لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

سورہ البقرۃ آیت نمبر ۸۱

﴿ بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾

 ( آگ تمھیں) کیوں نہیں (چھوئے گی) ؟ جو لوگ بھی بدی کماتے ہیں اور ان کی بدی انہیں گھیر لیتی ہے تو ایسے لوگ ہی دوزخ کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

توضیح و تفسیر

پس منظر :   یہود خود کو اللہ کا چہیتا سمجھتے تھے۔وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان  لائے بغیر   ، اور دینی بداعمالیوں کے باوجود مستحق جنت ہونے کے دعوے دار تھے اور  کہتے تھے   اگر ہم دوزخ میں ڈالے بھی گئے تو گنتی کے چند  دن﴿ وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ان کی اس زعم باطل کی نفی میں یہ آیت وارد ہوئی ہے۔

سَيِّئَةً سے کیا مراد ہے؟

سَيِّئَةً کا معنی برائی ہے لیکن اس آیت میں اس سے عام برائیاں مراد نہیں ہیں بلکہ یہاں ایک خاص اعتقادی   برائی کفر وشرک  مراد ہے  ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین علیہم الرحمۃ سے یہی تفسیر منقول ہے۔امام مجاہدعلیہ الرحمۃ نے فرمایا :﴿بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً﴾أيْشِرْکاً’’کیوں نہیں جو لوگ سَيِّئَةکا ارتکاب کرتے ہیں یعنی شرک کا‘‘۔ امام قتادہ علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:أما السیئة فالشرک،’’سیئہ سے مراد شرک ہے‘‘۔اسی طرح ابو وائل﷫ نے سیئہ کی تفسیراللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانےسے کی ہے۔( طبری،ج: ،۱ ص: ۳۰۷)امام طبریعلیہ الرحمۃفرماتےہیں اس آیت میں وہ لوگ جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے،یہود ہیں جو کہتے تھے:’’ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہر گز نہیں چھوئےگی‘‘۔ (بقرۃ:۸۰) ان کے متعلق فرمایا، شرک اور کفر کی وجہ سے ان کو عذاب دیا جائےگا،اور ان کے گناہوں نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے،اس لیے وہ مخلد فی النار ہوں گے۔اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے سیئہ ذکر فرمایاہے جس سے مرادکفراور شرک ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:﴿من عمل مثل عملکم یا یهود،وکفر بمثل ما کفرتم به،حتی یحیط کفره بماله من حسنات،فأولئک أصحاب النار هم فيها خالدون﴾۔’’اے یہود!جس نے تمہارا جیسا عمل کیا اورجس چیز کا تم انکار کرتے ہو اس کا ایسا ہی انکار کیا، یہاں تک کہ اس کا کفر اس کی تمام حسنات گھیر لے،تو ایسے لوگ آگ والے ہیں جواس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(ابنِ کثیر)

اس بحث سے یہ بات پتا چلی کہ مذکورہ ا ٓیت میں سیئہ سے مرادشرک و کفر ہے،اور یہی اہل سنت والجماعت کے مذہب کے مطابق ہے۔اس سے عام کبائر مراد نہیں لیے جاسکتے جیسا کہ معتزلہ اور خوارج کامذہب ہے۔اوراس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے پتا چلتا ہےکہ اس میں اہل کفر کے انجام سے بحث ہوئی ہے،اہل ایمان کے متعلق سرے سے بحث ہی نہیں ہورہی۔امام نسفی تفسیر میں لکھتے ہیں:إذا مات مؤمناً فأعظم الطاعات وهو الإيمان معه فلا يكون الذنب محيطاً به فلا يتناوله النص ’’جب کوئی مسلمان فوت ہوتا ہے تو طاعتوں میں  سب سے بڑی طاعت یعنی  ایمان اس کے ساتھ ہوتا ہے ،تو گناہ اسے احاطہ نہیں کر سکتا ۔پس  اس پراس آیت کا اطلاق نہیں ہو سکتا‘‘۔

﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ﴾ 

اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہاں بھی شرک ہی مراد ہے۔امام طبری علیہ الرحمۃلکھتے ہیں:والمراد بالخطیئة هنا الشرک،أي إنه أشرک وأحدق به شرکه،ومات علیه ولم یتب منه،’’یہاں خطیئہ سے مرادشرک ہے یعنی وہ شخص جو شرک میں مبتلاہو اور شرک اس کا احاطہ کرے،وہ اسی حالت میں مر جائے اس سےتوبہ کیے بغیر۔‘‘ امام طبری علیہ الرحمۃنے اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے: ﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ ﴾یحیط کفره بماله من حسنة’’ابن عباس رضی اللہ عنہ نےفرما یا،اور ان کی بدی انھیں گھیر لیتی ہے،ان کا انکار اور کفر ان کی حسنات کا احاطہ کرلیتا ہے‘‘۔اسی طرح ابن جریج علیہ الرحمۃفرماتے ہیں میں نے عطا سے دریافت کیا، ما هي الخطیئة في قوله﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ ﴾قال:هي الشرک،ثم تلا قوله تعالی﴿ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾’’اللہ تعالیٰ کے اس قول﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ ﴾سے کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے کہا خطیئہ شرک کو کہتےہیں ،پھر عطانے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’اور جو کوئی برائی لے کر آئے گا،تو ایسے لوگوں کو منھ کے بل آگ میں ڈال دیا جائےگا‘‘۔(طبری، ج:۱، ص:۳۱۰)

