
Mafheem March 2025
Cover Page content
Cover Page content
نعت
آغا شورش کاشمیری
ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
تیرے ثنا خواں عالَم عالَم ،صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
ہم ہیں تیرے نام کے لیوا،اے دھرتی کے پانی دیوا
یہ دھرتی ہے برہم برہم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
تیری رسالت عالَم عالَم، تیری نبوت خاتَم خاتَم
تیری جلالت پرچم پرچم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
دیکھ تری اُمّت کی نبضیں ڈوب چکی ہیں، ڈوب رہی ہیں
دھیرے دھیرے مدھَم مدھَم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
دیکھ صدف سے موتی ٹپکے، دیکھ حیا کے ساغر چھلکے
سب کی آنکھیں پُرنم پُرنم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
قریہ قریہ بستی بستی، دیکھ مجھے میں دیکھ رہا ہوں
نوحہ نوحہ ماتم ماتم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
اے آقا اےسب کے آقا، ارض و سما ہیں زخمی زخمی
اِن زخموں پر مرہم مرہم، صلّی اللہُ علیکَ و سَلّم
اداریہ
غزوۂ حنین میں کسی صحابی نے رسول اللہﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ ثقیف کے خلاف بد دعا کریں تو رحمتِ محمدی کو یہ گوارا نہ ہوا بلکہ یوں دعا کی: «اَللَّهُمَّ اهْدِ ثَقِيفًا» ’’اے اللہ! قبیلۂ ثقیف کو ہدایت دے‘‘۔ لیکن یہی رسولِ رحیم علیہ السلام رمضان میں مغفرت نہ کرا سکنے والے کو تباہی کی بد دعا کے ساتھ، جبریل علیہ السلام کی دعاے پھٹکار پر آمین بھی فرماتے ہیں تو سوچو کتنی بڑی بد نصیبی اور کتنا بڑا جرم ہے کہ نیکیوں کے موسمِ بہار اور نیکیوں کے بازار سے ’’خریدار نہیں ہوں‘‘ کی شانِ متکبرانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزرا جائے۔ رسولِ خداﷺنے رمضان کی آمد پر کس کس طرح سے متوجہ کیا۔ کہیں تو فرمایا کہ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے اور کہیں فرمایا اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور حینِ رمضان کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ دوزخ کے دروازے اس طرح بند کر دیے جاتے ہیں کہ کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ سرکش شیطان پابندِ سلاسل کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح نیکی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ نیکی کرنا اسی طرح آسان ہو جاتا ہے جس طرح موسمِ بہار میں پھلنا پھولنا اور پھر آوازیں لگوائی جاتی ہیں: ’’اے نیکی کے چاہنے والے! آگے بڑھ‘‘۔ تو جب نیکیوں کا موسم یہ سماں باندھ لے تو پھر اعمال کی محنت کے علاوہ کوئی دوسرا کا م جچتا نہیں ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: «افْعَلُوا الْخَيْرَ دَهْرَكُمْ، وَتَعَرَّضُوا لِنَفَحَاتِ رَحْمَةِ اللَّهِ، فَإِنَّ لِلَّهِ نَفَحَاتٍ مِنْ رَحِمَتِهِ يُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ» ’’اپنے وقتوں میں نیکیاں کیا کرو اور اس طرح رحمتِ الہٰی کے جھونکوں کا سامنا کرو پس بے شک اللہ کی رحمت کی گھٹائیں چلتی ہیں جو وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں مزید امید دلائی گئی: «لَعَلَّ أَحَدَكُمْ أَنْ يُصِيبَهُ مِنْهَا نَفْحَةٌ لَا يَشْقَى بَعْدَهَا أَبَدًا» ’’شاید تم میں سے کسی پر اس بادِ صبا کا گزر ہو جائے تو اس کی بدبختی ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے‘‘۔ (مجمع الزوائد) تو بہارِ رمَضانی کے جھونکے سے اپنے اعمال نامے کی کھیتیاں لہلہانے کے لیے بازوے عمل کی آستینیں چڑھا لینی چاہییں، ’’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘‘ کے مطابق محنت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ ابھی تو ہم نے سردیوں کے بےمشقت چھوٹے چھوٹے سرمائی دن گزار ے ہیں اور لمبی لمبی سرمائی راتوں کی بے تکان استراحتوں کے مزے لوٹے ہیں۔ ابھی تو ہم تازہ دم ہیں اس لیے رمضان کی برکات کے حصول کے لیے محنتِ شاقہ کا عزم پختہ کر لینا چاہیے۔ رمضان کی برکات کے حصول کی دو لازمی شرطیں آداب و معمولات ہیں۔ آداب سے شروع کرتے ہیں تو معروف بات ہے کہ صرف کھانےاور پینے سے رکنے کا نہیں بلکہ فضولیات اور بےہودہ کاموں سے رکنے کا نام روزہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانا اور اس کی حدود و آداب کی محافظت کی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سمع وبصر اور زبان کو محارم سے روزہ رکھو، پڑوسی کو تکلیف دینے سے اجتناب کر اور شور شرابے سے الگ ہو کر سکینت اور وقار کا راستہ اختیار کر، تو روزے کے آداب کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بعض روزے داروں کو روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ رمضان کے معمولات کی طرف آئیں تو سب سے اہم چیز تعلق مع القرآن ہے۔ اس ضمن میں تراویح سے آگے بڑھ کرتلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ اسلاف کا رمضان میں تلاوتِ قرآن کا شوق دیدنی ہوتا تھا۔ جب رمضان شروع ہوتا تو امام مالک رحمہ اللہ تمام کام چھوڑ کر تلاوتِ قرآن کی طرف متوجہ رہتے اور حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی ایسا ہی کیا کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ رمضان میں ساٹھ دور مکمل کیا کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ رمضان میں ہر دن ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ بعض لوگ قرآنِ کریم کی درس و تدریس کی جانب متوجہ ہوتے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ رمضان میں قرآنِ کریم کی درس و تدریس کا خاص اہتمام کیا کرتے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جب بصرہ کے امیر تھے تو وہ لوگوں کو جمع کرتے اور انھیں فقہ کی تعلیم دیا کرتے۔ بعض سلف رمضانِ کریم میں حدیث شریف سے لو لگاتے۔ شیخ حسن بن محمد الشافعی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ہر سال رمضان میں صحیح بخاری کا حفظ برقرار رکھنے کے لیے اس کا ختم کرتے تھے۔ نبی کریمﷺکی سخاوت رمضان میں اپنے عروج پر ہوا کرتی، لہٰذا نفلی صدقہ و خیرات کا رمضان میں بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس ماہ میں نفل کا اجر فرض کے برابر دیا جاتا ہے اور کسی روزے دار کو افطار کرانے پر، روزہ رکھنے والے کے برابر اجر دیا جاتا ہے چاہے یہ افطار ایک گھونٹ پانی یا لسی پر کیوں نہ ہو۔ اور رہی یہ بات کہ کوئی کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اسے دوزخ سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ امام ابنِ شہاب زہری رحمہ اللہ رمضان میں لوگوں کو کھانا کھلانے کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر شام کسی مسکین کو افطار کرایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں کھانا رکھوا دیا کرتے کہ یہ عبادت میں مشغول لوگوں کی سہولت کے لیے ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ ہر شام پچاس بندوں کو افطار کرایا کرتے اور جب عید الفطر کی (یعنی چاند) رات ہوتی تو ہر ایک کو کپڑوں کا ایک جوڑا بھی عنایت کرتے۔ رمضان کا ایک اہم کام ذکر اللہ میں محنت کرنا ہے، اس لیے کہ ذکر کی برکت سے روزے کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے اور رمضان کی برکت سے خود ذکر کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان کا ایک اہم کام دعا ہے اس لیے کہ رمضان میں افطار اور سحر کے علاوہ حالتِ صیام میں بھی دعائیں خاص طور پر قبول کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ختمِ قرآن کے موقعے پر بھی دعا کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ایک حدیث میں رمضان مبارک میں چار کاموں کی ترغیب وارد ہوئی ہے: کلمۂ طیبہ لا الہ الا الله کا ورد، استغفار کا اہتمام، جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ مانگنا، تو ان امور کا اہتمام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رمضان کے آخری عشرے میں نبیِ اکرمﷺرمضان کے ابتدائی دنوں سے زیادہ محنت کیا کرتے تھے۔ آپﷺآخری عشرے کی راتوں کو زندہ رکھتے اور تمام اہلِ خانہ کو بھی جگایا کرتے تھے۔ ان دنوں میں اعتکاف کرنا اور لیلۃ القدر کو تلاش کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔ یہ ہے رمضان کی جان توڑ محنت جس کے بعد جب رمضان کی آخری رات آتی ہے تو مسلمانوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور انھیں یہ اصول بتایا جاتا ہے: العامل إنما يوفى أجره إذا قضى عمله. ’’مزدوری کرنے والا جب کام ختم کر لے تو اس کو اجر دیا جاتا ہے‘‘۔ پھر جب وہ عید گاہ کی طرف چلتے ہیں تو مغفورا لهم کی سند سے انھیں نوازا جاتا ہے۔ بقول ابنِ عباس رضی اللہ عنہما، فرشتے راستوں میں کھڑے ہو کر ایسی آواز لگاتے ہیں جنھیں جن و انس کے سوا سب سن سکتے ہیں: ’’اے امتِ محمد! چلو، چلو اپنے ربِّ کریم کی بارگاہ میں جو تمھیں اجرِ جزیل اور مغفرتِ عظیم سے نوازے گا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں رمضان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نبیِ کریم اور جبریلِ امین علیہما السلام کی بد دعا سے محفوظ رکھے۔ آمین
ایک افسوس ناک واقعہ یہ پیش آیا کہ کچھ دن پہلے جامعۂ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں نمازِ جمعہ کے فوری بعد کیے جانے والے ایک خود کش دھماکے میں ادارے کے نائب مہتمم جناب مولانا حامد الحق صاحب نے دیگر پانچ افراد سمیت جامِ شہادت نوش کر گئے۔ مولانا حامد الحق تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی متحرک رہے ہیں۔ آپ ۲۰۰۲ء میں رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں، جبکہ ۲۰۱۸ ء سے آپ جمعیت علماے اسلام (س ) کے صدر بھی تھے۔ شہادت سے کچھ دن پہلے آپ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا کی میزبانی میں منعقد ہونے ایک اعلی سطحی اجلاس میں شریک ہوئے۔ یہ اجلاس ملک میں جاری دہشت گردی کے سدِباب کے لیے تھا۔ اجلاس میں مولانا حامد الحق صاحب کی سربراہی میں ایک وفد کابل بھجوانے کی تجویز بھی زیرِ غور لائی گئی تھی۔ باباے طالبان مولانا سمیع الحق کے صاحب زادہ ہونے کی وجہ سے امید کی جاتی تھی کہ ملکِ عزیز میں جاری دہشت گردی کی روک تھام میں سرحد پار سے بھی مدد ملے گی، لیکن مزید کسی پیش رفت سے پہلے ہی مولانا کو شہید کر دیا گیا۔ اس لحاظ سے مولانا کا قتل ایک قومی نقصان ہے۔ اس میں ملک کے دفاع کاروں کی ایک گونہ ناکامی بھی ہے کہ جس شخصیت کے سہارے وہ ملک کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اسی شخصیت کی حفاظت وہ یقینی نہ بنا سکے۔ دہشت گردی کی یہ وارداتیں سیکیورٹی ناکامی اور قومی و سیاسی نقصان سے آگے بڑھ کر دینی اعتبار سے بھی قابلِ مذمت سرگرمیاں ہیں۔
قتلِ ناحق کی مذمت ہمارے دین کا ایک نمایاں موضوع ہے۔ مذکورہ قتل قومی و دینی سے آگے بڑھ کر ایک ملی جرم بھی ہے۔ نبیِ کریمﷺنے یہ خبر دی تھی کہ امتِ مسلمہ سابقہ امتوں یعنی یہود و نصاری کے نقشِ قدم کی پیروی کرےگی۔ یہ پیروی اتنی گھمبیر ہو گی کہ محض ان چیزوں تک محدود نہ رہےگی کہ ہماری خود ساختہ توجیہات کی رو سے جن کے بغیر ہمارا گزارہ ممکن نہیں یعنی سودی معاشی نظام وغیرہ بلکہ یہ پیروی نقالی کی حد پہنچ کر یہاں تک ہو گی کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں گھسے ہوں گے تو امتِ مسلمہ بھی یہ جسارت کرےگی۔ (صحیح بخاری) ایک روایت میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں کا کوئی فرد اگر بری نیت سے اپنی ماں کے پاس گیا ہو گا تو اس امت کا بھی کوئی بد بخت یہ حرکت کرے گا۔ (سننِ ترمذی) بنی اسرائیل کے جرائم میں ایک قبیح جرم قتلِ انبیاے کرام ہے جس کے سبب ان پر اللہ کی لعنت کی جاتی رہی اس گناہ کا ارتکاب امتِ مسلمہ نے نہیں کیا تو اس کی وجہ ہماری شرافت و دیانت نہیں ہے بلکہ سلسلۂ رسالت کے انقطاع کے سبب اس گناہ کا صدور ہم سے ممکن نہیں ہے۔ لیکن قتلِ انبیا کی ایک ذیلی صورت بھی ہے جسے قتلِ صالحین کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قتلِ انبیاے کرام ہی کے ساتھ اس کا ذکر کیا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ (آلِ عمران: 21) ’’بےشک جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور ناحق طور پر نبیوں کا قتل کرتے اور عدل و انصاف کا حکم کرنے والے لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں پس اے نبی آپ انھیں عذابِ درناک کی بشارت دیجیے‘‘۔ تفسیرِ ابنِ کثیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺسے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! قیامت والے دن سب سے زیادہ عذاب کس کو ہو گا؟ آپﷺنے فرمایا: «رَجلٌ قَتَلَ نَبِيا أوْ مَنْ أَمَرَ بِالمْعْرُوفِ ونَهَى عَنِ المُنْكَر» ’’اس آدمی کو جو کسی نبی کو قتل کرے یا اس شخص کو قتل کرے جو نیکی کا حکم کرتا اور برائی سے روکتا ہو‘‘۔ ایک روایت میں آتا ہے: «بِئْسَ الْقَوْمُ قَوْمٌ يَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ» ( تفسیرِ قرطبی ) ’’بہت بری قوم ہے وہ جو عدل و قسط کا حکم کرنے والے لوگوں کو قتل کرتی ہو‘‘۔ قتلِ صالحین کے باب میں ہمارا ملک سیاہ سہی لیکن ایک تاریخ رکھتا ہے۔ زیادہ دور ہم نہیں جاتے، حال ہی میں مظلومانہ طور پر شہید ہونے والے مولانا حامد الحق کے والد محترم مولانا سمیع الحق صاحب بھی اسی طرح قتل کیے گئے تھے۔ مولانا حامد الحق کے بعد دار العلوم کوہاٹ کے مہتمم مفتی فرمان اللہ اور تربت کے مفتی شاہ میر عزیز کو بھی شہید کیا جا چکا ہے۔ ممتاز اہلِ علم کے علاوہ ، قومی اداروں اور عوامی مقامات پر بھی دہشت گردی کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس روک تھام کے لیے سیکیورٹی اداروں کی استعداد کار میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیاسی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔
مولانا محمد اقبال
معاونِ شعبۂ تصنیف و تحقیق فقہ اکیڈمی
رمضان المبارک اسلامی سال کا وہ مہینا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بے شمار برکتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے۔ یہ محض ایک عام مہینا نہیں بلکہ عبادت، تقویٰ، صبر اور خود احتسابی کا ایک نادر موقع ہے، جو ہمیں اپنی زندگی میں حقیقی معنوں میں روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ مہینا ہمیں اپنے نفس پر قابو پانے، صبر و استقامت کا راستہ اختیار کرنے اور دوسروں کے ساتھ ہم دردی و غم خواری کا درس دیتا ہے۔ دن بھر بھوک اور پیاس کو برداشت کرنا محض ایک جسمانی مشق نہیں بلکہ یہ ایک تربیتی عمل ہے، جس کے ذریعے انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا اور اللہ کے قریب ہونا سیکھتا ہے۔ رمضان کا اصل مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں، بلکہ دل و دماغ کو پاکیزہ بنانا اور روحانی بلندی حاصل کرنا ہے۔ نبیِ کریمﷺنے رمضان کو صبر، عبادت، سخاوت اور غم خواری کا مہینا قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے، نیکیاں بڑھا دی جاتی ہیں، گناہوں کی معافی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم سے نجات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں تقویٰ، صبر، قناعت اور سخاوت کو اپناتا ہے، وہ حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ایک دن وعظ فرمایا جبکہ رمضان کا مہینا حاضر تھا: ’’تمہارے پاس رمضان آ گیا، جو برکت والا مہینا ہے۔ اس میں خیر ہے، اللہ تعالیٰ تمھیں اس میں ڈھانپ لیتا ہے، رحمت نازل ہوتی ہے، گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور دعا قبول کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان نیکی میں سبقت لے جانے کو دیکھتا ہے اور فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتا ہے۔ پس تم اللہ کو اپنی طرف سے بھلائی دکھاؤ، کیونکہ وہ شخص حقیقی بدبخت ہے جو اس مہینے میں اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے‘‘۔ (مسند الشامیین للطبرانی) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے شعبان کی آخری تاریخ کو ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینا سایہ فگن ہو چکا ہے، ایک بابرکت مہینا، ایسا مہینا جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کیے اور اس کی رات کے قیام (تراویح) کو نفل عبادت قرار دیا۔ جو اس مہینے میں کسی نیکی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرے، اسے ایسے ہی ثواب ملے گا جیسے کسی اور وقت میں فرض ادا کرنے کا، اور جو اس میں فرض ادا کرے، اسے ایسے ہی ثواب ملے گا جیسے کسی اور وقت میں ستر فرض ادا کرنے کا۔ یہ مہینا صبر کا ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینا ہے، اور اسی مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزےدار کا روزہ افطار کرائے، اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، جہنم سے آزادی نصیب ہوگی، اور اُسے اسی روزےدار کے برابر اجر دیا جائےگا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی ہو‘‘۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: ’’ہم میں سے ہر ایک کو یہ استطاعت حاصل نہیں کہ روزےدار کو افطار کروا سکے‘‘۔ آپﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اسے بھی دے گا جو کسی روزے دار کو ایک کھجور، ایک گھونٹ پانی، یا ایک گھونٹ دودھ سے افطار کرا دے۔ یہ مہینا ایسا ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے۔ جو اپنے خادم کے بوجھ کو ہلکا کر دے، اللہ اس کی مغفرت فرمائےگا اور اسے آگ سے آزاد کر دےگا۔ اس مہینے میں تم چار چیزوں کو زیادہ اختیار کرو: دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کروگے، اور دو ایسی ہیں جن سے تمھیں کوئی چارہ نہیں۔ وہ دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کروگے، وہ یہ ہیں: لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دینا اور اللہ سے مغفرت طلب کرنا۔ اور وہ دو چیزیں جن سے تمھیں کوئی چارہ نہیں: اللہ سے جنت کا سوال کرنا اور جہنم سے پناہ مانگنا۔ جو شخص کسی روزےدار کو سیر ہو کر کھلا دے، اللہ اسے میرے حوض (کوثر) سے ایسا پانی پلائےگا کہ وہ جنت میں داخل ہونے تک کبھی پیاسا نہ ہوگا‘‘۔ (صحیح ابن خُزیمہ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک صبر، استقامت اور قربانی کا مہینا ہے۔ یہ ہمیں اپنی خواہشات پر قابو پانے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا درس دیتا ہے۔ یہ بابرکت مہینا ہمیں بھوک اور پیاس کے ذریعے اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنا سکھاتا ہے اور ان لوگوں کے احساسات سے آشنا کرتا ہے جو ہمیشہ تنگ دستی کا شکار رہتے ہیں۔ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روزے کو دیگر نیکیوں کے اجر و ثواب کی زیادتی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، یعنی تمام اعمال کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے، مگر روزے کا اجر اس تعداد میں محدود نہیں بلکہ اللہ عز وجل اسے بے شمار گنا زیادہ فرما دیتا ہے، کیونکہ روزہ صبر کی ایک قسم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر: 10) ’’بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بےحساب دیا جائےگا‘‘۔ اسی وجہ سے نبیِ کریمﷺنے رمضان کے مہینے کو صبر کا مہینا قرار دیا ہے۔ (لطائف المعارف، ص:۱۵۰)
جب ہم سیرتِ نبوی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبیِ کریمﷺکا معمول رمضان میں دیگر مہینوں سے مختلف ہوتا تھا۔ اس مبارک مہینے میں آپ کا ہر دن عبادات اور نیکی کے کاموں سے بھرپور ہوتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ رمضان کی ان بابرکت راتوں اور دنوں کی فضیلت سے بخوبی آگاہ تھے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے سال کے دیگر ایام پر ممتاز فرمایا ہے۔ اسی طرح، سیرتِ نبوی میں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ نبیِ کریمﷺکے کئی غزوات رمضان المبارک میں پیش آئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان کا حقیقی پیغام صرف عبادت ہی نہیں بلکہ صبر، محنت اور مشقت والے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی ہے۔ جہاں احادیث میں رمضان کو غم خواری کا مہینا قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی مشقت کے کاموں سے کنارہ کش ہو جائے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ نرمی، ایثار اور ہم دردی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ تاریخِ اسلام میں کئی اہم جنگیں رمضان المبارک میں واقع ہوئیں، جن میں غزوۂ بدر کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ وہ معرکہ تھا جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا اور اسلامی ریاست کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اسی طرح، فتحِ مکہ جو 8 ، ہجری میں پیش آئی، وہ بھی رمضان میں وقوع پذیر ہوئی۔ نبیِ کریمﷺ 10، رمضان کو مدینہ سے روانہ ہوئے اور 19، رمضان کو مکہ میں داخل ہو کر شہر کو فتح کیا۔ (عیون الاثر، ج:۱، ص:۲۸۱) اسی طرح کئی سرایا بھی رمضان میں پیش آئے، جن میں سے ایک سریۂ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہے، جو سریۂ سیف البحر کے نام سے مشہور ہے اور ہجرت کے پہلے سال رمضان میں وقوع پذیر ہوا۔ (السیرة الحلبیہ، ج:۳، ص:۲۱۴) اسی طرح سریۂ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ۶، ہجری میں رمضان کے مہینے میں بنو فَزارہ کے خلاف روانہ کیا گیا تھا۔ (المغازی للواقدی، ج:۲، ص:۵۶۴) یہ تمام تاریخی واقعات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ رمضان عبادت، روحانی تربیت اور غم خواری کے ساتھ ساتھ صبر، محنت اور جدوجہد کا بھی مہینا ہے، جس میں مسلمانوں کو حق کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ماہِ صیام میں ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل
رمضان المبارک چند ہی دنوں پر مشتمل ایک بابرکت مہینا ہے، جو دل کی زندگی، ایمان کی تجدید اور اللہ کی طرف سفر کے آغاز کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ اس ماہ میں روزہ، نماز، قیام اللیل، تلاوتِ قرآن، صدقہ، اعتکاف اور ذکر و اذکار جیسی عبادات یکجا ہو جاتی ہیں، جو بندے کو اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ مہینا قربانی، ایثار اور روحانی ترقی کی تربیت دیتا ہے، اس لیے اسے محض رسمی عبادات تک محدود رکھنے کے بجائے، خلوصِ دل سے عبادات میں مشغول رہنے کا مہینا سمجھنا چاہیے۔ ہمارے اسلاف رمضان کو محض ایک رسمی عبادت کا مہینا نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ اسے عبادات، تلاوتِ قرآن، قیام اللیل، خدمتِ خلق اور سخاوت کے لیے بہترین موقع جانتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ رمضان میں عام دنوں سے کئی گنا زیادہ عبادات میں مشغول ہوتے اور دوسروں کی بھلائی کے لیے اپنا وقت، مال اور توانائی صرف کرتے۔ ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل اس حوالے سے مثالی تھا۔ وہ رمضان کو عبادت، تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار اور خدمتِ خلق میں گزارنے کو ترجیح دیتے، جبکہ آج کے دور میں ہمارا زیادہ تر وقت کھانے پینے کے اہتمام اور غیر ضروری مشاغل میں ضائع ہو جاتا ہے۔ امام ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سلفِ صالحین رمضان کی برکتوں سے اتنا زیادہ فیض حاصل کرنے کے خواہش مند تھے کہ وہ چھے ماہ تک دعا کرتے کہ اللہ انھیں رمضان تک پہنچا دے اور پھر چھے ماہ تک دعا کرتے کہ اللہ ان کے رمضان کے اعمال کو قبول فرما لے‘‘۔ (لطائف المعارف، ص: ۲۰۹( حضرت علی رضی اللہ عنہ رمضان کی آخری رات فرماتے: ’’کاش معلوم ہوتا کہ ہم میں سے کون مقبول ہوا تاکہ ہم اسے مبارک باد دیں، اور کون محروم رہا تاکہ ہم اس سے تعزیت کریں!‘‘۔ حضرت حسنِ بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ نے رمضان کو اپنے بندوں کے لیے ایک دوڑ کا میدان بنایا، کچھ لوگ اس میں آگے بڑھے اور کامیاب ہو گئے، جبکہ کچھ پیچھے رہ گئے اور خسارے میں رہے۔ حیرت ہے اس شخص پر جو اس دن ہنس رہا ہے، جس دن نیکوکار کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور غافل لوگ ناکام ہو رہے ہیں!‘‘۔ (لطائف المعارف، ص: ۲۱۰(
سخاوت کی مثالیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺتمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے، اور رمضان کے مہینے میں جب جبرائیل علیہ السلام ان سے ملاقات کرتے تو عام دنوں کے مقابلے میں اور زیادہ سخی ہو جاتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور قرآن کا دور کراتے۔ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریمﷺسے ملاقات کرتے تو رسول اللہﷺخیر و بھلائی میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے۔ (الایمان لابن منده) حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں رمضان کے مہینے میں آدمی کے لیے سخاوت میں اضافہ پسند کرتا ہوں، کیونکہ یہ رسول اللہﷺکی پیروی ہے، نیز اس مہینے میں لوگوں کو اپنی ضروریات کے لیے زیادہ حاجت ہوتی ہے، اور بہت سے لوگ روزے اور نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے اپنی معاشی سرگرمیوں سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ (لطائف المعارف، ص: ۱۶۹( امام زہری رحمہ الله جو اپنے وقت میں حدیث کے امام تھے، ان کے متعلق آتا ہے کہ جب رمضان آتا تو وہ کہتے: ”یہ تو بس قرآن کی تلاوت اور کھانا کھلانے کا مہینا ہے‘‘۔ (لطائف المعارف، ص:۱۷۱) بہت سے سلف اپنے افطار میں دوسروں کو شریک کرتے یا انھیں اس پر ترجیح دیتے اور خود بھوکے رہتے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما روزہ رکھتے اور صرف مساکین کے ساتھ افطار کرتے۔ اگر اہلِ خانہ انھیں مساکین کے ساتھ افطار کرنے سے روکتے تو وہ اس رات کھانا نہ کھاتے۔ اگر کوئی سائل آتا اور وہ کھانے پر ہوتے تو اپنے حصے کا کھانا اٹھا کر سائل کو دے دیتے، پھر جب واپس آتے تو گھر والے پوری طشتری کا کھانا کھا چکے ہوتے، چنانچہ وہ بغیر کچھ کھائے صبح کر دیتے اور روزے کی حالت میں ہوتے۔ ایک سائل امام احمد رحمہ اللہ کے پاس آیا، تو آپ نے وہ دو روٹیاں اسے دے دیں جو اپنے افطار کے لیے رکھی ہوئی تھیں، اور خود بغیر کھائے ہی رات گزار دی اور اگلے دن روزے سے رہے۔ (لطائف المعارف، ص:۱۶۸) لہٰذا، ہمیں بھی رمضان کو سخاوت اور فیاضی کی عادت ڈالنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
تلاوتِ قرآن کا شوق
دلوں کی زندگی اور ایمان میں اضافے کا سب سے عظیم ذریعہ قرآنِ کریم ہے، اور رمضان المبارک اس مبارک کتاب سے تعلق کو مضبوط کرنے کا خاص موسم ہے۔ یہ وہ مہینا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شرف و فضیلت عطا فرمائی اور اسی میں اپنی سب سے بڑی نعمت، قرآنِ کریم کو نازل فرمایا۔ اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ہم اپنے مقصدِ حیات تک قرآنِ کریم کے بغیر نہیں پہنچ سکتے اور قرآنِ کریم سے حقیقی استفادے کا سب سے موزوں وقت رمضان ہی ہے۔ یہی وہ مقدس ایام ہیں جن میں ہمیں ہر لمحہ قرآن کے ساتھ جینا چاہیے، چاہے وہ نماز میں اس کی تلاوت ہو، نماز کے بعد اس کے الفاظ میں غور و فکر، اس کی آیات کی تدبر و تفکر کے ساتھ تلاوت، یا تراویح میں اس کی سماعت ہو۔ اصل کامیابی صرف یہ نہیں کہ ہم قرآن کتنی بار ختم کرتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہماری روح پر قرآنِ کریم کے الفاظ نے کتنی گہری چوٹ کی اور اس کتاب کی تلاوت، اس میں غور و فکر کی بدولت ہماری آنکھوں سے آنسو کتنی بار جاری ہوئے۔ لہذا رمضان درحقیقت قرآن کے نور سے منوّر ہونے اور اپنے دلوں کو قرآن کی روشنی سے آباد کرنے کا موسم ہے۔ اگر ہم سلفِ صالحین کے طرزِ عمل کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ رمضان کے مہینے میں نماز اور دیگر اوقات میں قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ امام اسود رحمہ اللہ رمضان میں ہر دو راتوں میں قرآن مکمل کرتے تھے اور امام نخعی رحمہ اللہ رمضان کے آخری عشرے میں ایسا کرتے تھے، جبکہ باقی مہینے میں ہر تین دن میں قرآن ختم کرتے تھے۔ قتادہ رحمہ اللہ ہمیشہ ہر سات دن میں قرآن ختم کرتے تھے، لیکن رمضان میں ہر تین دن میں اور رمضان کے آخری عشرے میں ہر رات قرآن مکمل کرتے تھے۔ رمضان المبارک کا مہینا جب آتا تو امام سفیان ثوری رحمہ الله سب کچھ چھوڑ دیتے اور قرآن مجید کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ امام مالک رحمہ اللہ رمضان کے مہینے میں حدیث پڑھنے پڑھانے اور اہلِ علم کی مجلس میں بیٹھنے سے کنارہ کش ہو جاتے اور قرآن کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ رمضان میں ساٹھ ختم کیا کرتے تھے، جو وہ نماز کے علاوہ پڑھتے تھے، اور امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی اسی طرح منقول ہے۔ (لطائف المعارف، ص:۱۷۱) ابو مجلز رحمہ اللہ لوگوں کو چار ترویحوں کے ساتھ یعنی بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے اور ہر رات قرآن کی ایک منزل یعنی ساتواں حصہ تلاوت کرتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل وقیام رمضان وكتاب الوتر، ص:۲۲۲) اگرچہ یہ مثالیں خیر القرون کی ہیں، مگر ہمارے قریب کے زمانے کے اکابرین کے معمولات بھی ان اسلاف سے مختلف نہیں تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنے آقا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کو متعدد رمضانوں میں دیکھا ہے کہ باوجودِ ضعف اور پیرانہ سالی کے، مغرب کے بعد نوافل میں سوا پارہ پڑھنا یا اس سے زیادہ، اور اس کے بعد آدھ گھنٹا کھانے وغیرہ ضروریات کے لیے صرف کرنا معمول تھا۔ ہندوستان کے قیام میں تقریباً دو سے سوا دو گھنٹے تراویح میں خرچ ہوتے تھے، اور مدینہ پاک کے قیام میں تقریباً تین گھنٹے میں عشا اور تراویح سے فراغت ہوتی۔ اس کے بعد آپ موسم کے اختلاف کے مطابق، دو سے تین گھنٹے آرام فرماتے، پھر تہجد میں تلاوت فرماتے اور صبح سے نصف گھنٹا قبل سحر تناول فرماتے۔ اس کے بعد سے صبح کی نماز تک کبھی حفظِ قرآن کی تلاوت فرماتے اور کبھی اَوراد و وظائف میں مشغول رہتے‘‘۔ (فضائلِ اعمال، ص:۷۵۸) فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائےپوری قدس سرہ کے یہاں تو رمضان المبارک کا مہینا دن و رات تلاوت ہی کا ہوتا تھا کہ اس میں ڈاک بھی بند اور ملاقات بھی ذرا گوارانہ تھی۔ بعض مخصوص خُدام کو صرف اتنی اجازت ہوتی تھی کہ تراویح کے بعد جتنی دیر حضرت سادہ چائے کے ایک دو فنجان (پیالی) نوش فرمائیں، اتنی دیر حاضرِ خدمت ہو جایا کریں‘‘۔ اسی طرح لکھتے ہیں: ’’حضرت اقدس مولانا شیخ الہند رحمہ اللہ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے کلام مجید ہی سنتے رہتے تھے۔ (فضائلِ اعمال، ص:۷۵۹) خود حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا رمضان میں تلاوت کا یہ معمول تھا کہ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھے۔ (اکابر کا رمضان، ص: ۲۵) آپ کے گھر کی مستورات کا گھر کے کام کے ساتھ تلاوت کا معمول یہ تھا کہ وہ پندرہ، بیس پارے روزانہ پورے کر لیتی تھیں۔ (فضائلِ اعمال، ص:۷۷۵)
