لاگ ان
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024
لاگ ان
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024

صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی

بیت المقدس کا تاریخی خاکہ
قسط نمبر۲۴

فلسطین میں مسلمانوں کی زمینوں پر یہودی قبضے کا معاملہ بہت گھمبیر ہو چکا تھا۔ ۱۹۳۰ء میں حکومتِ برطانیہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جو جانسن کروسبی کے نام سے مشہور ہوئی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسلمانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ زرعی زمینیں ان کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہیں۔ کہیں تو اپنے قرضوں اور کہیں سرکاری محصولات کی ادائی کے لیے زمینیں اونے پونے بیچنے پر مجبو ر ہو رہے ہیں اور ان میں غربت و افلاس عام ہو رہا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹس کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ نظر آتا تھا چنانچہ اس کار روائی سے بھی مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ اسی دوران دیوارِ گریہ کے حادثے کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور جولائی ۱۹۳۰ء میں پر تشدد کار روائیوں کے الزام میں سترہ فلسطینیوں کو سزاے موت دی گئی جب کہ دوسری طرف صرف ایک یہودی کو سزاے موت کا فیصلہ سنایا گیا لیکن بعد میں اس کی سزا کو بھی عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس پر پھر مظاہروں اور کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس نئی لہر کو روکنے اور مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے برطانوی وزیرِ استعماریات لارڈ پاسفیلڈ نے فلسطین میں امن و امان بحال کرنے کے لیے ایک سیاسی لائحہ عمل پر مشتمل وائٹ پیپر شائع کیا۔ اس میں کسی حد تک یہودی ہجرت کی تحدید اور عربوں کے زرعی و معاشی تحفظ کی بات کی گئی۔ جس پر یہودی اکابر بالخصوص وائز مین نے بھرپور لابنگ کی اور برطانیہ کے مختلف سیاست دانوں مثلاً چرچل، چیمبرلین اور بالڈوین وغیرہ کو اپنی مدد پر آمادہ کیا جن کی مداخلت سے وزیر اعظم میکڈونلڈ نے فروری ۱۹۳۱ء میں برطانوی اسمبلی میں ایک تقریر کی۔ اس نے تقریر میں وائٹ پیپر کے بارے میں کچھ وضاحتیں کیں جو اصل میں اس کی تنسیخ پر مشتمل تھیں۔ اس نےقرار دیا کہ یہودی ہجرت کو ہر حال میں جاری رکھا جائے گا اور اس کے منافی کوئی عمل قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ اس نے کہا کہ ہم پوری تحقیق سے وہ زمینیں دریافت کریں گے جہاں یہودی مہاجرین آباد کیے جا سکتے ہیں۔ اس نے یہود کی عرب کارکنوں کو ملازمتیں نہ دینے کی عمومی یہودی پالیسی کی بھی حمایت کی۔اس طرح اس نے لارڈ پاسفیلڈ کی اس ساری محنت کو ضائع کر دیا جو اس نے ۱۹۲۹ء کے فسادات کے بعد عمومی بہتری لانے کے لیے کی تھی۔

یہودی سیاسی تحریک مصححین revisionists اور اس کا سربراہ ولادی میر جابوتینسکی،عالمی صیہونی تنظیم کے سربراہ وائز مین سے کچھ اختلاف رکھتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ ہمیں جلد از جلد یہود کی قومی ریاست کے قیام کا اعلان کر دینا چاہیے۔ اس کے لیے دریاے اردن کا کنارہ کافی ہے جب کہ عالمی صیہونی تنظیم کا خیال تھا کہ ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہیے بلکہ زیادہ سے زیادہ اراضی ہتھیانے کے بعد کسی مناسب موقعے پر یہودی قومی ریاست کے قیام کا اعلان کرنا چاہیے۔ ۱۹۳۰ء کے وائٹ پیپر کی اشاعت کے موقعے پر وائز مین کی مقبولیت میں کچھ کمی ہوئی چنانچہ جولائی ۱۹۳۱ء میں عالمی صیہونی تنظیم کی سربراہی ناحوم سوکولوف کے حصے میں آئی۔ تاہم وائز مین اپنی مؤثر شخصیت اور تعلقات کے بل بوتے پر عالمی سطح پر یہودی قومی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں رہا اور اس نے میکڈونلڈ کے تعاون اور اس کی توضیحات سے صورتِ حال کو سنبھالا دے دیا۔۱۹۳۰ء تک یہودی مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ کے برابر تھی۔ میکڈونلڈ کی نئی پالیسی کے تحت ہجرت میں بہت اضافہ ہوا اور جلد ہی یہودیوں کی تعداد دو لاکھ سے متجاوز ہو گئی، غیر قانونی آباد کار اس سے الگ تھے۔

فلسطین میں برطانوی ہائی کمشنر جوہن چانسلر نے مسلمانوں کے معروف مطالبے’’ مجلسِ تشریعی‘‘ کی جانب کچھ پیش رفت شروع کی۔ حکومتِ برطانیہ کئی موقعوں پر اس کا وعدہ کر چکی تھی۔ مجلسِ تشریعی سے مراد قانون ساز اسمبلی سے مشابہ ادارہ تھا جو داخلی خود مختیاری کے اصول کے تحت قانون سازی کر سکتا ہے اور جس میں ہر طبقے کو اس کی آبادی کے بقدر نمائندگی دی جانا تھی۔اس پیش رفت سے یہودی سخت ناراض ہوئے۔ انھوں نے سازبا ز کر کے جوہن چانسلر کو اس کے منصب سے ہٹوا دیا اور اس کی جگہ وائز مین کی مشاورت سے سر آرتھر گرین فل واکہوب کو کمشنر مقرر کیا گیا۔ یہود نے اس کی حمایت کی اور وائز مین نے اسے اب تک سب سے بہترین کمشنر قرار دیا۔ مسلمانوں نے بجا طور پر محسوس کیا کہ کمیٹیوں کا قیام اور پے درپے برطانوی اعلانات اصل میں وقت گزاری اور مسلمانوں کی منزل کھوٹی کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ متعدداخباربرطانیہ پر تنقید کرنے لگے جس کی پاداش میں بہت سے اخباروں کے اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے۔ فلسطینی صحافیوں کی ایک کانفرنس منعقدہ ۱۹۳۱ء میں مسلمانوں سے مفاہمت ترک کرنے اور مقاومت میں آگے بڑھنے کی اپیل کی گئی۔اس پر نابلس میں بڑے مظاہرے ہوئے جن پر حکومتی اداروں نے تشدد کیا اور بہت سارے مظاہرین زخمی ہوئے۔ ۲۷ رجب ۱۳۵۰ھ شبِ معراج بہ مطابق ۷ دسمبر ۱۹۳۱ء؛ مسلمانوں نے ایک اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں بارہ شہروں سے مندوبین شریک ہوئے۔مفتی امین الحسینی نے افتتاحی خطاب میں مسلمانوں اور اسلام کے لیے فلسطین کی اہمیت واضح کی، کانفرنس نے قدس میں مسلمانوں کی یونی ورسٹی اور ایک زرعی کمپنی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جو مسلمانوں کی زمینں یہودیوں کے قبضے سے چھڑانے کا کام کرے گی۔ لیکن ان دونوں امور کے لیے کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔مصنفین کا اندازہ ہے کہ مالدار مسلمان حکومت کی سختی کے سبب ان امور کے لیےمال فراہم نہ کر سکے۔ 

جمعیتِ نوجوانانِ عرب اور جمعیتِ استقلال نے متحدہ فلسطین کی آزادی کے لیے کام کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور ان سرکردہ لوگوں کو مدعو کیا جو پچھلی کانفرنسوں میں شامل رہے تھے۔ عونی عبد ا لہادی کے گھر پر پچاس کے قریب لوگ جمع ہوئے۔ انھوں نے اس پر اتفاق کیا کہ شہری تنظیموں اور بلدیاتی اداروں میں متحرک ہو کر فلسطینی اپنے قومی مقاصد سے پیچھے رہتے جا رہے ہیں۔ استعمار کے خلاف مقاومت، عربی خطوں کے حصے بخرے کیے بغیر مکمل آزادی حاصل کرنےاور عربی ثقافت و معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کام کرنے کا عہد کیا۔انھوں نے تعلیم، صنعت و زراعت اور مسلمانوں کی معاشی بہتری کے لیے مالیاتی فنڈ کے اجرا کے اعلانات کیے۔

 بیداری اس لہر کو محسوس کر کے ہائی کمشنر واکہوب نے مسلمانوں سے رابطہ کیے اور انھیں اس پر قائل کرنا شروع کیا کہ ان کے مقاصد کے حصول کا راستہ مقاومت نہیں بلکہ مفاہمت ہے۔ اس نے خیال پیش کیا کہ مسلمانوں کو انگریزوں اور یہودیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔اسی قربت سے جملہ مسائل ختم ہوں گے، اقتصادی بہتری آئے گی اور قومی ترقی کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومت کے قیام میں مدد ملے گی۔اس نے حکومتی کمیٹیوں مثلا ً زراعتی کمیٹی، صنعتی کمیٹی، وغیرہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کو باہم مل کر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ عام مسلمانوں میں اس سوچ کی مخالفت کے باوجود کئی مسلمان ’’ مفاہمت‘‘ کی اس نئی لہر کی لپیٹ میں آ گئے یہاں تک کہ قومی مقاصد کے علم بردار عونی عبد الہادی بھی بعض حکومتی کمیٹیوں کے رکن بن گئے۔ مسٹر واکہوب نے مناسب موقع جانتے ہوئے حکومتِ برطانیہ کو تجویز دی کہ مجلسِ قانون ساز کا قیام عمل میں لے آیا جائے تا کہ مسلمانوں میں مخاصمت کے بجائے مفاہمت کو فروغ ملے لیکن ان کی یہ تجویز بار نہ پا سکی۔

مسلمانوں کی اکثریت نے اس مفاہمانہ پالیسی کو ناپسند کیا۔ ۱۹۳۲ء میں یافا شہر میں فلسطینی نوجوانوں کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں یہودیوں اور حکومت کے ساتھ تعاون پر کڑی تنقید کی گئی اور اس سے اجتناب پر زور دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد فلسطین کی مشہور شخصیت موسی کاظم الحسینی نے مختلف سیاسی شخصیات کو جمع کیا اور کانفرنس نے اس پر اتفاق کیا کہ مسلمانوں کے جملہ مسائل کی جڑ یہودیوں کی ہجرت ہے۔ مسلمانوں کو اس کے خلاف ایکا کر کے اسے روکنے کا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ مارچ ۱۹۳۳ء میں جناب مفتی امین الحسینی کی سربراہی میں ایک کانفرنس کا انعقاد، یافا شہر میں ہوا جس میں چھے سو سرکردہ مسلمانوں نے شرکت کی۔ حکومت کی نافرمانی، ٹیکس نہ دینے اور بائی کاٹ وغیرہ پر مشاورت ہوئی۔ اگرچہ ٹیکس نہ دینے پر اتفاق نہ ہو سکا لیکن حکومتی کمیٹیوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔بائیکاٹ کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہودی زراعتی کمپنیوں کے مقابلے میں مسلمانوں نے اپنی زرعی زمینوں کو واگزار کرانے اور ان کی آباد کاری کے لیے ایک کمپنی شَرِکَةُ إنقاذ الأراضي کے نام سے قائم کی تھی۔ کانفرنس نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ اس کمپنی کے شیئرز خریدیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی امداد کے لیے صندوق الأمة کے نام سے ایک فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ اس فنڈ میں عطیات جمع کرائیں۔اگلے ہی مہینے اپریل میں یہودی ہجرت کا ایک نیا طوفان بدتمیزی کھڑا ہو گیا جس میں چار ہزار یہودی قانونی طور پر جب کہ دس ہزار یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین میں داخل کیے گئے۔مسلمان زبانی اور اخباری احتجاج کے اہتمام میں لگے ہی تھے کہ اگست ۱۹۳۳ء میں یہودی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں انھوں نے ہٹلر کے ہاتھوں جرمنی سے یہودیوں کے(ماقبل جنگِ عظیم دوم ) ’’جبری انخلا‘‘ کو دلیل بنا کر حکومت برطانیہ سے یہودی قومی ریاست کے قیام کے لیے پیش رفت بڑھانے اور یہودی ہجرت پر سے ہر قسم کی پابندی اور حصولِ اجازت کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔اس سے مسلمانوں میں اضطراب بڑھ گیا اور اکتوبر ۱۹۳۳ء میں قدس میں ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔ شیخ موسی کاظم اپنے ساتھیوں کے ساتھ حرمِ مقدس سے نکل کر جلوس میں شامل ہوئے۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔ جس میں پینتیس مسلمان جبکہ پانچ سپاہی زخمی ہوئے۔ستائیس اکتوبر کو یافا اور دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں نے ان مظاہرین کے خلاف ناجائز طور پر تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اگلے دن یافا کی جامع الکبیر میں لوگ جمع ہونا شروع ہوئے اور قدس میں خواتین کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔ اسی طرح تنظیم شباب الوطني کے بہت سے ارکان شام اور اردن سے بھی مظاہروں میں شرکت کے لیے آ گئے۔ یہ لوگ پتھروں اور لاٹھیوں سے ’’مسلح ‘‘ تھے۔ ان کی تعداد ستر ہزار تھی۔ پولیس نے مظاہرین پر تشدد شروع کردیا،چنانچہ دو طرفہ تصادم ہوا جس میں بارہ مظاہرین شہید جب کہ اٹھتر کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ دوسری طرف سے ایک آدمی مارا گیا اور زخمیوں کی تعداد پچیس تھی۔ صفد، حیفا، نابلس، ناصرہ اور طولکرم وغیرہ میں بھی پولیس اور برطانوی فوج سے مظاہرین کی جھڑپیں ہوئیں۔ جن میں چھبیس مسلمان شہید اور ایک سو ستاسی زخمی ہوئے۔ کمشنر نے ایک بار پھر حکومتِ برطانیہ کو یہودی ہجرت اور قومی وطن کی تعمیر و بنیاد پر اٹھنے والے غم و غصے سے آگاہ کیا اور لکھا کہ فلسطین میں قومی شعور دیگر خطوں سے زیادہ ہے اور برطانوی پالیسیوں نے اسے غم و غصے میں تبدیل کر دیا ہے۔ حکومتِ برطانیہ نے حسبِ عادت ہربرٹ موریسن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کر دیا تاکہ وہ تحقیق کرے لیکن کمیشن سازی کی حیلہ جو سیاست اپنی مقبولیت کھو چکی تھی اس لیے فلسطینیوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ حکومت کی طرف سے فسادات کا ذمے دار فلسطینیوں کو قرار دیا گیا اور کئی ایک گرفتار شدہ لوگوں کو جیل کی سزا سنا دی۔ شیخ موسی کاظم الحسینی مظاہروں میں زخمی ہونے والوں میں شامل تھے۔ آپ کی عمر اسی سال سے تجاوز کر چکی تھی۔زخموں کی تاب نہ لا کر آپ صاحبِ فراش ہو گئے اور مارچ ۱۹۳۴ء میں انتقال کر گئے۔موسی کاظم الحسینی کے انتقال کے بعد بہت ساری تنظیمیں اور جماعتیں وجود میں آئیں۔ جہاں موسی کاظم کے دستِ راست جمال الحسینی نے الحزب العربي الفِلسطیني قائم کی وہیں خاندانِ حسینی کے دیرینہ حریف،راغب النشاشیبی نے( جنھیں ۱۹۲۰ء میں موسی کاظم الحسینی کی جگہ بلدیہ القدس کا رئیس بنایا گیا تھا ) حزب الدفاع الوطني قائم کی۔ یعقوب العضین نے الشباب العربي الفلسطیني قائم کی، حسین فخری الخالدی نے حزب الإصلاح قائم کی۔ کمشنر واکہوب نے ۱۹۳۴ء میں بلدیاتی کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا۔ بظاہر یہ فلسطینیوں کے مشہور مطالبے اکثریت و جمہوریت کی بنیاد پر شراکت اقتدار کے مطابق تھا۔ لیکن جب اس نے بلدیاتی الیکشن کا اعلان کیا تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے درمیان مناقشہ اور منافست میں اضافہ ہو گیا اور یہی وہ چاہتا بھی تھا۔ وہ داخلی خود مختار جمہوری حکومت کے قیام کے حق میں نہ تھا بلکہ مسلمانوں کو مشغول رکھنے کے لیے اس نے یہ طریقہ استعمال کیا۔

اس موقعے پر مفتی امین الحسینی کی کوششوں سے اکتوبر ۱۹۳۴ء میں، مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے ایک وفاق کا قیام اللجنة العربیة العلیا کے نام سے عمل میں لایا گیا۔ راغب النشاشیبی بھی اس وفاق میں شامل تھے۔ فلسطینی مسلمانوں کے اتحاد کے لیے یہ ایک اہم کاوش تھی لیکن یہ وفاق زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔

جنوری ۱۹۳۵ء میں مفتی امین الحسینی کی کوششوں سے علماے فلسطین کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں پانچ سو کی تعداد میں قاضی و مفتی،ائمہ مساجد واعظین اور رجالِ دین شامل ہوئے۔کانفرنس نے اپنے اعلامیہ میں قرار دیا کہ چپہ بھر زمین بھی کسی یہودی کو فروخت کرنا حرام ہے۔ زمین بیچنے والے اور سودا کرانے والے کو مرتد کی طرح سمجھا جائے گا۔ان کا مقاطعہ کیا جائے گا اور انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔ کانفرنس نےحکومت سے مطالبہ کہ وہ بڑی کمپنیوں کے مقابلے میں چھوٹے زمین داروں کا تحفظ کرے۔ کانفرنس نے دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کو فلسطین کے حالات سے آگاہ کرنے اور ان سے مدد حاصل کرنے اور اقتصادی بہتری کے لیے ملکی کمپنیوں کے قیام کا اعلان کیا۔ اہلِ وطن سے اپیل کی گئی کہ وہ ملکی کمپنیوں کے قیام میں مدد کریں۔یہود کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت سی تنظیمیں سرگرم تھیں۔ جو باہم جزوی اختلاف کے باوجود اپنے مقصد میں ایک دوسرے سے تعاون کرتی تھیں۔ ان میں مذہبی یہودیوں (حريديم، اسرائیل میں توریت کے نفاذ کے داعی) کی متشدد تنظیم اَغودات يسرائيل سمیت ہستدروت، ہاشومیر اور موشافیم وغیرہ مصروفِ عمل تھیں۔ سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ یہودیوں کی معاشی ترقی اور عربوں کی معاشی ناکہ بندی اور اس کے لیے مسلمانوں کی زمینیں ہتھیانا ان جماعتوں کا دل پسند مشغلہ تھا۔ 

یہودی تنظیم ’’ کیرن ہائی سود‘‘Keren hayesod)یونائیٹڈ اسرائیل اپیل، قائم شدہ ۱۹۲۰ء) اور اسی طرز کی تنظیم ’’کیرن کائی میتھ لی اسرائیل‘‘ Keren kayemeth leIsraael، اصل میں یہودی مالیاتی فنڈ تھے۔(یہ تنظیمیں اب بھی قدرے مختلف ناموں سے قائم ہیں )۔ یہ فنڈ دوسری تنظیموں کو ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے فنڈنگ کیا کرتے تھے۔

فلسطین میں کئی سالوں سے یہودی بستیوں اور مزرعات کے قیام کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ مزرعات کیبوتسات kibbutzim کہلاتے تھے۔ یہ عسکری و زرعی فارم تھے۔ یہاں یہودی کسانوں کو مناسب ماحول فراہم کیا جاتا تاکہ وہ زراعت کے ذریعے معاشی ترقی میں حصہ لیں۔ نوجوان یہودیوں کو ان کسانوں کی حفاظت پر مامور کیا جاتا اور انھیں دہشت گردی کی تعلیم و تربیت دی جاتی۔بلجیک اور دوسرے یورپی ممالک سے ڈرموں میں اسلحہ بھر کر لایا جاتا اور دفاع کے نام پر یہودیوں کو مسلح کیا جاتا اور حکومتی اہلکاروں کے ذریعے یہودی نوجوانوں کو اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی جاتی۔یہود کی فلسطین کی طرف نقل مکانی بھی بڑھتی جا رہی تھی چنانچہ ۱۹۳۵ء میں اکسٹھ ہزار سے کچھ زائد یہودی یورپ کے مختلف علاقوں سے فلسطین میں ’’ ظلم و زیادتی ‘‘ کو فروغ دینے کے لیے داخل ہوئے۔

جاری ہے

کتابیات

القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار

فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین

تذکیر النفس بحدیث القدس، دکتور سید حسین العفاني

لرننگ پورٹل