لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

ہمارے جاننے والوں میں سے کسی نے قرض دیا تھا اور اب انہوں وہ واپس لینا ہے، لیکن وہ قرض لوٹانے کے معاملے میں سیریس نہیں ہیں۔ سائلہ چاہتی ہیں کہ اس حوالے سے آیات واحادیث مل جائیں جس سے قرض واپس کرنے کی اہمت اور نہ لوٹانے کا گناہ واضح ہوجائے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

الجواب باسم ملهم الصواب

قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کردے۔ قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا بڑا گناہ ہے، 

چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے: نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّی يُقْضَی عَنْهُ. (سنن الترمذي، ابواب الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلی الله عليه وسلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتی يقضی عنه) ترجمہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے‘‘۔ 

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلی الله عليه وسلم، قال «يُغفَر للشَّهيدِ كلُّ ذنب إِلَّا الدَّين» (صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب من قتل في سبيل الله كفرت خطاياه إلا الدين) ترجمہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ ادا نہ کرنے کا گناہ معاف نہیں کرتا۔یعنی قرض کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب تک حق کی ادائیگی یا حقدار کی طرف سے معافی نہ ہو اللہ بھی معاف نہیں فرماتے‘‘۔

بخاری شریف میں ہے: عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّی اللَّهُ عَنْهُ ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلاَفَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ.(صحيح البخاري، كتاب في الاستقراض، باب من أخذ أموال الناس يريد أداءها ، أو إتلافها) ترجمہ:’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ادا کرنے کا نہیں بلکہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔ ‘‘

سنن ابن ماجہ میں روایت ہے: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دِينَارٌ أَوْ دِرْهَمٌ قُضِيَ مِنْ حَسَنَاتِهِ، لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ (سنن ابن ماجة، كتاب الصدقات، باب التشديد في الدين) ترجمہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا انتقال ہوا ایسے وقت میں کہ وہ مقروض ہے تو قیامت کے روز انصاف اس طرح ہوگا کہ اس کی نیکیوں سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی ، کیونکہ قیامت کے دن نہ درہم ہوں گے نہ دینار۔ (لیکن اگر کوئی شخص اس کے انتقال کے بعد اس کے قرض کی ادائیگی کردے- تو پھر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا)۔ 

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ تَدَيَّنَ دَيْنًا، وَهُوَ مُجْمِعٌ أَنْ لَا يُوَفِّيَهُ إِيَّاهُ، لَقِيَ اللَّهَ سَارِقًا». (سنن ابن ماجة، باب من ادان دينا لم ينو قضاءه) ترجمہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ وہ اس کو بعد میں ادا نہیں کرے گا تو وہ (مجرم) چور کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا‘‘۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَطْلُ الغَنِیِّ ظُلْمٌ» (سنن ابی داود، کتاب البیوع، باب في المطل) ترجمہ: ’’ قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘۔ 

أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا فَقَالَ: «أَعَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قَالُوا: نَعَمْ. دِينَارَانِ. قَالَ: «أَتَرَكَ لَهُمَا وَفَاءً؟» قَالُوا: لَا. قَالَ: «صَلُّوا عَلَی صَاحِبِكُمْ». قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَصَلَّی عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد بن حنبل، تتمة مسند الانصار، حديث ابي قتادة الانصاري) ترجمہ:’’ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک جنازہ رسول اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا کہ آپ نماز پڑھائیں، آپ ﷺنے پوچھا کہ کیا اس پر کسی کا قرض ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس پردو دینار کا قرض ہے۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پھر تم ہی اس کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابوقتادہؓ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! اس کا قرض میں نے اپنے اوپر لیا۔ اس کے بعد آپ ﷺنے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائی‘‘۔

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4068 :

لرننگ پورٹل