تراویح اور تہجد کا اہتمام
رات کی مبارک ساعتوں سے فیض یاب ہونا ایمان کو دل میں راسخ کرنے کے عظیم ترین ذرائع میں سے ہے۔ جب بندہ شب کی تنہائی میں اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور اس کا دل خشیت و محبتِ الٰہی سے منور ہو جاتا ہے تو قلب و روح کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور بےشمار روحانی فوائد نصیب ہوتے ہیں۔ یہ برکتوں بھرا عمل، جو تلاوتِ قرآن کے نور، اس کے معانی و مطالب میں تدبر اور رکوع و سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہے، قربِ الٰہی کے اہم ترین وسائل میں شمار ہوتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں کسی بھی حالت میں قیام اللیل کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ ہم نمازِ تراویح کی پابندی کے ساتھ ساتھ طلوعِ فجر سے قبل تہجد اور استغفار کے لیے بھی بیدار ہوں، تاکہ سحر کی معطر اور پرکیف ساعتوں میں اپنے رب سے قربت کا حقیقی لطف حاصل کریں اور روحانی سکون و حلاوت کو محسوس کر سکیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری) خاص طور پر تراویح کے متعلق رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’بےشک جب کوئی شخص امام کے ساتھ تراویح میں کھڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لے، تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔ (سنن الدارمی) قیام اللیل جو رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد پر مشتمل عمل ہے، اس کا اہتمام سنتِ نبوی اور سلف کی مواظبت سے ثابت ہے۔ جبیر بن نفیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حج کیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے ان سے رسول اللہ ﷺکے اخلاق کے متعلق پوچھا، تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺکا اخلاق قرآن تھا۔ میں نے ان سے رسول اللہﷺکے قیام اللیل کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا: ﴿يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ﴾؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، پڑھا ہے۔ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہی تو حضورﷺکا قیام تھا۔ (مختصر قیام اللیل و قیام رمضان و كتاب الوتر، ص:۲۱) حضرات صحابہ و تابعین کا حال یہ تھا، حضرت حسنِ بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جب رات آتی تو وہ اپنے رب کے حضور قیام میں مصروف ہو جاتے، اپنے چہروں کو زمین پر بچھا دیتے، ان کے آنسو رخساروں پر بہتے اور وہ اپنے رب سے اپنی گردنوں کی آزادی کی دعا کرتے‘‘۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو ان کا حال ایسا ہوتا جیسے تیل میں بھنے ہوئے دانے کو آگ پر ڈالا جائے۔ وہ کہا کرتے: اے اللہ! جہنم نے میری نیند چھین لی ہے۔ پھر وہ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور صبح تک نماز پڑھتے رہتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک برتن میں پانی ہوتا، وہ جتنا مقدر ہوتا نماز پڑھتے، پھر بستر پر آتے اور ہلکی نیند لیتے، پھر وضو کر کے نماز پڑھتے۔ یہ عمل وہ رات میں چار یا پانچ مرتبہ دہراتے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ رات کو بالکل نہ سوتے، ایک ہی رات میں پورا قرآن پڑھتے اور ہمیشہ راتوں کو زندہ رکھتے۔ ایک رات قیام میں گزارتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی، دوسری رات رکوع میں گزارتے یہاں تک کہ فجر ہو جاتی، اور تیسری رات سجدے میں گزار دیتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عامر بن عبد قیس رحمہ اللہ سے کسی نے کہا: لوگ سوتے ہیں، لیکن آپ نہیں سوتے؟ انھوں نے جواب دیا: جہنم مجھے سونے نہیں دیتی۔ اور جب وہ رات کو قیام کرتے تو کہتے: میری آنکھیں جہنم کے ذکر کی وجہ سے نیند کا مزہ نہیں چکھتیں۔ امام ربیع رحمہ اللہ سے ان کی بیٹی نے کہا: ابا جان! لوگ سوتے ہیں، لیکن آپ نہیں سوتے؟ انھوں نے جواب دیا: بیٹی! تمہارا والد رات کے اچانک عذاب میں پکڑے جانے سے ڈرتا ہے۔ حفصہ بنت سیرین رحمہا اللہ رات کے وقت چراغ جلا کر قیام کرتی تھیں۔ بعض اوقات چراغ بجھ جاتا، لیکن ان کے گھر میں ایسی روشنی ہو جاتی کہ وہ فجر تک عبادت میں مشغول رہتیں۔ وہ تیس سال تک اپنے مصلے میں رہیں، اور صرف ضرورت کے وقت یا قیلولہ کے لیے باہر نکلتیں۔ وہ فرمایا کرتی تھیں: اے نوجوانو! اپنی جوانی میں خوب عبادت کرو، کیونکہ میں نے عمل کا اصل وقت جوانی میں پایا ہے۔ قرآن سے ان کے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ان کے بھائی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ جب قرآن کی کوئی مشکل آیت سمجھ نہ پاتے تو کہتے: جاؤ، حفصہ سے پوچھو کہ وہ اسے کس طرح پڑھتی ہیں۔ (مختصر قیام اللیل وقیام رمضان وكتاب الوتر، ص:۴۶ تا ۴۹) یہ تو ان حضرات کی زندگی کا عام معمول تھا جبکہ رمضان المبارک میں ان کی عبادات میں مزید اضافہ ہوتا۔ ابو الاشعث الجدلی کہتے ہیں: ’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں تین غزوات میں شرکت کی اور میں نے رمضان کی راتوں میں ان کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھی۔ جب قاری تراویح سے فارغ ہو جاتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ باہر نکل کر تین رکعت وتر پڑھتے تھے‘‘۔ (فضائلِ رمضان لابن ابی الدنیا، ص:۷۴) عطا خراسانی غزوے میں رات بھر عبادت کرتے، اور آدھی یا تہائی رات گزرنے پر ساتھیوں کو جگا کر کہتے: اٹھو، وضو کرو، اور اس دن کے روزے کو اس رات کی عبادت کے ساتھ جوڑ لو، یہ جہنم کے عذاب اور پیپ جیسے مشروب سے آسان ہے! جلدی کرو، نجات حاصل کرو! پھر وہ نماز میں مشغول ہو جاتے۔ (مختصر قیام اللیل وقیام رمضان وكتاب الوتر، ص: ۴۹)
رمضان المبارک میں اسلاف کا معمول یہ تھا جو اوپر ذکر ہوا، مگر افسوس کہ ہم نے اس مبارک مہینے کی اصل روح کو فراموش کر دیا ہے اور اسے محض کھانے پینے کی سرگرمیوں تک محدود کر دیا ہے۔ سحر و افطار کے مواقع پر انواع و اقسام کے کھانے سجانے کو ہم نے عبادت کا حصہ سمجھ لیا ہے۔ بعض افراد اس مقدس مہینے کو محض لذتِ کام و دہن کا موقع سمجھتے ہیں اور ضبطِ نفس کے بجائے طعام و شراب میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ رویہ روزے کی حقیقی روح کے منافی ہے۔ روزے کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا، اپنی خواہشات پر قابو پانا اور روحانی تطہیر ہے۔ اس مہینے کا تقاضا ہے کہ ہم صبر، شکر، قناعت اور عبادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، سادگی اور زہد کو فروغ دیں اور حقیقی معنوں میں تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریں۔ جو لوگ خوش حال ہیں، ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ کھانے پینے میں اسراف کے بجائے غریب اور ضرورت مند افراد کی مدد کریں۔ رمضان المبارک میں عبادات کے ساتھ ساتھ سماجی بھلائی اور دوسروں کے ساتھ ہم دردی کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحتوں اور ملازمین کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، وہ درحقیقت رمضان کی اصل روح کو سمجھتا ہے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ رمضان کو محض رسمی طور پر نہ گزارا جائے بلکہ اس کی اصل روح کو اپناتے ہوئے اپنے کردار و عمل میں مثبت تبدیلی لانے کی سعی کی جائے۔
صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم
تلاوت کے ایک دور کی تکمیل کے لیے جو اصطلاح ہمارے ہاں دورِ نبوی ہی سے رائج ہے وہ ختمِ قرآن ہے جیسا کہ احادیث میں اس کا ذکر آ جائےگا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ لفظ ختم ہماری اردو کا لفظ ہے جس کا معنیٰ خاتمہ یا اختتام ہے اور اس سمجھ کی بنا پر وہ ختمِ قرآن کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں اور ختم کے بجائے لفظ تکمیل پر زور دیتے ہیں،تو ابتدا ہی میں اس کی وضاحت ہو جائے کہ عربی زبان اور خود اردو لغت میں بھی لفظ ختم کا ایک معنیٰ مکمل کرنا بھی ہے (دیکھیے نور اللغات) تو ختمِ قرآن کے معنیٰ ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کا ایک دَور مکمل کرنا! جس طرح تلاوت ِقرآن کے آداب ہیں جو تلاوت کے فوائد، اجر و ثواب اور خوب صورتی میں اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں، اسی طرح ختمِ قرآن کے بھی آداب ہیں جو اجر و ثواب میں اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کئی علما نے اس موضوع پر کلام کیا ہے۔ امام نَوَوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الأذکار میں فصل في آداب الختم وما يتعلق به کے زیر ِ عنوان قرآنِ کریم کے دَورِ تلاوت کی تکمیل پر نفیس کلام کیا ہے۔ اسی طرح امام ِمذکور نے التبیان میں بھی اس موضوع پر کلام کیا ہے، انھی کے افادات کی روشنی میں یہ مضمون ترتیب دیا جا رہا ہے۔ البتہ نقلِ روایات میں وسعت برتتے ہوئے ہم نے دیگر مصادر سے بھی رجوع کیا ہے۔
امام صاحب فرماتے ہیں کہ تلاوتِ قرآن کی تکمیل کسی نماز میں کرنا زیادہ مستحب ہے۔ اس کے لیے انھوں نے درج ذیل حدیث پیش کی ہے: «قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فِي الصَّلَاةِ أَفْضَلُ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ».’’نماز میں قرآن کی تلاوت کرنا نماز کے بغیر تلاوت کرنے سے افضل ہے‘‘۔ (شعب الایمان) اگر قرآن کی تکمیل نمازِ تراویح وغیرہ میں ہو رہی ہے تو ظاہر ہے وہ نماز ہی میں مکمل کیا جائےگا لیکن اگر نماز کے بغیر انفرادی تلاوت کی جا رہی ہے تب بھی مستحب یہی ہے کہ آخرِ قرآن میں سے کچھ حصہ کسی بھی، سنت یا نفل نماز میں مکمل کیا جائے بشرطیکہ وہ وقت نفل پڑھنے کے لیے ممنوع نہ ہو۔ اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ختمِ قرآن فجر اور مغرب کی سنتوں میں کر لیا جائے۔ تابعی محمد بن جُحادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’وہ (صحابہ یا تابعین) اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جب قرآن کی تکمیل رات کو کریں تو مغرب کے بعد والی رکعتوں میں اس کی تکمیل کریں اور جب دن میں اس کا ختم کریں تو فجر سے پہلے والی رکعتوں میں اسے مکمل کریں۔ (مختصر قيام الليل وقيام رمضان) اگر تکمیلِ تلاوتِ قرآن، نماز کے لیے مکروہ وقت میں ہو رہی ہے تو پھر اختیار ہے چاہے تو ختم کو مؤخر کر لیا جائے یا پھر نماز کے بغیرہی ختم کر لیا جائے، چونکہ یہ مستحبات کا دائرہ ہے اس لیے نہ تو خود پرسختی کرنی چاہیے اور نہ ہی دوسروں پر بس حتی الامکان بہتری کی کوشش کرنی چاہیے۔
تکمیلِ قرآن دن یا رات کے ابتدائی حصوں میں
آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ختمِ قرآن پر فرشتے دن یا رات کے دوسرے سرے تک تلاوت کی تکمیل کرنے والے کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ ختمِ قرآن رات کے ابتدائی حصے میں کیا جائے یا دن کے ابتدائی حصے میں۔ پس اگر رات یا دن کے ابتدائی حصے میں تکمیل کر لی جائے تو فرشتوں کی مقدس دعائیں زیادہ حاصل ہوں گی بہ نسبت رات یا دن کے درمیانی حصے میں تکمیل سے۔ یہ طریقہ بعض صحابہ سے منقول ہے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب کوئی شخص قرآن رات کے ابتدائی حصے میں ختم کرے اس پر فرشتے دعائیں کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے اور اگر اس کا ختم رات کے آخری حصے یعنی (صبح) کو ہو جائے تو فرشتے شام تک اس کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور ہم میں سے کسی شخص کا ختم جب قریب ہوتا تو وہ کچھ قرآن کو باقی رکھتا یہاں تک کہ صبح یا شام آ جاتی اور پھر وہ اس کی تکمیل کرتا‘‘۔ (دارمی) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اسی طرز کا تھا: كَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ إِذَا أَشْفَى عَلَى خَتْمِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ بَقَّى مِنْهُ شَيْئاً حَتَّى يُصْبِحَ فَيَجْمَعَ أَهْلَهُ فَيَخْتِمَهُ.’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب رات کو ختم ِقرآن کے قریب پہنچتے تو قرآن کا کچھ حصہ صبح کے لیے چھوڑتے، پھر وہ صبح اپنے اہل وعیال کو جمع کر کے ان کے سامنے قرآن ختم کرتے‘‘۔ (دارمی) حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إِذَا كَانَ الشِّتَاءُ فَاخْتِمِ الْقُرْآنَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَإِذَا كَانَ الصَّيْفُ فَاخْتِمْهُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ.’’جب سردیوں میں قرآن کی تکمیل کرو تو رات کے اوّل حصے میں کیا کرو اور جب گرمیوں میں قرآن کے دور کی تکمیل کرو تو دن کے پہلے حصے میں ختم کیا کرو‘‘۔ (مختصر قيام الليل وقيام رمضان) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے فرمان سے یہ معلوم ہوا تھا کہ دن یا رات کے اوّل حصے میں تکمیل کرنے سے پورے دن فرشتوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابنِ مبارک رحمہ اللہ نے اس میں تفصیل بتا دی کہ چونکہ سردیوں کی رات بڑی ہوتی ہے اس لیے رات کے اوّل حصے میں تکمیل ہو گی تو فرشتوں کی دعائیں زیادہ وقت تک کے لیے حاصل ہوں گی اور گرمیوں میں چونکہ دن بڑے ہیں اس لیے دن کی ابتدا میں ختمِ قرآن ہو جائے تو اس میں فرشتوں کی دعا زیادہ عرصہ ملتی رہے گی۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نیکی اور ثواب کے معاملے میں کتنے حریص اور باریک بین تھے کہ ذرہ برابر کوتاہی نہ کرتے تھے، آج ہمارے ہاں بھی بالکل ایسا ہی ہے لیکن افسوس دین کے بجائے دنیا کے معاملے میں!
