نماز میں فرض بھول جائیں یا فرض میں تاخیر ہوجائے تو ایسی صورت میں فقہ حنفی میں اعادے کا معاملہ کیا ہے؟ عمدۃ الفقہ میں دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ اگر کوئی فعل ایسا ہو جو مکرر ہوتا ہو اور اس کی ترتیب میں خلاف ہوجائے تو سجدہ سہو بھی لازم ہوگا اور کسی فرض میں سہواً تاخیر ہوجائے تو اس میں سجدہ سہو لازم ہوگا، اس میں جو مثال درج تھی اس سے اشکال پیدا ہورہا تھا، وہ یہ کہ اگر تیسری رکعت میں سجدہ رہ گیا ہو تو چوتھی رکعت کے قعدے سے پہلے پہلے اگر یاد آجائے تو وہ سجدہ کرلیا جائے اور پھر سجدہ سہو کرلیا جائے۔ اس میں پوچھنا یہ تھا کہ اگر مثال کے طور پر تیسری رکعت میں سجدہ بھول گئے ہوں اور چوتھی رکعت میں کھڑے ہوتے ہی یاد آجائے تو کیا اسی وقت سجدے میں لوٹ نہیں سکتے؟ کیوں کہ اس میں جو ایک اور مثال لکھی کہ اگر انسان بغیر قراءت کیے رکوع میں چلا جائے تو رکوع چھوڑ کر واپس قیام میں آئے اور قراءت کرکے دوبارہ رکوع کرے اور وہ پہلا والا رکوع باطل ہوجائے گا۔ یہ جو واپس لوٹنا ہے اس کا قاعدہ کیا ہے، اس کی وضاحت فرمادیں کہ کیا ایک فرض سے دوسرے فرض کی طرف لوٹنا جائز ہے یا واجب کی طرف لوٹنا جائز ہے، اس کے اصول میں مجھے اشکال ہورہا تھا۔ برائے مہربانی تفصیل سے وضاحت فرمادیں۔ جزاک اللہ
الجواب باسم ملهم الصواب
واضح رهے كه نماز کے کچھ واجبات ہیں ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے اب ان واجبات میں سے ایک واجب ترتیب ہے لیکن مطلق ترتیب واجب نہیں بلکہ بعض افعال میں ترتیب واجب بعض افعال میں ترتیب فرض ہے جیسے دوسرے سجدے اور اس کے بعد والے افعال میں ترتیب واجب ہے فرض نہیں لہذا اگر کسی شخص نے صرف ایک سجدہ کیا اور وہ دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا تو اب دوسری رکعت کے کسی بھی رکن میں اس کو پہلی رکعت کا سجدہ یاد آئے تو وہ کر سکتا ہے اور سجدہ یاد آنے سے پہلے جو افعال ادا کئے ان کے اعادے کی ضرورت نہیں کیونکہ پہلی رکعت کے سجدے اور دوسری رکعات کے افعال کے درمیان ترتیب واجب تھی فرض نہیں اس لئے دوسری رکعت کے تمام افعال درست ہوئے۔لہذا اگر تیسری رکعت کا سجدہ رہ گیا تو چوتھی رکعت کے قاعدے سے پہلے پہلے جب بھی یاد آئے قیام میں یا رکوع وغیرہ میں وہ کر لے آخر میں سجدہ سہو کر لے اور چوتھی رکعت کے کسی بھی فعل کا اعادہ نہ کرے۔
جو افعال نماز میں یا ہر رکعت میں مکرر نہیں ان میں ترتیب فرض ہے جیسے کہ قیام و رکوع کے درمیان اور سجدے و قعدہ اخیرہ کے درمیان ترتیب فرض ہے، البتہ قراءت اور رکوع کے درمیان ترتیب واجب ہے فرض نہیں۔ لیکن اس میں تفصیل یہ ہے کہ قراءت نہ کرنے کی صورت میں ترتیب واجب ہے اور قراءت کر لینے کی صورت میں ترتیب فرض، مثلا کسی نے چار رکعات والی فرض نماز کی پہلی دو کعات میں قراءت نہیں کی، لیکن رکوع ہر رکعت میں کیا تو قراءت آخری دو رکعات میں کرے اور سجدہ سہو کر لےکیونکہ قراءت نہ کرنے کی وجہ سے یہ ترتیب واجب شمار ہوگی۔ اور اس کا تدارک سجدہ سہو سے ہو جائے گا لیکن اگر ایک رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھی اور رکوع کر لیا رکوع میں یاد آیا کہ سورت نہیں ملائی اور واپس قیام میں جا کر سورت پڑھی تو اب رکوع کا اعادہ ضروری ہوگا کیونکہ سورت اصل قراءت کے ساتھ ملحق ہو گئی تو اب قراءت اور رکوع کے درمیان ترتیب ضروری ہوگی اور پہلا رکوع کالعدم سمجھا جائے گا اسی طرح اگر پہلی رکعت میں قراءت کی ہی نہیں اور رکوع کر لیا پھر رکوع سے قیام میں واپس جا کر قراءت کی تو بھی یہ رکوع کالعدم شمار ہوگا کیونکہ یہاں بھی قراءت کا اعادہ کرنے کی وجہ سے قراءت اور رکوع کے درمیان ترتیب فرض ہوگی اس لئے پہلا رکوع کالعدم ہو جائے گا اور دوسرا لازم ہوگا ۔ صورت مسئولہ میں بیان کردہ مسائل کی روشنی میں عمدۃ الفقہ میں ذکر کردہ مثالوں کو دیکھ لیا جائے تو مسئلہ واضح طور پر سمجھ آسکتا ہے۔
