لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024

تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
استاذ کمپیوٹر سائنس، ایم ٹی یو، آئر لینڈ

کرپٹوکرنسی: جُوا اور سٹے بازی کی بدترین شکل

عالمی معاشی منظر نامے پر برطانیہ اور کینیڈا کی معیشت نہ صرف یہ کہ بہت مضبوط تصور کی جاتی ہے بلکہ یہ دونوں ممالک جی-8 کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ان دونوں ممالک کی معیشت کو چلانے میں ان ممالک کے سینٹرل بینک کا بنیادی کردار ہے۔ بہت ہی حیران کن بات یہ ہے کہ ان دو ممالک کے سینٹرل بینک کو کافی عرصے تک چلانے کا سہرا مارک کارنی Mark Carney کے سر جاتا ہے جو کہ بینک آف کینیڈا کے سن ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۳ء تک گورنر رہے اور پھر ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ء تک بینک آف انگلینڈ کے گورنر رہے۔ مارک کارنی ایک بہترین عالمی ماہرِ معاشیات کے طور پر جانے جاتے ہیں جنھوں نے سن ۱۹۹۵ء میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو کینیڈا اور دنیا بھر میں مالیاتی پالیسی کی ترقی میں اُن کی قیادت کے لیے کینیڈا کا دوسرا بڑا سرکاری اعزاز ”آڈر آف کینیڈا“ بھی دیا گیا۔ نیز ان کوسن ۲۰۱۳ء میں یونیورسٹی آف مینی ٹوبہ، کینیڈا، سن ۲۰۱۶ء میں یونیورسٹی آف البرٹا، کینیڈا، اور سن ۲۰۱۸ء میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو، کینیڈا کی جانب سے ڈاکٹر آف لاء یعنی LL.D کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا۔

مارک کارنی نے اسکاٹش اکنامکس کانفرنس ایڈنبرا یونیورسٹی، برطانیہ میں مارچ ۲۰۱۸ء میں اپنے خطاب بعنوان ”زر کا مستقبل“ یعنی The Future of Money میں بہت ہی واشگاف الفاظ میں کہا کہ ”کرپٹو کرنسی کافی حد تک لاٹری ہے“ یعنی آسان الفاظ میں کرپٹو کرنسی جُوا، قمار، میسر یعنی Gambling کی شکل ہے۔اُن کا یہ خطاب بینک آف انگلینڈ کی ویب سائٹ پرتحریری شکل میں بھی موجود ہے جس میں مزید تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔اپنے اسی خطاب میں انھوں نے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا کہ اگر آپ نے پچھلے دسمبر میں ایک ہزار برطانوی پاؤنڈ کے برابر بٹ کوائن میں قرضہ لیا ہے تاکہ آپ اگلے سال کے اخرجات چلا سکیں تو آپ کو پانچ سو برطانوی پاؤنڈ کی کمی کا سامنا ہوگا اور اگر آپ نے یہی قرضہ پچھلے ستمبر میں لیا ہوتا تو اس کی مالیت دو ہزار برطانوی پاؤنڈ کے برابر تک ہوتی۔ اور یہ کافی حد تک لاٹری ہے۔لاٹری سے متعلق آپ حضرات جانتے ہی ہیں کہ مفتیانِ کرام اس سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ سود اور جوئے پر مشتمل ہوتی ہے اور شریعتِ مطہرہ میں لاٹری قطعاً حرام اور ناجائزہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یورپی یونین EU جو کہ ستائیس ممالک کا مجموعہ ہے جن میں فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، سوئیڈن، ڈنمارک، فن لینڈ، آئرلینڈ، پولینڈ اور دیگر ممالک شامل ہیں، ان کے مالیاتی ریگولیٹری اداروں EU Financial Regulators نے حال ہی میں کرپٹو اثاثوں (کرپٹو کرنسی وغیرہ) کو سٹے بازی قرار دیا ہے اور وہ اس کو volatile, highly speculativeکہہ رہے ہیں اور پورے یورپ کے چوالیس کروڑ سے زیادہ عوام کوسرکاری سطح پر اس بات کی وارننگ دے رہے ہیں کہ وہ کرپٹو کرنسی میں حتی الوسع سرمایہ کاری، لین دین اور اس کی خریدوفروخت سے اجتناب کریں۔ 

اب ہم سٹّے بازی Speculation اور جوئے (میسر، قمارGambling ) کے بنیادی فرق کو سمجھتے ہیں۔’’سٹّہ Speculation دراصل اس معاملے کو کہتے ہیں جس میں بائع اور خریدار میں سےکسی کا ارادہ عملاً مبیع پر قبضے کا نہیں ہوتا بلکہ اس میں قیمتوں کا فرق برابر کرکے نفع کمایا جاتا ہے۔سٹّے کے اندر دو خرابیاں پائی جاتی ہیں: اول یہ کہ اس کے اندر غیر مملوک کی بیع ہوتی ہے اور دوم یہ کہ اس میں بیع قبل القبض کا دخل ہوتا ہے لہذا شریعتِ مطہرہ کے اندر سٹے کی ممانعت ہے‘‘۔(ڈاکٹر مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب، غرر کی صورتیں، جنوری ۲۰۰۹ء، ادارۃ المعارف، کراچی)۔