امام نووی رحمہ اللہ ’’التبیان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ختمِ قرآن کے دن روزے کا اہتمام مستحب ہے الا یہ کہ ختمِ قرآن کسی ایسے دن پیش آرہا ہو جس دن کا روزہ رکھنا شرعا ًممنوع ہو، صحیح طور پر ثابت ہے کہ طلحہ بن مصرف،مسیب بن رافع،اور حبیب بن ابی ثابت رحمہم اللہ وغیرہ ختمِ قرآن کے دن روزہ رکھا کرتے تھے‘‘۔ اگرچہ امام نووی رحمہ اللہ نے کسی قسم کی دلیل نقل نہیں فرمائی، لیکن کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح رمضان ہی میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے، اور رمضان ہی کی ایک رات لیلۃ القدر میں قرآن کا نزول سماے دنیا پر ہوا اور جس طرح نبیِ اکرمﷺرمضان میں اس کا دور فرمایا کرتے تھےتو ان باہمی مناسبتوں کی وجہ سے مستحب ہے کہ غیرِ رمضان کے ختمِ قرآن کو روزے کے اہتمام سے رمضان کے مشابہ بنایا جائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے جن بزرگوں کے نام لیے ان میں ابنِ رافع رحمہ اللہ کے بارے میں یہ روایت امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نےالثقات میں نقل کی ہے: عَن الْمسيب بن رَافع أَنه كَانَ يخْتم الْقُرْآن فِي كل ثَلَاث ثمَّ يصبح الْيَوْم الَّذِي يخْتم فِيهِ صَائِما.’’مسیب بن رافع ہر تین دن میں ایک قرآن مکمل کیا کرتے تھے اور جس دن قرآن ختم کرتے اس دن روزے سےہوا کرتے تھے‘‘۔
ختمِ قرآن کے موقعے پر دعا کا اہتمام کرنا چاہیے،امام نووی رحمہ اللہ التبیان میں رقم فرماتے ہیں: ’’ختم ِ قرآن کے بعد دعا کرنا بہت زیادہ تاکید کے ساتھ مستحب ہے‘‘۔ اس لیے کہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: «مَنْ صَلَّى صَلَاةَ فَرِيضَةٍ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَمَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ». (طبرانی) ’’جس نے فرض نماز ادا کی اس کی دعا قبول کی جائے گی اور جس نے قرآن کی تلاوت کی تکمیل کی اس کی دعا بھی قبول کی جائے گی‘‘۔ ثابت البنانی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں: كَانَ أنَسٌ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ وَلَدَهُ وَأَهْلَ بَيْتِهِ فَدَعَا لَهُمْ. (دارمی) ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب تلاوتِ قرآن کا دور مکمل کرتے تو اپنے اہل وعیال کو جمع کر کے ان کے لیے دعا فرمایا کرتے‘‘۔ ابراہیم التیمی رحمہ اللہ سے روایت ہے: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ.قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ أَهْلَهُ ثُمَّ دَعَا وَأَمِّنُوا عَلَى دُعَائِهِ.(فضائل القرآن للقاسم بن سلام) ’’عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جب قرآن ختم کرتے تھے تو اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور دعا کرتے جبکہ گھر والے ان کی دعا پر آمین کہا کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے جو شخص قرآن ختم کرےاس کے لیے یہ مقبول دعا کا موقع ہے‘‘۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا معمول نقل ہوا: ’’آپ رحمہ اللہ رمضان میں افطار کے وقت ختمِ قرآن کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: عند كل الختم، دعوة مستجابة.’’ہر ختمِ قرآن کے موقعے پر ایک دعاے مستجاب انسان کو نصیب ہوتی ہے‘‘۔ (تاريخ ِبغداد) تکمیلِ قرآن کی محفل میں شرکت کرنے کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ التبيان میں تحریر کرتے ہیں: ’’ختمِ قرآن کی مجلس میں شرکت کرنا مستحب اور پسندیدہ ہے اس کے لیے بھی جوپڑھنا جانتا ہے اور اس کے لیے بھی جو اچھی طرح پڑھنا نہیں جانتا‘‘۔ قرآن پاک کی تلاوت اور درس و تدریس کی محافل پر فرشتوں کا حاضر رہنا اور اللہ کی خصوصی رحمت و سکینت کے نزول کی احادیث مشہورو معروف ہیں۔ پس وہ تمام احادیث جن میں مندرجہ بالا امور کا ذکر ہے وہ تکمیلِ قرآن کے موقعے کی برکات پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہ(صحابۂ کرام یا تابعین) ختمِ قرآن کے موقعے پر جمع ہوا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ختمِ قرآن کے موقعے پر اللہ کی خصوصی رحمت کا نزول ہوتا ہے‘‘۔ (الاذکار) حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نتائج الافكار میں تحریر کرتے ہیں کہ مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ختمِ قرآن کے موقعے پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے‘‘۔ چنانچہ عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ ختمِ قرآن کے موقعے پر حاضری کو پسند کرتے تھے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’مدینہ میں ایک قاری تلاوت کیا کرتا تھا، پس عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کسی شاگرد کی ذمےداری لگاتے کہ جب اس کا ختم ہونے لگے تو ہمیں اطلاع کرنا، جب اطلاع ملتی تو فرماتے: ’’چلو ہمارے ساتھ تاکہ ہم ختمِ قرآن کے موقعے پر حاضر ہو جائیں‘‘۔ (فضائل القرآن لابن الضريس الرازي) تابعین رحمہم اللہ کا بھی اس طرح کا عمل رہا ہے چنانچہ حكم بن عُتَيْبَه رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے میری طرف یہ پیغام بھجوایا: ’’ہمارا ختمِ قرآن کا ارادہ ہے اس لیے آپ کو دعوت دیتے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ختمِ قرآن کے موقعے پر دعائیں قبول ہوتی ہیں، پھر آپ اس موقعے پر مختلف دعائیں مانگا کرتے تھے‘‘۔ (فضائل القرآن لأبي بكرجعفر الفِرْيابِي) ایک دوسری روایت میں حَکَم فرماتے ہیں: ’’حضرت مجاہد رحمہ اللہ اور عبدۃ بن لبابہ رحمہ اللہ اور دوسرے لوگ قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جب ختم کا ارادہ کرتے تھے، ہمیں بلا بھیجتے اور کہتے ہمارے پاس آؤ کہ ختمِ قرآن کے موقعے پر رحمت کا نزول ہوتا ہے‘‘۔ (تفسیر قرطبی)
ارتحال کا لفظی معنیٰ عازمِ سفر ہونا ہے۔ لیکن علوم ِقرآن کی اصطلاح میں ارتحال سے مراد یہ ہے کہ تلاوت کا ایک دور مکمل کرتے ہی اگلا دور شروع کر لیا جائے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تکمیلِ قرآن کے بعد فور ی طور اگلے دورِتلاوت کی ابتدا کرنا چاہیے، علماے سلف اسی کو پسند کرتے تھے اور وہ اس حدیث کو دلیل بناتے ہیں: رسول اللهﷺنے فرمایا: «خَيْرُ الأعْمالِ الحَلُّ وَالرِّحْلَةُ».’’سفر سے واپس آتے ہی روانہ ہو جانا بہترین اعمال میں سے ہے‘‘۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! اس سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: «افْتِتاحُ القرآنِ وخَتْمُه».’’قرآن کے دور کی ابتدا کرنا اور اس کی تکمیل کرنا‘‘۔ (التبیان) سیدنا عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺسے ایک آدمی نے سوال کیا: یا رسول اللہ! کون سا عمل افضل ہے؟ آپﷺنے فرمایا: «عَلَيْكَ بِالْحَالِّ الْمُرْتَحِلِ».’’تم حال و مرتحل کا عمل اختیار کرو‘‘۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حال ومرتحل سے کیا مراد ہے فرمایا: «صَاحِبُ الْقُرْآنِ يَضْرِبُ فِي أَوَّلِهِ حَتَّى يَبْلُغَ آخِرَهُ، وَيَضْرِبُ فِي آخِرِهِ حَتَّى يَبْلُغَ أَوَّلَهُ كُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ».’’قرآن کی تلاوت کرنے والا، جو اوّلِ قرآن سے تلاوت کرتا ہے، یہاں تک کہ آخر تک جا پہنچتا ہے اور آخر سے دوبارہ ابتدا پر آجاتا ہے اور جب بھی سفر (یعنی تلاوت) کی تکمیل کرتا ہے دوبارہ ابتدا کر دیتا ہے‘‘۔ ( معجم الکبیر) سیدنا ابی ابنِ کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺکا طرزِ عمل نقل فرمایا ہے: أَنَّ النَّبِيَّﷺكَانَ إِذَا قَرَأَ: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ افْتَتَحَ مِنَ الْحَمْدِ ثُمَّ قَرَأَ مِنَ الْبَقَرَةِ إِلَى: ﴿أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾، ثُمَّ دَعَا بِدُعَاءِ الْخَتْمَةِ.’’جب رسول اللہﷺسورۃ الناس کی تلاوت فرما لیتے تو سورۂ فاتحہ سے دوبارہ ابتدا فرما دیتے اور پھر سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرتے یہاں تک کہ: ﴿أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ پر پہنچ جاتے اس کے بعد ختمِ قرآن کی دعا فرماتے‘‘۔ (جامع البيان في القراءات السبع، أبو عمرو الداني)
امام ابنِ قیم الجوزیہ رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب جلاء الأفهام في فضل الصلاة على محمد خير الأنام میں ختمِ قرآن کے موقعے کی دعا کا تفصیل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’جب یہ دعا کا تاکیدی موقع ہے اور اس موقعے کی دعا کے مقبول ہونے کی بھی امید دلائی گئی ہے تو پس یہ درود پاک کے لیے بھی ایک عمدہ موقع ہے‘‘۔ اللهم صل علی محمد! پس ختمِ قرآن کے موقعے پر بارگاہ ِنبوی میں درود و سلام کا ہدیہ بھی ضرور پیش کرنا چاہیے اور یہ ایک طرح سے آپﷺکی جناب میں شکر گزاری بھی ہے کہ آپ ہی کے واسطے سے ہمیں یہ قرآن پاک عطا ہوا۔
اس موقعے پر تمام جائز دعائیں مانگی جا سکتی ہیں۔اس حوالے سےامام نووی رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: ’’الحاح اور آہ و زاری سے دعا کی جائے، جامع قسم کی دعائیں مانگی جائیں اور دعا کا ایک بڑا حصہ آخرت کے بارے میں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان عوام کی اصلاح اور فلاح و سلامتی نیز حکمرانوں کے لیے بھی نیکی و طاعات اور اقامت حق کی توفیق کی دعائیں کی جائیں‘‘۔
ڈاکٹر محمد رشید ارشد
مدیر غزالی فورم
قسط نمبر ۲
ہمارے ہاں جب بھی استعمار کی بات کی جاتی ہے تو ایک رٹا رٹایا جملہ سننے کو ملتا ہے کہ: ’’دیکھیں، ہمارے ہاں عرب استعمار بھی تو تھا۔ مسلمان جب ہندوستان آئے تو وہ بھی تو ایک سامراجی قوت (imperial powers) تھے‘‘۔ درحقیقت، اُس دور کو Age of Empire (عہدِ سلطنت) کہا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی نظم و نسق ملوکیت اور سلطنتوں پر مبنی تھا۔ جمہوریت کا موجودہ تصور اُس وقت رائج نہیں تھا، بلکہ بڑی سلطنتوں کے درمیان طاقت کا توازن ہی دنیا کا عمومی دستور تھا۔ اب جب بھی ہم یورپی استعمار اور نوآبادیاتی نظام پر تنقید کرتے ہیں تو فوراً یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ عربوں کا دور بھی تو سامراجیت ہی کی ایک شکل تھا۔ یونی ورسٹیوں میں کئی پروفیسرز، مرد و خواتین اس نکتے کو اٹھاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبۂ الہ آباد میں ’’عرب استعمار‘‘ کا ذکر کیا اور کہا کہ اسلام کے رخِ انور پر جو دھبہ اس نسبت سے لگا ہے، اسے دور کرنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی میں ضمنی طور پر عرض کر دوں کہ یہاں ایک بنیادی فرق زمانے کا ہے۔ جتنے بھی لوگ یہاں آئے، وہ عہدِ وسطیٰ (Medieval Age) میں آئے، جسے ہم مڈل ایجز کہتے ہیں۔ اس کے برعکس، نوآبادیاتی استعمار کا آغاز عہدِ جدید میں ہوا، جو صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کے ساتھ جُڑا ہوا تھا۔ پھر ایک اور بڑا فرق، جسے انصاف پسند سیکولر دانشور بھی تسلیم کرتے ہیں، یہ ہے کہ ماضی میں جو فاتحین آئے، ان میں سے بیش تر نے اسی سرزمین کو اپنا وطن بنایا۔ کچھ استثناءات جیسے محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کو چھوڑ کر، باقی یہاں بس گئے، یہیں کی مٹی کو اپنایا، اور یہیں دفن ہوئے۔ انھوں نے یہ نہیں کیا کہ یہاں سے دولت سمیٹ کر کہیں اور منتقل کر دی۔ بلکہ انھوں نے اس زمین کو اپنا ملک سمجھا اور اسی کے ساتھ جُڑے رہے۔ اُس دور میں سلطنتیں ضرور تھیں اور بادشاہوں میں تعیش بھی تھا، مگر سرمایہ داری کا نظام نہیں تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد یورپی استعمار کو خام مال اور منڈیاں درکار تھیں۔ انھوں نے انھی دو مقاصد کے تحت نوآبادیاتی نظام کو پروان چڑھایا۔ آج بھی اس حکمتِ عملی کو Three C’sاور بعض جگہ Three G’sکہا جاتا ہے:Gold دولت اور وسائل پر قبضہ، Gloryسیاسی و عسکری طاقت کا پھیلاؤ، God مذہبی تبلیغ اور مشنری سرگرمیاں۔ کچھ لوگ اسے Three C’s یعنی Civilization, Christianity, and Commerce(تہذیب، عیسائیت، اور تجارت) بھی کہتے ہیں۔ یہ تینوں عناصر یورپی استعمار کی بنیاد تھے، جبکہ عہدِ وسطیٰ کی فتوحات میں یہ عنصر اس شدت سے موجود نہیں تھا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور ان سے پہلے کے فاتحین میں فرق واضح کرنے کے لیے ایک ہندو مؤرخ ہربنس مکھیہ ایک دل چسپ مثال دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عہدِ وسطیٰ میں دولت کے حصول کی ہوس اس شدت سے موجود نہ تھی، بلکہ سخاوت اور بے نیازی کا جذبہ غالب تھا۔ مثال کے طور پر، عبدالرحیم خانِ خاناں، جو ایک مشہور شاعر اور درباری عہدے دار تھے، کے پاس فارسی کے معروف شاعر نظیری حاضر ہوا اور کہا: میں نے کبھی ایک لاکھ روپے اکٹھے نہیں دیکھے۔ خانِ خاناں نے فوراً ایک لاکھ روپے منگوائے اور نظیری کے سامنے ڈھیر کر دیے۔ جب نظیری نے خوش ہو کر کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں نے ایک لاکھ روپے ایک ساتھ دیکھ لیے! تو خانِ خاناں نے تمام رقم اُسے بخش دی۔ اب اسی کو غالب کے زمانے سے موازنہ کریں، جہاں غالب کو اپنی پنشن کے حصول کے لیے دہلی کی خاک چھاننی پڑی، بارہا دربار کے چکر لگانے پڑے اور سفارشوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑے۔ ہربنس مکھیہ کا کہنا ہے کہ دولت سے بے نیازی کا رویہ عہدِ وسطیٰ اور عہدِ جدید میں ایک جوہری فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ استعمار میں دولت کو جمع کرنا اور بڑھانا اولین ترجیح بن گئی، جبکہ عہدِ وسطیٰ میں بادشاہوں کے ذاتی تعیش کے باوجود سرمایہ داری کی ہوس اس شدت سے نہیں تھی۔ یہ فرق مزید کئی پہلوؤں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ بنگال کے قحط کی مثال لیجیے، جہاں نوآبادیاتی استحصال کے باعث لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے۔ اس کے پیچھے جو معاشی و سیاسی عوامل کارفرما تھے، وہ سب کے علم میں ہیں۔ یہی وہ بنیادی نکات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور یہی وہ تاریخی پس منظر ہے جس کی روشنی میں ہمارے نظامِ تعلیم پر بھی نظر ثانی ضروری ہے۔
علم کی تقسیم: کار آمد علم کی ترویج
