میں ایک اسکول میں ملازمت کرتی ہوں۔ میری بیٹی کی طبیعت خراب تھی اس لیے میرے شوہر نے مجھے اسکول جانے سے منع کیا تو مجھے ضد آگئی جس کے نتیجے میں نے اسے کہا کہ تم بھی اپنے دفتر سے چھٹی کرو تا کہ بیٹی کو ہسپتال لے جایا سکے۔ میں یہ بات مانتی ہوں کہ میں نے یہ بات غلط کی بہر حال شوہر کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ اگرتم کل سےاسکول گئیں تو میری طرف سے تمہیں طلاق ہے۔خیر،آج اسکول تو میں نہیں گئی، کل انہوں نے مجھے یہ بات کہی تھی۔اور میں نے اسکول چھوڑبھی دیا۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ انہوں یہ کہا کہ اگر اسکول گئیں تو میری طرف سے طلاق ہے۔ میں تو اسکول نہیں گئی اور یہ دن بھی گزر گیا۔انہوں نے ہمیشہ اسکول نہ جانے کو کہا؟ یا اسی اسکول جانے سے منع کیا یا کو ئی بھی اسکول جانے سے منع کیا یعنی کیا اب میں کسی بھی اسکول میں قدم رکھوں گی تو مجھے طلاق ہو جائے گی، یا صرف اسی اسکول کے لیے کہا گیا ہے ؟ یا اس ایک دن کے لیےکہا گیا ہے یاہمیشہ کے لیے کہا گیا ہے؟اس لیے کہ میرے بیٹے کا تو ایڈمیشن بھی اسی اسکول میں ہوا ہے۔
اگلے دن میرے شوہر بیٹے سے بات کر رہے تھے، اس سے پوچھا کہ مما کہاں ہیں؟ پھر فون پر مجھ سے بات کی اور پوچھا کہ اسکول گئیں تھیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔تو کہنے لگے کہ میں نےاپنے الفاظ واپس لے لیے ۔میں نے کہا کہ یہ واپس ایسے تو نہیں ہو سکتے ، یہ قسم تو نہیں ہے۔بہر حال میں نے کہا کہ میں اسکول چھوڑ چکی ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ میں نے اسکول چھوڑنے کو نہیں کہا تھا صرف چھٹی کا کہا تھا ۔ میں نے کہا کہ تم نے تو فقط اسکول کا کہا تھا اور تم نے کو ئی خاص اسکول کو متعین نہیں کیا تھا بلکہ بس یہ کہا تھا کہ اسکول گئیں تو طلاق ۔ اور مجھے تو آگے بچوں کے سلسلے میں کہیں نا کہیں اسکول تو جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری سوچ ہے میرے ذہن میں ایسا کچھ نہیں تھا، میرے ذہن میں بس چھٹی تھی وہ بھی بیٹی کی وجہ سے۔اور آئندہ بھی اگر میرے بچوں کی طبیعت خراب ہو تی تو بھی میں تمہیں چھٹی کرواتا۔انہوں نے کہا کہ میں تمہیں طلاق نہیں دینا چاہتا بس تمہیں ڈراتا ہوں اور تم بس ایسے ہی خاموش ہو تی ہو۔ برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ ’’اگر تم کل سے اسکول گئیں تومیری طرف سے تمہیں طلاق ہے‘‘۔چوں کہ میاں بیوی کی لڑائی نوکری کی غرض سے اسکول جانے کے متعلق ہے، اس لیے اگر بیوی اسکول میں نوکری کی غرض سے گئی تو اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی۔ البتہ اگر نوکری کی غرض سے نہ جائے بلکہ نوکری کے علاوہ کسی ضرورت کے تحت مثلاً بچوں کو پہنچانے یا لانے کی غرض سے اسکول جانا ہواتو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صورت مسئولہ میں شوہر کا یہ کہنا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اس سے شرط ختم نہ ہوگی، بلکہ نوکری کی غرض سے اسکول جاتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لیے اگر ضرورت ہو تو اپنے گھر میں ٹیوشن پڑھالیں یا سلائی کڑھائی وغیرہ یا کوئی اور کام کرکے گزارا کریں۔
الأصل أن الأيمان مبنية عند الشافعي علی الحقيقة اللغوية، وعند مالك علی الاستعمال القرآني، وعند أحمد علی النية، وعندنا علی العرف ما لم ينو ما يحتمله اللفظ فلا حنث في لا يهدم إلا بالنية فتح.(الأيمان مبنية علی الألفاظ لا علی الأغراض فلو) اغتاظ علی غيره و (حلف أن لا يشتري له شيئا بفلس فاشتری له بدرهم) أو أكثر (شيئا لم يحنث… (الدرالمختار، كتاب الايمان، باب اليمين في الدخول والخروج والسكنی والإتيان والركوب وغير ذلك)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4346 :