ایک خاتون کے مطابق ان کے پاس تین تولہ سونا ہے، کرائے کا گھر ہے، جس کا کرایہ چودہ ہزار ہے۔ ان کا اپنا ایک گھر ہے جس کی مالیت تقریباً اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے ہے، یہ کرائے پر دیا ہوا ہے، جسے سے چھ ہزار روپے کرایہ آتا ہے۔ ان کے پاس دو لاکھ روپے سیونگز ہیں، جو ابھی دو ماہ قبل کہیں انویسٹ کیے ہیں، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس سے کوئی نفع نہیں ملا۔ اس کے علاوہ ان کے اوپر دو لاکھ نوے ہزار روپے قرض ہے، جو انہوں نے چکانا ہے۔ تقریباً دو سال قبل ایک پلاٹ کی بکنگ کروائی ہے، وہاں پچاس ہزار روپے جمع ہیں، لیکن اس میں سے بیس پچیس ہزار ایسے ہوں گے جن پر ایک سال گزرچکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جگہ پچاس ہزار کی بی سی ڈالی ہوئی ہے، جس کے پچیس ہزار ادا کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ لاگو ہوگی یا نہیں؟ اور ہوگی تو کس طرح حساب کتاب کیا جائے گا؟
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں بیان کردہ اشیاء میں سے تین تولہ سونا ، دو لاکھ جو انسویسٹ کیے ہوئے ہیں ،اور بی سی میں جمع شدہ پچیس ہزار روپے پر زکوۃ لازم ہے ۔ پلاٹ اگر فروخت کرنے کی نیت سے خریدا ہے تو اس کی جمع شدہ رقم پر بھی زکوۃ لازم ہے اور اگر تجارت کی نیت سے نہیں خریدا تو جمع شدہ رقم پر زکوۃ لازم نہیں ۔ جتنی اشیاء میں زکوۃ لازم ہے ان کی مالیت کا حساب لگا لیں اس کے بعد اس میں سے دو لاکھ نوے ہزار قرض کی رقم کو منہا کردیں جو رقم بچے اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کردیں۔
ثم إذا كان علی الرجل دين وله مال الزكاة وغيره من عبيد الخدمة، وثياب البذلة، ودور السكنی فإن الدين يصرف إلی مال الزكاة عندنا سواء كان من جنس الدين أو لا ولا يصرف إلی غير مال الزكاة. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 8)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4408 :