لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

آج كل نئے نئے فتنے برپا ہورہے ہیں، اس وجہ سے لوگوں كی رائے یہ ہوگئی  ہے كہ سود لینا تو حرام ہے، لیكن سود دینا حرام نہیں اوروہ اس پر قرآن كو حوالہ بناتے ہیں كہ قرآن میں سود لینےكے بارے میں تو منع ہے، لیكن دینے كے بارے میں منع نہیں، اور اسی طرح اس حدیث كی طر ف بھی توجہ نہیں دیتے جس میں سودكھانے، كھلانے اور اس كے لكھنے والے كے بارے میں لعنت آئی ہے۔ آپ سے گزارش ہے كہ اس حوالے سے میری رہنمائی فرمائیں؟كیونكہ یہ بات میرے كچھ دوست كہتے ہیں اوروہ ان باتوں كو بنیاد بناكر یہ بھی كہتے ہیں كہ  اگر گھر یا گاڑی وغیرہ خریدنی ہوتو سود دیے بغیر كام نہیں ہوگا، اس لیے ضرورت كے وقت سود پر قرض لے سكتےہیں۔ كیا ان كی یہ بات درست ہے؟ اگر درست نہیں، تومیں اپنے دوست،احباب كو كس طریقے سےسمجھاؤں؟ اس كے بارے میں رہنمائی فرمائیں؟ جزاك اللہ خیرا۔

الجواب باسم ملهم الصواب

مذكورہ صورت میں لوگوں كا یہ كہنا كہ سود لینا تو حرام ہے، لیكن دینا حرام نہیں، اس لیے سودی معاملہ كیا جاسكتاہے، یہ بات بے بنیاد اورقرآن واحادیث سے نری جہالت اورگمراہی كی علامت ہے۔ نیزیہ بھی واضح رہے كہ سود کی حرمت کامنکر کافراور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہووہ فاسق اورمردود الشہادۃ ہے، یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ لہذاخیرخواہی كے جذبے سے اپنے دوست احباب كو ترغیب وترہیب كریں، اورجس طرح ممكن ہو ان كو حکمت وبصیرت كےساتھ قرآن وحدیث كی طرف توجہ دلانے اور صحیح راہ پر لانےكی كوشش كرتےرہیں۔

سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تعالی نے سود كھانے والوں كے بار ےمیں فرمایا: الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(سورةالبقرة:۲۷۵) ترجمہ: ”جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو، یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اورسود کوحرام قرار دیا ہے“۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ(سورةالبقرة:۲۷۶) ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے“۔

نیز سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلانِ جنگ ہے اورسود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہےکہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے، جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔

چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ(۲۷۸)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ(سورة البقرة:۲۷۹) ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ“۔

اسی طرح احادیث میں سودی معاملہ کرنےوالوں  کےبارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔

چناں چہ ایک روایت میں ہے: عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلی الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال:  «هم سواء »(صحيح مسلم،۳/ ۱۲۱۹) ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود دینے والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہےاور فرمایا کہ وہ لوگ گناہ میں برابر ہیں‘‘۔ نیزاسی طرح اور بھی بہت سی احادیث مباركہ میں سودی معاملہ كرنے والوں كےبارے میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

سودی لین دین كا عمومی حكم تو یہی ہے كہ سود لینا دینا دونوں حرام ہیں، اللہ تعالی سے جنگ كرنے كے مترادف ہیں، جیساكہ مذكورہ بالا آیات اور احادیثِ مباركہ سے واضح ہے۔ البتہ اضطراراور حد درجہ كی مجبوری كی حالت میں جبكہ ہلاكتِ نفس كا خوف ہو جس طرح بقدرِ ضرورت مردار كھاكراپنی جان بچانے كی اجازت ہے، اسی طرح فقہاء نے اضطرار اور حد درجہ كی احتیاج اور شدید مجبوری كی صورت میں جب كہ قرض وغیرہ ملنے كی بھی امید نہ ہوبقدرِ ضرورت سودی قرض لینے كی اجازت دی ہے، ضرورت سے زیادہ لینا درست نہیں، اور یہ بات مكمل طور پر پیش ِنظررہنی  چاہیے كہ سودی قرض لینے كی اجازت حد درجہ كی مجبوری اور شدید احتیاج كی صورت میں ہے، زیب وزینت اور اپنی خواہش پوری كرنے كو ضرورت اور احتیاج كا عنوان دینا سخت دھوكہ دہی اور بے ہودہ تاویل ہے۔ لہذاسود جو بنصِ قطعی حرام ہےاضطرار اورمجبوری ہی كی حالت میں بقدرِ ضرورت اس كااستعمال جائز ہوگا، اور یہ بھی شخصی و انفرادی حالت میں كہ جو شخص اضطرار اور ضرورت میں مبتلا ہو وہ اپنی شخصی حالت كسی مفتی یا ماہر عالم كے سامنے پیش كرےاور اجازت ملنے پر بقدرِ ضرورت استعمال كرے۔ (فتاوی رحیمیہ، ۱۰/ ۲۲۹۔ تا۔۲۳۱) 

