لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

ہم اکثر کہتے ہیں آج کل زمانہ بہت خراب ہے تو یہ لفظ زمانہ نہیں کہنا چاہیے؟ کیونکہ زمانہ اللہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ 

الجواب باسم ملهم الصواب

زمانے کو برا کہنے سے منع کرنے کی وجہ زمانہ جاہلیت کے بعض اعتقادات تھےکہ زمانے میں خیر و شر کی جو تبدیلیاں ہوتی ہیں سب زمانے کی وجہ سے ہوتی ہیں یعنی زمانے کے متصرف فی الامور ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اس لئے زمانہ جاہلیت میں جب کسی کو کوئی ناپسندیدہ بات پیش آتی تو وہ زمانے کو گالی دیتا، حالانکہ زمانہ اور اس میں ہونے والے تصرفات سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ان سب کا خالق اللہ تعالی ہے، تو زمانے کو گالی دے کر گویا وہ حادثات کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرتےتھے اور زمانے کو تصرفات امور میں اللہ تعالی کا شریک ٹھراتے تھے تو اس اعتقادی خرابی کے باعث منع کیا گیا کہ زمانے کو برا مت کہو۔دوسری توجیہ یہ کی گئی کہ زمانے کو برا کہنا درحقیقت زمانے کو پیدا کرنے والے کو برا کہنا ہے اس لئے کہ زمانہ بذات خود کچھ نہیں کر سکتا، بلکہ اس میں ہونے والے تمام تصرفات کے پیچھے اللہ رب العزت کی حکمت کار فرما ہے۔ اس لئے فرمایا زمانہ میں ہوں اس کو برا مت کہو۔

وفی الحديث الآخر: "لا تسبوا الدهر، فإن الله هو الدهر"، قال الإمام: أما قوله: "فإن الله هو الدهر": فإن ذلك مجاز، والدهر إن كان عبارة عن تعاقب الليل والنهار واتصالهما سرمداً، فمعلوم أن ذلك كله مخلوق، وأنه أخص أجزاء العالم المخلوقة، ولا يصح أن يكون المخلوق هو الخالق، وإنما المراد أنهم كانوا ينسبون الأفعال، لغير الله – سبحانه وتعالی – جهلاً بكونه – عز وجل – خالق كل شیء ويجعلون له شريكاً فی الأفعال، فأنكر عليهم هذا الاعتقاد، وأراد أن الذی يشيرون إليه بأنه يفعل هذه الأفعال، [هو الله جلت قدرته ليس هو الدهر] (إكمال المعلم بفوائد مسلم، 7/ 183)

(لا تسبوا الدهر، فإن الله هو الدهر) أي أنه تعالی الآتي بالحوادث وذلك أنهم كانوا يضيفون الحوادث إلی الزمان والدهر {وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ} . ويسبونه: يا خيبة الدهر وقال المنذري: معنی الحديث أن العرب كانت إذا نزل بأحدهم مكروه يسبوا الدهر ويعتقد أن الذي أصابه فعل الدهر فكأن هذا كاللعن للفاعل ولا فاعل لكل شيء إلا الله. (التنوير شرح الجامع الصغير، 11/ 104)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر3878 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل