آج کل لوگ مسجد میں موبائل فون استعمال کر رہے ہوتے ہیں، آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں اور لطیفے سناتے ہیں۔ جبکہ ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ مسجد میں تو دنیاوی باتیں بھی نہیں کرنی چاہئیں، ہنسنا ہنسانا تو دورکی بات ہے۔ جبکہ ایک دوست یہ کہتے ہیں کہ یہ بڑوں کی بات ہے شرعی حکم نہیں ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
مسجد اللہ کا گھر ہے، عبادت کی جگہ ہے، اس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ مسجد میں ہنسی مذاق کرنا، قہقہے لگانا یا ایک دوسرے کو لطیفے سنانا، خواہ وہ موبائل پر ہو یا مسجد میں آمنے سامنے بیٹھ کر، یہ سب باتیں آداب مسجد کے خلاف ہیں اور حدیث شریف میں اس پر وعید آئی ہے۔ ان سب باتوں سے اجتناب کرنا لازمی ہے۔
حدیث نبویﷺ ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: یأتي علی الناس زمان یکون حدیثهم في مساجدهم في أمر دنیاهم فلا تجالسوهم فلیس للہ فیهم حاجۃ. (شعب الإیمان للبیہقی: ٣/٨٦)
ترجمہ: ’’لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں دنیا کی باتیں کریں گے، تم ان کے ساتھ مت بیٹھنا اللہ تعالی کو ان کی کچھ پرواہ نہیں‘‘
قولہ ( بأن یجلس لأجلہ ) فإنہ حینئذ لا یباح بالاتفاق لأن المسجد ما بنی لأمور الدنیا وفي صلاۃ الجلابي الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز في المساجد وإن کان الأولی أن یشتغل بذکر اللہ تعالی کذا في التمرتاشی هندیۃ. (حاشیۃ ابن عابدین : ١/٦٦٢)
الجلوس في المسجد للحدیث لا یباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بنی لأمور الدنیا، وفي خزانۃ الفقہ ما یدل علی أن الکلام المباح من حدیث الدنیا في المسجد حرام. قال: ولا یتکلم بکلام الدنیا، وفي صلاۃ الجلابي الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز في المساجد، وإن کان الأولی أن یشتغل بذکر اللہ تعالی. (الفتاوی الهندیۃ، ٥/٣٢١)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4555 :