لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

یہ حدیث مبارکہ سند اور صحت کے اعتبار سے کس درجہ کی ہے ’’من ترك الصلوة متعمدا فقد كفر‘‘ نيز اگر یہ حدیث مبارکہ دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر آج کل ہماری نجانے کتنی نمازیں چھوٹ جاتی ہیں یا رہ جاتی ہیں تو کیا ہر نماز چھوٹ جانے یا ترک ہو جانے پر ایمان اور نکاح کا اعادہ اور تجدید ضروری ہو گا؟ کیونکہ اگر کلمہ کفر جیسے زبانی فعل سے نکاح منسوخ ہوگیا تو نماز چھوٹ جانا تو عملی کفر ہوا اس لحاظ سے یہ زیادہ خطرناک ہونا چاہیے؟

الجواب باسم ملهم الصواب

یہ روایت دار قطنی کی صراحت کے مطابق موقوفاً  درست ہے، اسی طرح دیگر بہت سی صحیح و مرفوع احادیث سے بھی اس روایت کے مضمون کی تائید  ہوتی ہے۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔

آپﷺ نے فرمایا: إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ. (مسلم، کتاب الایمان، باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة) ترجمہ:’’ انسان اور اس کے کفر وشرک کے درمیان نظر آنے والا فرق نماز چھوڑنے کا فرق ہے‘‘۔

وعند الطبراني من حديث أنس من ترك الصلاة متعمداً فقد كفر جهاراً قال الهيتمي رجاله موثقون إلاَّ محمد بن أبي داود الأنباري فلم أجد ترجمته وذكر ابن حبان محمد بن أبي داود البغدادي فما أدرى هو أم لا اهـ وقال الحافظ الحديث سئل عنه الدارقطني فقال رواه أبو النضر عن أبي جعفر عن الربيع موصولاً ووقفه أشبه بالصواب اهـ

یہ تمام احادیث جن میں جان بوجھ کر نماز ترک کرنے پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے ان سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی کم بخت نماز کی فرضیت ہی کا منکر ہوجائے وہ کافر ہوگا. اور اس کی  بیوی بھی نکاح سے نکل جائے گی، اس پر تجدید ایمان و نکاح فرض ہے، لیکن اگر کوئی  شخص فرضیت کا منکر نہ ہو بلکہ محض سستی اور غفلت کی بناء پر نماز ترک کرتا ہو وہ جمہور علماء کے نزدیک فاسق ہے کافر نہیں۔

فذهب الجماهير من السلف والخلف منهم مالك والشافعي إلى أنه لا يكفر بل يفسق. (تحفة الأحوذي، کتاب الایمان، باب ما جاء في ترك الصلاة) 

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر2646 :

لرننگ پورٹل