لاگ ان
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024
لاگ ان
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024
ہفتہ 25 شوال 1445 بہ مطابق 04 مئی 2024

مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

شوکتِ سنجر وسلیم

عثمانی سلاطین کی سلسلہ وار تاریخ

قسط نمبر ۱۰

 ۲۳: احمد خان ثالث (۱۶۷۳۔۱۷۳۶ء)

سلطان احمد خان ثالث نہایت صاحبِ علم اور عابد و زاہد انسان تھے۔ علما کی قدر کرتے تھے، شعرا کی سرپرستی کرتے تھے اور خود بھی شاعر تھے۔ نجیبؔ ان کا تخلص تھا۔ احمد خان ثالث اپنے بڑے بھائی کے معزول ہونے پر ۱۷۰۳ء میں تخت نشین ہوئے۔ سلطان کو ینی چری کے باغیوں نے تخت پر بٹھایا تھا، چنانچہ ابتدائی زمانے میں انھیں خوب انعام و اکرام سے نوازا گیا، لیکن کچھ عرصے میں سلطان نے اپنے قدم جمالیے اور ینی چری کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی۔ بہت سے باغی قتل ہوئے اور باغیوں کے سرپرست صدرِ اعظم احمد پاشا و دیگر افسران برطرف کر دیے گئے۔ اس کے بعد صدرِ اعظم کے عہدے پر یکے بعد دیگر ے بارہ افسران تعینات ہوئے۔ چند سالوں میں اس اہم عہدے کے بار بار تبدیل ہونے سے سلطنت کی خارجہ پالیسی پر منفی اثرات مرتب ہوئے، بالخصوص، روس کے سربراہ پیٹر اعظم کی سازشوں کا توڑ کرنے والا اور ان پر گہری نظر رکھنے والا کوئی نہ رہا۔ چنانچہ روس نے تو سیع پسندانہ عزائم کا اظہار کرتے ہوئے عثمانی سرحدوں پر جنگی تیاریاں شروع کر دیں۔ 

سلطنتِ عثمانیہ روس سے جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اور روس بھی سویڈن کے شاہ چارلس کے خلاف زبردست جنگ میں الجھا ہوا تھا اس لیے ۱۷۰۵ء میں دونوں ممالک نے صلح کر لی۔ لیکن صرف چار سال بعد ہی شکست خوردہ شاہ چارلس نے بھاگ کرسلطنتِ عثمانیہ میں پناہ لی تو روس نے عثمانی سلطان کو شاہ چارلس کی حوالگی کے لیے پیغام بھیج دیا۔ عثمانیوں نے روس کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا، چنانچہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ۱۷۱۱ء میں بلط جی محمد پاشا عثمانی افواج کی قیادت کرتا ہوا مولڈیویا میں داخل ہوا۔ دوسری طرف شاہِ روس پیٹر اعظم طاقت کے نشے میں عثمانی افواج کی طرف بڑھتا رہا حتی کہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں عثمانی افواج پہلے سے مورچہ بند تھیں۔ ایک طرف دریا تھا اور دوسری طرف دلدل، سامنے کی پہاڑیوں پر عثمانی توپیں نصب تھیں۔ یہاں پہنچ کر پیٹر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ پوری طرح عثمانیوں کے نرغے میں ہے اور اس کا لشکر بھی تعداد میں عثمانی لشکر سے کم ہے۔ اس موقعے پر پیٹر نے ماسکو میں سینٹ کے ارکان کو ایک خط لکھا جسے مشہور مؤرخ لارڈ ایورسلے نے نقل کیا ہے، اس خط سے بقول ڈاکٹر محمد عزیر ’’زار کی حالتِ زار‘‘ کا اندازہ ہوتا ہے۔ خط میں کہا گیا تھا کہ ہم بری طرح پھنس چکے ہیں، سامانِ رسد منقطع ہے، ہر لمحہ موت یا قید کا دھڑکا لگا رہتا ہے، خدا ہی کچھ کرے تو کرے۔ لیکن اس موقعے پر عثمانی سپہ سالار نے انتہائی سخت شرائط پر روس کی طرف سے پیش کی گئی صلح کی درخواست منظور کر لی اور یوں پیٹر کی جان بخش ہوئی۔

