لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024

مشہور و معروف قول کے مطابق شہنشاہِ کونین ﷺ۱۲ ربیع الاول کو مکہ میں صبحِ صادق کے وقت ابوطالب کے مکان میں پیدا ہوئے ،لیکن جمہور مورخین اور محدثین کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ ولادتِ باسعادت کی تاریخ ۸ ربیع الاول یوم دوشنبہ، اپریل ۵۷۰ عیسویں ہے۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے یہی مروی ہے،1جبکہ علامہ شبلی رحمہ اللہ نے مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضور ﷺکی ولادت ۹ ربیع الاول بروز دوشنبہ ، ۲۰ /اپریل ۵۷۱ عیسویں میں ہوئی۔ 2

آفتاب جب طلوع ہوتا ہے تو اس سے پہلے اس کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں ،صبحِ صادق کے آتے ہی کالی رات کی تاریکیاں گم ہوجاتی ہیں ،اندھیرے چھٹ جاتے ہیں ،تھوڑی دیر میں سورج کی ضیا بار کرنیں عالم کو منور کرنے لگتی ہیں ۔رسالت مآب ﷺکے دنیا میں آنے سے پہلے خوارق کا سلسلہ چل نکلا ،جو درحقیقت نبوت و رسالت کے مبادی اور مقدمات ہوتے ہیں ،جس کو اصطلاح میں ارہاص کہا جاتا ہے۔

حضورِ پرنور ﷺکی آمد کے قریب خرقِ  عادت امور رونما ہونے لگے،حضور ِاکرم ﷺکی ولادتِ باسعادت سے تقریبا پچپن روز پہلے ابرہہ کی لشکر کشی کا واقعہ پیش آیا۔اللہ تعالی نے مکہ کے رہنے والوں کو اس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے سے بچایا اور لشکر ِابرہہ کو ابابیل کے ذریعے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔3یہ گویا آپ ﷺکے دنیا میں آنے سے پہلے غیبی اشارہ تھا ۔ابرہہ کے مقابلے میں قریش کی مدد و نصرت اس وجہ سے نہیں کی گئی تھی کہ وہ حق کے پیرو تھے، بلکہ ابرہہ دینِ مسیحی کے حامل ہونے کی وجہ سے قریش کی بنسبت حق کے زیادہ قریب تھا۔یہ مددِ خداوندی اور نصرتِ الٰہی اس بات کی علامت تھی کہ اس قبیلے اور اس شہر میں نبی آخر الزماںﷺکی آمد آمد ہے، اسی نسبت سے یہ ایک غیبی اعلان تھا۔

حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں حضور ﷺکی ولادت کے وقت آمنہ کے پاس تھی، اس وقت میں نے دیکھا کہ گھر نور سے بھر گیااور آسمان کے ستارے جھکے ہوئے آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ ستارے مجھ پر آگریں گے۔4حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت آمنہ نے حضور ﷺکی ولادت کے وقت ایک نور مشاہدہ کیا جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے ۔5مؤرخین اور اصحابِ سیر نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺکی ولادت کی رات ایوانِ کسریٰ میں زلزلہ آیا جس سے محل کے ۱۴کنگرے گرگئے،آتش کدۂ فارس جو سالہا سال سے روشن تھا بجھ گیا اور دریاے ساوہ خشک ہوگیا۔6

علامہ شبلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے اس لیے کہ بخاری و مسلم حتٰی کہ صحاحِ ستہ میں اس کا کوئی پتا نہیں ملتا ،لیکن ان کی یہ دلیل بہت کمزور معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ روایت درجۂ استناد کو پہنچتی ہے، ضروری نہیں کہ صحیح ہونا صحاصِ ستہ پر موقوف ہو، بلکہ صحاحِ ستہ کے علاوہ بڑی تعداد میں صحیح احادیث پائی جاتی ہیں، جن سے علامہ شبلی نے خود بھی استدلال فرمایا ہے۔ مذکورہ روایت کی اصحابِ سیر نے تحسین کی ہے، یہ درجۂ شہرت کو پہنچی ہے اس لیے اسے جھٹلانا مشکل ہے۔البدایۃ والنہایۃ میں یہ روایت سندِ متصل کے ساتھ منقول ہے ،کہتے ہیں کہ زلزلےاور محل کے کنگرے گرنے سے کسریٰ بہت پریشانی کے عالم میں تھا، اس نے ارکانِ دولت کو جمع کرکے دربار منعقد کیا ،اب تک مجلس برخاست نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے اطلاع دی کہ فارس کا آتش کدہ جو ہزار سال سے روشن تھا بجھ گیا ہے ،ادھر سے موبذان نے اپنا خواب جو اسی رات کو دیکھا تھا بیان کیا کہ سخت قوی اونٹ دریائے دجلہ کو پار کرتے ہوئے عربی گھوڑوں کو کھینچے لیے جارہے ہیں اور تمام ممالک میں پھیل گئے ہیں۔کسریٰ نے تعبیر پوچھی تو موبذان نے کہا: ’’معلوم ہوتا ہے عرب کی طرف سے کوئی عظیم الشان حادثہ پیش آنے و الا ہے‘‘۔کسریٰ نے تحقیق کے لیے نعمان بن منذرکو لکھا: ’’اپنے علاقے سے کسی ماہر عالم کو میرے پاس بھیجو ،تاکہ وہ میرے سوالات کا جواب دے‘‘۔

نعمان نے ایک بڑے اور معتمد عالم عبدالمسیح غسانی کو بھیجا۔ جب وہ حاضرِ خدمت ہوا تو بادشاہ نے پوچھا: ’’آپ میرے سوالات کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟‘‘۔اس نے کہا: ’’آپ دریافت فرمائیں، اگر مجھے جواب دینے میں مشکل درپیش ہوئی تو میں اپنے ماموں سطیح سے معلوم کرلوں گا‘‘۔ بادشاہ نے تمام واقعہ سنایا،تو عبدالمسیح نے کہا: ’’مجھے اس کا علم نہیں ہے، البتہ میں اپنے ماموں سطیح جو شام میں رہائش رکھتے ہیں اور بڑے عالم ہیں سے معلوم کرلوں گا، ممکن ہے وہ اس کا جواب دیں‘‘۔بادشاہ نے عبدالمسیح کو تحقیق حال کے لیے سطیح کے پاس بھیج دیا ۔

عبدالمسیح اپنے مامو ں سطیح کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ قریب المرگ تھا ۔عبدالمسیح نے جاکر سلام کیا اور کچھ اشعار پڑھے،سطیح نے عبدالمسیح کو پہچان لیا، اس کی طرف متوجہ ہوااورکہنے لگا: ’’عبد المسیح تیز اونٹ پر سوار ہوکر سطیح کے پاس پہنچا اس حال میں کہ سطیح مرنے کے قریب ہے، تجھے بنی ساسان کے بادشاہ نے محل کے زلزلے،آتش کدۂ فارس کے بجھ جانے اور موبذان کے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے واسطے بھیجا ہے ،تو اے عبدالمسیح! یادرکھ، جب کلامِ الٰہی کی تلاوت کثرت سے ہونے لگے ،صاحبِ عصا ظاہر ہو،وادیٔ سماوہ جاری ہوجائے،دریاے ساوہ خشک ہوجائے اور فارس کا آتش کدہ بجھ جائے تو سطیح کے لیے شام ،شام نہ رہے گا ۔بنی ساسان کے چند مرد اور چند عورتیں بقدر کنگرو ں کے حکومت کریں گے اور جو بات ہونے والی تھی وہ ہوگئی،یہ کہتے ہی سطیح دنیا سے رخصت ہوا‘‘ ۔عبدالمسیح وہاں سے واپس ہوا۔ کسریٰ کو اس مکالمے سے آگاہ کیا ،کسریٰ نے جب یہ سنا تو کہا کہ چودہ سلطنتوں کے گزرنے کے لیے بڑا عرصہ چاہیے،جب کہ زمانہ بہت جلد گزر گیا۔نوشیرواں کے بعد یکے بعددیگرےچودہ سلطنتیں گزر گئیں ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت تک کسریٰ کے آخری تاجدار یزدگرد پر سلطنتِ کسریٰ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی، قصہ ٔپارینہ بن گئی۔7

قیصر کو بھی نبی اخر الزماں ﷺکی خبریں ملیں ، اس نے بھی تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ نبی برحق ہیں ۔ قبولِ اسلام کا ارادہ بھی کیا لیکن سلطنت پاؤں کی بیڑی بنی رہی ۔حضور ﷺکے خط اور سفیر کی تعظیم کی برکت سے سقوطِ ریاست سے تو محفوظ رہا لیکن اسلام نہ لانے کی فوری سزا کے طور پر مقبوضات سے محروم ہو کر زوال پذیر ہو رہا ۔ اور مصنف ابنِ ابی شیبہ کے مطابق حضورﷺنے خبر بھی یہی دی تھی کہ روم ﴿ذَاتُ الْقُرُونِ بہت سارے سینگوں والا ہے ، ایک کے ٹوٹنے کے بعد دوسرا نکلتا رہے گا ۔

بازنطینی سینگ عثمانیوں نے توڑا تو برطانوی سینگ عثمانیوں کو توڑنے میں کامیاب رہا ۔ اب جبکہ عثمانی دوبارہ بیدار ہو رہے ہیں تو دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن کیا ہم دیکھتے ہی رہیں گے؟ ہم ماضی میں کیا کیا کرتے تھے؟ہم عثمانیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے ۔ اب بھی ہمیں ان کا دست و بازو بننا ہو گا لیکن اس کے لیے ہمیں اسلام کی پناہ میں آنا ہو گا۔ پھر ہم دنیا کو وہی پیغام دے سکتے ہیں جو عامر بن ربعی رضی اللہ عنہ نے سر دربار  رستم دیا تھا ’’اللہ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم اس کی مرضی کے مطابق، اللہ کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ذاتِ وحدہ لاشریک کی بندگی میں دے دیں، دنیا کی تنگی اور گھٹن سے نکال کر آزاد فضا میں لے آئیں اور دوسرے ادیان کے ظلم و جور سے نجات دلاکر اسلام کے عدل و انصاف کے دامن میں جگہ دیں‘‘۔8

اورہمیں مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ کے اس ملفوظ کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ’’ہمیں کسی نئے دین کی ضرورت نہیں بلکہ اس دین پر نئے ایمان کی ضرورت ہے،ہمیں کوئی نیا پیغام درکار نہیں بلکہ اسی پیغام کے لیے جوش اور ولولے کی ضرورت ہے ،اسلامی تشخص کو قوت پہچانے اور اسے مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے‘‘۔9تاکہ مادیت کے اس پر آشوب دور میں دنیا ایک بار پھر روحانیت سے روشناس ہو اور آفتاب رسالت ﷺکی ضیا بار کرنوں سے منور ہو۔

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

حوالہ جات

1 مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،سیرتِ مصطفی، جلد اول، ص:۲۷

2 علامہ شبلی نعمانی، سیرت النبیﷺ، جلد اول

3 مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،سیرتِ مصطفی، جلد اول،ص:۲۴

4 مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،سیرتِ مصطفی، جلد اول،ص:۲۴

5 مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،سیرتِ مصطفی، جلد اول،ص:۲۴

6 البدایۃ والنہایۃ ،جلد اول، ص: ۶۷۳ ،مکتبہ فریدیہ

7 عیون الاثر،جلد اول، ص: ۲۹، طبقات ابن سعد ،جلد اول ،ص: ۹۱،ابن حجر عسقلانی،الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، جلد ششم، ص:۳۳۵ ،مکتبہ رحمانیہ

8 البدایہ و النہایہ، جلد چہارم، ص: ۴۳

 9 دریائے کابل سے دریاے یرموک تک، ص: ۷۵

لرننگ پورٹل