انگریز کے آنے کے بعد تین قسم کی تبدیلیاں آئیں، ان میں زبان، علم اور تعلیم میں تبدیلی شامل تھی۔ علم اور تعلیم ایک نہیں ہے، تعلیم پورے مکینزم کا نام ہے، یعنی اپنا ورثہ، تہذیبی اوضاع اور علوم کو آگے منتقل کرنے کا پورا عمل تعلیم کہلاتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے زبان کو بدل دیا اور اس کی جگہ ایک اجنبی زبان لے کر آئے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں مقامی زبانیں غیر علمی زبانیں ہیں، ایک جملہ بہت معروف ہے کہ میکالے نے کہا تھا کہ میں ہندوستان کا کل علمی سرمایہ یورپ کی لائبریری کی ایک شیلف کے برابر بھی نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نہ ان کی زبانوں میں کوئی بڑائی ہے اور نہ ان کے علوم میں کوئی وسعت ہے۔ اگرچہ ابتدا میں انھوں نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا جس میں مقامی زبانوں کی ترویج کی گئی، مگر آخر میں یہ تجویز لائی گئی کہ ہمیں انگریزی زبان کو رائج کرنا چاہیے۔ اس تحریک میں ایک بڑے عہدے دار ٹی بی میکالے نے اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی برِ صغیر پاک و ہند میں جو نظامِ تعلیم رائج ہے اس کا بانی وہی میکالے ہے۔ اس نے جو مقصد متعین کیا اسے چھپا کر نہیں رکھا، اس نے واضح طور پر کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے علوم سیکھیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ علوم بھی ہمارے ہوں اور زبان بھی ہماری ہو۔ پھر علم کے حوالے سے ان کا تصور Knowledge Useful یعنی کار آمد علم کا ہے کہ ہمارا علم کار آمد ہونا چاہیے۔ کار آمد ہونے کا مطلب ہے کہ ہم یہاں سے سرمایہ پروڈیوس کرنا چاہتے ہیں تو کیا ہماری حکومتی مشنری چلانے کے لیے یہ لوگ کار آمد ہیں یا نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے وہ علم جو کار آمد نہیں ہے اس کو ہمیں چھوڑ دینا چاہیے، اب جو روایتی علم تھا وہ کار آمد نہیں تھا اس لیے اسے نصابِ تعلیم سے خارج کر دیا گیا۔ شیخ الہند رحمہ اللہ جب 1920ء میں مالٹا سے آنے کے بعد علی گڑھ گئے وہاں انھوں نے خطاب کیا، اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم انگریزوں کے لیے سستے مزدور پیدا کریں۔ چنانچہ کار آمد علم کے تصور نے ہمارے پورے نظامِ تعلیم میں تبدیلی پیدا کی، جس کی وجہ سے آج تک ہم اسی طرزِ عمل پر چل رہے ہیں۔ یعنی وہ جو انگریزوں کے لیے سستے مزدور پیدا کرنے کا عمل تھا وہ آج تک بھی لمز اور آئی بی اے میں جاری ہے۔ سافٹ ویئر سینٹرز، کال سینٹرز میں بیٹھے ہوئے کسی کا نام عبد اللہ ہے کسی کا نام عبدالرحمٰن ہے وہ انگریزی لہجے میں بات کر رہے ہیں اور امریکہ میں لوگوں کے مسائل وہ یہاں بیٹھ کے حل کر رہے ہیں۔ عالمگیریت کے بعد وہ جو سستے مزدور ہیں انھیں آؤٹ سورس کر دیا گیا، اس کے بہت سے اسباب ہیں، ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ لیبر بہت مہنگی ہے فی گھنٹا اتنے ڈالر یا پاؤنڈ نہیں دیں گے، اسی طرح ان کے مماک میں ورکنگ کنڈیشنز بہت سخت ہیں۔ اس کے برعکس سری لنکا، بنگلہ دیش اور ویتنام میں تو ایسا کچھ بھی نہیں، یہاں لیبر سستی ہے، اسی طرح بارہ بارہ گھنٹے کام کروائیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق 50 ڈگری سے اوپر کھلی جگہ پر لیبر سے کام نہیں لیا جا سکتا، مگر عرب امارات، کویت وغیرہ میں درجۂ حرارت کبھی 52 یا 53 پر بھی جاتا ہے، مگر ان ممالک میں پھر بھی آفیشل درجۂ حرارت کو 48 یا 49 سے بڑھنے نہیں دیا جاتا تاکہ اعتراض نہ کیا جاسکے۔ اس تصورِ علم کا اثر ادب پر بھی پڑا، حالی نے مثنوی میں اپنے علوم، علمِ کلام، فقہ، تصوف، بلاغت، منطق اور فلسفے پر ایک ایک کا نام لے کر تبرا کیا ہے۔ ادب پر تبرا کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بد تر
گناہ گار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد کے افسانے توبۃ النصوح سے میں کچھ اقتباسات پڑھنا چاہتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم کا تصور، ادب کا تصور کیسے بدلا۔ وہ کہتے ہیں کہ نصوح جب خلوت خانے میں پہنچا تو وہاں کیا دیکھتا ہے کہ: ’’اُس میں تکلف کے معمولی سازو سامان کے علاوہ کتابوں کی الماری تھی۔ دیکھنے میں تو اتنی جلدیں تھیں کہ انسان ان کی فہرست لکھنی چاہے تو سارے دن میں بھی تمام نہ ہو، لیکن کیا اردو کیا فارسی سب کی سب کچھ ایک ہی طرح کی تھیں: جھوٹے قصے، بےہودہ باتیں، فحش مطلب، لچے مضمون، اخلاق سے بعید، حیا سے دور…. آخر میں یہی رائے قرار پائی کہ ان کا جلا دینا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ بھری الماری کتابیں، لکڑی کنڈے کی طرح اوپر تلے رکھ آگ لگا دی‘‘۔ نصوح کا یہ برتاؤ دیکھ اندر سے باہر تک تہلکہ اور زلزلہ پڑ گیا۔ علیم دوڑا دوڑا جا اپنا کلیاتِ آتش اور دیوانِ شرر اٹھا لایا۔ اور باپ سے کہا کہ جناب میرے پاس بھی یہ دو کتابیں اسی طرح کی ہیں۔ نصوح نے ان کتابوں کو بھی دو چار جگہ سے کھول کر دیکھا اور کہا کہ واقع میں ان کے مضامین بھی جہاں تک میں دیکھتا ہوں برے اور بےہودہ ہیں لیکن تمھاری نسبت مجھ کو خدا کے فضل سے اطمینان ہے…. علیم نے ’’آتش‘‘ کو دہکتی آگ اور ’’شرر‘‘ کو جلتے انگاروں میں پھینک دیا۔ علیم کی دیکھا دیکھی میاں سلیم نے بھی ’’واسوختِ امانت‘‘ لا باپ کے حوالے کی اور کہا کہ ایک دن کوئی کتاب فروش کتابیں بیچنے لایا تھا۔ بڑے بھائی صاحب نے فسانۂ عجائب، قصۂ گل بکاؤلی، آرائشِ محفل، مثنویِ میر حسن، مضحکاتِ نعمت خان عالی، منتخب غزلیاتِ چرکین، ہزلیاتِ جعفر زٹلی، قصائدِ ہجویہ مرزا رفیع سودا، دیوانِ جان صاحب، بہارِ دانش باتصویر، اِندر سبھا، دریاے لطافت میر انشاء اللہ خان، کلیات رند وغیرہ بہت سی کتابیں اس سے لی تھیں‘‘۔ (توبۃ النصوح، ص:۳۳۲) آپ غور کریں کیا ذہن سازی ہو رہی ہے کہ یہ جو ہمارا علم تھا یہ بےکار تھا۔ حسن عسکری صاحب نے محسن کاکوروی پر ایک بڑا اچھا مضمون لکھا ہے کہ انھوں نے نعت کے تصور کو کیسے بدلا۔ اور جو جدید شاعر آئے انھوں نے کس طریقے سے پیغمبر کو Humanize کیا، یعنی پہلے اگر زیادتی یہ تھی کہ پیغمبر کو divinize کیا گیا تھا ، تو جدیدیت کے بعد یہ ہوا کہ پیغمبر کو humanize کیا گیا۔ مثلاً حالی کہتے ہیں:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
نظمِ تعلیم پر اثرات
جب استعمار آیا تو جدید نظام کے علی گڑھ جیسے اداروں پر اثرات تو ظاہرو باہر ہیں، مگر بات یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ اگر گہرائی میں اس کا جائزہ لیں تو روایتی نظمِ تعلیم میں بھی غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوئی۔ دینی تعلیم اور مدرسے کے نظم پر بھی اس جدید نظامِ تعلیم کا بہت اثر پڑا ہے۔ Islamic Revival in British India Deoband 1860-1900، ایک کتاب ہے جس کے مصنف Barbara D. Metcalf ہیں۔ اُس میں اس بات کا ذکر ہے کہ مدرسے کا نظم اور اس کا تصور بدل گیا۔ چونکہ مختلف اداروں کے بانیان انگریز کے یہاں آنے کے بعد کمپنی کی ملازمت سے وابستہ رہے۔ ملازمت کے دوران انھوں نے یہاں انگریزوں کا نظم اور انتظام دیکھا۔ جو روایتی نظم ِ تعلیم تھا اس میں نہ کوئی متعین نصاب ہوتا تھا، نہ متعین سال ہوتے تھے کہ اتنے سال میں یہ کورسز ہو ں گے اور نہ ہی کلاسز کا کوئی مخصوص نظام تھا۔ مگر انگریز کے آنے کے بعد روایتی دینی اداروں میں کافی تبدیلیاں آئیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ چندے کا پیدا ہو گیا جو آ ج تک چل رہا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے شروع ہی میں اصولِ ہشت گانہ لکھے تھے اس میں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی کہ مدسہ کسی مستقل آمدنی کے بجائے اصحابِ خیر کے تعاون سے چلےگا۔ اسی طرح ایک نظم کے تحت ادارے کے امور انجام دیے جائیں گے۔ اصولِ ہشت گانہ کے موضوعات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تبدیلی کیسے پیدا ہوئی۔ پھر جدید ادارہ جاتی مسائل پیدا ہوئے، دیوبند جیسے روایتی اور دینی ادارے میں طلبہ کی ہڑتالیں ہوئیں، ہڑتال کے خلاف باقاعدہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ لکھا۔ غور کریں تو یہ سارا اس نظم کی وجہ سے ہوا۔ اسی طرح جدید نظم سے پہلے سوال یہ ہوتا تھا کہ آپ کے استاذ کون ہیں، آپ نے کن سے پڑھا ہے؟ جبکہ آج یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کہاں سے فارغ ہیں؟ اب استاذ کون ہے یہ اہم نہیں ہے رہا۔ اس تبدیلی کے باوجود مدرسہ جیسا تیسا تھا ہماری چاہت یہ ہوتی تھی کہ یونی ورسٹی اس کے ماڈل پر آئے۔ لیکن اب تو الٹا مدرسہ یونی ورسٹی کے ماڈل پر ڈھل رہا ہے اور یونی ورسٹی کے نظام کو اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسے ایک سانحہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال جدید نظام نے ہمارے اوپر جو اثرات مرتب کیے اور اس کی وجہ سے جو تبدیلی آئی ہے وہ بہت واضح ہے۔ آپ ’’مسافرانِ لندن‘‘ کا مطالعہ کریں جب سر سید انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے بیٹے محمود کو لے گئے تھے، اس سفر میں ان کے ایک اور بیٹے اور خادم بھی تھے۔ ان کا سفر سمندری جہاز کے ذریعے تھا اور راستے میں سید محمود بیمار ہوگئے، جب طبیب نے ایسی دوا تجویز کی جس میں الکحل ملا ہوا تھا تو سید محمود نے پینے سے انکار کیا باوجود اس کےلوگ سمجھا رہے ہیں کہ یہ عذر ہے اور اس میں دوائی کے طور پر اس کی اجازت ہوتی ہے۔ اس حالت میں انھوں نے کئی دن بہت مشکل سے گزارے لیکن شراب پی کے نہیں دی۔ پھر یہی سید محمود جب تعلیم مکمل کر کے آئے تو یہ تبدیلی آچکی تھی کہ ان کی وفات بھی شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے ہوئی۔ اسی طرح انھوں نے اپنے والد سر سید احمد خان کو گھر سے بھی نکال دیا اور سر سید کا جنازہ کسی اور جگہ سے اٹھا۔ ’’تقاریرِ سر سید‘‘ میں سب سے چھوٹی مگر عبرت آموز تقریر اسی سید محمود کے بارے میں ہے۔ مرتب اسماعیل پانی پتی نے اس کا عنوان قائم کیا ہے: ’’سر سید کی سب سے مختصر اور درد انگیز تقریر، 1897ء بہ مقام علی گڑھ‘‘۔ شروع میں اسماعیل پانی پتی کا ایک چھوٹا سا نوٹ ہے: ’’آنر ایبل جسٹس سید محمود سر سید کے فرزند نے جب ہائی کورٹ کی ججی سے استعفیٰ دے دیا تو اس کے بعد نہ معلوم کس طرح ان کو شراب پینے کی لت پڑ گئی۔ سرسید کو خبر ہوئی تو انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ بیٹا یہ عادت چھوڑ دے، مگر باپ کی ہر نصیحت بے اثر رہی۔ آخر تنگ آ کر سر سید نے ایک پرائیویٹ اجتماع کیا، جس میں اپنے خاص خاص دوستوں کو بلایا، سید محمود بھی موجود تھے۔ مگر یہ کسی کو پتا نہ تھا کہ آخر سر سید نے کیوں لوگوں کو جمع کیا ہے اور ہر شخص اپنی جگہ پر حیران تھا۔ جب سب لوگ آگئے تو سر سید کھڑے ہوئے اور انتہائی رقتِ قلب کے ساتھ انھوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’میرے معزز احباب! میں نے آپ صاحبان کو اس وقت اس لیے یہاں تشریف لانے کی زحمت دی ہے کہ آپ سب حضرات جو میرے ہم درد اور بہی خواہ ہیں میں آپ سب سے نہایت منّت و زاری کے ساتھ اپنی ایک دعا پر آمین کہنے کی التجا کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ میرے فرزند سید محمود کی موت کو شراب آلود زندگی پر ترجیح دیں اور میرے ساتھ اس کی موت مانگنے میں شریک ہوں۔ میں خداوندِ کریم کے حضور اس کی موت کی دعا مانگتا ہوں اور آپ میرے ساتھ آمین کہیں۔ چونکہ میرے نزدیک شرابی زندگی سے موت بدرجہا بہتر ہے‘‘۔ یہ اس نظام تعلیم کے اثرات کی بالکل ٹھوس مثال ہے کہ سر سید کے بیٹے سید محمود جب انگلینڈ جا رہے تھے اس وقت ان کی حالت کیا تھی، پھر جب پڑھ کے آگئے، جج بن گئے اور انگریزوں سے بہت اچھے مراسم تھے اور پھر ان کا حال یہ ہوا۔ شیخ محمد اکرام نے ’’موجِ کوثر‘‘ میں جامعۂ ملیہ کا ذکر کیا ہے کہ جامعۂ ملیہ کن حالات میں بنی۔ اس کے ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ سر سید نے جو خواب دیکھا تھا علی گڑھ کا، وہ اس کی تعبیر ثابت نہیں ہو سکا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’سرکاری ملازمت کو علی گڑھ کا اہم ترین عملی مقصد بنانے کا برا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں ایک پست درجے کی مادیت اور شیٔیت پسندی پیدا ہو گئی، جو نہ صرف طلبہ کی مذہبی ترقی اور روحانی تربیت کے لیے ناسازگار تھی بلکہ جس نے ان کی اصل دنیوی ترقی پر بھی اثر ڈالا۔ دنیا میں ترقی کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحتِ جسمانی، ہوش و خرد اور کیرکٹر۔ صحیح کامیابی کے لیے تینوں چیزیں درکار ہیں، لیکن کیرکٹر کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ اگر عزائم بلند نہ ہوں یا بلند ارادوں کی تکمیل کے لیے شوق، محنت، مستعدی، قربانی، ارادے کی پختگی، ایمانِ کامل اور طبیعت پر قابو نہ ہو تو قوی ہیکل جثوں اور تیز طرار دماغوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ علی گڑھ میں یہی ہوا۔ حقیقی یا خیالی ضروریات نے مطمحِ نظر کو محدود کر دیا اور روحانی کمزوری سے کیرکٹر پست ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جدید اور باقاعدہ تعلیم کے باوجود نہ صرف قدیمی نقطۂ نظر سے بلکہ دنیوی اور ظاہری کامیابی کے لحاظ سے بھی طلبۂ علی گڑھ اس بلندی پر نہ پہنچے جو علی گڑھ کالج کے دقیانوسی اور قدیم الخیال لیکن روحانی طور پر سربلند اور کیرکٹر کے لحاظ سے پختہ کار بانیوں نے حاصل کی تھی۔ جن لوگوں نے مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر تعلیم پائی تھی ان میں تو سرسید، محسن الملک اور وقار الملک جیسے مدبر اور منتظم پیدا ہو گئے۔ جو لوگ انگریزی سے قریب قریب نا واقف تھے اور جن کے لیے تمام مغربی ادب ایک گنجِ سربستہ تھا انھوں نے نیچرل شاعری اور ایک جدید ادب کی بنیاد ڈال دی اور آبِ حیات، سخن دانِ فارس، شعر و شاعری، مسدس حالی جیسی کتابیں تصنیف کر لیں۔ لیکن جن روشن خیالوں نے کالج کی عالی شان عمارتوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور جن کی رسائی مغرب کے بہترین اساتذہ اور دنیا بھر کے علم ادب تک تھی۔ وہ مطمحِ نظر کی پستی اور کیرکٹر کی کمزوری سے فقط اس قابل ہوئے کہ کسی معمولی دفتر کے کل پرزے بن جائیں یا اپنے بانیوں کے خیالات اور ان کی عظمت کا کوئی اندازہ کیے بغیر جو باتیں ان کے مخالف کہہ رہے تھے (جو خود مکتبوں اور مسجدوں کے پروردہ تھے) انھی کو زیاده آب و تاب اور رنگ وروغن دے سکیں‘‘۔ اس مادیت اور شیٔیت پسندی کا جو اثر اساتذہ پر بھی ہوا اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’اساتذہ کی علمی اہلیت اور فنی قابلیت تو ساری تھی، لیکن ان کی نگاہیں بلند نہ تھیں۔ انھوں نے یہ تو نہ کیا کہ دولتِ دنیا میں سے مختصر سے مختصر پر کفایت کریں، اور اپنے علمی شوق کی تکمیل، تصنیف و تالیف اور نامِ نیک کو حاصلِ زندگی سمجھیں۔ ان کے نزدیک علم و فن کھانے کمانے کا ذریعہ تھا۔ اس لیے بالعموم یہی خواہش ہوتی کہ علمی زندگی پر مُردنی چھا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن مادی زندگی کی بہار ضرور لوٹی جائے‘‘۔ پھر آگے کہتے ہیں: ’’علی گڑھ کے پروفیسروں میں علمی قابلیت، مذاق کی شستگی اور نیک ارادوں کی کمی نہیں، لیکن جب خیالات کا رخ پھر گیا اورہمتیں پست ہو گئیں تو یہ خوبیاں بے کار ثابت ہوئیں۔ اور اساتذہ کا وقتِ عزیز ڈرائنگ روم کی تزئین، خوش معاشی، ضیافت بازی، کلب بازی، گپ بازی (اور ہاں، پارٹی بازی) کی نذر ہونے لگا۔ اس فضا میں علمی زندگی کا فروغ پانا محال تھا‘‘۔ پھر مزید کہتے ہیں: ’’خیالات میں ایک عجب طرح کی ’’ڈھل مل یقینی‘‘ یعنی روحانی کمزوری اور ذہنی بزدلی آ گئی‘‘۔ اور آگے کہتے ہیں کہ کیفیت یہ ہوگئی ہے کہ اگر: ’’ کسی طرف سے اسلام یا مسلمانوں یا علی گڑھ کے خلاف کوئی آواز اٹھے اس پر لبیک کہنے والے سب سے پہلے علی گڑھ سے نکلیں گے‘‘۔ (موجِ کوثر، ص:۱۴۸تا ۱۵۰) اسی طرح Beverley Nichols ایک مصنف ہے وہ ہندوستان میں رہے ہیں۔ غالباً 1944ء میں انھوں نے میں ایک کتاب لکھی جس کانام ہے: Verdict on India اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ہوا۔ اس میں آخری باب کا نام ہے: To quit or not to quit? ’’چھوڑنا ہے یا نہیں چھوڑنا؟‘‘۔ چونکہ اس زمانے میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک چل رہی تھی، تو انگلستان میں بھی بحثیں چل رہی تھیں کہ کیا کریں ان کی جان چھوڑیں؟ اس مصنف نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ یہ لوگ تو اس قابل ہی نہیں کہ اپنا دفاع کر سکیں ان کو ہماری ضرورت ہے۔ ہم سے پہلے یہاں بہت بڑا فساد برپا تھا، طوائف الملوکی تھی۔ ہم یہاں آئے اور اس ملک کو استحکام بخشا، یہاں امن نہیں تھا، ہم نے ہندوستان کو امن دیا۔ کوئی طاقت ور قانون نہیں تھا گویا سرزمینِ بے آئین تھا، ہم نے قانون دیا اور آخر بہت بڑا دعویٰ کیا کہ ہم نے ہندوستان کو آزادی بھی دی۔ آپ اندازہ کریں کہ کس ڈھٹائی سے یہ بھی کہا جا رہا ہے اور آج تک انگریز کے اس قابوس کا بھوت یہاں موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کرنا کیا چاہیے اور ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے؟ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔ ٹھیک ہے ہونا چاہیے مگر یہ خیال کریں کہ ساری تنقید، دین اور دینی روایت پر نہ ہو بلکہ جو جدید علم اور جدید ادارے ہیں، ان کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھیں، ان پر بھی غور کریں کہ ان افکار، ان اداروں اور ان آلات میں سے کون سے ایسے ہیں جو ہماری تاریخ، ہماری روایت، ہمارے انفس اور آفاق کے ساتھ موافق ہیں انھیں لینا چاہیے اور جو سازگار نہیں ہیں انھیں چھوڑ دیں۔ اکبر نے کہا تھا:
ہوش یار رہ کے پڑھنا اس جال میں نہ پڑنا
یورپ نے یہ کہا ہے یورپ نےوہ کہا ہے!