(الف) والمراد بها السجدة الثانية من كل ركعة، فالترتيب بينها وبين ما بعدها واجب. قال في شرح المنية حتی لو ترك سجدة من ركعة ثم تذكرها فيما بعدها من قيام أو ركوع أو سجود فإنه يقضيها ولا يقضي ما فعله قبل قضائها مما هو بعد ركعتها من قيام أو ركوع أو سجود، بل يلزمه سجود السهو فقط، لكن اختلف في لزوم قضاء ما تذكرها فقضاها فيه، كما لو تذكر وهو راكع أو ساجد أنه لم يسجد في الركعة التي قبلها فإنه يسجدها، وهل يعيد الركوع أو السجود المتذكر فيه، ففي الهداية أنه لا تجب إعادته بل تستحب معللا بأن الترتيب ليس بفرض بين ما يتكرر من الأفعال وفي الخانية أنه يعيده وإلا فسدت صلاته معللا بأنه ارتفض بالعود إلی ما قبله من الأركان لأنه قبل الرفع منه يقبل الرفض، بخلاف ما لو تذكر السجدة بعد ما رفع من الركوع لأنه بعد ما تم بالرفع لا يقبل الرفض. اهـ. ومثله في الفتح.قال في البحر: فعلم أن الاختلاف في الإعادة ليس بناء علی اشتراط الترتيب وعدمه، بل علی أن الركن المتذكر فيه هل يرتفض بالعود إلی ما قبله من الأركان أو لا اهـ تأمل والمعتمد ما في الهداية، فقد جزم به في الكنز وغيره في آخر باب الاستخلاف وصرح في البحر بضعف ما في الخانية. هذا، والتقييد بالترتيب بينها وبين ما بعدها للاحتراز عما قبلها من ركعتها، فإن الترتيب بين الركوع والسجود من ركعة واحدة شرط كما مر؛ ونبه عليه في الفتح. (رد المحتار، كتاب الصلاة، واجبات الصلاة)
(ب) (قوله بين القراءة والركوع) يعني في الفرض الغير الثنائي، ومعنی كونه واجبا أنه لو ركع قبل القراءة صح ركوع هذه الركعة لأنه لا يشترط في الركوع أن يكون مترتبا علی قراءة في كل ركعة، بخلاف الترتيب بين الركوع والسجود مثلا فإنه فرض، حتی لو سجد قبل الركوع لم يصح سجود هذه الركعة، لأن أصل السجود يشترط ترتبه علی الركوع في كل ركعة كترتب الركوع علی القيام كذلك لأن القراءة لم تفرض في جميع ركعات الفرض، بل في ركعتين منه بلا تعيين، أم القيام والركوع والسجود فإنها معينة في كل ركعة نعم القراءة فرض ومحلها القيام من حيث هو، فإذا ضاق وقتها بأن لم يقرأ في الأوليين صار الترتيب بينها وبين الركوع فرضا لعدم إمكان تداركه، ولكن فرضية هذا الترتيب عارضة بسبب التأخير، فلذا لم ينظروا إليه، واقتصروا علی أن الترتيب بينها واجب لأن إيقاع القراءة في الأوليين واجب، هذا توضيح ما حققه في الدرر.
والحاصل أن الترتيب المذكور واجب في الركعتين الأوليين، وثمرته فيما لو أخر القراءة إلی الأخريين وركع في كل من الأوليين بلا قراءة أصلا، أما لو قرأ في الأوليين صار الترتيب فرضا حتی لو تذكر السورة راكعا فعاد وقرأها لزم إعادة الركوع لأن السورة التحقت بما قبلها وصارت القراءة كلها فرضا فيلزم تأخير الركوع عنها، ويظهر من هذا أن هذا الترتيب واجب قبل وجود القراءة فرض بعدها نظيره قراءة السورة فإنها قبل قراءتها تسمی واجبا وبعدها تسمی فرضا، وحينئذ فيكون الأصل في هذا الترتيب الوجوب، وفرضيته عارضة كعروضها فيما لو أخر القراءة إلی الأخريين، لكن قد يقال إن هذا الترتيب يغني عنه وجوب تعيين القراءة في الأوليين، إلا أن يقال لما كان هذا التعيين لا يحصل إلا بهذا الترتيب جعلوه واجبا آخر فتدبر. (رد المحتار، كتاب الصلاة، واجبات الصلاة)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3610 :