کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ اگر ایک پندرہ سال کا بالغ لڑکا ایک سوئی ہوئی نامحرم عورت کی چھاتی کو شہوت سے چھوئے، پھر وہ عورت فوراً جاگ کر اس سے الگ ہو جائے، اس حال میں کہ عورت نے روزمرہ کے عام کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اب اگر بعد میں اس لڑکے کا رشتہ اس عورت کی بیٹی سے طے ہوجائے تو کیا ان کا نکاح کرنا درست ہوگا؟
الجواب باسم ملهم الصواب
اگر کوئی بالغ لڑکا کسی بالغہ لڑکی کو شہوت کے ساتھ بلا حائل چھوئے، یعنی درمیان میں کوئی کپڑا نہ ہو تو اس سے ان کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر لڑکے نے کپڑے کے اوپر سے چھوا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور کپڑا اتنا موٹا تھا کہ جسم کی حرارت محسوس نہیں ہو ئی تو ایسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی اور اس لڑکے کا نکاح اس عورت کی بیٹی سے جائز ہو گا۔ اور اگر کپڑا باریک تھا، جسم کی حرارت پوری طرح محسوس ہوئی یا چھاتی کے علاوہ ننگے جسم کو بھی ہاتھ لگایا اور اس عمل سے لڑکے کو انزال بھی نہیں ہوا تو اس سے دونوں میں حرمت مصاہرت ثابت ہوگی اور اس صورت میں اس لڑکے کے لیے مذکورہ خاتون کی لڑکی سے نکاح حلال نہ ہوگا۔
(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر علی الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلی ذكره والمنظور إلی فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتی وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتی هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي (الدر المختار، كتاب النكاح،فصل في المحرمات)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4382 :