لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024

مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

قضیۂ فلسطین…پس چہ باید کرد

گزشتہ دنوں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جس قدر نقصان ہوا ناقابلِ بیان ہے۔ہزاروں فلسطینی شہری شہید ہوگئے اور بے شمار زخمی ہیں۔شہدا میں غالب اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ بالخصوص ۱۷، اکتوبر کو اسپتال پر بمباری کے نتیجے میں جو معصوم شہید ہوئے، ان کی شہادت بہت بڑا سانحہ ہے۔ہم غاصب صیہونیوں سے وہی کہیں گے جو مومنِ آلِ فرعون نے کہا تھا:﴿أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ﴾‏’’کیا تم ایک شخص کو صرف اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا پروردگار اللہ ہے؟ ‘‘۔بہر حال، ان سطور سے قضیۂ فلسطین کی موجودہ صورتِ حال پیش کرنامطلوب نہیں کیونکہ ہمارے قارئین اس سے بخوبی واقف ہیں۔مزید یہ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی اور زبانی جمع خرچ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔مقصود یہ ہے کہ بحیثیتِ مسلمان ہم کیا کرسکتے ہیں اس پر غور کیا جائے۔مسلمانانِ ہند نے ہمیشہ ہی عالمِ اسلام کو جسدِ واحد کی طرح سمجھا اور ہر مسلمان کے درد کو اپنا درد محسوس کیا۔امیر مینائی کا مصرع مسلمانانِ ہند پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:سارے جہاں کا دردہمارے جگر میں ہے۔ الحمد للہ! ہم فلسطینی بھائیوں کے احوال سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان کی تکلیف پر غم زدہ بھی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم قضیۂ فلسطین میں درج ذیل طریقوں سے اپناکردار ادا کرسکتے ہیں:

۱)سب سے اہم کام دعا کرنا ہے، کیونکہ یہ نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔ جب قبیلہ رعل اور ذکوان نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو شہید کردیا تو آپﷺ مسلسل ایک ماہ ان قبائل کے خلاف بددعا فرماتے رہے۔ لہذا،ہمیں اہلِ فلسطین،مجاہدین اور شہدا کے حق میں دعا کرنے کے ساتھ ساتھ مسنون الفاظ میں غاصب صیہونیوں کے خلاف بددعا بھی کرنی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیۃ نے خطابِ جمعہ میں اس طرف بھی اشارہ کیا کہ ایسے مواقع پر اسلاف سے آیتِ کریمہ کا ختم بھی منقول ہے۔اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

۲)جس قدر ممکن ہو مالی طور پر مجاہدین اور محصورین کے لیے امداد روانہ کرنی چاہیے۔مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت فلسطین کی نہیں عالمِ اسلام کی ذمے داری ہے اور مجاہدین ہماری طرف سے یہ ذمے داری ادا کررہے ہیں۔ مال کی مقدار پر توجہ نہیں کرنی چاہیے۔جس قدر ممکن ہو اپنا حصہ ملانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ مقدار پر نہیں بلکہ اخلاص پر اجر عطا فرماتے ہیں۔

۳) تیسرا کام یہ ہےکہ ہم وسیع پیمانے پر قضیۂ فلسطین سےآگاہی پیدا کریں۔خود بھی صحیح صورتِ حال سے واقف ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی اس کی تعلیم دیں۔بالخصوص اپنی اولاد کو اس معاملے کی اہمیت سے آگاہ کریں۔انھیں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی سیرت سنائیں۔جہاد کی اہمیت کو خود بھی ذہن میں رکھیں اور اپنی اولاد کو بھی تصورِ جہاد سے آگاہ کریں۔انھیں مجاہدین کی بہادری،مقاومت اور حق گوئی کے قصے سنائیں۔حق وباطل کا معرکہ کوئی نئی بات نہیں،یہ صدیوں سے جاری ہے اہم بات یہ ہے کہ اس معرکے میں ہم کیا کرتے رہے۔کاروبارِ زندگی میں مگن رہے یا حق کی خاطر قربانی دینے کے لیے سینہ سپر رہے۔

ہمیں نئی نسل کو بتانا چاہیے کہ اسرائیل نام کی کوئی ریاست وجود نہیں رکھتی۔ القدس کے اطراف میں کل بھی فلسطین تھا اور آج بھی فلسطین ہے۔ ہم فلسطین کی ایک انچ زمین بھی کسی غاصب کے لیے تسلیم نہیں کرتے۔ جیت ہار تو اعتباری ہے۔ ہم ہار کر بھی جیتیں گے اور وہ جیت کر بھی ہاریں گے۔ جب مشرکین نے جنگِ احد میں مسلمانوں کو ستر مجاہدین کی موت کا طعنہ دیا تو نبیٔ رحمتﷺ کے حکم پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان سے فرمایا:قتلانا في الجنة وقتلاكم في النار. ’’ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمھارے مقتولین جہنم میں‘‘۔ فلسطین مسلمانوں کا تھا، مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کا ہی رہے گا، بحرِ متوسط سے نہرِ اردن تک اور خلیجِ عقبہ سے حدودِ لبنان تک۔ راغب السرجاني نے اپنی کتاب فلسطين حتى لا تكون أندلسا أخرىمیں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ جب ان کے ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ کبھی مسکراتے نہیں ہیں؟‘‘، تو جواب میں سلطان نے فرمایا:

’’ کیف أضحک و الأقصیٰ أسیر

’’میں کیسے ہنس سکتا ہوں جبکہ مسجدِ اقصیٰ دشمنوں کے قبضے میں ہے‘‘

لرننگ پورٹل