۱۷۱۵ء میں عثمانی لشکر صدرِ اعظم داماد پاشا کی قیادت میں موریا پر حملہ آور ہوا اور چند مہینوں میں جمہوریہ وینس کے تمام بڑے قلعوں پر قابض ہو گیا اور موریا سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں آگیا۔۱۷۱۶ء میں داماد پاشا عثمانی فوج کے ساتھ آسٹریا کے بالمقابل آیا۔ آسٹریا کا لشکر مشہور سپہ سالار شہزادہ یو جین کی کمان میں تھا۔ عثمانیوں نے زبر دست مقابلہ کیا اور قریب تھا کہ آسڑیا کا لشکر شکست کھاتا، داماد پاشا زخمی ہوگیا۔ اس کے زخمی ہونے سے عثمانی سپاہی بد دل ہوگئے اور پسپا ہو کر بلغراد کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ داماد پاشانے جامِ شہادت نوش کیا، جبکہ سپاہی جنگی سامان اور توپیں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ شہزادہ یوجین عثمانیوں کو اس میدان میں شکست دے کر تمیسوار کی طرف بڑھا۔ تمیسوار آسٹریا میں عثمانیوں کا آخری قلعہ تھا۔ پانچ ہفتے کے محاصرے کے بعد قلعے میں محصور عثمانی سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ ۱۷۷۷ء میں دوبارہ عثمانی لشکر خلیل پاشا کی قیادت میں یوجین کی فوج کے بالمقابل آیا لیکن اس بار بھی اذیت ناک شکست عثمانیوں کے حصے میں آئی۔ بیس ہزار سپاہی شہید ہوئے اور ایک سو تیس توپوں سمیت جنگی آلات کا بہت بڑا ذخیرہ دشمنوں کے ہاتھ لگ گیا۔ ۱۷۲۲ء میں سلطنتِ عثمانیہ اور روس میں ایران کی تقسیم پر تنازع ہوا اور دونوں نے اپنی فوجیں ایران میں داخل کر دیں، لیکن اگلے ہی سال دونوں نے ایران کی تقسیم پر اتفاق کر لیا۔ عثمانی افواج ایران میں موجود رہیں اور منقسم خطے پر عثمانی سلطان کا حکم چلتا رہا، حتی کہ ۱۷۲۷ء میں نادر خان نے ایک لشکر کے ساتھ اصفہان پر چڑھائی کر دی۔ بعد ازاں عثمانی سلطان سے ایرانی مقبوضات کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ انکار پر نادر خان عثمانی افواج کے خلاف صف آرا ہوا۔ نادر خان ایرانی سردار تھا اور جنگی امور میں غیر معمولی مہارت رکھتا تھا۔ عثمانی افواج نادر خان کے مقابلے پر آئیں تو جلد ہی ان کے قدم اکھڑ گئے۔ ایرانی سپاہیوں نے بے شمار عثمانی سپاہی تہِ تیغ کیے۔ یہ خبر قسطنطنیہ پہنچی تو ہر طرف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور سلطان احمد خان ثالث کی معزولی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ اس سے قبل کہ حالات سنگین ہوتے، سلطان نے ۱۷۳۰ء میں استفعیٰ دے دیا اور خاموشی سے تخت اپنے بھتیجے محمود کے حوالے کر دیا۔ مجموعی طور پر احمد خان ثالث کے ستائیس سالہ دور میں خوش حالی اور امن وامان بر قرار رہا۔ سلطان احمد ثالث کے عہد میں پہلا مطبع قائم ہوا۔ اسی طرح متعدد صنعتیں، مسجدیں اور فلاحی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ مطبع اس شرط پر قائم ہوا کہ قرآنِ مجید کی طباعت نہیں کی جائے گی۔ سلطان احمد خان ثالث، ان کے بھائی سلطان مصطفیٰ خان ثانی اور ان کے والد سلطان محمد خان رابع؛ تینوں کا عہد معزولی کے سبب ختم ہوا اور تینوں باغی فوج کی سازشوں کا شکار ہوئے۔

۲۴:محمود خان اول (۱۶۹۶۔۱۷۵۴ء)

