لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

گردشِ ایام اور شامت اعمال کے سبب جب عالم اسلام، یورپی ملکوں کی کالونی بنا تو سیاسی و اقتصادی کے ساتھ ساتھ،اسے عقیدے و نظریے کی سطح پر بھی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مغربی مصنفین نے مشرقی علوم پر تحقیق کی ٹھانی اور ایک شعبۂ علمی’’ استشراق‘‘ وجود میں آ گیا۔ جہاں ایک طرف بہت سارےمسلمان اہل علم، اپنے ’’ فاتحین ‘‘ کی علمیت سے متاثر ہوئے وہیں بعض رجال العلم نے اِن ’’قابضین ‘‘ سے علمی مناقشے کا آغاز کیا۔ اس حوالے سے گزشتہ صدی میں جو نابغۂ روز گار شخصیات اسلامی دنیا میں پیدا ہوئیں ان میں ایک اہم شخصیت ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی رحمہ اللہ کی بھی ہے۔آپ علماے سلف کی طرح علم وعمل دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ شام میں اخوان المسلمین کی بنیاد انھوں نے رکھی تھی مگر ان کا اصل کارنامہ امت کا اپنی تہذیب و ثقافت پر اعتماد بحال کرنا، انھیں اپنے اسلامی تشخص پر فخر سکھانا اور مسلمانوں کے علوم اور تہذیب پر سے مستشرقین کی اڑائی ہوئی گردوغبار صاف کر کے اس کی حقیقی صورت سامنے لانا ہے۔زمانۂ طالب علمی میں ہی آپ نے مستشرقین پر کام شروع کیا اور آغاز ہی میں ان کی علمی کمزوریوں کو بھانپ گئے، جس کی تصدیق بعد کی علمی تحقیقات اور مستشرقین کے ساتھ نجی ملاقاتوں نے بھی کردی۔

اس ضمن میں آپ نے بہت کچھ سپرد قلم کیا۔انھوں  نے اپنی سب سے گراں قدر اور عظیم تصنیف ’’السنة ومكانتها في تشريع الإسلامي‘‘ میں ایک باب مستشرقین کی طرف سے سنت پر اٹھائے گئے اعتراضات و اشکالات کے ازالے کے لیے خاص کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے استشراق اور مستشرقین پر الگ سے بھی کام شروع کیا، مگر کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں جو کام ہوا تھا وہ’’المستشرقون:مالها وما عليها‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا ہے۔ جس میں انھوں نے استشراق کی تاریخ اور اغراض و مقاصد کے ساتھ ساتھ انصاف پسند  اورمتعصب مستشرقین کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ان کا یہ کام مختصر ہونے کے باوجود بہت اہم ہے۔ انھوں  نے متاثر مغرب زدہ دانشوروں کا اجمالاً ذکر کیا ہےجن میں سرفہرست ڈاکٹر طہ حسین صاحب ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’’عربی ادب کے استاد اور ماہر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ فرانسیسیوں کے ان نتائج علم کو نہ دیکھ لے، جن تک وہ مشرقی تاریخ وادب اور مختلف زبانوں کے مطالعے سے پہنچ چکے ہیں۔ اور جب تک ہم اپنے قدموں پر کھڑے ہونے اور اپنے پروں پر اڑنے کے قابل ہو کر تاريخ وادب پر اُن کا علمی غلبہ ختم نہیں کر دیتے،اس وقت تک ہمیں اپنا علم ( تاریخ و ادب اور زبان وغیرہ ) انہی سے لینا پڑے گا‘‘۔ 

ڈاکٹر سباعی صاحب نے اس پر کیا خوب تبصرہ کیا:’’بلا شبہہ یہ ہمارے فکری غلامی کے ادوار کی ترجمانی ہے، جس سے ہم اپنے جدید فکری اور علمی ثقافت کے آغاز میں ہوگزرے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے طہ حسین صاحب کی کتاب’’الأدب الجاهلي‘‘کو مرجلیوث(David Samuel Margoliouth) کی آراکا ترجمہ قرار دیا ہے۔ 

ڈاکٹر علی حسن عبد القادر بھی مغرب سے متاثر تھے۔ ڈاکٹر سباعی نے ان کا بھی محاکمہ بھی کیا اور ان کی تصنیف ’’نظرة عامة في تاريخ الفقه الإسلامي‘‘ کو گولڈزیہر (Ignác Goldziher) کی ان تحریروں کا لفظی ترجمہ قرار دیا جو اس کی کتابوں ’’دراسات اسلامیہ‘‘ اور’’العقيدة والشريعة في الإسلام ‘‘میں ملتی ہیں۔

مصطفی سباعی صاحب نے ڈاکٹر حسن عبدالقادر صاحب کے ساتھ اپنے کالج کے دور کا ایک واقعہ بھی زیب قرطاس کیا ہے۔ جو ہمارے مغرب زدہ طبقے کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ علی حسن عبدالقادر صاحب جرمنی سے نئے نئے پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے۔جامعہ ازہر میں شیخ مراغی کے دور میں انھیں ہمیں تاریخِ تشریعِ اسلامی پڑھانے کے لیے مقرر کیا گیا۔سباعی صاحب لکھتے ہیں کہ حسن عبدالقادر صاحب کی پہلی گفتگو کچھ اس طرح تھی’’ میں تمھیں تاریخِ تشریعِ اسلامی ایسے منفرد علمی انداز سے پڑھاوں گا جس سے ازہر کا کوئی واسطہ بھی نہیں ہوگا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ازہر میں چودہ سال پڑھا ہے مگر اسلام مجھے سمجھ نہیں آیا۔ میں نے اسلام کو جرمنی میں طالب علمی کے زمانے میں سمجھا‘‘۔ہم طلبہ عالم حیرت میں آپس میں کہتے کہ شاید ہمارے استاد صاحب کوئی ایسی بات جرمنی سے لائے ہوں جس سے ازہر کا کوئی تعلق نہ ہو! بہرحال؛انھوں نے اپنے سامنے رکھی ہوئی ایک ضخیم کتاب سے ترجمہ کرتے ہوئے سنت نبوی کی تاریخ پڑھانی شروع کی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ گولڈ زیہر (Ignác Goldziher) کی’’دراسات ِ اسلامیہ‘‘ہے جس کی عبارات نقل کر کے ہمارے استاد صاحب اس سےعلمی حقائق باور کراتے ہیں۔ بہرحال اس طرح سلسلۂ درس جاری رہا اور ہم طلبہ اپنے مبلغِ علم کی حد تک ان کے ساتھ مناقشہ بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے امام زہری رحمہ اللہ پر امویین کے لیے حدیث گھڑنے کا الزام لگا دیا۔ ہم نے عرض کیا کہ وہ تو سنت کے امام ہیں، علماء کا مرجع ہیں، مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے۔آخرکار میں نے ان سے گولڈ زیہر (Ignác Goldziher) کی امام زہری سے متعلق پوری تحقیق کا ترجمہ کرنے کا مطالبہ کیا جسے استاد صاحب نے منظور کیا اور متعلقہ حصہ دو، ورقوں میں ترجمہ کرکے مجھے دیا۔ اب میں مختلف مکتبوں میں جاکر امام زہری کی سیرت اور اس مشتشرق کے لگائے گئے الزامات کی تحقیق کرتا رہتا۔ اس دوران مکتبہ ازہر اور دارالکتب المصریہ میں کوئی کتاب یا مخطوطہ نہیں چھوڑا، جس میں سے میں نے امام زہری سے متعلقہ مواد جمع نہ کیا ہو۔میں کالج کے سبق کے اوقات کے بعد سے رات گئے تک اس کام میں مشغول رہتا، یہاں تک کہ تین ماہ گزر گئے۔جب پوری معلومات جمع ہوگئی تو میں نے اپنے استاد صاحب سے عرض کیا کہ گولڈ زیہر نے امام زہری سے متعلق عبارات میں تحریف کی ہے اور ان کی عبارات نقل کرنے میں خیانت سے کام لیا ہے، مگر جناب استاد کا جواب تھا:’’مستشرقین اور خصوصاً گولڈ زیہر انصاف پسند لوگ ہیں، وہ نصوص اور حقائق میں تبدیلی نہیں کرسکتے‘‘۔

تب میں نے جمعية الهداية الإسلامية میں اس موضوع پر محاضرے کا اہتمام کیا۔ ادارے نے ازہری علماء اور طلبہ کو بھی شرکت کی دعوت دی،حاضری بھرپور رہی۔ اپنے استاد حسن عبدالقادر صاحب کو بھی میں نے شرکت کی دعوت دی اوراپنی معروضات پر رائے کے اظہار کی درخواست کی تھی، چنانچہ انھوں نے   یہ دعوت قبول کی اور تشریف لے آئے۔جب میں نے گفتگو کا اختتام ان الفاظ میں کیا: ’’ اس مسئلے میں میری یہ رائے ہے اور یہی رائے ہمارے علماء کی بھی ہے۔ اگر ہمارے استاد حسن عبدالقادر صاحب اس پر مناقشہ کرنا چاہتے ہیں تو ان سے تشریف آوری کی درخواست ہے‘‘۔  ڈاکٹر صاحب نے اسٹیج پر تشریف لاکر برسرمجلس فرمایا: ’’ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نہیں جانتا تھا زہری کون ہیں،حقیقت یہ ہے کہ میں نے زہری کو ابھی پہچانا ہے،مجھے آپ کی معروضات پر کوئی اعتراض نہیں‘‘ اور مجلس برخاست ہوگئی۔ 

کتاب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں ڈاکٹر سباعی صاحب نے مستشرقین کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی روداد بیان کی ہے، لکھتے ہیں:’’ پہلے میری ملاقات جامعہ لندن کے پروفیسر اینڈرسن سے ہوئی۔ یہ پروفیسر صاحب ہمارے کٹر مسلکی طبقے کی طرح ٹھیٹھ مقلد واقع ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے ایک فاضل ازہر کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے نااہل اس لیے قرار دیا کہ اس نے اپنے مقالے میں اس بات پر دلائل پیش کیے تھے کہ اسلام عورت کو اس کے پورے حقوق دیتا ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آخر آپ اسے کیسے نااہل کر سکتے ہیں جبکہ آپ لوگ اپنی جامعات میں آزادیٔ فکر کے دعوےدار ہیں‘‘؟پروفیسر نے جواب دیا:’’کیونکہ وہ از خود ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اسلام نے عورت کو فلاں فلاں حقوق دیے ہیں، تو کیا وہ اسلام کا کوئی مستند ترجمان تھا؟ کیا وہ ابوحنیفہ یا شافعی تھا کہ اسلام کا ترجمان بنا ہوا تھا؟مزید یہ کہ اس کے نتائج کی تائید میں فقہاء کی تصریحات موجود نہیں تھیں۔ وہ آدمی خود پسندی کا شکار تھا جس کو ابوحنیفہ اور شافعی سے بڑھ کر اسلام سمجھنے کا زعم تھا‘‘۔

ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی صاحب جب آکسفورڈ پہنچے تو وہاں شعبہ ٔاسلامیات کا سربراہ ایک یہودی تھا جو ٹھیک سے عربی نہیں بول سکتا تھا۔ ڈاکٹر سباعی صاحب کو حیرت ہوئی کہ یہ صاحب طلبہ کو ز مخشری کی کشاف سے قرآنی آیات، بخاری و مسلم سے احادیث، حنفی اور حنبلی فقہ کی امہات کتب فقہ کی تدریس کر رہے تھے جبکہ وہ کسی عام رسالے سے عربی عبارت سمجھنے پر قادر نہیں تھے۔ڈاکٹر صاحب نے جب ان سے مطالعہ کے مآخذ کا پوچھا  تو گولڈ زیہر(IgnácGoldziher)،  مرجلیوث(David Samuel Margoliouth) اور شاخت(Joseph Schacht) کا حوالہ دیا۔لیڈن(نیدر لینڈ)  میں ڈاکٹر صاحب کی ملاقات معروف جرمن یہودی مستشرق شاخت سے ہوئی۔ جب گولڈ زیہر کی غلطیوں کا انھیں بتایا گیا توپہلے تو وہ مانے ہی نہیں لیکن دلائل اور مثالوں سےبات واضح ہونےکے بعد انھوں  نے ’’ حق آپ کے پاس ہے،گولڈ سے غلطی ہوئی ہے‘‘۔ڈاکٹر سباعی نے کہا:’’ کیا یہ محض غلطی ہے؟‘‘، مسٹر شاخت نے جواب دیا:’’آپ خواہ مخواہ کیوں بدگمانی کرتے ہیں‘‘۔ جب مزید شواہد پیش کیے گئے تو مسٹر شاخت پر غصے کے آثار نظر آنے لگے اور ہاتھ ملنے لگے۔ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کےاختتام پر ان سے کہا۔ ’’ پہلے کوئی مستشرق غلطی کرتا تو عموما ہم اس کے انتقال کے بعد ہی اس کی غلطی پکڑ پاتے۔ جب تک وہ غلط بات نقل درنقل کے بعد علمی حقیقت کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اب ہم غلطی پکڑنے میں جلدی کرنے لگے ہیں،اب آپ زندگی میں ہی اس کا تدارک کرلیں ‘‘۔ اسی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے مسٹر شاخت  کو آگاہ کیا کہ اب آپ جلد از جلد اپنے اسلاف کی اغلاط کا  تدارک کیجیے۔

انھوں نے ایک اور بہت انوکھا واقعہ بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر امین مصری نے (جو ازہر کے شعبۂ اصولِ دین کے فاضل تھے) جامعہ لندن سے شاخت پر تنقیدی مقالہ لکھنا چاہا تو انھیں اجازت نہیں ملی۔ پروفیسر اینڈرسن نے صاف انکار کیا، وہ وہاں سے مایوس ہوکر کیمبرج چلے گئے۔ وہاں انھیں صاف کہا گیا کہ اگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری میں کامیابی چاہیے تو مسٹر شاخت پر تنقید سے بچ کر رہنا ہوگا، کیونکہ جامعہ اس کی اجازت نہیں دے گی۔تب انھوں نے اپنا موضوع بدل لیا۔

کتاب کے آخری حصے میں ڈاکٹر صاحب نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر ہمارے کچھ لوگ مستشرقین کے کام کا اس طرح سے ناقدانہ جائزہ لیں جس طرح انھوں نے ہمارے اسلاف کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ پھر مستشرقین اس کام کو دیکھیں تو انھیں اندازہ ہوسکے کہ جو طریقہ انھوں نے ہمارے دین اور تاریخ میں حقائق دریافت کرنے کے لیے وضع کیا ہے اس سے کیسے نتائج نکلتے ہیں اور اس طرح ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔

آج بھی ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ حسن عبد القادر صاحب کی طرح اس غلط فہمی  کا شکار ہیں کہ مستشرقین؛ غیر جانب دار، منصف مزاج اور معتدل ہوتے ہیں، اور ان کا رویہ خالص علمی ہوتا ہے، مگر حقائق اس کے بر خلاف ہیں، اور استشراق کا گہرا مطالعہ کرنے والے تقریباً تمام اہلِ علم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں جو ڈاکٹر سباعی صاحب نے بیان کیا ہے۔

      

لرننگ پورٹل