یہاں معلوم ہوا کہ خطیئہ سےعام کبائر مراد نہیں بلکہ شرک مرادہے ،یہی اسلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین علیہم الرحمۃسے منقول ہےاور اسی کومحققین نے اختیار فر مایا ہے۔

 انہی تفسیرات کی روشنی میں  اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہےکہ  آیت   زیر مطالعہ  میں  خلود فی النار کی وعید   کفر و شرک کے ارتکاب پر ہے  اور  اگر کوئی   مسلمان کبیرہ  گناہ   کا مرتکب ہو جائے تو اس کے لیے  خلود فی النار کی سزا نہیں ہے ۔ مسلمان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو   جائے تو  اسلام سے خارج یا کافر نہیں ہوتا،البتہ گناہ گار ضرور ہوتا ہے۔اگر وہ اس گناہ سے توبہ نہ  کرے   تودخول فی النارکا مستحق تو ہوگا مگرخلودفی النار یعنی ہمیشہ جہنم میں جانےکا مستحق نہیں ہوگا۔بلکہ سزا کاٹنے کے بعدجنت میں جائےگا۔اگر اللہ چاہے تواسے اپنے لطف و کرم سےمعاف کر کے شروع ہی  میں  جنت میں داخل کریں۔

ان آیات کی غلط تعبیرات  

علامہ زمخشری جومعتزلہ کےبڑے جلیل القدرعالم ہیں انہو ں نے آیت زیر مطالعہ میں وراد لفظ    سَيِّئَة کی تفسیر کبیرة من الکبائر ’’کبیرہ گناہوں میں سے کوئی گناہ ‘‘ سے کی ہے ۔( کشاف، ج: ،۱ ص: ۱۵۹)  اس بنیاد پر انھوں نے کہا کہ کوئی مسلمان  اگر    کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو  اور وہ توبہ کیے بغیر مر جائے  تو  وہ ہمیشہ کے لیے دوزخی  ہے ۔خوارج   نے  بھی معتزلہ کی طرح   سَيِّئَة سے کبیرہ گناہ مراد لیا اور کہا  کہ اس آیت میں کبیرہ گناہ کرنے والے کے لیے خلود فی النار کی وعید وارد ہوئی ہے  جو مسلمانوں کی نہیں بلکہ کافروں کی سزا  ہے  ،اس سزا  سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے اگرچہ پہلے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔

ان دونوں گروہوں کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب   مسلمان ہمیشہ کے دوزخی  ہے۔

عصر حاضر میں بعض لوگوں نے    اس آیت کے ذیل میں یہی نکتہ بیان کیا ہے کہ اگر انسان  جانتے بوجھتے ایک کبیرہ گناہ بھی   اختیار کر لے اور بغیر توبہ مر جائے تو    اسے ہمیشہ کے دوزخ کی سزا دی جائے گی۔

درست تعبیر

اس آیت  کی تفسیر کے بارے  میں  معتزلہ اور خوارج  اور ان کے مماثل گروہوں کا نقطہ ٔ نظردرست نہیں ہے۔اس کی متعدد  وجوہات ہیں  ۔پہلی وجہ  تو  یہ کہ ان کے مذہب کو درست تسلیم کر لینے سے رسول اللہ ﷺ کی ان ،ان گنت احادیث کا   انکار لازم آئےگاجوعصاۃ مسلمین کی شفاعت اور سزاکاٹنےکے بعد جنت میں ان کے داخلے کے متعلق  ہیں:حضرت ابوذررضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:﴿أَتَيْتُ النَّبِيَّﷺ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهُوَ نَائِمٌ ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَر’’میں ایک مرتبہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضرہوا، آپﷺ ایک سفیدکپڑے میں آرام فرما رہے تھے۔پھرمیں دوبارہ آیا تو آپﷺجاگ رہےتھے،اس وقت آپﷺ نے فرمایا؛’’جس شخص نےیہ کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورپھر اسی پر اسے موت آجائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک خوش گوارتعجب ہوا،میں نے کہا:چاہے اس نے زناکیا ہو اورچوری کی ہو؟تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو‘‘میں نے پھر عرض کیا:چاہے اس نے زناکیا ہو اور چوری کی ہو؟آپﷺنے فرمایا:’’اگرچہ اس نےزنا کیا ہواور چوری کی ہو‘‘میں نےحیرت سے سہ بارہ عرض کیا:چاہے اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو؟تو آپﷺ نےفرمایا:’’چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، باوجود یکہ ابوذر کی ناک خاک آلودہو(یعنی اگر چہ ابو ذرکو ناگوار گزرے)‘‘۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو یہ الفاظ بھی بیان فر ماتےتھے، اگرچہ ابوذر کو نا گوار گزرے‘‘۔(متفق علیہ)

ایک  طویل حدیث میں لوگوں کو  دوزخ   کی سزا بھگت کر نکالنے کا ذکر ہے   اس میں الفاظ آتے ہیں: ﴿فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ﴾’’پس پھر وہ اس میں سے ان لوگوں کو نکالے گا جنھوں نے کبھی کوئی نیکی کی ہی نہ تھی‘‘۔(متفق علیہ)دوسری وجہ یہ ہے کہ   معتزلہ  ، خوارج اور دوسرے گروہوں کی تعبیرات کو ماننے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمھم اللہ اجمعین کی تفسیر  کی تغلیط کرنا پڑتی ہے جو جائز نہیں ہے۔تیسری وجہ یہ کہ   معتزلہ و خوارج کے نقطہ  نظر کو تسلیم کرنے میں اجماع امت  کی خلاف ورزی لازم  آتی ہے جو   ایک نا جائز  کام ہے۔

اہلِ سنت اوردوسرے فرقوں کے درمیان ، ایمان و اسلام کا اختلاف

اہل ِسنت والجماعت کے نزدیک ایمان تصدیق قلبی اور اقرار باللسان کو کہتے ہیں، جبکہ معتزلہ اور خوارج کہتے ہیں کہ تصدیق اور اقرار کے ساتھ اعمال بالجوارح بھی ایمان کاحصہ ہیں، یعنی وہ اعمال کو جزوایمان سمجھتے ہیں۔اس لیےان کے نزدیک مرتکب گناہ کبیرہ اسلام سے خارج ہے۔ یہاں تک توخوارج اور معتزلہ دونوں کا اتفاق ہے مگرآگےاس کی تفصیل میں یہ دونوں باہم مختلف ہیں، خوارج کہتے ہیں مرتکب کبائر ،اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ معتزلہ کا موقف ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا اسلام سے تو خارج ہے مگرکافر نہیں۔وہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک درجے کےقائل ہیں جسے یہ منزلةبین المنزلتینکہتے ہیں،  دو منزلوں یعنی ایمان  اورکفر کے بیچ میں ایک  منزل۔تو ان کے نزدیک جو شخص کبائرکا مرتکب ہووہ ایمان سے نکل جاتا ہے جبکہ کافرنہیں ہوتا بلکہ بیچ میں ہوتاہے۔

مگر ہر دو صورت میں نتیجہ ایک نکلتا ہے کہ مرتکب گناہ کبیرہ خوارج اور معتزلہ دونوں کے نزدیک خلود فی النار کا مستحق ہے، ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا،کیونکہ ان دونوں فرقوں کے نزدیک مرتکب کبائر ،اسلام سے خارج ہوتاہے اور جوشخص اسلام سے نکل جاتا ہے وہ ہمیشہ جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔کبھی بھی جنت میں نہیں جاے گا۔ 

اہلِ سنت  کہتے ہیں کہ  ایمان کے دو درجے ہیں، ایک ہے ایمان منجی(وہ ایمان جومطلقاً  آگ سےنجات کا ذریعہ بن سکے،اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اوّل وہلے میں انسان جنت میں  جائےبلکہ یہ نجات اخروی کاباعث ہے) جو خلود فی النارسے تو مانع ہے مگردخول فی النار سے مانع نہیں،اورایک ہے ایمان معلی(وہ ایمان جوجنت میں دخول اوّلی  کا ذریعہ بنے) جودخول فی النارسے بھی مانع ہےاور خلود فی النارسے بھی۔گناہ گار  مسلمانوں  کاایمان،ایمان منجی ہے،اس  کے لیے شریعت کاعام قانون تویہ ہے کہ وہ اپنےگناہوں کی بقدر  سزا کاٹ کرپھر ہمیشہ کے لیے  جنت میں جائیں گے۔ ہاں اگر اللہ عفو ودرگزرکا معاملہ کر کےسزا معاف کردیں  اور انھیں  شروع ہی میں جنت میں داخل کریں تو یہ ان  کا اختیار ہے۔یہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ کبائر کا مرتکب گناہوں کی وجہ سے اسلام سے نہیں نکلتا،اس کے گناہوں کی بقدر اسے سزا ملے گی،سزا بھگتنے کے بعد ہمیشہ جنت میں داخل ہوگا۔یہی عقیدہ قرآن وسنت کے موافق ہےاوراس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع منعقد ہو چکا ہے۔

لرننگ پورٹل