 محمود خان اوّل نے کبار علما سے علم کی تحصیل کی۔ فنِ تعمیر اور فنِ شعر میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ خود بھی شاعر تھے، سبقتی بطورِ تخلص استعمال کرتے تھے۔ ۱۷۳۰ء میں سابق سلطان کی معزولی پر تخت نشین ہوئے۔ اپنے عہد کے ابتدائی سالوں میں باغی فوج کو قابو کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ اس دوران عثمانی لشکر ایرانی سپاہ سے بر سرِ پیکار تھا۔ عثمانیوں کی پے در پے فتوحات سے گھبرا کر شاہِ ایران طہماسپ نے صلح کی در خواست کی اور ۱۷۳۳ء میں دونوں ممالک میں صلح ہوگئی۔ لیکن نادر خان کو یہ مصالحت پسند نہ آئی۔ اس نے شاہِ ایران کو تخت سے اتار کر اس کے بیٹے کو حاکم بنا دیا اور در پر دہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس نے فی الفور صلح کا معاہدہ منسوخ کر دیا اور عثمانیوں کے خلا ف لشکر ترتیب دینا شروع کیا۔ ۱۷۳۳ء میں دونوں افواج میں مڈبھیڑ ہوئی جس میں عثمانی فوج غالب آگئی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک اور معرکہ ہوا جس میں نادرخان نے عثمانیوں کو زبردست شکست دی اور عثمانی صلح پر مجبور ہو گئے۔ ۱۷۳۶ء میں دونوں کے مابین صلح ہو گئی۔ ادھر عثمانی فوج ایران سے صلح کر کے فارغ ہوئی ہی تھی کہ روس نے اپنی فوجیں عثمانی حدود میں داخل کر دیں، چنانچہ ۲۸ مئی ۱۷۳۶ء کو سلطنتِ عثمانیہ نے روس کے خلاف اعلان ِجنگ کر دیا۔ روسی فوج نے عثمانی خطوں میں صرف لوٹ مار ہی نہیں کی بلکہ ہزاروں افراد قتل کر دیے ۔ بے شمار مکانات جلا دیے گئے۔ ہر محاذ پر اور ہرقلعے پر عثمانیوں کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ نتیجتاً سلطنتِ عثمانیہ نے آسٹریا کو پیغام بھیجا کہ وہ روس کو صلح پر آمادہ کرے۔ آسٹریا مدت سے عثمانیوں کے کمزور ہونے کامنتظر تھا اور ماضی کی شکست کا انتقام لینے کے لیے پُر جوش تھا، وہ ایسا موقع کیونکر ضائع کرتا۔ آسٹریا نے بظاہر صلح کی بات چیت بھی شروع کر دی اور عثمانی سفیر کی روسی سفیر سے ملاقات کروائی، لیکن یہ صرف ایک ڈھونگ تھا۔ آسٹریا اس عرصے میں جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ بالآخرروس اور آسٹریا نے باہمی مشاورت سے محاذ طے کیے اور آسٹریا نے جنگ کا اعلان کر دیا۔ ۱۷۳۷ء کے اوائل میں ایک طرف جنرل میونخ نے اوکزا کوف میں اور دوسری طرف جنرل لاسکی نے کریمیا میں داخل ہوکر قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ روسی افواج نے سفاکیت کے وہ نمونے پیش کیے جو کبھی تاتاریوں کی یلغار کےموقعے پر دیکھنے میں آئے تھے۔ اگست ۱۷۳۷ء تک یہ خونی کھیل جاری رہا۔ ادھر جولائی ۱۷۳۷ء میں آسٹریا نے بھی ایک لشکر سرویا اور دوسرا بوسنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ عثمانی افواج کے لیے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی، متعدد محاذوں پر بر سرِ پیکار رہنے کے باوجود عثمانی سپاہی مغلوب نہ ہوئے اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر سپاہیوں کے ساتھ ساتھ شہریوں نے بھی دفاعی جنگ میں حصہ لیا۔ ایک سال کی معرکہ آرائی نے آسٹریا کے سپاہیوں کو حواس باختہ کردیا اور انھیں اگست ۱۷۳۸ء میں پسپا ہو کر بلغراد میں پناہ لینی پڑی۔

