کیا یہ بات درست ہے کہ ’’کمرشل بینک کے ملازم یا ایسے افراد جن کی آمدنی کے بارے میں معلوم ہو کہ جائز نہیں ان کو اگر کوئی دوکاندار اپنی چیز فروخت کرے، یا سروسز دینے والا اپنی سروس فراہم کرے مثلاً ڈاکٹر، وکیل، مکنیک وغیرہ تو وہ اس ملازم سے لی ہوئی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، بلکہ بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کر دے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں؟ جبکہ دوکاندار جو چیز فروخت کرتا ہے اس سے حاصل ہونے والی رقم دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے قیمتِ خرید اور منافع۔ اصل رقم رکھ کر اسے صرف اپنا منافع صدقہ کرنا چاہیے۔ قیمت خرید بھی صدقہ کیا تو نقصان ہو گا اور گاہک کو انکار بھی نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ڈاکٹر، وکیل، مکنیک وغیرہ کے سروسز دینے پر بھی کچھ کاسٹ تو آتی ہے مثلاً آفس کا کرایہ، بل بجلی وغیرہ۔وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
واضح رہے کہ جس شخص کی کمائی کا غالب حصہ حلال ہو اس کو کوئی چیز فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ متعین حرام مال سے نہ خریدے، اور جس شخص کی کمائی کا غالب حصہ حرام ہو اور وہ قیمت ادا کرتے وقت یہ کہے کہ یہ حرام مال ہے تو اس سے اس رقم کا وصول کرنا جائز نہیں بلکہ اس سے حلال رقم کا مطالبہ کیا جائے لیکن اگر وہ حلال رقم نہ دے اور دکاندار کسی وجہ سے اس کے ہاتھ مال فروخت کرنے پر مجبور ہوتو ایسی صورت میں دکاندار کے لیے اس رقم کااستعمال جائز نہیں بلکہ بغیر ثواب کی نیت کے اس رقم کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔
اور اگر غالب آمدنی تو حرام ہے لیکن قیمت ادا کرتے وقت وہ شخص یہ نہ کہے کہ یہ حرام مال ہے اور دکاندار کو کسی اور ذریعہ سے بھی پتہ نہ چلے کہ خالص حرام مال سے خریداری ہورہی ہے تو ایسی صورت میں اس شخص سے وصول کردہ رقم کو اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔
(الف ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشتری فهذا علی خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلی البائع أولا ثم اشتری منه بها أو اشتری قبل الدفع بها ودفعها أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشتری مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشتری بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفا فاشتری بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح وقال الكرخي في الوجه الأول والثاني لا يطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب وقال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوی الآن علی قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس وفي الولوالجية وقال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوی اليوم علی قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام وعلی هذا مشی المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها. (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، مطلب إذا اكتسب حراما)
(ب) الفتوی علی قول الكرخي لكثرة الحرام دفعا للحرج عن الناس في هذا الزمان وهذا قول الصدر الشهيد. (مجمع الانهر، كتاب الغصب، فصل غير الغاصب ما غصبه بالتصرف فيه)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:’’یہ جو امام کرخی ؒ سے روایت ہے اس میں وسعت ہے اور اس زمانے میں بوجہ غلبہ حرام اور عدم امکان احتراز اسی روایت کے موافق عمل ہوجاتا غنیمت ہے اور چونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ مشتری پہلے قیمت سامنے کر کے اور بائع کو دکھلا کر معاملہ نہیں کرتا بلکہ معاملہ خریدو فروخت بلاثمن دکھلائے مطلقاً کرلیتا ہے پھر بعد طے ہونے معاملے کے ثمن دیتا ہے تو یہ حسب روایت امام کرخی ؒ حد جواز میں داخل ہوجاتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، جلد ۱۴،ص ۳۹۶، طبع دار الاشاعت)
اس میں شک نہیں کہ احتیاط اس میں ہے کہ شبہات سے بھی احتراز کیا جائے لیکن حسب روایت امام کرخی ؒ جواز کی گنجائش نکلتی ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں عقد مطلق اور حرام مال کی تعیین نہ ہونے کی صورت میں دوکاندار کے لیے حرام آمدنی والے شخص کو مال فروخت کرنے کی گنجائش ہے ۔خاص طور پر ایسے بڑے بڑے جنرل اسٹورز اور سپر مارکیٹ میں جہاں پر لوگ ہزاروں روپے کا مال خریدتے ہیں اور ثمن وصول کرنے والے کیشئیرز مختلف کاؤنٹرس پر کھڑے ہوتے ہیں جو کہ گاہک کو جانتے تک نہیں کہ وہ کون ہے تو ان جگہوں میں تو جواز پر کوئی شبہ نہیں البتہ اگر ایک آدمی کی اپنی ذاتی دکان ہو اور وہاں پر کوئی ایسا شخص سامان خریدنے آئے جس کے بارے میں دکان دارکو معلوم ہے کہ سوائے حرام آمدنی کے اس کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نہیں اس کو سامان فروخت کرنے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے ۔لیکن اگر منع کرنا ممکن نہ ہو تو اس چیز کو فروخت کردیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4210 :