

تا تہ و بالا نگردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دین، سوداے خام
 

جب تک یہ نظام تہ و بالا نہیں ہو گا کسی دانش، کسی تہذیب، کسی دین کا کوئی سوال نہیں، لہذا اس معاملے پر ہمیں چاہیے کہ سب غور کریں۔

پھر اس جال سے بچیں کہ خدا نخواستہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ریسورسز نہیں ہیں یا ہمارے پاس ٹیکنا لوجی نہیں ہے یا ہم معاشی طور پر پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں ہے، پانی جہاں مر رہا ہے، وہ ہمیں پتا ہے، وہ دین ہے، وہ ایمان ہے۔ تو اُس کی پرواہ کریں، اُس کی فکر کریں۔ اور پھر کوشش کریں، اپنی ذات سے اسوہ بنیں، جس دین کو ہم پھیلا رہے ہیں، اُس کا نمونہ بنیں۔ اس کی بنیاد پر خیر پر مبنی ایک سماج قائم کریں۔ اور پھر کوشش کریں کہ ایک ایسا نظمِ مملکت ہم قائم کریں جو حق پر قائم ہو۔ اور جو لوگ بھی حق پر نظام قائم کریں گے، سب سے پہلے اُنھیں جدید اداروں کی  علمی تنقید پیدا کرنی ہو گی۔ اسٹیٹ پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے اسٹیٹ کو cut to size کرنا ہو گا، اسٹیٹ کو بالکل اُس کی صحیح جگہ پر لانا ہو گا۔ اور پھر جدید جتنے بھی ادارے ہیں، اُن کی نہاد میں جو مسائل ہیں، جو لادینیت ہے، جو اُن کے ہاں مسائل ہیں، اُن پر غور کرنا ہو گا۔ ہر چیز پر اسلام کی چیپی لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اُس کے درون کو دیکھیں کہ یہ اسکول کا ادارہ کہاں سے آیا ہے؟ یہ بینک کا ادارہ کہاں سے آیا؟ یہ ماڈرن مارکیٹ کہاں سے آئی؟ یہ اسٹاک ایکسچینج کہاں سے آئی؟ یہ پاگل خانے کہاں سے آئے؟ یہ اسپتال کہاں سے آئے؟ یہ سب جدید ادارے ہیں اور یہ انسانوں کو ڈسپلن کرنے کے لیے اور اُن کو جکڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے کہا کہ:

ہوئے اس قدر مُهَذَّب کبھی گھر کا منھ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
 

اور دوسری جگہ کہا کہ:

باپ ماں سے شیخ سے اللہ سے کیا ان کو کام
ڈاکٹر جنوا گئے تعلیم دی سرکار نے
 

تو ہماری پوری زندگی اداروں میں گزرتی ہے اور وہ ادارے سارے کے سارے کالونیل بھی ہیں اور امپیریل بھی ہیں، اور وہ  مطلق العنان اور لادینی ہیں۔ یہ بات کہ ہم پاکستان کو سیکیولر نہیں ہونے دیں گے، پاکستان میں سیکیولر ازم کو نہیں آنے دیں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام میں سے اسلامی جمہوریہ نہیں نکالنے دیں گے۔ آئین سے اسلامی شقیں نہیں نکالنے دیں گے، یہاں شراب خانے اور قحبہ خانے نہیں کھولنے دیں گے۔ یہاں پر مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے پر پابندی نہیں لگوانے دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں بار بار یہ عرض کرتا ہوں ماڈرن اسٹیٹ اپنی اصل میں سیکیولر ہے، تو پاکستانی اسٹیٹ بھی ایک سیکیولر اسٹیٹ ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ آپ نے اُس میں کچھ چیزیں داخل کر دی ہیں اور گویا اُس کے حوالے سے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید آپ نے اس کو اسلامیا لیا ہے۔ بینک ایک سیکیولر ادارہ ہے، اُس کو اسلامیایا نہیں جا سکتا۔ میں اسلامی یونیورسٹی میں پڑھا ہوں، مجھے پتا ہے کہ وہاں کیا حالت ہوتی ہے، جب کسی بھی جدید ادارے پر اسلام کا ٹھپہ اور چیپی آپ لگاتے ہیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا، چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے۔ اور اب بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں یہ سانحہ ہو گیا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ یونیورسٹیوں کو مدرسوں کے ماڈل پہ ڈھالا جاتا، اب مدرسوں کو یونیورسٹی کے ماڈل پہ ڈھالا جا رہا ہے۔ بہر حال، پھر وہی بات جو اقبالؔ نے کہی تھی کہ حل یہ ہے:

مقامِ خویش اگر خواہی دریں دَیر
بحق دل بند و راہِ مصطفیٰ رَو
 

اگر اس پرانے بت کدے میں، اس دنیا میں کوئی مقام بنانا چاہتے ہو تو ایک ہی طریقہ ہے حق تعالیٰ سے اپنے دل کو لگاؤ اور رسول اللہﷺ کے رستے پہ چلو۔ جا رجو اگیمبن ایک بہت مشہور اطالوی مفکرہے، اس کا ایک ٹویٹ ہے، جو اُس نے تیس اکتوبر میں کیا، یہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: scientists from the school of plant sciences at the university of Tel Aviv announce in the last few days that they had recorded with the help of special ultra sound micro phones, the screams of pain that plants make when they are cut or lack of water. ’’تل ابیب یونیورسٹی کے اسکول آف پلانٹ سائنسز کے سائنس دانوں نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ انھوں نے خصوصی الٹرا ساؤنڈ مائیکرو فونز کی مدد سے اس درد کی چیخوں کو ریکارڈ کیا ہے جو پودے کٹ جانے یا پانی کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ اب اگلا جملہ سنیے اُس کے بعد کہتے ہیں: there are no micro phones in Gaza. ’’غزہ میں کوئی مائیکرو فون نہیں ہیں‘‘۔ یہ ہے تہذیب جو آپ نے پیدا کی ہے، یعنی آپ نے وہ طاقت پیدا کر لی کہ آپ پلانٹس کی سسکیاں سن لیں، جو اکبر نے کہا تھا کہ خوردبیں اور دور بیں تک ان کی بس اوقات ہے، مگر انسان کو یا تو جانور بنا دو یا انسان کو مشین بنا دو۔ تو اس مفکر نے کہا کہ تم اتنے ظالم اور سنگ دل ہو کہ پودوں کی چیخیں  سننے کے لیے تم نے آلات پیدا کر لیے ہیں اور غزہ کے بچوں کی آوازیں اور اُن کی سسکیاں تمھیں سنائی نہیں دیتیں۔ تو یہ وہ تہذیب ہے جس پر ہم ناز کرتے ہیں، حالانکہ ہ وہ لوگ جو اس تہذیب کے پروردہ ممالک میں رہتے ہیں، یقین جانیے اُنھیں شرمندہ ہو نا چاہیے۔، اُن کو شرمندگی کے احساس کے ساتھ رہنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے نظام کے پروردہ ہیں جو دنیا کا سب سے ظالمانہ اور سب سے زیادہ غیر انسانی نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پہ رحم کرے۔

بہر حال، ہمیں کیپیٹل ازم سے لڑنا چا ہیے، اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اس کے بدترین کنزیومر بن جائیں۔ یعنی اپنے طرزِ زندگی میں  کچھ ایسی  تبدیلیاں کی جائیں کہ جس سے پتا لگے ہم اس سارے نظام سے کم از کم بےزار ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بعض لوگ کہتے ہیں کہ تنقیدی شعور ہونا چاہیے،مگر مصیبت یہ ہے کہ ساری تنقید  روح ،دین ،پیغمبر اور آخرت  کے گرد گھوم رہی ہے۔ میرے نزدیک تو اس وقت اسلامی جماعتوں کی بہت بڑی خدمت یہ ہو گی کہ وہ نفسِ ’’اسٹیٹ‘‘ کو موضوع بنائیں، یعنی جب کبھی وہ اقتدار پر آئیں گی تو سب سے بڑی رکاوٹ اُن کے سامنے اسٹیٹ  اور اسٹیٹ کی مشینری ہو گی۔ مجھے ابھی تک تو ایسے لگتا ہے کہ ان اداروں کے بارے میں ایسی کوئی آگاہی نہیں ہے۔ میری ناقص رائے میں بات یہاں سے شروع کرنی چاہیے اور ایک نئی ادارہ جاتی صف بندی کرنی چاہیے، یعنی مسجد کو مرکز بنائیں، پنچایت کو زندہ کریں۔ اور بات یہاں سے شروع ہو گی کہ سب سے پہلے اس مسئلے کی تفہیم پیدا کریں ورنہ آپ کوتو پہلے بھی حکومت ملتی رہی اور آپ بے بس رہے اور آئندہ بھی بے بس ہی ہوں گے۔

لرننگ پورٹل