لاگ ان
جمعرات 23 شوال 1445 بہ مطابق 02 مئی 2024
لاگ ان
جمعرات 23 شوال 1445 بہ مطابق 02 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 23 شوال 1445 بہ مطابق 02 مئی 2024
جمعرات 23 شوال 1445 بہ مطابق 02 مئی 2024

قلب و نظر یا دل و نگاہ، لطائف و معارف کے حامل اور باہم مربوط ہیں۔ صاحبانِ سخن کا؛ ان دو کے واردات پر کلام اس تعلقِ نفیس کی نفاست پر شاہد ہے۔ نظر آلودۂ عشق ہو اور دل محبت آمیز ہو تو اس تعلق کی چاشنی کے بیان کو الفاظ کہاں سے لائیے ۔ تو نظر خدا کی تھی اور دل مصطفیﷺکا تو کیا کہنے۔ چنانچہ نظرِ الٰہی نے جب کسی محبوبِ آخر الزماںﷺکا انتخاب چاہا تو دلوں پہ نظر کی اور دلوں میں سب سے نیک، قلبِ محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام کوپایا 1 تو اپنا محبوب قرار دیا۔عام طور پر محبوب، محبت پا کر اِترا ہی جاتے ہیں لیکن محبوبِ رحمانی علیہ السلام کے کیا کہنے کہ آپ نے عجز وانکسار کے لہجے میں فرمایا : ﴿أَلاَ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلاَ فَخْرَ2 ’’جان رکھو کہ میں اللہ کا محبوب ہوں اور میں اس پر فخر نہیں کرتا ‘‘۔چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو اپنا بنا لیا تو اس اپنانے کے دو مظہر ہوئے :﴿فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ فَبَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ3 ’’اللہ نے انھیں اپنے لیے چن لیا اور انھیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا‘‘ ۔پہلے آپﷺکی بعثت کی شان ملاحظہ کیجیے :﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا4’’ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر‘‘۔اسی بات کو رسول پاک ﷺنے یوں واضح کیا﴿ بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ5 ’’مجھے بھیجا گیا تمام سرخ و سیاہ کی طرف‘‘۔مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسود و احمر سےجن و انس مراد ہیں کہ آپ ان دونوں کی طرف مبعوث ہوئے اور بعض دوسرے اہلِ علم نے کہا کہ اس سےعرب وعجم مراد ہیں ۔ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا: ’’ سچی بات یہ ہےکہ بیک وقت دونوں مفہوم صحیح ہیں‘‘۔6

آپﷺکی رسالت کے عموم کو بہت ہی عام رکھا گیا:﴿إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ7’’زمین و آسمان کی ہر چیز مانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں سوائے ناہنجار جن وانس کے‘‘۔ محبتِ الٰہی کا ایک ظہور ﴿فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ کے الفاظ میں ہوا۔ اس ترکیب میں وارد’’چناؤ‘‘ کا معنی یوں بیان کیا گیا: أن يكون مَظْهَرَ صِفاتِه8’’تاکہ آپ اللہ کی صفات کے مظہر بن جائیں‘‘ تو آپ ﷺبندۂ مولا صفات اور مظہر نورِ خدا ٹھہرے۔

اللہ کی صفات کا اظہار،اس کے اسما سے ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺکے مظہر صفاتِ رب ہونے کا ایک مظہر یہ ہے کہ بہت سارے اسماے نبی؛ اسماے خداوندی سے ماخوذ ہیں، جیسے اللہ تعالی الرؤوف اور الرحیم ہے تو اس نے آپ ﷺکو ﴿رَءُوفٌ رَحِيمٌ9کا لقب عطا کیا۔اللہ تعالی کا ایک اسم ِعظیم النُّور ہے تو آپ ﷺکو ﴿سِرَاجًا منيرا10 قرار دیا گیا ۔اللہ تعالی الشَّهِيدہے تو رسول اللہ ﷺکو شاہد و شہید قرار دیا گیا ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا﴾ ﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عليكم شهيدا﴾۔11اللہ کا ایک نام الْكَرِيم ہے تو اللہ نے آپ کو ﴿رَسُولٍ كَرِيمٍ12قرار دیا اور آپﷺنے خود اپنے بارے میں فرمایا :﴿أَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ13’’میں اولادِ آدم کا سب سے کریم شخص ہوں‘‘۔اسی طرح اللہ تعالی کا ایک اسم شریف، الاول بھی ہے تو ﴿أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ14 پر مستزاد،متعدد اولیتوں سے آپﷺکو نوازا گیا ہے۔ ایک روایت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپ ﷺفیصلۂ نبوت میں تو پہلے ہیں لیکن بعثت میں آخری ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:﴿إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ15 ’’ میں اللہ کے پاس خاتم النبیین لکھاجا چکا تھا جب آدم اپنی مٹی میں لتھڑے تھے‘‘۔آخرت کےمراحل میں بھی آپ کو اولیت دی گئی ہے : ﴿أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ16 ’’سب سے پہلے مجھے ہی زمین سے نکالا جائے گا‘‘۔ میدانِ حشر کی عام بے ہوشی کے ذکر میں فرمایا:﴿أَنَا أَوَّلُ إِفَاقَةً17 ’’اس بے ہوشی سے سب سے پہلے افاقہ مجھے ہی ہو گا‘‘۔

جب کائنات اللہ تعالی کے نور سے منور ہو گی تو حقیقتِ منتظَر کو آشکار دیکھ کر، ہر جبینِ نیاز میں سجدے تڑپ تڑپ اٹھیں گے لیکن اس سجدۂ عالَم ہوش کا اذن سب سے پہلے ہمارے نبی ﷺکو ہی دیا جائے گا : ﴿أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِالسُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ18’’قیامت والے دن سب سے پہلے مجھے ہی سجدے کا اذن ہو گا‘‘ پھر آپ کی زبان پر وہ محامد اور ثنائے حسِیں کے ترانے جاری ہو ں گے جو اس سے پہلے کسی پہ کھلے نہ ہوں گے، اس دن حمد کا پرچم آپ ہی نے تھاما ہو گا۔ اتنے میں محب کی محبوب کے لیےمحبت جوش مارے گی تو حکم جاری ہو گا: ﴿يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ﴾۔19’’اے محمد سر اٹھائیے مانگیے! آپ کو دیا جا ئے گا، سفارش کریں قبول کی جائے گی‘‘۔ سفارش کرنا جبکہ وہ مقبول بھی ہو اور معقول بھی،ایک اعلی منصب اور قابل فخر چیز ہے۔لیکن میرے حضورﷺنے اپنے اس درجۂ رفیع کا ذکر بغیر فخر کے کیا:﴿أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ20 ’’قیامت کے دن سب سے پہلے میں ہی سفارش کروں اور سب سے پہلے میری ہی سفارش سنی جائے گی اور اس میں مجھےکوئی فخر نہیں ہے‘‘۔ اب تاریخ کی سب سے بڑی لیکن مختصر ترین سفارش شروع ہوتی ہے:﴿يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، يَا رَبِّ21 ’’یا رب میری امت میری امت یا رب ‘‘۔

یہ سفارش کس کی ہو گی،خود رسول ﷺنے بتایا : ﴿أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ يَشْفَعُ فِى الْجَنَّةِ22’’لوگوں میں سب سے پہلے میں ہی جنت کے معاملے میں سفارش کروں گا‘‘۔ اب جب جنت کے ’’داخلے‘‘ کھلیں گے تو حکم ہو گا :﴿يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ23’’اے محمد! داہنے دروازے سے اپنے ان امتیوں کو جنت میں داخل کریں جن پر کوئی حساب نہیں ہے‘‘۔سبحان اللہ!رتبہ دیکھیے ہمارے پیغمبر علیہ السلام کا کہ اعلی درجے کے مستحقین جنت بھی آپ کی شفاعت کے بعد ہی جنت میں جارہے ہیں۔شفاعت کے اگلے ادوار میں ان لوگوں کو جنت میں داخلےکی نوید سنائی جائے گی جن کے دل میں ﴿حَبَّةٍ مِنْ شَعِيرٍ مِنَ الْإِيمَانِ﴾’’جو کے دانے کے برابر ایمان‘‘ موجود ہو گا۔اس کے بعد جو کے نصف دانے کے برابر ایمان والوں کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی اور اس کے بعد ان لوگوں کو شفاعت قبول کرتے ہوئے جنت کی بشارت دی جائے گی جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان موجود ہو گا۔24

اب پلِ صراط کا مرحلہ ہے تو پل صراط کو سب سے پہلے آپ ﷺہی کی قدم بوسی کا شرف ملے گا : ﴿أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُوضَعُ لَهُ الصِّرَاطُ ’’میرے ہی لیے سب سے پہلے پل صراط کو بچھایا جائے گا‘‘۔25اب آئی جاگتے خوابوں کی منزل، جنت کی سچی بیٹھک اور یہاں بھی آپ ﷺہی سبقت فرمائیں گے : ﴿أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الجنةِ26’’میں ہی سب سے پہلے جنت کے دروازے پہ دستک دوں گا ‘‘۔اب جب جنت کے دروازے کھلیں گے اور خازن آپ کو مرحبا کہے گا تو آخری مراحل کی ایک اور اولیت کا ذکر کرے گا:﴿بِكَ أُمِرْتُ أَنْ لَا أَفْتَحَ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ27 ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ سے پہلے کسی کے لیے جنت کا دروازہ نہ کھولوں‘‘جب رسول اللہ ﷺکو اتنی ’’ اولیات ‘‘ دی گئیں تو یہ نہ سمجھیں کہ امت محروم رہی، اور اس نبیِ رحمتﷺکے فیض سے کیسے محروم رہ سکتی ہے کہ جس کے کلمہ ٔشفاعت کی ابتدا ہی ﴿أُمَّتِى أُمَّتِى﴾ سے ہوئی تھی!!چنانچہ اولیتِ محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام کے طفیل امت محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام بھی پہلی امتوں سے پہلے جنت میں جائے گی، پڑھیے فرمان  رسولﷺمع درود :﴿نَحْنُ الآخِرُونَ الأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ28’’ہم (زمانی ترتیبِ میں) پچھلے، قیامت والے دن سب سے آگے ہوں گے اور ہم ہی جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے‘‘۔

ان اولّین شانوں کے حامل، مہ کامل، محمدﷺکا ظہور جس ماہ میں ہوا، وہ ربیع الاول ہے اور ہمارے ماہنامے مفاہیم کا بھی یہ پہلا شمارہ  ہے۔ چنانچہ اول اول تذکرۂ محمدیعلی صاحبھا الصلاۃ و السلام سے اپنے ماہنامے کو مشکبار کرنے کے بعد ہم یہ شمارہ، نذرِ رسالت مآبﷺکرتے ہیں تاکہ ہماری شروعات کے لیے خیروبرکت کا باعث ہو۔ اس شمارہ ٔخاص سے اگرچہ ہمارا مقصودِ اصلی تو سعادت و ثواب کا حصول ہے ورنہ کہاں ہم کہاں ثناے خواجۂ یثرب، چاہیے کہ ہمارے قارئین بھی اسی کی نیت کریں ہاں ضمنی طور پر کچھ علمی فائدہ ہو جائے تو اسے فیضانِ  محبتِ مصطفی ﷺہی سمجھنا چاہیے۔

رسول اللہ ﷺکی ذات کا ایک پہلو تو وہ ہے جسے خیرِ قلوب کہا گیا یعنی آپ کی شخصی خوبیوں اور تعلق مع الحق کا بیان اور دوسرا وہ پہلو جسے بعثت برسالت کہا گیا جس کا جامع عنوان تعلق مع الخلق ہے۔ مفاہیم کے اس خصوصی شمارے میں کوشش کی گئی ہے کہ آپ ﷺکی شخصیت کے یہ دونوں پہلو بساط بھر سامنے لائے جائیں۔ موضوعات کی ترتیب میں یہ بھی پیش نظر رہا ہے کہ وہ مواد سامنےلایا جائے جو محض علمیت کے بجائے، آپ ﷺکی عقیدت و عظمت کو دل و دماغ پر حاوی کرنے میں معاون ہو۔

جہاں تک مفاہیم کے اجرا کی بات ہے تو ہم کوئی بہت نیا اور بہت خاص کرنے نہیں چلے بلکہ یہ ایک عام اور عاجزانہ سی کوشش ہے ۔ پیش نظر یہ ہے کہ اپنے اساتذہ کرام کا فیض جہاں تک ہو سکے، احباب تک پہنچایا جائے۔ یہ سلسلۃ الذھب کی ایک کڑی بننے کی کوشش ہے چاہے یہ کڑی پیتل ہی کی کیوں نہ ہو ۔ اس کام پر ہمیں ابھارنے والا یہ فرمان نبوی ہے ﴿يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ29 ’’اس علم (دین)کو ہر اگلی نسل کےعادل لوگ (اپنے پچھلوں سے)سیکھیں گے‘‘۔

اگلوں کا پچھلوں سے’’ صحیح رابطہ‘‘اساتذہ کے ذریعے یعنی بالمُشافَہہ ہی ممکن ہے ۔البتہ کم تر درجے میں یہ رابطہ، بالمُطالَعہ بھی ممکن ہے،تو اس قیامِ ربط میں تھوڑی سے خدمت کرنے کے لیے ہم، مقالات اور منتخباتکے نام سے دو سلسلے اپنے ماہنامے میں شروع کر رہے ہیں جس میں اہلِ علم کے مختصر یا مفصل مضامین و اقتباسات پیش کرتے رہیں گے۔فیض رسانی کے اس کام کے دوران کوشش رہے گی کہ﴿ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ کا کچھ ازالہ کیا جا سکے، دین اور تصور دین اور اس کے فرائض و واجبات کے ثبوت و اثبات میں ’’پر خلوص‘‘غلو کا شکار ہو کر، مسلّمہ اصولوں سے انحراف کرنے والے دوستوں کا خود پر عائد، حقِ نصیحت و خیرخواہی ادا کیا جا سکے۔

یہ بھی ہمارے پیش نظر رہے گا کہ ﴿تَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ کو مُحقَق و منقح،روایتِ علمی کی تحقیق سے روشناس کرایا جاتا رہے ۔ عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے سماج کی دینی تعمیر کی غرض سے تاویل و تعبیرِ جدید کا شوق کئی حلقوں میں بہت پایا جاتا ہے لیکن تاویل و تعبیر کے اصول و ضوابط سے ناواقفی بس کچھ نہ کہیے خاموش رہیے۔ان دو خدمتوں کے لیے تصحیح ہائے مفاہیم اور نظریات کے نام سے دو سلسلے شروع کر رہے ہیں ۔

روایت ومذہب سے انحراف دنیا کے کسی بھی خطےمیں ہو اس کا کُھرا مغرب میں نکلتا ہے ۔ تو غرب پر تنقید کیے بغیر شَرق کی بنتی نہیں ہے، اس کارِ خیر کے لیے ایک سلسلہ’’ تنقیدِ مغرب‘‘ کے نام سے شروع کرنے کا ارادہ ہے ۔ اس محاذ پر دادِ شجاعت دینے والے اہلِ فن کا کلام قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کیا جاتا رہے گا۔

دورِ جدید میں انسان تصورِ تحریک سے واقف ہوا تو ہر مذہب و ملت نے اپنے مختلف حقوق کے حصول و تحفظ کے لیے تحریکات کا پرچم بلند کیا، پھر ردِّعمل کے طور پر بھی کئی تحریکات نےجنم لیا۔ ادھر اہلِ اسلام میں بھی تحریکوں کے دور کی ابتدا ہوئی۔ تب دین کی تحریکی تعبیر کی گئی ۔ بانیانِ تحریک کے اپنے بیان کے مطابق بھی یہ تحریکیں ادھیڑ عمری کا شکار ہوئیں تو جماعتیت کے بڑھاپے سے گزر کر اب مسلک و مشرب کے جَنَم میں پیدائش کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ خیال یہ تھا کہ تحریکِ اسلام کو مذہب بنا دیا گیا، لہذا تحریک کا احیا کرتے ہیں اور اب خود ایک مذہب بنا بیٹھے ہیں ۔ نئے علمِ کلام کی ضرورت کا احساس کیا ہوا عقائد ہی نئے کر ڈالے۔ فکر و نظریے سے بات شروع کی اور رفتہ رفتہ اسےعقیدے کے سِنگھاسَن پہ براجمان کیا ۔ان اصحابِ فکر و نظر سے بھی گاہے گاہے ہمارا مخاطبہ رہے گا، اسے ہم نے’’ تحریکات‘‘ کا عنوان دیا ہے۔تحریکات سے ایک گِلہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اُمت پَنے کو متاثر کیا ۔ اصولی جماعت سازی کے چکر میں وہ یہ بھولتے گئے کہ’’یہاں ایک اُمت بستی ہے‘‘۔امت کے مختلف حصوں کے تعارف و مشترکہ مفادات چاہے وہ دنیوی ہی کیوں نہ ہوں، کے تحفظ و آگاہی کے لیے ’’احوالِ امت ‘‘کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ تاکہ فرمانِ نبویﷺ﴿ مَنْ لَّمْ يَهْتَمَّ بِأمْرِ المُسلمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ30’’جو مسلمانوں کے معاملات سے دلچسپی نہ رکھے وہ مسلمانوں میں سے نہیں‘‘ کا مصداق بننے سے بچا جا سکے۔

ادبیات کے لیے ایک گوشہ ٔخاص کیا گیا ہے۔ وہ جو حالی نے مسدس کے دیباچے میں لکھا کہ قوم کو ’’نظم‘‘سے جگانےکی ضرورت ہے ۔ بغیر اس بحث کے کہ حالی نے وہ ضرورت کس حد تک پوری کی اور وہ ’’ضرورت‘‘ ضروری ہے بھی یا نہیں، انسانی جمالیات اپنی تسکین چاہتی ہے اور لفظ اس کا ایک اچھاذریعہ ہے۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ’’اسلامی ادب‘‘، ادب کے معیار پر پورا نہیں اترتا، تو کیا عجب ہمارے حسن انتخاب سے کسی قدر اس کا مداوا بھی ہو جائے۔ انتخابِ ادب میں اچھےلفظ سے حظ اٹھانا تو پیشِ نظر رہے گا ہی، کوشش کی جائے گی کہ انتخاب ایسا ہو کہ دینی و ملی جذبات کی جلا اور لطیف ابحاث کی تفہیم کا کام بھی چلتا رہے۔

مفاہیم، فقہ اکیڈمی کا ترجمان رسالہ ہے اور فقہ اسلامی سےتعرض تو یہاں صبح و شام کا معمول ہے ۔ اساتذہ کی بعض فقہی بحثیں، فقہیات کے نام سے ہمارے اوراق کی زینت بنتی رہیں گی جو طلبہ کے ساتھ عام احباب کے لیے بھی فائدہ مند ہوں گی ۔فقہ اکیڈمی میں ’’فتاویٰ یسلونک، دار الافتاء والارشاد‘‘ کے نام سے ایک دار الافتاء قائم ہے جو احباب کے سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ان میں سے اہم سوالات مع جواب شائع کیے جاتے رہیں گے، اس کے لیے سوالات کے عنوان سے ایک سلسلہ شاملِ اشاعت رہے گا۔

گفتار کے غازی تو ہم خیر ہیں ہی لیکن ’’ عمل وکردار‘‘کے لحاظ سے ہم تہی دست، دست بہ دعا ہیں کہ اللہ ہم سے دین و ملت کی کچھ خدمت لے لے۔اور ہر طرح کے فتنہ و شرور سے اپنی حفاظت میں رکھے اور کسی بھی ایسے طرز عمل سے ہمیں محفوظ رکھے جو دین اور اہل دین کے نقصان کا باعث ہو۔ہم اپنے قارئین سے بھی اسی دعا کی درخواست کرتے ہیں ۔

حوالہ جات

1 مسند احمد 11 الفتح :۸، البقرہ : ۱۴۳ 21 مسند احمد
2 سنن ترمذی 12 الحاقہ: ۴۰ 22 صحیح مسلم
3 مسند احمد 13 سنن ترمذی 23 صحیح بخاری، مسند احمد
4 سباء :۲۸ 14 الزمر :۱۲ 24 مسند احمد
5 مسند احمد 15 مسند احمد 25 جامع الکبیر
6 تفسیر ابن کثیر 16 سنن ترمذی 26 صحیح مسلم
7 مسند احمد 17 مجمع الزوائد 27 مسند احمد
8 شرح الشفاء للقاری 18 مسند احمد 28 صحیح مسلم
9 التوبہ :۱۲۸ 19 صحیح بخاری 29 مشكاة المصابيح
10 الاحزاب : ۴۶ 20 سنن ترمذی 30 مستدرک حاکم
لرننگ پورٹل