سوال:ایك فارم پر ایك شخص بكریاں پالتا ہے،اگران كے ساتھ یہ معاملہ طے كرلیا جائے كہ كچھ بكریاں ان كو ہم خریدكر دیں گے،مثلا دو،تین بكریاں خرید كر ان كےفارم میں ركھ لیں،جس كے اندر وہ اپنی بكریاں بھی پالتے ہیں، تو وہ ان بكریوں كی نگہداشت،كھانا پینا وغیرہ سب كچھ اپنے ذمے لیں گے،اور جب ان بكریوں سے بچے پیدا ہوں گے یا ان سےدودھ نكالا جائے گاتو وہ آدھا آدھا كرلیا جائے،تو كیا اس طرح كا معاملہ كرنا درست ہے۔اور یہ نظام رائج بھی ہے جیساكہ عام طور پر چرواہوں كے پاس ہوتاہے كہ چرواہا كسی كی بكریا ں ركھتاہےاور ان كو چرانےكے لیے لے جاتاہے ان كو كھلاتا پلاتا ہے اور جب ان سے پیداوار ہوتی ہے تووہ آدھی آدھی ہوجاتی ہے،تو كیا یہ طریقہ درست ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
بكریوں كو پرورش كے لیے مذكورہ طریقےپر دینا شرعًا جائز نہیں ہے؛ كیونكہ جانور كو پرورش كے لیے دینا درحقیقت اجارہ كا معاملہ ہے اور اجارے میں اجرت ،عمل اور مدت كا متعین ہونا ضروری ہے۔اور مذكورہ صورت میں چونكہ جانور پالنے والے ملازم كی اجرت اور مدت مجہول ہے وہ اس طور پر كہ معلوم نہیں كہ نفع ہوگا یا نہیں،اگر ہوگا تو كتنا ہوگا اور كب ہوگا،لہذاان جہالتوں كی وجہ سے یہ اجارہ فاسد اور ناجائز ہے۔اسی طرح چارے كا خرچ جانور پالنے والے كے ذمہ مشروط كرنا بھی شرطِ فاسد ہے،اس سے معاملہ فاسد ہوجاتا ہے ۔
البتہ اس معاملہ کی ایک جائزمتبادل صورت یہ ہےکہ مالک ہرجانور کانصف حصہ جانور پالنےوالےشخص کوفروخت کردےاورپھران کاثمن معاف کردے،اوردوسرے شخص سےیہ کہےکہ تم ان کی پرورش کرو،اس کو اوراس سےہونےوالےبچوں کوہم آپس میں نصف،نصف تقسیم کرلیں گے۔ یہ صورت شرکت کی ہوجائیگی او ر یہ جائزہے۔ اس صورت میں چارہ بھی دونوں پر آدھا آدھا لازم ہوگااور بعد میں جب ان سےدودھ نكالا جائے گایا جوبچے پیدا ہوں گےوہ بھی دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے۔ تاہم اس صورت میں اگریہ(جانور پالنےوالا)شخص كسی وقت چارے كا نصف خرچہ وصول كرنا چاہے تو كرسكے گا۔(مستفاد ازفتاوی عثمانی: ۳ / ۳ ۸ ۲)
ولو استأجر عبدا بنصف ربح ما يتجر أو رجلا يرعی غنما بلبنها أو بعض لبنها أو صوفها لم يجز ويجب أجر المثل. كذا في التتارخانية.دفع بقرة إلی رجل علی أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلی صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعی ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلی صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج علی أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق علی أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر. كذا في الوجيز للكردري.فلو أن المدفوع إليه دفع البقرة أو الدجاجة إلی رجل آخر بالنصف فهلك في يده فالمدفوع إليه الأول ضامن فلو أن المدفوع إليه بعث البقرة إلی السرح فلا ضمان لمكان العرف. كذا في المحيط.(الفتاوی الهندية ،۴/ ۴۴۵)
والمعنی فيه: أنه جعل الأجر شيئاً معدوماً؛ لأنه جعل الأجر بعض الدقيق الذي يخرج من علمه، وإنه معدوم في الحال حقيقة، وليس له حكم الوجود؛ لأنه غير واجب في الذمة؛ لأنه إنما يجب في الذمة ما له وجود في العالم، والبدل في المعاملات يجب أن يكون موجوداً حقيقة كالعين أو حكماً كالثمن. (المحيط البرهاني في الفقه النعماني ،۸/ ۷۰)
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضی العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه.(الدر المختار،۶/ ۴۶)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4632 :