(قوله ولا آكل الربا) لأنه متأكد التحريم وشرط في الأصل الشهرة في أكل الربا وكذا أكل من اشتهر بأكل الحرام فهو فاسق مردود الشهادة. (الجوهرة النيرة،۲/۲۳۱)

قوله ( أو يأكل الربا ) أي يأخذ القدر الزائد علی ما يستحق لأنه من الكبائر فالمراد بالأكل الأخذ وإنما ذكره تبعا للآية الكريمة { الذين يأكلون الربا } البقرة ۲۷۵ وإنما ذكر في الآية لأنه أعظم منافع المال ولأن الربا شائع في المطعومات والمراد بالربا القدر الزائد لا الزيادة وهي المرادة في قوله تعالی { وحرم الربا } البقرة ۱۷۵ كما بيناه في بابه بحر. (حاشية ابن عابدين،۷/۱۵۹) الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة أو خاصة… أشارت المادة بقولها: الحاجة تنزل منزلة الضرورة… إلخ إلی أن الضرورة وإن كانت أشد إلا أن الحاجة عامة كانت أو خاصة تنزل أيضا منزلتها في تجويز الممنوع شرعا. (شرح المجلة،١/٧٥)

الضرورات تبيح المحظورات، هذه قاعدة أصولية مأخوذة من النص، وهو قوله تعالی:  «إلا ما اضطررتم إليه »، والاضطرار الحاجة الشديدة، والمحظور المنهي عن فعله يعني: أن الممنوع شرعًا يباح عند الضرورة… ثم هذه الرخصة ثلاثة أنواع: نوع هو مباح، كأكل مال الميتة والدم ولحم الخنزير وشرب الخمر عند المجاعة أو الغصة أو العطش أو عند الإكراه التام بقتل أو قطع عضو، فهذه الأشياء تباح عند الاضطرار؛ لقوله تعالی:  «إلا ما اضطررتم إليه » أي: دعتكم شدة المجاعة إلی أكلها، والاستثناء من التحريم إباحة. (شرح المجلة، ١/ ٥٥)

{إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}

{فمن اضطر غير باع ولا عاد} أي من غير بغي ولا عدوان وهو مجاوزة الحد {فلا إثم عليه} أي في أكل ذلك. {إن الله غفور رحيم} قال مجاهد: {غير باغ ولا عاد} من خرج باغيا أو عاديا أو في معصية الله فلا رخصة له وإن اضطر إليه، وقال مقاتل بن حيان: {غير باغ} يعني غير مستحله، وقال السدي: {غير باغ} يبتغي فيه شهواته، وعن ابن عباس: لا يشبع منها وعنه: {غير باغ ولا عاد} قال: {غير باغ} في الميتة، ولا عاد في أكله، وقال قتادة: {فمن اضطر غير باغ ولا عاد} قال: غير باغ في الميتة أي في أكله أن يتعدی حلالا إلی حرام هو يجد عنه مندوحة، وحكی القرطبي عن مجاهد في قوله: {فمن اضطر} أي أكره علی ذلك بغير اختياره. (مختصر تفسير ابن كثير،۱/ ۱۵۱)

وفي القنية والبغية، يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (الأشباه والنظائر،۱/۲۹۴)

قوله: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح، وذلك نحو أن يقترض عشرة دنانير مثلا، ويجعل لربها شيئا معلوما في كل يوم ربحا. (غمز عيون البصائر،۱/۲۹۴)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4686 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل