لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

سیمنز میں ہمارے ہاں ایک نماز کے لیے جگہ ہےجہاں عام دنوں میں کمپنی کے لوگ چار وقت کی نماز پڑھتے ہیں، بقیہ فجر میں اور ہفتہ اور اتوار کنفرم نہیں ہے لیکن غالباً دس بارہ گارڈز تو باقاعدہ نماز پڑھتے ہیں، لیکن جمعے کی نماز وہاں نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے ادارے میں اندرونی طور پر یہ مشاورت کی تھی کہ یہاں جمعے کی اجازت مل جائے۔ میں نے سنا تھا کہ جمعے کی نماز کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ جگہ ہر بندے کے لیے کھلی ہو، یہ سیکیورڈ علاقہ ہے تو یہاں یہ شرط پوری نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ جمعے کی نماز کی جگہ کے لیے کیا یہ شرط ہے یا نہیں۔ مزید برآں یہ بھی واضح فرمائیں کہ کیا جمعے کے انعقاد کے لیے اس جگہ کا شرعاً مسجد ہونا شرط ہے؟ دراصل مذکورہ جگہ مصلی ہے نہ کہ وقف کردہ مسجد اور اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل میں کسی ضرورت کے لیے مصلے کو اس جگہ سے منتقل کرکے کسی اور جگہ تعمیر کرنا پڑے۔برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

الجواب باسم ملهم الصواب

اگر مذکورہ جگہ  شہر کے اندر ہے اور سیکورٹی وغیرہ کے مسائل کی بناء پر جمعہ پڑھنے کی اجازت محض متعلقہ افراد تک ہی محدود رکھی جاسکتی ہے تب بھی یہاں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مذکورہ جگہ شرعاًمسجد نہیں مصلی ہے تو جاننا چاہیے کہ انعقاد جمعہ کے لیے مسجد کا ہونا شرط نہیں بلکہ جمعہ مصلے میں بھی بقیہ شرائط کی موجودگی میں پڑھا جاسکتا ہے۔چوں کہ یہ مستقل مسجد نہیں ہے بلکہ جائے نماز ہے اس لیے جگہ کی تبدیلی کی بھی شرعاً اجازت ہوگی، البتہ اس جگہ جمعہ پڑھنے سے جمعہ کا ثواب مل جائے گا لیکن شرعی مسجد نہ ہونے کی بناء پر مسجد میں نماز پڑھنے کا اجر نہیں ملے گا۔ اس لیے اس جگہ جمعے میں صرف وہ حضرات شرکت کریں جو جمعے کے دن جمعے کے وقت فیکٹری میں موجود ہوں، بقیہ حضرات باہر شرعی مساجد میں ہی جمعے کی نماز میں شرکت کریں۔ جہاں تک انعقاد جمعہ کے لیے اذن عام کی شرط کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل یوں ہے:

۱۔اگر کسی شہر میں جمعہ کی اجازت حاکم کی طرف سے صرف ایک جگہ پڑھنے کی ہو تو جمعہ کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ ہے اس کو  وہاں آکرجمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو، ایسی عام اجازت کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوگا۔

۲۔اسی طرح اگر کسی کا کوئی انفرادی گھر، محل یا دکان ہو تو اس میں بھی جمعہ پڑھنا اس وقت تک جائز نہ ہوگا جب تک اس گھر، محل یا دکان میں عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دے دی گئی ہو، خواہ شہر میں دوسری جگہ بھی جمعہ ہوتا ہو۔

اگر کوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے لیکن دفاعی، انتظامی یا حفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہر شخص کو آنے کی اجازت  نہیں ہے، بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بنا پر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تو اس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں اس آبادی کے افراد کو  آ کر  جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو۔ مثلاً بڑی جیل، فوجی چھاؤنی، بڑی فیکٹریاں، ایسے بڑے ایئرپورٹ جو شہر کے اندر  ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں، لیکن ان میں داخلے کی اجازت مخصوص قواعد کی پابند ہے، تو ان تمام جگہوں پر جمعہ جائز ہوگا، بشرطے کہ وہ شہر میں داخل ہوں، اور اس جیل چھاؤنی، بڑی فیکٹری، ایئر پورٹ یا ریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کو نماز کی جگہ آکر نماز جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو‘‘۔ (فتاوی عثمانی جلد اول، کتاب الصلاۃ، ص:۵۲۸)

(الف) قلت: ولا يخفی بعده عن السياق. وفي الكافي التعبير بالدار حيث قال: والإذن العام وهو أن تفتح أبواب الجامع ويؤذن للناس، حتی لو اجتمعت جماعة في الجامع وأغلقوا الأبواب وجمعوا لم يجز، وكذا السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمه في داره فإن فتح بابها وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاته شهدتها العامة أو لا وإن لم يفتح أبواب الدار وأغلق الأبواب وأجلس البوابين ليمنعوا عن الدخول لم تجز لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها علی الناس وذا لا يحصل إلا بالإذن العام.قلت: وينبغي أن يكون محل النزاع ما إذا كانت لا تقام إلا في محل واحد، أما لو تعددت فلا لأنه لا يتحقق التفويت كما أفاده التعليل تأمل (قوله لم تنعقد) يحمل علی ما إذا منع الناس فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر.(رد المحتار، كتاب الصلاة، باب الجمعة)

(ب) لو صلی الجمعة في قرية بغير مسجد جامع والقرية كبيرة لها قری وفيها والحاكم جازت الجمعة بنوا المسجد او لم يبنوا (الحلبي الكبير، كتاب الصلاة، فصل في صلاة الجمعة)

(ج) والحكم غير مقصور علی المصلي بل تجوز في جميع أفنية المصر لأنها بمنزلته في حوائج أهله(الهداية، كتاب الصلاة، باب الجمعة)

(د) وكما يجوز أداء الجمعة في المصر يجوز أداؤها في فناء المصر وهو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر. (الفتاوی الهندية، كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4273 :

لرننگ پورٹل