لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
آسماں بے ردا، نہ ہو جائے

قیامت آئے گی ، اور اس سے آگے اس کی نشانیاں ، تو علم اٹھا یا جائے گا لیکن سینوں سے نہیں بلکہ شہروں سے اور ہم نے شہر وں میں عالِموں کو علم سمیت اٹھتے دیکھا تو شہروں کو روتا پایا ۔ آخر موت پہ رونا کس کو نہیں آتا اور عالِم کے اٹھنے کو عالَم کی موت یونہیتو نہیں کہا گیا ، ظلمت کو موت یا جَہل سے تشبیہ دی جائے اور ظلمت کدے کوگو رستان سے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور نور کو علم یا روحِ زندگی سے تعبیر کیا جائے تو اچھا ہی ہے اس لیے کہ وحی ربانی میں اس طرح کے اشارے بے شمار ملتے ہیں:﴿أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ﴾’’ارے دیکھو جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی دی جسے لیے وہ لوگوں میں پھرتا ہے کیا اس کی طرح ہو سکتا ہے جو اندھیریوں میں ہے‘‘ ۔صاحب زاد المسیر رحمہ اللہ نے نور کی تفسیر میں تین اقوال نقل کیے ہیں: ہدایت ،قرآن پاک اور عِلم ، اور ظاہر ہے ان تینوں تعبیرات میں کوئی تباین نہیں ہے ۔ ۱

اندھیروں کا مسافر ، انسان تمام مخلوق کی طرح ظلمتوں میں پیدا ہوا، ہاں! پھر جس کو اللہ نے اپنے نور سے نوازا وہی حیات ِ ہدایت سے متصف ہوا :﴿إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ يَوْمَئِذٍ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ نُورِهِ يَوْمَئِذٍ، اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ، ضَلَّ﴾(مسند احمد)’’بے شک اللہ عزو جل نے مخلوق کو ظلمتوں میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا پس اس دن وہ نور جس پہ پڑا وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جس پہ وہ نور نہیں لگا وہ گمراہ ہی رہا ‘‘۔ایک حدیث میں زندگی کو علم سے مستعار بتایا گیا:الْقَلْبُ إِذَا مُنِعَ عَنْهُ الْحِكْمَةُ وَالْعِلْمُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ يَمُوتُ(احياء علوم الدين)جب تین دن تک دل کو علم وحکمت سے محروم رکھا جائے تو دل مردہ ہو جاتا ہےجب علم دلوں کی زندگی قرار پایا تو اس کے حامل ہونےکے سبب ،علماء کو بھی محی القلوب کہا جا سکتا ہے۔ حضرت لقمان سے منسوب وصیتوں میں سے ایک عام نصیحت یہ بھی ہے:جَالِسِ الْعُلَمَاءَ وَزَاحِمْهُمْ بِرُكْبَتَيْكَ فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ يُحْيِي الْقُلُوبَ بِنُورِ الْحِكْمَةِ كَمَا يُحْيِي الْأَرْضَ بِوَابِلِ السَّمَاءِ  (احياء علوم الدين)’’علماءکی مجالست اختیار کر اور ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیے رکھ پس بے شک اللہ تعالیٰ نورِ علم وحکمت سے دلوں کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح آسمان کی بارشوں سے زمیں کو زندہ کرتا ہے‘‘۔ تو جب دلوں کے اجیالے علماء میں سے کوئی اٹھے تو سمجھو زندگی گھَٹتی اورگھُٹتی جا رہی ہے۔تو ہم نے شہر کے شیروں کو بھی روتے دیکھا اور مگر مچھ کے آنسو لیے شریروں کو بھی روتے دیکھا ، وہ جو ﴿يَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ﴾ ’’لوگوں میں سے عدل و قسط کا حکم کرنے والے لوگوں کو قتل کرتے ہیں‘‘ تو قتل کرنے والے بھی روئے ، قتل کرانے والے بھی اور قتل ہو جانے دینے والے بھی، تو ان کا رونا ان جیسا ہے جو صبحِ دم غیابات الجب میں پھینکتے ہیں اور دم ِعشا گریہ و زاری کرتے ہیں، سو ان کو تو وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ کا پیغام ہے ۔

لیکن عُشاقِ علماء کا رونا معرفت کا رونا ہے، بلکہ یہ تو معرفت کے  جاتے رہنے کا  رونا ہے کہ  وہ جانتے ہیں کہ   لفظ  اب ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال کھنکتا ہے ۔ معنی والے گئے تو سمجھو  معنی چلے گئے  تو عالِموں کے بعد رونا ہی چاہیے کہ دین غیر اہل کے مرہون ہونے جار ہا ہے :وَلَكِنْ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ (مسند احمد) اور دین پر رویا کرو جب وہ غیر اہل کے سپرد کیا جانے لگے،پیاسا جتنا بھی پیاسا ہو کنواں نہیں پی سکتا ،اسی طرح طالب جتنا بھی صادق ہو عالِم سے اس کا پورا پورا علم نہیں سیکھ سکتا، کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جب ان کی جنت کے باغیچے میں اتارا گیا تو ان کے شاگرد حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لَقَدْ ذَهَبَ الْيَوْمَ عِلْمٌ كَثِيرٌ(مجمع الزوائد) ’’آج تو علم کثیر چلا گیا ‘‘ ہمیں تو لگتا ہے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میرے ہاتھوں سے چلا گیا۔ اگرچہ سیدنا زید بن ثابت  ، اللہ تعالی کے اچھی طرح جاننے والے تھے  لیکن ان کے علم پر غلبہ فقہ و روایت کا ہی تھا  تو انہیں عالِم بامر اللہ کہا جا سکتا ہے تو یہ  امر اللہ کا علم تھا جس کا ایک حصہ آج ہاتھوں سے چلا جا رہا تھا۔ ہم  جو کم کوش تو لیکن بے ذوق نہیں ۔۔۔۔ اپنے اس ذوق کی بنا پر جانتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کے گزرنے سے  خیر کا دور بھی گزر گیا  کہ ہم  وقت کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر ان کا سبق ازبر نہیں کر پائے تو  اب ہلاکت و فلاکت کے سوا بچا کیا ہے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا بَقِيَ الأَوَّلُ حَتَّى يَتَعَلَّمَ الآخِرُ، فَإِذَا  هَلَكَ الأَوَّلُ قَبْلَ أَنْ يَتَعَلَّمَ الآخِرُ هَلَكَ النَّاسُ(سنن دارمی)’’پہلوں  کی زندگی ہی میں اگر ان کے پچھلے (ان سے )  علم حاصل کر لیں تو لوگ خیر پر رہیں گے  اور جب بعد والوں  کے علم حاصل کر چکنے سے پہلے  اگلے انتقال کرنے لگیں تو  لوگوں کی ہلاکت ہے‘‘۔

وہ جورسول للہ ﷺ نے فرمایا : ﴿أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ﴾  ’’ میں تم سب سے زیادہ اللہ کا جاننے والا ہوں‘‘،  تو  علم کی ایک دوسری قسم علم باللہ بھی ہے اللہ کی معرفت و خشیت کا سیکھنا  اور  سکھانا یہاں کا خاص وظیفہ ہے۔اس کے جاننے والے بھی جب جاتے ہیں تو بہت کچھ ساتھ لے جاتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے موقعے پر سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ نے فرمایا: لقد مات تسعة أعشار العلم’’یقینا نوے فیصد علم فوت ہوگیا‘‘۔جب لوگوں نے بات کو نہیں سمجھا تو وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : إنما أريد العلم بالله’’میری مراد علم باللہ سے تھی‘‘(احياء علوم الدين

تو امسال ،بڑے بڑے علماء اٹھتے جا رہے ہیں ۔ وہ بھی جن کی ذات میں امر اللہ کے علم کا غلبہ تھا اور کچھ دوسرے بھی جو عالِم باللہ کے طور پر زیادہ مشہور تھے۔ اس میدان کی کیا بتائیں؛ اکیلے شیخ الحدیث مولانا زکریا علیہ الرحمہ کے تین خلفائے کرام نے اس سال جامِ وصال نوش کیا۔ جنوبی افریقہ سے مولانا یوسف متالہ صاحب اوراسلام آباد سے مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی ، رب کو عزیز ہوئے تو لاہور سے حافظ صغیر احمد صاحب اللہ کو پیارے ہوئے۔پڑوسی ملک میں جامع العِلمان(یعنی علم باللہ اور علم بامر اللہ) حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی خلیفۂ مجاز عبد القادررائے پوری نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا ۔ فجر کے بعد وا لے درسِ قرآن کو ۵۲ سال جاری رکھنے اور پانچ دور مکمل کرنے کا افتخار بھی آپ ہی کو حاصل ہے ۔

علم بامر اللہ میں شہرت رکھنے والے علماء میں دیکھیں تو ہندوستان میں حجۃ اللہ البالغہ کے شارح شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللّٰہ ، رحمۃ اللہ الواسعہ کے سپردہوئے۔یہیں ’’ تحریک آزادی میں علماے کرام کا کردار ‘‘ کے مصنف حضرت مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی رحمہ اللہ اسی سال قید حیات سے آزاد ہو کر علماے رفتگاں سے جا ملے۔ یاد گارِ اسلاف ، قاطعِ قادیانیت حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود لندن سے خلد آشیاں ہوئے۔ مولفِ الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل ، امام بیہقی کی سنن الصغری کے شارح اور المدخل إلی السنن الکبری کے محقق ۔ ہندوستانی نزاد ، گنگا سے زمزم کا سفر طے کرنے والے محدث حضرت مولانا ضیاء الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ، نے مدینہ منورہ میں رحلت فرمائی۔ منفرد لہجے کے قاریٔ قرآن جناب نورین محمد صدیق ، سڑک کے حادثے میں جاں بہ حَق ہوئے۔

پاکستان کی بات کریں تو مسلکِ اہلِ حدیث کے نمائندہ، عالم باعمل صاحب تفسیر احسن البیان حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے لاہور میں انتقال کیا۔ مولف المقالات المختاره في الکتاب و السنة، تاریخ ِاسلامی جمہوریہ پاکستان، نالج اینڈ سوی لائزیشن ان اسلام، سابقہ استاد بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا، مہتمم اور شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی جناب ڈاکٹر مولانا عادل خان صاحب کو کراچی میں شہید کر دیا گیا۔

 ماہر بالقرآن شیخ التفسیر حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب کو کراچی سے ’کِرام ِ بررہ‘ اپنی معیت میں لےکر چلتے بنے۔ ان کا دورۂ تفسیر مشہور تھا ۔ معنی خیز نکتہ آفرینی ان پر ختم تھی ۔

 ختم ِنبوت اور ناموسِ رسالتﷺ کے سپاہی جناب علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے صاحبزادے کے مطابق زندگی کے آخری لمحات میں وہ روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کے تصور سے شرمسار تھے کہ گستاخانہ سرگرمیاں جاری ہیں تو ہم کیا منھ لے کر حضور کے دربار میں جائیں گے، لیکن یہ ان کی شرمساری ان کی حساسیت پر مبنی تھی، وہ ایک عرصہ ناموسِ رسالتﷺ کے محاذ پر ڈٹے رہے ۔زمانہ گواہ ہے کہ وہ ناموسِ مصطفی کی کوشش میں حد ِ استطاعت تک پہنچ گئے تو خدا کے ہاں ان شاء اللہ حفاظت کرنے والے قرار پائے، سو شانِ کریمی کو ان کی اداے عاجزی پسند آئی اور انھیں حضورﷺ کی زیارت کے لیے بلا لیا ۔

حدیث  مسند احمد میں علماء کو﴿النُّجُومُ فِي السَّمَاءِ﴾’’ آسمان کے تارے‘‘ اور قول ِ فاروقی  میں ﴿لله رداء﴾’’ اللہ  تعالی کی رِدا ‘‘کہا گیا (احياء علوم الدين) تارے گرتے جا رہے ہیں  آگے جانے کیا ہو!!

روز ٹوٹے ہیں تارے قسمت کے   آسماں بے ردا نہ ہو جائے
لرننگ پورٹل