 دوسری طرف روسی افواج نے پھر عثمانی حدود کا رخ کیا اور وہی ظلم و جور کی رسم جاری رہی، گھر جل کر راکھ ہوگئے، مساجد منہدم ہو گئیں، صنعتیں تباہ ہو گئیں اور ہزاروں لوگ کام آ گئے۔ اس کے نتیجے میں شہر ویران، گلیاں سنسان اور دوست یار انجان ہو گئے۔ سب مال و متاع لپیٹ سپیٹ کر خزانے میں جھاڑو پھیر دی گئی۔ روسی جس طرح گزشتہ سال سیلِ رواں کی مانند ہر شے کو بہا لے گئے تھے، اس حملے میں بھی وہ اسی غرور کے ساتھ عثمانی مقبوضات میں داخل ہوئے اور اپنی جھونک میں آگے بڑھتے چلے آئے، لیکن جلد ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ گزشتہ حملہ اچانک، غیر علانیہ اور بالکل غیر متوقع تھا، اس لیے عثمانی سپاہی اپنے دفاع میں کچھ نہ کر سکے۔ بہر حال، اب صورتِ حال مختلف تھی۔ عثمانی فوج دفاع کی بھرپور تیاری کے ساتھ محاذ پر موجود تھی اور خاص طور پر صدرِ اعظم کی قیادت میں دو لاکھ سپاہی کیل کانٹوں سے لیس ہو کر آسٹریا کے خلاف شان دار فتح حاصل کر چکے تھے۔ روس کو آسٹریا کی شکست کی خبر نے دہشت میں ڈال دیا۔ عثمانیوں کی یہ فتح یقیناً غیر متوقع تھی۔ روسی افواج صرف اسی امید پر کامیابی کے خواب دیکھ رہی تھیں کہ صدرِ اعظم کی فوج آسٹریا سے الجھی رہے گی اور روس بہ آسانی اپنے اہداف کی تکمیل کر لےگا۔

 ۱۷۳۹ء میں آسٹریا نے صدرِ اعظم کے ساتھ صلح نامے پر دستخط کر دیے اور یوں پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔ جنرل میونخ اس صلح پر بہت سیخ پا ہوا لیکن مجبوراً روس کو بھی صلح کی میز پر آنا پڑا۔ ۱۷۴۰ء میں سلطنتِ عثمانیہ نے پولینڈ اور فرانس سے بھی معاہدہ کر لیا۔ اس کے بعد طویل عرصے تک یورپ کے ساتھ جنگ کا مرحلہ پیش نہیں آیا۔ ۱۷۴۳ سے ۱۷۴۶ء تک ایران کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں لیکن یہ بھی صلح پر اختتام کو پہنچیں۔ اس دور میں سلطنتِ عثمانیہ نے اپنا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل کر لیا۔ سلطنت میں خوش حالی کا دور دورہ تھا، خزانہ پُر تھا۔ سلطان محمود اوّل کا یہ زمانہ ان کی وفات تک امن و امان سے گزر گیا۔ دسمبر ۱۷۵۴ء میں سلطان کی وفات ہوئی۔ اسی دوران حجاز میں وہابی تحریک نے سر اٹھایا۔ اس تحریک کے جذباتی، متشدد اورخود ساختہ تصورِ توحید کے علم بردار افراد نے ہر طرف ہلچل مچادی۔ بدعات کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک نے ردِعمل میں بہت سی درست چیزوں کی بھی نفی کر دی۔ عثمانی سلطان محمود خان اوّل نے اسے روکنے کی بھر پور کوشش کی لیکن ان کے عہد میں یہ پھیلتی چلی گئی۔

۲۵: عثمان خان ثالث ( ۱۶۹۹۔ ۱۷۵۷ء)

سلطان عثمان خان ثالث علمِ طب اور علمِ ادب میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ ۱۷۵۴ء میں تخت نشین ہوئے۔ سلطان جس عہد میں تخت نشین ہوئے، وہ عہد پُر امن تھا، چنانچہ سلطان نے اندرونی امور کو بہتر کرنے پر خاص توجہ دی۔ ’میناسیر‘ میں عظیم الشان قلعے کی تعمیر سلطان عثمان ثالث کے عہد میں مکمل ہوئی۔ ڈینمارک کے ساتھ تجارتی معاہدہ ہوا۔ سلطان نے موسیقی اور دیگر اسلام مخالف امور کو ممنوع قرار دے دیا۔ خواتین کو پابند کیا کہ وہ بازاروں میں زیب و زینت کے ساتھ نہیں گھوم سکتیں۔ غیر مسلم خواتین کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ مسلمان خواتین کے لباس سے مشابہ لباس نہ پہنیں تاکہ دونوں میں فرق واضح رہے۔ دكان داروں اور مختلف پیشہ وروں کے لیے بھی خاص لباس متعین کیا۔ رشوت خوراور دھوکے باز افسروں اور تاجروں کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ مساجد، مسافر خانے، سرکاری دفاتر اور پانی کی سبیلیں تعمیر کروائیں۔ سلطان عثمان خان ثالث کے عہد میں کوئی جنگ تو نہیں ہوئی البتہ دو اہم واقعات ہوئے: ایک تو یہ کہ ان کے عہد کے آغاز میں غضب کی سردی پڑی۔ ایسی سردی استنبول میں کم ہی دیکھی گئی۔ ٹھنڈ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خلیج کا پانی مکمل جم گیا تھا اور لوگ اسے پیدل عبور کرتے تھے۔ دوسرا اہم واقعہ یہ ہوا کہ سلطان کے عہد میں استنبول میں آگ لگ گئی اور یہ استنبول کی تاریخ میں آگ لگنے کے چند بڑے واقعات میں سے ایک ہے جس میں ایک چوتھائی استبول خاکستر ہو گیا۔ یہ آگ ۲۸ ستمبر ۱۷۵۵ء کو لگی تھی۔ ابھی اس حادثے کی تلافی بھی نہ ہو پائی تھی کہ اگلے سال جولائی میں اس سے بھی بڑی آگ لگ گئی۔ یہ دوسرا واقعہ استنبول میں آگ لگنے کا سب سےبڑا واقعہ شمار کیا جاتا ہے جسں میں تین چوتھائی شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔ اس کے بعد از سر ِنوشہر کی تعمیر کی گئی۔ ۱۷۵۷ء میں سلطان عثمان خان ثالث کی وفات ہوئی۔

۲۶:  مصطفیٰ خان ثالث(۱۷۱۷۔۱۷۷۴ء)

سلطان مصطفیٰ خان ثالث اُن عثمانی سلاطین میں شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے حصولِ علم میں بہت محنت کی۔ سلطان نے دینی و دنیاوی ہر دو قسم کے علوم میں مہارت پیدا کی۔ علمِ ادب، تاریخ، جغرافیہ، فلکیات، علمِ طب، اسی طرح عسکری مہارتیں اور انتظامی امور الغرض تمام شعبوں کے ماہرین سے یہ علوم و فنون حاصل کیے۔ آپ 1757ء میں تخت نشین ہوئے۔ ابتدائی زمانے میں ریاست کو مالی اور عسکری طور پر مضبوط کرنے کے لیے خصوصی منصوبے تشکیل دیے۔ عدالتوں کو شرعی قوانین پر عمل در آمد کا پابند کیا۔ یہودی و نصرانی تاجر جو غیر قانونی تجارت میں ملوث تھے ان کا تعاقب کیا۔ سلطان مصطفیٰ خان نے عسکری قوت میں اضافے اور ترقی کے لیے ایک عسکری مدرسہ بھی قائم کیا۔ ایک اہم کام سلطان نے یہ کیا کہ حاجیوں کی شکایات کے ازالے پر خصوصی توجہ دی اور حج کے راستوں کو لٹیروں سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے۔ 1766ء میں استنبول میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ اس حادثے سے کئی اہم اور تاریخی عمارتیں متاثر ہوئیں جن میں مسجد سلطان فاتح اور مسجد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھیں۔ سلطان نے تباہ شدہ مکانات کی تعمیرِ نو کا اہتمام کیا۔

سلطان مصطفیٰ نے راغب پاشا کو صدرِ اعظم مقرر کیا۔ راغب پاشا کی امورِ سلطنت میں مہارت بے مثال تھی۔ عوام کی فلاح و بہبود اس کی اوّلین ترجیح تھی۔ راغب پاشا نے اسپتال اور کتب خانہ تعمیر کیا۔ آمد و رفت اور نقل وحمل کے ذرائع بڑھانے پر خصوصی توجہ دی۔ کئی ترقیاتی منصوبے راغب پاشا کے پیشِ نظر تھے، لیکن ۱۷۶۳ء میں اس کے انتقال کے بعد یہ منصوبے ادھورے رہ گئے۔

۱۷۷۴ء میں روس ایک بار پھر عثمانی مقبوضات میں دراندازی کرنے لگا اور رفتہ رفتہ روسی جارحیت بڑھتی گئی، حتیٰ کہ ۱۷۷۸ء میں روسی مظالم سے تنگ آ کر سلطان نے دیوان منعقد کیا اور روس کے خلاف اعلانِ جنگ پر مشاورت کی۔ سوائے صدرِ اعظم محسن زادہ پاشا کے سب نے فی الفور اعلانِ جنگ پر اتفاق کیا۔ محسن زادہ کی مخالفت کے نتیجے میں انھیں برطرف کر کے امین پاشا کو صدرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اعلانِ جنگ میں بہت عجلت کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ ابھی عثمانی فوج منتشر تھی، جنگی ساز و سامان روس کے مقابلے کے لیے وافر نہیں تھا، قلعوں کی مرمت جاری تھی۔ سونے پر سہاگہ، لشکر کا سالار صدرِ اعظم امین پاشا جو کہ سلطان کا داماد بھی تھا، جنگی امور سے یکسر نابلد تھا۔ اس نے لشکر کی روانگی کے وقت ہی لشکر میں موجود سرداروں پر واضح کر دیا تھا کہ میں جنگی حکمتِ عملی اور حرب و ضرب کی تدبیروں سے ناواقف ہوں، اس باب میں میرا کوئی تجربہ نہیں، اس لیے آپ سب مشورے سے طے کر لیں کہ کہاں پڑاؤ ڈالنا ہے۔ جب مشاورت ہوئی تو ہر ایک نے الگ تجویز پیش کی اور فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ یہی حال میدانِ جنگ میں ہوا۔ 

صدرِ اعظم کے احمقانہ فیصلوں پر سلطان نے اسے معزول کر کے واپس بلا لیا۔ اس معرکے میں بعض مقامات پر عثمانیوں کو جزوی فتح نصیب ہوئی لیکن مجموعی طور پر ۱۷۷۱ء اور ۱۷۷۲ء میں عثمانی افواج کو بحری و بری ہر دو محاذوں پر بے انتہا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہزاروں سپاہی مارے گئے، بحری بیڑا جلا دیا گیا اور جنگی سامان روسیوں کے قبضے میں آگیا۔ اس دوران ترکوں کی جانب سے بارہا صلح کی پیش کش کی گئی لیکن تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ اس موقعے پر سلطان کو محسن زادہ پاشا کی قابلیت کا ادراک ہونے لگا۔ سلطان نے دوبارہ محسن زادہ پاشا کو صدرِ اعظم کے عہدے پر بحال کیا اور لشکر کی قیادت اسے سونپ دی۔ محسن زادہ پاشا نے ترک سپاہیوں میں نئی روح پھونک دی اور سپاہی ایک بار پھر عزم و استقلال کے ساتھ روسیوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ اب کی بار عام شہریوں نے بھی سپاہیوں کا ساتھ دیا اور روسی فوج پسپا ہونے لگی۔ ۱۷۷۳ء کے آخر میں کئی محاذوں پر محسن پاشا فتح اپنے نام کر چکا تھا۔ ابھی روس سے جنگ جاری تھی کہ دسمبر ۱۷۷۳ء میں سلطان مصطفیٰ خان ثالث دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

جاری ہے

کتابیات

السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول،۲۰۱۸ء

آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء

تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء

سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم: علامہ محمد ظفر اقبال، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، جون ۲۰۲۰ء

لرننگ پورٹل