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محقق، کالم نگار
جمعے کی نماز کے بعد اسلام آباد سے مردان کےلیے روانہ ہوا، تو راستے میں یہ جانکاہ خبر ملی کہ دار العلوم حقانیہ میں خود کش حملے میں مولانا حامد الحق شہید ہوگئے ہیں اور ان کے علاوہ کئی دیگر علما اور طالب علم بھی شہید یا زخمی ہوئے ہیں۔ کچھ دیر کےلیے تو سکتہ سا طاری ہوگیا۔ کون ایسا شقی القلب ہوسکتا ہے جو ان جیسے باعمل عالم کو اور مسجد اور دینی علوم کے مرکز کو یوں دہشت گردی کا نشانہ بنائے؟ پھر کئی اور ایسے واقعات یاد آئے جن میں اس سے پہلے بھی ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ کتنے ہی جلیل القدر علما کو پچھلے چند عشروں میں باقاعدہ ہدف بنا کر قتل کیا گیا، کتنے ہی مساجد برباد کیے گئے، کتنے حجروں اور کتنے جرگوں کو نشانہ بنایا گیا، کتنی دفعہ عوامی مقامات پر دھماکے کیے گئے، کتنے بے گناہ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، اور کتنے لوگ ”کولیٹرل ڈیمیج“قرار پا کر صرف اعداد و شمار کی صورت میں ذکر کیے گئے۔ جو ہوا، وہ انوکھا نہیں لیکن انتہائی تکلیف دہ ضرور ہے۔ مولانا حامد الحق دھیمے مزاج کے آدمی تھے، بہترین کردار کے مالک، مثالی اخلاق کے حامل، ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنے والے، کسی کےلیے دل میں بغض نہ رکھنے والے، ہمیشہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اور دلوں کو جوڑنے والے۔ میرے ساتھ تو خیر ان کا بہت ہی شفقت کا معاملہ تھا، اور وہی نہیں، ان کے جلیل القدر والد شہید مولانا سمیع الحق بھی مجھ پر بڑی شفقت کرتے تھے۔ اس عظیم خانوادے کے ساتھ ہمارا کئی نسلوں کا تعلق ہے۔ میرے بچپن کی بات ہے۔ اس دن میں ننھیال میں تھا۔ اپنے سب سے چھوٹے ماموں، جو عمر میں مجھ سے کچھ ہی بڑےہیں، کے ساتھ رات گئے تک گپ شپ رہی اور بہت دیر سے سوئے۔ ابھی گہری نیند کے مزے لے رہے تھے کہ اچانک کانوں میں میرے نانا، جنھیں ہم ”خان داجی“ کہتے تھے، کی آواز پڑی: ”اٹھو، جلدی اٹھو“۔ خان داجی حکیم حافظ ضیاء الاسلام قادری (فاضل دیوبند) کی شخصیت بہت بارعب تھی۔ مجھ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے تھے، لیکن رعب بہرحال ان کا بہت تھا۔ اس لیے نیند اڑنچو ہوگئی۔ جلدی سے اٹھے، وضو کیا اور فوراً ہی نماز پڑھی کیونکہ خیال یہ آیا تھا کہ شاید فجر کی نماز قضا ہو رہی ہے اور خان داجی اس وجہ سے جلدی کر رہے ہیں۔ نماز پڑھ کر ان کے کمرے کی طرف گیا، تو باہر اندھیرا تھا۔ حیرت ہوئی کہ ابھی تو فجر کا وقت ہی نہیں ہے، پھر خان داجی نے کیوں اٹھایا؟ وہ کہیں جانے کےلیے تیار تھے۔ ہمیں بھی ساتھ لیا۔ گاڑی میں بیٹھ گئے، تو کہا کہ بہت عظیم شخصیت کا انتقال ہوا ہے، تعزیت اور دعا کےلیے جانا ہے۔ پھر انھوں نے شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا ذکر کیا، ان کی علمیت اور ان کے روحانی مرتبے پر بات کی اور کہا کہ ان کی وفات پر دعا کےلیے جانے سے خود ہمیں روحانی فائدہ ہوگا۔
مولانا عبد الحق کے ساتھ یہی قلبی تعلق میرے دادا علامہ مفتی مدرار اللہ مدرار نقشبندی کا بھی تھا۔ ان بزرگوں کی باہمی محبت کے کئی واقعات ذہن میں آرہے ہیں لیکن کالم کا دامن تنگ ہے۔ دار العلوم حقانیہ کے مؤقر مجلے ”الحق“ میں میرے دادا کے علمی مضامین اور مکاتیب مسلسل شائع ہوتے تھے اور بہت ہی اہم موضوعات پر انھوں نے معرکہ آرا تحقیقات پیش کیں۔ ان مضامین میں کچھ بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے، جیسے ”بایزید انصاری پیرِ روشن یا پیرِ تاریک؟“ اور ”غلام احمد پرویز منکرِ حدیث یا منکرِ قرآن“۔ مولانا عبد الحق کے علاوہ ان کے عظیم القدر فرزندان، جو اپنی جگہ بڑا علمی مقام رکھتے ہیں، کے ساتھ بھی میرے دادا اور میرے والد گرامی جناب اکرام اللہ شاہد کا تعلق اسی طرح برقرار رہا۔ والد گرامی کو مولانا سمیع الحق شہید نے اپنی جانب سے متحدہ مجلسِ عمل کےلیے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد کیا، بعد میں وہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔ بعد میں بھی دار العلوم حقانیہ میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی جیسے اساطین کی آمد ہو، یا کسی علمی یا عملی مسئلے پر مشاورت کی مجلس ہو، میرے والد گرامی کو شیخ شہید بلاتے رہے۔ مجھے اپنے تعلیمی سفر اور عملی مصروفیات کی وجہ سے ایسی مجالس میں شرکت کے مواقع کم ملے، لیکن میرے بڑے بھائی افتخار احمد فاروق کو زیادہ توفیق ملی، اور اس وجہ سے شیخ شہید کے فرزندان بالخصوص مولانا حامد الحق اور مولانا راشد الحق کے ساتھ ان کا خصوصی تعلق بن گیا۔ مجھے البتہ یہ سعادت ضرور ملی کہ ”الحق“ میں میرے کئی مضامین اور مقالات شائع ہوئے۔ ان میں جہاد اور دہشت گردی کے موضوع پر وہ مقالہ بھی تھا جو 2005ء میں تین اقساط میں شائع ہوا اور اس میں میں نے خود کش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر صورتوں پر شرعی اصولوں کی روشنی میں تنقید کی تھی۔
مولانا حامد الحق اور مولانا سمیع الحق کے ساتھ ظلم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انھیں میڈیا پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جاتا رہا، اور نہ صرف ان کے علمی مقام اور مرتبے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بلکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اور مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر کے مابین اتفاق و اتحاد کےلیے ان کی کاوشوں اور مسلسل جدوجہد کو بھی دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مولانا حامد الحق نے اپنے والد کی طرح سعادت کی زندگی بسر کی اور شہادت کی زندگی پائی۔ ان کے ورثہ، بالخصوص ان کے جانشین مولانا عبد الحق ثانی، کے بارے میں یقین ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی علمی وراثت کا حق ادا کریں گے اور ان کی عملی جدوجہد کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ خود ہماری ذمے داری کیا ہے؟ کیا ان شہیدوں کا خون رائیگاں جائے گا یا ان کی شہادت سے ہمیں اس بات پر سوچنے کی توفیق ملے گی کہ دہشت گردی کا یہ ناسور کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ دہشت گرد ایسے ظالمانہ اور بزدلانہ حملوں کےلیے قرآن و سنت سے جو استدلال کرتے ہیں، اس میں کیا غلطی ہے؟ یہ کیسی جنگ ہے جس کی کوئی حدود اور قیود نہیں ہیں اور جس میں ”سب کچھ جائز“ سمجھا جاتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ایسے حملوں کا سلسلہ کیوں روک نہیں پارہے اور ان حملوں کے بعد ان کے ذمے داران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور انھیں ملکی آئین و قانون کے تحت قرار واقعی سزا دینے میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام کیوں ثابت ہورہے ہیں؟ مولانا حامد الحق کی شہادت کوئی تنہا یا الگ معاملہ نہیں ہے۔ واقعات کا ایک پورا سلسلہ ہے، اس شہادت سے پہلے بھی، اور اس کے بعد بھی۔ دو دن قبل بنوں میں دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو اعلان ہوا کہ حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ اس پہلو سے تو یقیناً دہشت گرد ناکام ہوئے کہ وہ چھاؤنی میں داخل نہیں ہوسکے، لیکن جو بڑا جانی و مالی نقصان ہوا، کیا اسے یہ کہہ کر بھلایا جائے کہ:
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا!
مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہ نامہ مفاہیم کراچی
قسط نمبر۲
گذَشتہ قسط میں ان صحافیوں کا تذکرہ شروع کیا گیا تھا جنھوں نے فلسطین میں خدمات انجام دیں اور عالمی میڈیا میں خصوصی توجہ حاصل کی، بالخصوص معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں ان کی خدمات بہت نمایاں رہیں۔ دو اہم ترین صحافیوں؛ شیریں ابو عاقلہ اور وائل الدحدوح کا ذکر گذَشتہ قسط میں گزر چکا ہے، مزید صحافیوں کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے:
اسماعیل الغول
اسماعیل الغول ۱۴، جنوری ۱۹۹۷ء کو شمالی غزہ کے مخیم الشاطی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پناہ گزینوں کے لیے قائم کیے گئے ایک اسکول میں حاصل کی جو عالمی ادارے اونروا کے زیرِ انتظام ہے۔ اسماعیل نے اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ غزہ میں داخلہ لیا اور صحافت میں بیچلرز کیا۔ ابتدائی طور پر مقامی رسائل و جرائد اور اخباروں میں کام کیا اور پھر الجزیرہ ٹی وی سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے بہت جلد صحافت کے شعبے میں مہارت حاصل کر لی اور غزہ میں نمایاں صحافیوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ۷، اکتوبر کو معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی اسماعیل نے دن رات خدمات انجام دینے کا بیڑا اٹھایا، قابض اسرائیلی ریاست کے مظالم کا پردہ چاک کیا۔ اسماعیل نے شمالی غزہ میں شدید بمباری کے دوران نشریات جاری رکھیں اور تباہ شدہ عمارتوں، زخمی شہریوں، معذور بچوں اور شہدا کی لاشوں کے مناظر نشر کر کے اسرائیلی ریاست کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی۔ اسرائیلی حکومت اور میڈیا نے ہمیشہ خود کو بےقصور، مظلوم، عالمی قوانین کا پابند، فلسطینی شہریوں کا ہم درد ظاہر کیا، لیکن اسماعیل کی کوششوں نے کئی دہائیوں پر مشتمل اسرائیلی دھوکے بازی کو چند مہینوں میں ناکارہ کر دیا۔ غاصب فوج کے الشفا اسپتال کے محاصرے کے دوران منظم قتلِ عام اور اسپتال کے سامان اور عمارت کو برباد کرنے کے مناظر اسماعیل الغول نے پوری دنیا کو دکھائے اور صیہونیوں کی سفاکیت طشت از بام کی، اسرائیلی فوج نے اسپتال کے احاطے میں مریضوں کو گولیاں ماریں، ڈاکٹروں پر تشدد کیا، انھیں بےآبرو کیا، وہاں موجود پناہ گزین شہریوں کی تذلیل کی اور انھیں باندھ کر اپنے ساتھ لے جاتے رہے، ان خبروں کو نشر کرنے پر اسماعیل زیرِ عتاب آ گئے اور انھیں ۱۸، مارچ کو الشفا اسپتال سے گرفتار کر لیا گیا، اسماعیل صحافیوں کی وردی میں تھے اور عالمی قوانین صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، ان کی گرفتاری جنگی جرم قرار دیتے ہیں لیکن غزہ کے صحافی اس تحفظ کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اسماعیل کو تفتیش کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کا سامان چھین لیا گیا اور ان کی توہین کی گئی، انھیں دھمکایا گیا لیکن ان کا عزم متزلزل نہ ہوا۔ وہ واپس آتے ہی دوبارہ خدمات انجام دینے لگے۔
جس روز تہران میں شیخ اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ کی شہادت ہوئی، اسی روز ۳۱، جولائی ۲۰۲۴ء کو اسماعیل الغول اپنے کیمرہ مین رامی الریفی کے ساتھ شیخ کے تباہ شدہ گھر پہنچے اور ملبے پر کھڑے ہو کر شیخ کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اسماعیل نہیں جانتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کی آخری نشریات ہیں۔ یہاں سے روانہ ہوتے ہی اسماعیل کی گاڑی کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا جس میں اسماعیل اور ان کے ساتھی رامی الریفی نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اسماعیل الغول کے نہایت قریبی دوست اور الجزیرہ کے مشہور صحافی انس الشریف کا کہنا ہے کہ حملے کی اطلاع ملتے ہی میں جاے وقوعہ پر پہنچا۔ اسماعیل کی گاڑی تباہ ہو چکی تھی، ہر طرف خون تھا اور اسماعیل کا جسدِ خاکی خاک و خون میں لتھڑا ہوا تھا، ان کا سر دھڑ سے جدا ہو کر کہیں دور جا گرا تھا۔ یہی حال مصور رامی الریفی کا تھا۔ اس افسوس ناک واقعے پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا۔ صحافیوں کے عالمی ادارے Committee to Protect Journalists (CPJ) اور Reporters Without Borders (RSF) نے اسماعیل کی مظلومانہ شہادت کی تصدیق اور اسرائیلی افواج کے اس جرم کی شدید مذمت کی۔ اسرائیل کے فوجی ترجمان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسماعیل حماس کا رکن اور دہشت گرد تھا، نکبہ فورس میں خدمات انجام دے رہا تھا اور ۷، اکتوبر کے قتلِ عام میں ملوث تھا۔ الجزیرہ نے اس پر سوال اٹھایا کہ اگر اسماعیل دہشت گرد تھا اور اتنے بڑے پیمانے پر حماس میں خدمات انجام دے رہا تھا تو اسرائیلی فوج نے ۱۸، مارچ کو اسماعیل کو گرفتار کرنے کے بعد تفتیش میں بےقصور ثابت ہونے پر رہا کیوں کیا۔ کیا اتنے ہائی پروفائل دہشت گرد کو بھی یوں ہی رہا کر دیا جاتا ہے؟ اس سوال کا اسرائیلی فوج کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اسماعیل الغول محض ایک صحافی ہی نہیں تھا، غزہ کے مصیبت زدہ عوام کے لیے مہربان دوست بھی تھا۔ وہ انتہائی اعلیٰ اخلاق کا حامل اور دوستوں میں بہت مقبول تھا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے صحافی چاہے وہ غزہ میں ہوں یا الجزیرہ کے صدر دفتر میں اسماعیل سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نئے صحافیوں کی رہنمائی کرتا تھا، انھیں رپورٹنگ کے طریقے اور اپنے بچاؤ کے سلیقے سکھاتا تھا، اسماعیل بمباری والے مقامات پر صرف نشریات ہی نہیں کرتا تھا بلکہ زخمیوں کو نکالتا تھا، انھیں اپنی ذاتی گاڑی میں اسپتال منتقل کرتا تھا، پناہ گزینوں کے کاموں میں معاونت کرتا تھا، طبیبوں کا حوصلہ بڑھاتا تھا۔ اسماعیل کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر وقت خدمت میں مشغول رہتا تھا، اسے نہ اپنی جان کی پروا تھی نہ بمباری کا خوف، جب وہ بہت زیادہ کام کرنے لگا تو اس کے والد نے اسے آرام کرنے کا کہا اور پیغام بھیجا کہ اپنا خیال رکھے۔ اسماعیل کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس نے جواب دیا کہ میرا کام میری زندگی سے زیادہ اہم ہے۔ جب غزہ میں الجزیرہ دفتر کے سربراہ وائل الدحدوح کو زخمی ہو کر ہجرت کرنا پڑی تو انھوں نے شمالی غزہ کی ذمے داری اسماعیل الغول کے حوالے کی، چنانچہ اسماعیل شمال میں خدمات انجام دیتا رہا جبکہ اس کے گھر والے وسطی غزہ میں پناہ گزین تھے۔ جنگ کے کچھ عرصے بعد اسرائیلی فوج نے شمال کا محاصرہ کر کے راستہ منقطع کر دیا۔ اسماعیل اپنے گھر والوں کو بہت یاد کرتا تھا لیکن چند کلو میٹر کی مسافت پر ہوتے ہوئے بھی ان سے ملاقات سے قاصر تھا۔ آٹھ مہینے تک اسماعیل کے گھر والے اس کی راہ تکتے رہے، بالآخر انھیں اسماعیل کی شہادت کی خبر موصول ہوئی۔ اسماعیل اپنی بیٹی اور اہلیہ کا ذکر کرتا تھا۔ شہادت سے دو دن قبل اسماعیل نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں اب تھک گیا ہوں اور آرام کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ وہ نہ دن میں سوتا تھا نہ ہی رات میں، اس پر صرف اپنے کام کی دھن سوار تھی۔ جس روز شیخ اسماعیل ہنیہ شہید ہوئے اسی روز اسماعیل الغول نے ان کے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر ان کی تصویر رکھ کر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا، جیسے ہی اسماعیل اپنے کیمرہ مین کے ساتھ روانہ ہوئے، اسرائیلی ڈرون نے انھیں شہید کر دیا، ان کی میت کے گرد غزہ کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی اور انھوں نے اس ظلم کی مذمت کرتے ہوئے اپنے غم کا اظہار کیا۔ اس موقعے پر بہادر صحافیوں نے عزم کیا کہ یہ قتل ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکتا، انھوں نے اسماعیل کے جسم پر موجود صحافتی جیکٹ کو اٹھا کر عہد کیا: ’’ہم اپنا کام جاری رکھیں گے چاہے کوئی ہمارا ساتھ دے یا ہمیں تنہا چھوڑ دیا جائے، اے اسماعیل! ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمھارا مقصد جاری رہےگا‘‘۔ تمام صحافیوں نے اسماعیل کے ساتھ اپنے گہرے تعلق اور اسماعیل کے اعلیٰ کردار کا ذکر کیا۔
اسماعیل الغول کسی فرد کا نام نہیں تھا، ایک ادارہ تھا، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا، اس کے ہونے سے صحافیوں کو سہارا تھا، وہ بچوں کو بہلاتا تھا، مریضوں کا رکھوالا تھا، طبیب اس کی باتوں سے حوصلہ پکڑتے تھے اور شہری دفاع کے کارکن اسے اپنے ساتھ مشغول پاکر باہمت ہو جاتے تھے۔ وہ غزہ کی رونق تھا اور اس کے ہونے سے اجالا رہتا تھا۔ اسماعیل الغول ایک قیمتی اثاثہ تھا، افسوس وہ ہم میں نہ رہا، محض ۲۷ سال کی عمر میں ہم سے جدا ہو گیا، لیکن وہ دنیا کو یہ پیغام دے گیا کہ انسان خاک سے اٹھا تھا، خاک میں مل جائے گا لیکن ملک و ملت کی خدمت اسے ایسا درجہ عطا کر دے گی جو آسمانوں میں بسنے والے تسبیح و مناجات میں مشغول فرشتوں سے بھی افضل ہوگا۔ اسماعیل الغول نے نہ صرف ظلمتِ شب کا شکوہ کیا بلکہ اپنے حصے کی شمع بھی جلائی، ایسی شمع جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی اور حرّیت پسندوں کی راہ روشن کرتی رہے گی۔ آج بھی ہمارے کانوں میں اسماعیل کے یہ الفاظ گونجتے ہیں جب وہ زخمیوں اور لاشوں کو اٹھاتے اور دیکھتے تھک جاتااور بھوک پیاس سے بےحال ہوجاتا، تو کہتا: ’’مجھے کیمرے کے سامنے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں، یہاں سب لوگوں کی طرح میں بھی بھوک سے بےقرار ہوں۔ ہم روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہیں لیکن یہ ہمارے لیے کوئی شرم کی بات نہیں، عیب تو ان میں ہے جو ہمارا ساتھ نہیں دیتے‘‘۔
ایمان الشنطی
ایمان حاتم الشنطی سن ۱۹۸۶ء میں پیدا ہوئیں۔ غزہ میں بطور فری لانسر صحافت کا آغاز کیا۔ محددو پیمانے پر مختلف اداروں سے وابستہ رہیں لیکن آپ نے صوت الاقصیٰ ریڈیو میں میزبان کے طور پر خدمات انجام دے کر شہرت حاصل کی۔ آپ کا پروگرام ’’اصل القصہ‘‘ عالمی سطح پر مقبول ہوا اور قضیۂ فلسطین سے دل چسپی رکھنے والوں کی کثیر تعداد اس سے مستفید ہوئی۔ ایمان شمالی غزہ میں اپنے شوہر اور تین چھوٹے بچوں کے ساتھ مقیم تھیں جب معرکۂ طوفان الاقصیٰ شروع ہوا۔ آپ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کے جنگی جرائم کو آشکار کیا۔ایمان کو بہت دھمکایا گیا لیکن انھوں نے شمالی غزہ میں رکنے اور نشریات جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ یوں تو وہ صفِ اول کی صحافیہ نہ تھیں لیکن اُن کی مظلومانہ شہادت نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ایمان نے ۱۱، دسمبر ۲۰۲۴ء کو فیس بک پر لکھا:’’تعجب ہے کہ ہم اب تک زندہ ہیں، شہدا پر سلامتی ہو‘‘۔ اس پوسٹ کے محض تین گھنٹے بعد شمالی غزہ کے محلے شیخ رضوان میں جنگی جہازوں کی گھن گرج سنائی دی اور کان پھاڑ دینے والے دھماکوں سے پورا محلہ لرز اٹھا۔ ایمان الشنطی کے اپارٹمنٹ پر اسرائیلی طیاروں نے میزائل داغ دیے جو پہلی دو منزلوں کو چیرتے ہوئے تیسری منزل تک پہنچے اور زبردست دھماکے سے پھٹ گئے۔حملے کی شدت اتنی تھی آگ کےشعلے دور تک دکھائی دیے لیکن افسوس کہ آگ کے ان شعلوں میں ایمان کی زندگی کا چراغ گُل ہو گیا۔ ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی شہید ہوئے اور تین کم سن بچے بھی۔ اِن بچوں کا جرم یہ تھا کہ اُن کی والدہ نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی، کیا یہ کوئی چھوٹا جرم تھا؟ پوری دنیا کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر ایمان کے مظلومانہ قتل کی مذمت کی گئی اور صیہونی جارحیت پر صداے احتجاج بلند کی گئی، بالخصوص اے بی سی نیوز نے ایمان پر مفصل تحریر شائع کی اور ان کے بھائی کا انٹرویو بھی نشر کیا۔
ایمان کو غزہ میں موجود خواتین صحافیوں نے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ وہ محض ایک صحافیہ ہی نہیں ایک مہربان دوست تھیں اور خواتین صحافیوں کے بقول وہ ایک عمدہ ذوق رکھتی تھیں اس لیے سب دوست خریداری اور دیگر کاموں سے قبل ان سے رہنمائی لیا کرتی تھیں۔ ایمان ایک صحافیہ ہونے کے ساتھ ساتھ تین کم سن بچوں کی والدہ بھی تھیں۔ سپاہی اگر جنگ میں دادِ شجاعت دیتا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کا کام ہی یہی ہے لیکن ایک ماں اپنے بچوں کو خطرے میں دیکھ کر بھی جاے پناہ تلاش نہ کرے، مہاجرین کے قافلے کا حصہ نہ بنے، بچوں کے روشن مستقبل کی فکر نہ کرے بلکہ ایک نیک مقصد کی خاطر ہر چیز داؤ پر لگا دے تو یہ واقعتاً یہ حیرت انگیز اور ایمان افروز کارنامہ ہے۔ ایک موقعے پر انھوں نے بمباری کے دوران اپنے گھر سے وڈیو پیغام جاری کیااور کہا:’’ابھی مجھ سے فقط ۵۰ میٹر دور ایک گاڑی پر میزائل گرا ہے‘‘، انھوں نے روتے ہوئے کہا: ’’ممکن ہے میں اپنے بچوں کو نہ بچا سکوں، ممکن ہے میں انھیں کچھ نہ کھلاسکوں‘‘،ذراان کی فلسطینی مٹی سے اِس محبت کو دیکھیے، یہ جوش، یہ ولولہ، یہ شوق اور جذبہ دیکھیے، وہ کہتی ہیں:’’ہم مر تو سکتے ہیں جھک نہیں سکتے‘‘۔ اللہ اللہ! چھوٹے بچوں کا ساتھ، لاشیں، خون، بمباری اور یہ ہمت!! ایک پیغام میں وہ روتے ہوئے کہتی ہیں: ’’رسول اللہﷺ نے اسی دن کے لیے کہا تھا کہ ان (فلسطینیوں) کو بے آسرا چھوڑنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، یا رسول اللہ! ہمیں بے آسرا کر دیا گیا، ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا‘‘۔ان کی ایک دوست نے انھی یوں خراجِ تحسین پیش کیا:’’ وہ لوگوں سے پیار کرتی تھی اور ان کی کامیابی سے محبت کرتی تھی، وہ ہر اس شخص کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتی تھی جسے وہ جانتی تھی اور اپنے دل میں اپنے کسی دوست کے لیے رنجش یا دشمنی نہیں رکھتی تھی ‘‘۔ صحافی عاصم النبیہ نے ان کی وفات پر لکھا:’’وہ عزم و عزیمت اور ثبات و استقلال میں خالص فلسطینیہ اور غزیہ تھیں، ہم انھیں آنسوؤں سے الوداع کرتے ہیں اور کیا شک ہے کہ ان ایسے لوگ مستحق ہیں کہ ان پر رویا جائے‘‘۔ مشہور صحافی انس الشریف نے بے ساختہ لکھا:’’قریب ہے کہ میری عقل کام چھوڑ دے، اسرائیل کو اُن سے کیا خطرہ تھا کہ انھیں اور ان کے شوہر اور بچوں کو مار دیا‘‘۔ ایمان الشنطی شوقِ شہادت رکھتی تھیں لیکن اس سعادت کی موت میں بھی انھیں اپنے پردے اور حیا کی فکر دامن گیر تھی، ان کی یہ پوسٹ دیکھیے:’’اگر میں مر جاؤں، تو مجھے بھاری اسلحے کے ساتھ قتل کیا جائے، تاکہ میری لاش ملبے کے نیچے نہ پڑی ہو۔ میرے اہلِ خانہ کو میری لاش نکالنےکے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی میری لاش رستے میں پڑی رہے کہ اسے کتے اور بلیاں کھائیں۔ اور نہ ہی ایسا کفن ہو جو میری لاش کو مناسب طریقے سے نہ ڈھانپے، اور نہ ہی میری لاش کی بے حرمتی کرتے ہوئے تصویریں بنائی جائیں۔ موت کی بھی ایک حرمت ہوتی ہے۔ اوراچھی موت یہ ہے کہ آپ راکھ بن کر اڑ جائیں اور یہی بہترین انتخاب ہے‘‘۔
جاری ہے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جہاں تک تجارتی بائیکاٹ کا تعلق ہے، یہ بھی جنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خود نبیِ اکرمﷺاور آپﷺکے ساتھیوں کا مکہ والوں نے شعبِ ابی طالب میں جو محاصرہ کیا تھا اور تین سال تک معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا ماحول قائم رکھا تھا، وہ معاشی جنگ ہی کا اظہار تھا۔ خود نبیِ اکرمﷺنے بھی بدر کے غزوے کا آغاز قریش کے تجارتی قافلے کا راستہ روکنے کی مہم سے کیا تھا، جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم قافلے کو روکنے کی طرف جا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا رُخ بدر کی طرف موڑ کر معرکہ بپا کروا دیا۔ صلحِ حدیبیہ میں کفارِ مکہ کی طرف سے یہ یک طرفہ اور غلط شرط مسلمانوں کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بنی تھی کہ باہم صلح کے دور میں قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص انھیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہو گی۔ اس شرط پر مسلمانوں کے اضطراب بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے چینی کے باوجود نبیِ اکرمﷺنے اسے معاہدہ کی خاطر منظور کر لیا تھا۔ مگر بعد میں مکہ والوں کو خود یہ شرط واپس لینا پڑی تھی جس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہﷺنے معاہدے کے مطابق انھیں قریش کے دو نمائندوں کے ساتھ واپس بھیج دیا، مگر واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے انھوں نے راستے میں قریش کے ایک نمائندہ کو قتل کر کے محفوظ جگہ ٹھکانہ بنا لیا جس میں رفتہ رفتہ وہ لوگ جمع ہوتے گئے جو مسلمان ہو گئے تھے مگر معاہدے کی رو سے مدینہ منورہ والے انھیں پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے مضبوط جتھا اور مرکز بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ جاری رہنے پر مکہ والوں نے اپنی تجارت کو خطرہ محسوس کیا تو خود وفد بھیج کر نبی اکرمﷺسے اس اڈے کو ختم کرنے کی گزارش کی اور اس کے لیے انھوں نے مذکورہ شرط واپس لے لی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ناکہ بندی اور تجارتی بائیکاٹ بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے اور جہاد کا ایک شعبہ ہے۔ پھر قرآنِ کریم نے جہاد کے مسائل کے ذکر میں ولا ینالون من عدو نیلاً فرما کر یہ اعلان کیا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جہاد کا حصہ اور عملِ صالح ہے۔ اس لیے اگر ہم آج غزہ کے مجاہدین کی اور کوئی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا منظم بائیکاٹ کر کے عملاً اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ کام منظم اور مربوط طریقے سے وسیع ماحول میں کرنا چاہیے اور ہمارے آج کے اس سیمینار کا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کو منظم کرنا اس جہاد میں ہماری عملی شرکت کا قابلِ عمل ذریعہ ہے اور ہمیں ہر طرح سے اس میں شریک ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
معروف نقاد، ماہرِ لسانیات
مرزا اسداللہ خاں غالب نے جہاں نظم و نثر میں اپنی اُپج اور جودتِ طبع سے ناقابلِ تقلید نمونے چھوڑے وہاں انھوں نے املا اور زبان کے ضمن میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے مزاج کے مطابق تقلید کی روش سے ہٹ کر بات کی۔ اُردو زبان اور املا سے متعلق اپنے بیش تر خیالات غالب نے اپنے خطوط میں پیش کیے ہیں۔ اکثر اپنے شاگردوں یا دوستوں کے نام خط میں کسی قواعدی یا املائی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے غالب نے کچھ اصول بھی بیان کیے ہیں اور کچھ تصحیحات بھی کی ہیں۔ ان میں سے کچھ نکات پیش ہیں۔ یہ نکات جامع القواعد (از قبلہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحب)، املاے غالب (از رشید حسن خاں)، غالب ِ صد رنگ (از سید قدرت نقوی)، مقالاتِ صدیقی (از عبدالستار صدیقی)، گنجینۂ غالب (از قاضی عبدالودود) اور غالب کے خطوط (از خلیق انجم ) سے ماخوذ ہیں:
۱۔ ہاے مختفی کے بجاے الف کا استعمال:
غالب کا کہنا تھا کہ عربی اور فارسی کے الفاظ کے آخر میں تو ہاے مختفی (یعنی ’’ہ‘‘ جو مثلاً زمانہ اور دیوانہ جیسے الفاظ میں آتی ہے اور الف کی آواز دیتی ہے) آسکتی ہے، لیکن اردو یا ہندی کے الفاظ کے آخر میں الف لکھنا چاہیے۔ غالب کی اس راے کی بعد میں آنے والے ماہرین مثلاً عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خاں نے بھی تائید کی۔ رشید صاحب نے لکھا ہے کہ ہندی یا اردو کے الفاظ، مثلاً اڈہ، انڈہ، بھروسہ، سمجھوتہ، تانگہ، پسینہ، مہینہ، دھوکہ ، کلیجہ وغیرہ کے آخر میں ہاے مختفی (یعنی ’’ہ‘‘ ) لکھنا غلط ہے اور ان کا درست املا اڈا، انڈا، بھروسا، سمجھوتا، تانگا، پسینا، مہینا، دھوکا، کلیجا وغیرہ ہے۔ گویا اس معاملے میں غالب کی راے درست تھی۔
۲۔ ذال کے بجاے زے کا استعمال:
غالب کا خیال تھا کہ حرفِ ذال (ذ) عربی حروف ِ تہجی کا حصہ ہے اور فارسی زبان میں ذال نہیں ہے اور اسی لیے وہ یہ تاکید کرتے تھے کہ فارسی الفاظ میں ذال نہ لکھی جائے اور ایسے فارسی الفاظ اُردو میں بھی ذال(ذ) کے بجاے زے (ز) سے لکھے جائیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فارسی زبان میں ذال کا وجود ہے اور قدیم زمانے سے ہے۔ قاضی عبدالودود، پروفیسر نذیر احمد، قدرت نقوی، عبدالستار صدیقی سب کا یہ خیال ہے کہ ذال کے مسئلے پر غالب کی راے درست نہیں۔ عبدالستار صدیقی نے لکھا کہ: ’’ہمارے ملک میں کچھ اوپر سو برس سے یہ مسئلہ زیرِ بحث ہے کہ فارسی لفظوں (گذشتن، پذیرفتن وغیرہ) میں ’’ذ‘‘ لکھنا چاہیے یا ’’ز‘‘۔ اس بحث کا آغاز مرزا غالب کے اس دعوے سے ہوا کہ فارسی زبان میں ذالِ معجمہ نہیں ہے‘‘۔ صدیقی صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’اس اجتہاد کے خلاف کسی نے کچھ کہا تو مرزا صاحب نے نہ مانا اور ’’ذ‘‘ کی جگہ ’’ز ‘‘ (یا کسی لفظ میں ’’د’’) لکھتے رہے‘‘۔ اس کے بعد صدیقی صاحب نے الطاف حسین حالی کی راے پیش کی ہے جو غالب کے شاگرد بھی تھے۔ حالی نے یادگار ِ غالب میں لکھا ہے کہ بعض الفاظ کا املا غالب اہلِ زباں اور زبان دانوں کے برخلاف دوسری صورت میں لکھتے تھے، مثلاً غلطیدن اور طپیدن کو غلتیدن اور تپیدن (یعنی ط کے بجاے ت) اور گذشتن اور گذاشتن کو گزشتن اور گزاشتن (یعنی ذال کے بجاے زے)۔ اس کے بعد حالی نے لکھا ہے کہ ’’ہم اس املا کو درست نہیں سمجھتے‘‘۔ عبدالستار صدیقی، قاضی عبدالودود اور رشید حسن خاں جیسے ماہرین کی بھی یہی راے ہے کہ گذشتن، گذاشتن اور پذیرفتن نیز ان سے بننے والے فارسی الفاظ میں ذال ہی درست ہے، مثلاً گذشتہ، پذیر، پذیرائی۔ اس معاملے میں غالب کی راے درست نہیں تھی۔
۳۔ مرکبات میں ’’ے‘‘ پر ہمزہ:
غالب بعض اوقات بہت سخت الفاظ میں بھی املاکے مسائل پر اپنی راے دیتے تھے۔ مثلاً مرزا تفتہ کو ایک خط میں لکھا: ’’یاے تحتانی تین طرح پر ہے‘‘ اور پہلی قسم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ہماے بر سرِ مرغاں‘‘ اور ’’عقلِ گرہ کشاے را‘‘ جیسے مرکبات میں ’’ے ‘‘ جزوِ کلمہ ہے۔ اور بقول ان کے ’’اس پر ہمزہ لکھنا عقل کو گالی دینا ہے‘‘۔ اسی طرح مرکبِ اضافی یا مرکب ِ تو صیفی یا مرکب ِ بیانی میں جہاں ’’ے‘‘ آئے وہاں بھی غالب کے خیال میں ہمزہ (ء) نہیں لکھنا چاہیے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ آشناے قد یم میں ’’ے‘‘ پر ہمزہ نہیں چاہیے۔ یعنی آ ج کل جو رواج ہو گیا ہے کہ باباے اردو، تمناے وصل، سوے مقتل ، آرزوے خواب ، رہنماے قوم وغیرہ جیسی تراکیب میں ’’ے ‘‘ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے (مثلاً بابائے اردو، ہمزہ کے ساتھ) وہ غالب کے خیال میں سراسر غلط ہے۔ یہ اور ایسے دیگر مرکبات ’’ے‘‘ پر ہمزہ کے بغیر ہی درست ہیں۔ یہی بات عبدالستار صدیقی، غلام مصطفی ٰخاں اور رشید حسن خاں کہتے ہیں، لیکن افسوس کہ اس درست بات کو ماننے پر کوئی بھی اردو والا راضی نہیں، ا ِ لّاماشاء اللہ، اور تقریباً سبھی ان مرکبات میں ہمزہ لکھتے ہیں جو اصولاً غلط ہے۔ اس معاملے میں بھی غالب کی راے درست تھی۔
۴۔پاؤں ، گاؤں ، چھاؤں وغیرہ کا املا:
غالب کا کہنا تھا کہ ان الفاظ میں نون غنے کی آواز آخر میں نہیں آتی بلکہ واو سے پہلے آتی ہے۔ اس لیے ان کا املا گانؤ (گ اںو)، پانؤ(پ اںو ) اور چھانؤ (چھ اںو) (یعنی نون غنے کے ساتھ ) لکھنا چاہیے۔ عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خاں نے بھی سفارش کی ہے کہ ان الفاظ پر نون غنے کی علامت کے طور پر ہلال کا نشان (یعنی باریک چاند کا نشان) یا اردو کے آٹھ (۸) کے ہندسے کو الٹا کرکے ( اس طر ح ’’ ‘‘) لکھنا چاہیے۔ کئی الفاظ مثلاً ہنسی، چنبیلی، سنبھالنا ، چاند اور کانٹا وغیرہ کے املا اور تلفظ میں نون نہیں ہے بلکہ نون غنہ ہے۔ لیکن چھانو اور پانو وغیرہ کا یہ املا صوتی لحاظ سے درست ہونے کے باوجود اُردو میں رائج نہ ہوسکا اور آج بھی لوگ انھیں پاؤں، گاؤں، چھاؤں ہی لکھتے ہیں۔ البتہ غالب کی راے اصولاً یہاں بھی درست تھی۔
۵۔ چاقو یا چاکو؟
غالب چاقو کو چاکو لکھتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ فارسی کے چاک سے ہے۔ لیکن غلام مصطفیٰ خان صاحب نے لکھا ہے کہ چاقو فارسی کا نہیں بلکہ ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا املا چاقو درست ہے کیونکہ اس کا فارسی کے چاک یا چاک کردن (چاک کرنا) سے کوئی تعلق نہیں۔ غالب کی راے یہاں درست نہیں تھی۔
۶۔ تذکیر اور تانیث کا جھگڑا
یہ حقیقت ہے کہ اُردو زبان سیکھتے ہوئے غیر ملکیوں کو جو دشواریاں پیش آتی ہیں ان میں اُردو کی تذکیر و تانیث ایک بڑی دشواری ہے۔ اس ضمن میں دو مسئلے ہیں، ایک تو یہ کہ اُردو میں ہر شے کی جنس ہوتی ہے چاہے وہ جان دار ہو یا بے جان۔ دوسرا یہ کہ اردو کی تذکیر و تانیث قیاسی نہیں سماعی ہے۔ یعنی اس کا کوئی خاص اصول نہیں ہے اور کسی اہلِ زباں سے سن کر ہی معلوم ہوگا کہ کوئی چیز مذکر ہے یا مؤنث۔ اگرچہ اس سلسلے میں کچھ اصول اور قواعد طے بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں مستثنیات بھی ہیں، جیسے ایک قاعدہ ہے کہ اُردو کے تمام اسم جو یاے معروف (چھوٹی ی) پر ختم ہوتے ہیں مؤنث ہوں گے لیکن گھی مذکر ہے حالانکہ ’’ی ‘‘ پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح مولوی، پانی، دھوبی، نائی، موچی، موتی ہیں کہ سب ’’ی‘‘ پر ختم ہوتے ہیں لیکن سب مذکر ہیں۔ بعض الفاظ ایک معنیٰ میں مذکر ہیں اور ایک میں مؤنث، مثال کے طور پر آب اگر پانی کے معنیٰ میں ہے تو مذکر ہے لیکن چمک کے معنیٰ میں یا کاٹ کے مفہوم میں ہے تو مؤنث بولا جائے گا، مثلاً موتی کی آب (چمک)، تلوار کی آب (کاٹ یا تیزی)۔ ایک اختلافی پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ہی لفظ کسی کے نزدیک مذکر ہے اور کسی کے خیال میں مؤنث، جیسے بلبل یا دہی۔ بلبل کو شعرا نے مذکر بھی باندھا ہے اور مونث بھی۔ کوئی کہتا ہے دہی کھٹا ہے، کوئی کہے گا دہی کھٹی ہے۔ کچھ الفاظ ایک علاقے میں مذکر بولے جاتے ہیں تو دوسرے علاقے میں مؤنث۔ بلکہ بعض الفاظ ایک ہی علاقے میں مؤنث اور مذکر دونوں طرح بولے جاتے ہیں۔ غالب نے بھی تذکیر وتانیث کے موضوع پر اظہار ِ خیال کیاہے، مثلاً میر مہدی مجروح کو ایک خط میں لکھا: ’’تذکیر و تانیث کا کوئی قاعدہ منضبط نہیں کہ جس پر حکم کیا جائے۔ جو جس کے کانوں کو بھلا لگے، جس کو جس کا دل چاہے، اسی طرح کہے‘‘۔ قدرت نقوی کے بقول یہ اصول اہلِ زباں کے لیے ہے اور مہدی مجروح اہلِ زباں تھے۔ لیکن غالب کے ایک شاگرد میاں داد خاں سیاح اہلِ زباں نہ تھے۔ ان کو غالب نے لکھا: ’’بھائی! ہم نے تم کو یہ نہیں کہا تھا کہ تم مرزا رجب علی بیگ (سُرور) کے شاگرد ہوجاؤ اور اپنا کلام ان کو دکھاؤ۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ تذکیرو تانیث کو ان سے پوچھ لیا کرو۔ دکن اور بنگال کے رہنے والوں کو اس امرِخاص میں دلّی اور لکھنؤ کا تتبّع ضروری ہے‘‘۔ انور الدولہ شفق کو ایک خط میں اس موضوع پرغالب نے یہ کہا: ’’تذکیر و تانیث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دہی ، بعض لوگ کہتے ہیں دہی اچھا ہے۔ بعض کہتے ہیں دہی اچھی ہے۔ قلم، کوئی کہتا ہے قلم ٹوٹ گیا، کوئی کہتا ہے قلم ٹوٹ گئی۔ فقیر دہی کو مذکر بولتا ہے اور قلم کو بھی مذکر جانتا ہے‘‘۔
اُردو میں جن الفاظ کی تذکیر و تانیث کا جھگڑا ہے ان میں خلعت اور لغت جیسے لفظ بھی شامل ہیں۔ ایک اصول تو یہ ہے کہ عربی کے جتنے بھی اسم ِ کیفیت اردو میں مستعمل ہیں اور جن کے آخر میں ’’ت‘‘ ہے ان کو اُردو میں مؤنث بولا جاتا ہے، جیسے دولت، حشمت، قدرت، فطرت، قوت، عزت، ذلت، قیامت، وغیرہ سب مؤنث ہیں۔ لیکن مستثنیات بھی ہیں، مثلاً شربت کے آخر میں ’’ت‘‘ ہے لیکن یہ مؤنث نہیں، مذکر ہے (یعنی شربت میٹھا ہے نہ کہ میٹھی ہے)۔ البتہ لفظ لغت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ لوگ مذکر اور کچھ مؤنث بولتے ہیں یعنی کہیں لغت ہوتا ہے اور کہیں لغت ہوتی ہے۔ لیکن لفظ خلعت بھی مستثنیات میں شامل ہے اور اسے مذکر ہی بولا جاتا ہے حالانکہ اس کے آخر میں ’’ت‘‘ ہے۔ غالب نے بھی خلعت کو مذکر ہی برتا ہے۔ مثلاً نواب رام پور کے نام خط میں لکھا: ’’منگل ۳، مارچ کو جناب لیفٹیننٹ گورنر بہادر نے خلعت عطا کیا‘‘۔ اسی طرح لفظ فکرِ لکھنؤ میں مذکر اور مؤنث دونوں طرح مستعمل ہے لیکن غالب نے مذکر کہا ہے۔ داغ دہلوی نے فکر کو مونث لکھا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ فکر اگر خیال کے مفہوم میں ہے تو مذکر بولنا چاہیے، جیسے مجھے اس کا بڑا فکر ہے (یعنی بہت خیال ہے) اور تشویش یا اندیشے کے مفہوم میں مؤنث ہے، جیسے میر انیس کا مصرع ہے:
ہر دم بشر کو چاہیے مرنے کی فکر ہو
مختصرا ً یہ کہ غالب جیسا ذہین اور عظیم فن کار زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بخوبی واقف تھا اور اس مسئلے پر اظہار ِ خیال بھی کرتا تھا۔ بلکہ فارسی کی مشہور لغت برہانِ قاطع پر غالب نے فارسی میں پوری کتاب قاطعِ برہان لکھ کر اس کی اغلاط کو واضح کیا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ عظیم فن کار بھی انسان ہوتا ہے اور اس سے غلطی ہوسکتی ہے اور اسی لیے اس کی بعض باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
علامہ اقباؔل
یہ شالامار میں اک برگِ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسمِ گُل جس کا راز دار ہوں میں
نہ پائمال کریں مجھ کو زائرانِ چمن
انھی کی شاخِ نشیمن کی یادگار ہوں میں
ذرا سے پتّے نے بے تاب کر دیا دل کو
چمن میں آکے سراپا غمِ بہار ہوں میں
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یادِ فصل ِبہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
اجاڑ ہو گئے عہدِ کہن کے مے خانے
گذَشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں
پیامِ عیش، مسرّت ہمیں سناتا ہے
ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے