غیر مسلم ممالک (دارالکفر) میں ہوٹل، مکڈونلڈ، کے ایف سی، پیزا ہٹ اور برگر بنانے والی کمپنیاں اپنا کھانا لوگوں کو مہیا کرنے کے لیے کئی افراد کو ملازم رکھتے ہیں یہ ملازم نہ کھانا بناتے ہیں، نہ ہی کھاتے ہیں اور نہ ہی مالک ہیں ان کا کام صرف یہ کھانا لوگوں تک پہنچانے کا ہے۔ اس کھانے میں مختلف طرح کی قباحتیں ہوتی ہیں۔ جیسے کھانا پہنچانے میں حرام گوشت ہوتا ہے یہاں تک کہ سور کا گوشت بھی ہوتا ہے۔ مچھلی کے علاوہ دیگر سمندری سی فوڈ بھی ہوتا ہے۔ کئی ہوٹلوں کے آرڈر کے ساتھ ڈرنکس ہوتے ہیں بسا اوقات شراب بھی ہوتی ہے۔
الجواب باسم ملهم الصواب
ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنا جس میں حرام کھانا یعنی شراب، خنزیر کا گوشت اور دیگر اشیائے محرمہ گاہکوں کو فراہم کیے جاتے ہوں، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔اور اس کام کی اجرت بھی حرام ہے۔
حدیث شریف میں ہے: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الخَمْرِ عَشَرَةً: عَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَشَارِبَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَآكِلَ ثَمَنِهَا، وَالمُشْتَرِي لَهَا، وَالمُشْتَرَاةُ لَهُ. (سنن الترمذي، أبواب البيوع، باب النهي عن أن يتخذ الخمر)
ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے شراب کے بارے میں ان دس افراد پر لعنت فرمائی ہے: شراب نچوڑنے والا، جس کے لیے شراب نچوڑی جائے، شراب پینے والا، اور شراب کو اٹھا کر لے جانے والا، اور جس کی طرف شراب اٹھا کر لے جائی جائے، اور شراب پلانے والا، اور شراب بیچنے والا، اور اس کی قیمت وصول کر کے کھانے والا، اور اسے خریدنے والا اور جس کے لیے خریدی جائے‘‘۔
اس لیے اس کام کو چھوڑ کر کوئی حلال کام تلاش کیا جائے۔
(و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر). وفي الرد: (قوله وحمل خمر ذمي) قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا هو مكروه " لأنه – عليه الصلاة والسلام – «لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها» وله أن الإجارة علی الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول علی الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلی هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعی له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره. (رد المحتار،كتاب الحظر والإباحة)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4044 :