میرا سوال یہ ہے كہ ایک سیدہ خاتون ہیں، لیکن ان کے شوہر سید نہیں، وہ بہت زیادہ ضرورت مند بھی ہے اوران کی ملازمت وغیرہ بھی نہیں ہے، توکیاایسے شخص كو زكوة دی جاسكتی ہےجس كی بیوی سیدہ ہو اور وہ خود سید نہ ہو؟ جزاك اللہ خیرا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
سید اور ہاشمی کا اطلاق بنو ہاشم پر ہوتا ہےاور بنو ہاشم میں سے حضرت عباس بن عبد المطلب، حضرت حارث بن عبد المطلب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت جعفر بن ابی طالب، اور حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں، اور ان سب کی اولاد کو زکوۃ دینا ممنوع ہے۔ جو شخص مذکورہ خاندانوں میں سے کسی خاندان سے تعلق رکھتا ہو وہ سید اور ہاشمی ہے۔ اور ان کی شرافت اور احترام کے پیشِ نظر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زکوۃ و صدقاتِ واجبہ لینے سے منع فرمادیا تھا۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر خاتون كا شوہر مذكورہ بالاسادات میں سے نہیں ہے، نیز وہ مستحق زکوة ہے تو اسے زکوة دینا جائزہے، زکوة ادا ہوجائے گی۔
قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد ». رواه مسلم (مشكاة المصابيح،۱/۵۷۲)
ولا يدفع إلی بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية (الفتاوی الهندية،۱/۱۸۹)
ويؤخذ من هذا أن من كانت أمها علوية مثلا وأبوها عجمي يكون العجمي كفؤا لها، وإن كان لها شرف ما لأن النسب للآباء ولهذا جاز دفع الزكاة إليها فلا يعتبر التفاوت بينهما من جهة شرف الأم ولم أر من صرح بهذا والله أعلم. (حاشية ابن عابدين،۳/۸۷)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4681 :