آپ کی کیا رائے ہے اس شخص کے بارے میں جس کی عمر پچاس سال سے اوپر ہو اور وہ کمانے کے لائق نہیں، اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں، اس کے نام ایک رہائش کی جگہ ہے تقریباً دس مرلہ وہ بھی سرکاری زمین ہے، آیا اس شخص کو زکوٰۃ دینا جائز ہے؟
تنقیح: سوال میں مذکورہ جس شخص کے نام پر سرکاری مکان ہے کیا وہ اسی مکان میں رہائش پذیر ہے، یا اس کے علاوہ ان کو سرکار کی طرف سے دس مرلہ کا مکان الگ سے دیا گیا ہے، جس پر ان کی ملکیت ہے، وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرسکتے ہیں؟
جوابِ تنقیح: مذکورہ شخص کی رہائش ان کے رشتے کی بہن کے گھر ہے اور سرکاری جگہ جس پر ان کی ملکیت ہے وہ رہنے کے قابل نہیں، خالی پڑی ہے۔
الجواب باسم ملهم الصواب
واضح رہے کہ شرعاً مستحق زکوٰۃ وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں قرضوں کو منہا کرنے کے بعد نقد رقم سونا، چاندی، مالِ تجارت اور زائد از ضرورت سامان کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نہ ہو، اور جس شخص کے پاس اتنی مالیت کا مال موجود ہو وہ مستحق زکوٰۃ نہیں، اور اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، لہذا مذکورہ شخص کی ملکیت میں جو دس مرلہ کا گھر موجود ہے، اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زائد مالیت کا ہے تو مذکورہ شخص شرعاً نصاب کا مالک ہے، لہذا ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، اگر کسی نے ان کو زکوٰۃ دی تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
لَا يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ إلَی مَنْ يَمْلِكُ نِصَابًا أَيَّ مَالٍ كَانَ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ أَوْ سَوَائِمَ أَوْ عُرُوضًا لِلتِّجَارَةِ أَوْ لِغَيْرِ التِّجَارَةِ فَاضِلًا عَنْ حَاجَتِهِ فِي جَمِيعِ السَّنَةِ هَكَذَا فِي الزَّاهِدِيِّ. (الفتاوی الهندية،1/189)
فإن كان مستغرقا بحاجة مالكه حل له أخذها وإلا حرمت عليه كأثياب تساوي نصابا لا يحتاج إلی كلها أو أثاث لا يحتاج إلی استعماله كله في بيته وعبد وفرس لا يحتاج إلی خدمته وركوبه ودار لا يحتاج إلی سكنها، فإن كان محتاجا إلی ما ذكرنا حاجة أصلية فهو فقير يحل دفع الزكاة إليه وتحرم المسألة عليه. (فتح القدير،2/261)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4586 :