لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

ذیل میں مذکور حدیث کی حقیقت اور وضاحت درکار ہے ۔

حدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا»

الجواب باسم ملهم الصواب

سوال میں مذکور حدیث شریف کو ابن ماجہ نے روایت  کیا ہے :نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا. (ابن ماجة،کتاب النکاح، با ب رضاع الكبير) ترجمہ:رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلانے کی آیت نازل ہوئی اور یقینا ً وہ میرے صحیفے میں میرے تخت تلے تھی۔پس  جب اللہ کے رسول ﷺ کا وصال ہوا اور ہم آپ کی وفات کی وجہ سے مشغول ہوئے تو ایک بکری اندر آئی اور وہ کاغذ کھاگئی۔

اس روایت میں ایک راوی محمد بن اسحاق ہیں جن کو امام نسائی ؒ نے  لیس بالقوی اور امام دار قطنی ؒنے لایحتج بہ کہا ۔اور امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں مخالفت ثقات یا تفرد کی صورت میں ان کی حدیث ضعیف ہوگی  اور اس روایت میں محمد بن اسحاق متفرد ہیں وہ اس طرح کہ اس روایت کو عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم سے اور بہت سے رواۃ نے نقل کیا ہے لیکن کسی بھی طریق میں بکری کے صحیفے کو کھاجانے کا ذکر نہیں ہے ۔یہ زیادتی صرف محمد بن اسحاق کے طریق میں ہے اور محدثین کا اصول ہے کہ غیر ثقہ راوی اگر ثقہ رواۃ کی مخالفت کرے تو وہ روایت منکر ہوتی ہے احکام میں قابل قبول نہیں ہوتی ۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اس روایت کو عبد اللہ بن ابی بکر سے  یحیٰ بن سعید انصاری نے اس طرح روایت کیا: نَزَلَ فِي الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ ثُمَّ نَزَلَ أَيْضًا خَمْسٌ مَعْلُومَاتٌ. (مسلم،کتاب الرضاع،باب التحريم بخمس رضعات) ترجمہ:قرآن میں دس مقررہ گھونٹ نازل ہوئے پھر پانچ مقرر شدہ بھی نازل ہوئے۔

یہ طریق مسلم شریف میں موجود ہے اس میں بکری کا واقعہ موجود نہیں ۔

اسی طرح اس روایت کو عبد اللہ بن ابی بکر سے امام مالک ؒ نے نقل کیا:كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِن الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِيمَا يُقْرَأُ مِنْ الْقُرْآنِ (موطأ مالک،کتاب الرضاع،باب جامع ما جاء في الرضاعة)  ترجمہ:پہلے قرآن شریف میں یہ اترا تھا کہ دس بار دودھ پلائے تو حرمت ثابت ہوتی ہے پھر منسوخ ہوگیا اور پانچ بار پلانا ٹھہرا رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور یہ اسی طرح قرآن میں پڑھا جاتا ہے۔

امام مالک ؒ اور یحیٰ بن سعید انصاری ؒ جیسے جلیل القدر محدث نے اس قصے کو بیان نہیں کیا اور جبکہ محمد بن اسحق ان جلیل القدر حضرات کے درجے کے راوی نہیں ہیں  لہذامخالفت ثقات کی بنیاد پر  ان کی روایت ضعیف کہلائے گی۔  نیز ابن قتیبہ ؒ فرماتے ہیں :فَأَمَّا رُضَاعُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، فَنَرَاهُ غَلَطًا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ. (تأویل مختلف الحدیث لابن قتیبة، ص443، الناشر: المكتب الاسلامي – مؤسسة الإشراق،الطبعة: الطبعة الثانية- مزيده ومنقحة 1419هـ – 1999م) ترجمہ :بڑے آدمی کو دس مرتبہ دودھ پلانا ہم اس کو محمد بن اسحاق کی غلطی سمجھتے ہیں ۔ ایک اور جگہ فرمایا :أَلْفَاظُ حَدِيثِ مَالِكٍ خِلَافُ أَلْفَاظِ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ وَمَالِكٌ أَثْبَتَ عِنْدَ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ. (تأویل مختلف الحدیث لابن قتیبة، ص444،الناشر: المكتب الاسلامي – مؤسسة الإشراق،الطبعة: الطبعة الثانية- مزيده ومنقحة 1419هـ – 1999م) ترجمہ:مالک ؒکی حدیث کے الفاظ محمد بن اسحاق کی حدیث کے الفاظ سے مختلف ہیں اور مالک ؒ زیادہ معتبر ہیں اصحاب حدیث کے نزدیک بنسبت محمد بن اسحاق کے ۔

اس حديث ميں محمد بن اسحاق کے متفرد ہونے کی وجہ سے  محدثین نے کلام فرمایا ہے   لہذا اس کو صحیح نہیں کہا جا سکتا۔

جہاں تک اس حدیث کے مفہوم کی بات ہے تو اس کے بارے میں علامہ نور الدین سندی فرماتے ہیں کہ   ان احکامات کی تلاوت منسوخ ہو گئی تھی اور یہ احکامات ایک علمی یادگار کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لکھے ہوئے رہ گئے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم تھا کہ ان کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے  اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان آیات کو قرآن کریم میں درج کروانے کا اہتمام نہیں فرمایا اگر یہ آیات منسوخ نہ ہوتیں تو  بکری کا ایک حصے کو کھا جانا قرآن کریم میں تغییر کو لاز م کرتا اور یہ اللہ تعالی کے ارشاد انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون کے خلاف ہوتا اور ایسی بے اعتنائی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان کے مناسب نہیں لہذا اس حدیث سے حدیث سے قرآن کریم کے غیر محفوظ یا محرف ہونے پر استدلال کرنا بھی درست نہیں

(وَلَقَدْ كَانَ) أَيْ ذَلِكَ الْقُرْآنُ بَعْدَ أَنْ نُسِخَ تِلَاوَةً مَكْتُوبًا (فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي) وَلَمْ تُرِدْ أَنَّهُ كَانَ مَقْرُوءًا بَعْدُ إِذِ الْقَوْلُ بِهِ يُوجِبُ وُقُوعَ التَّغْيِيرِ فِي الْقُرْآنِ وَهُوَ خِلَافُ النَّصِّ أَعْنِي قَوْلَهُ تَعَالَی {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} (دَاجِنٌ) هِيَ الشَّاةُ يَعْلِفُهَا النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ وَقَدْ يَقَعُ عَلَی غَيْرِ الشَّاةِ مِنْ كُلِّ مَا يَأْلَفُ الْبُيُوتَ مِنَ الطَّيْرِ وَغَيْرِهَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ (حاشية السندي علی سنن ابن ماجه ، كفاية الحاجة في شرح سنن ابن ماجه، کتاب النکاح، بَاب رِضَاعِ الْكَبِيرِ)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر3926 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل