سوال نمبر۱: تقریبات میں ملنے والے لفافوں کے حوالے سے شریعت کیا کہتی ہے اسے کون استعمال کرسکتاہے جبکہ عام طور پر یہ نہیں بتایا جاتاکہ یہ کس کےلیے دیے گئے ہیں جیسا کہ شادی کے موقع پر پیسے دیے جاتے ہیں اور ان پیسوں کو شادی پر ہی خرچ کیا جا تا ہے؟
سوال نمبر۲: بچوں کو ملنے والی عیدی اور پیدائش کے موقع پربچوں کو ملنے والے پیسے کیا والدین اپنے ذاتی کاموں میں لگاسکتے ہیں یا ان پیسوں کو بچوں پر ہی خرچ کیا جائے گا اور کیا ان پیسوں کو صدقہ کیا جاسکتا ہے؟
سوال نمبر۳: نکاح کے موقع پر لڑکی کو ملنے والے پیسے اگر لڑکی کی والدہ کودےدیے جائیں تو کیا والدہ ان پیسوں کو استعمال کرسکتی ہےجبکہ لڑکی والوں سے وہ پیسے مانگے نہ گئے ہوں اور جبکہ نہ لڑکی اور نہ لڑکی کی والدہ ان کا مطالبہ کررہی ہوں؟
الجواب باسم ملهم الصواب
۳،۱۔تقریبات میں رقم دینے والا شخص دلہا یا دلہن کے ہاتھ میں دے تو وہ جس کو دے اسی کی ملکیت ہوگی، اگر دلہا یا دلہن کی بجائے والد، والدہ، دادا وغیرہ کسی عزیز کے ہاتھ میں دے تو اگر لفافے پر نام لکھ کر دے تو جس کا نام لکھا ہوا ہو اسی کو دیدی جائے گی۔ اگر لفافے پر نام بھی نہیں لکھا اور زبانی طور پر بھی کسی ایک کو دینے کا وکیل نہیں بنایا بلکہ والدین میں سے کسی ایک کو دیدی تو جس کو دی ہے اسی کی ملکیت ہوگی۔
۲۔ بچوں کو ملنے والی عیدی اور پیدائش پر دیے جانے والے سامان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جو چیزیں فی الحال بچے ہی کے استعمال میں آسکتی ہیں مثلا کپڑے، جوتے اور بستر وغیرہ، وہ بچے کی ملکیت میں داخل ہیں، خواہ کسی کے بھی ہاتھ میں دیے جائیں، لہذا ان چیزوں کو بچے پر ہی صرف کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر دینے والے نے بچے کے والد یا والدہ کو متعین کر کے ہدیہ دیا ہے تو اس پر ملکیت بھی والد یا والدہ کی ہوگی۔ اور اگر کسی کو متعین کیے بغیر ہدیہ دیا ہے تو چونکہ بچے کے خاص موقع پر دی ہے اس لیے وہ رقم بچے ہی کی ہوگی، اسے اپنے ذاتی استعمال یا صدقہ و خیرات میں صرف کرنا جائز نہیں۔
(الف) في الدر: وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح له كثياب الصبيان فالهدية له، وإلا فإن المهدي من أقرباء الأب أو معارفه فللأب أو من معارف الأم فللأم، قال هذا لصبي أو لا، ولو قال: أهديت للأب أو للأم فالقول له، وكذا زفاف البنت. خلاصة. وفي الرد: (قوله: وكذا زفاف البنت) أي علی هذا لتفضيل بأن كان من أقرباء الزوج أو المرأة أو قال المهدي: أهديت للزوج أو المرأة كما في التتارخانية. (الدر المختار ورد المحتار، كتاب الهبة)
(ب) وإذا أهدي للصبي شيءٌ وعلم أنه له فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط. (الأشباه والنظائر لابن نجيم، الجمع والفرق، أحكام البيان)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4018 :