 جوئے، میسر یا قمار Gamblingکی تعریف یہ ہے کہ : ”جس معاملے میں کسی مال کا مالک بنانے کو ایسی شرط کے ساتھ موقوف رکھا جائے کہ جس کے وجود اور عدم کی دونوں جانبیں مساوی ہوں اور اسی بنا پر نفعِ خالص یا تاوانِ خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبیں بھی برابر ہوں۔ مثلاً یہ بھی احتمال ہے کہ زید پر تاوان پڑ جائے اور یہ بھی کہ عمر پر پڑ جائے،اس کی جتنی قسمیں اور صورتیں پہلے زمانے میں رائج تھیں یا آج رائج ہیں یا آئندہ پیدا ہوں، وہ سب میسر، قمار اور جُوا کہلائے گا‘‘۔( معارف القرآن، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمۃ، ج: ۱، سورۃ البقرۃ، ص: ۵۳۲ )۔

سٹے بازی اور جُوا، میسر یا قمار کی تعریف سمجھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ دنیا بھر کے عالمی معاشی ماہرین اور سائنس دان متفقہ طور پر کرپٹو کرنسی کو بدرجۂ اتم جوا، میسر، قمار اور سٹے بازی گردانتے ہیں اور اس کو سائنسی طور پر ثابت بھی کرتے ہیں۔

آپ پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے اور اپنے اردگرد نوجوانوں کو دیکھ لیجیے جو کہ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ آپ اپنے آپ سے سوال پوچھیے کہ کیا یہ نوجوان کرپٹو کرنسی سے سبزی، آٹا، دالیں یا دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیا خرید رہے ہیں؟ یا اس کرپٹو کرنسی سے بازار سے کپڑوں کی خریداری کررہے ہیں؟ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ سارے نوجوان کرپٹوکرنسی کو بطور جوئےاور سٹے بازی کے استعمال کررہے ہیں۔جی ہاں! ان نوجوانوں کو بقول یورپی سپروائزری اتھارٹیز جو کہ یورپ کے ستائیس ممالک کی معاشی سپروائزری اتھارٹی ہے، سوشل میڈیا کے ”اثر انداز“ یعنی Social Media Influencers ورغلا رہے ہیں۔ یورپی سپروائزری اتھارٹیز بہت واضح انداز میں وارننگ دے رہی ہیں کہ ”آپ کو سوشل میڈیا کے ’اثراندازوں‘ سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے جن کے پاس عام طور پر مخصوص کرپٹو اثاثوں اور متعلقہ مصنوعات اور خدمات کی مارکیٹنگ کے لیے مالی ترغیب ہوتی ہے اور وہ اپنی جاری کردہ معلومات میں متعصب بھی ہو سکتے ہیں“۔یہی سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے ان نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے ہٹا کر جوئے اور سٹے بازی میں لگا رہے ہیں اور پاکستان اور مسلمانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔آپ ہی بتائیے کہ پاکستان کے نوجوانوں کو جوئے اور سٹے بازی میں لگا کر کیا پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرسکتا ہے؟ کیا ان نوجوانوں کو جوئے اور سٹے بازی میں لگا کر ہم عالمی معاشی طاقتوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔

آپ ٹھوس سائنسی حقائق اور اعدادوشمار کو ہی لے لیجیے۔ یورپی یونین کی اقتصادی اور مالیاتی امور کی کمیٹی نے جوکہ دنیا کے چوٹی کے عالمی معاشی ماہرین پر مشتمل تھی نے اپنی رپورٹ یورپین پارلیمنٹ میں نومبر سن ۲۰۱۹ء میں کافی سائنسی تحقیقات کے بعد جمع کروائی ہے جس میں عالمی معاشی ماہرین کے مطابق کرپٹو کرنسیاں، کرنسی کے بنیادی اوصاف پر پورا نہیں اترتیں۔ان کرپٹو کرنسیوں کو بطورِ آلۂ مبادلہ یعنی Medium of Exchange استعمال نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کرپٹو کرنسیوں کو بطورِ قدر شمار کرنے یعنی Unit of Account کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ایک اور سائنسی تحقیق کے مطابق تقریباً دو سے پانچ فیصد لوگوں نے بٹ کوائن کو چیزوں اور اشیا کی خریداری کے لیے استعمال کیا۔ جبکہ پچانوے فیصد لوگوں نے اس کو بطور سرمایہ کاری کے استعمال کیا۔دیکھیے دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی یعنی بٹ کوائن کو جوئے کی مدد سے مشہور کیا گیااوراسی جوئے کی وجہ سے جون ۲۰۱۲ء میں بٹ کوائن کی ٹرانزیکشن یومیہ باسٹھ ہزار تک پہنچ گئیں اور پھر لوگوں نے اس کے بارے میں جانا۔دیکھیے سائنسی دنیا میں دلائل سے بات کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو ان حقائق اور اعدادوشمار سے اختلاف ہے تو سائنسی طور پر ثابت کریں کہ کرپٹوکرنسی کو بطورِ آلۂ مبادلہ یعنی Medium of Exchange استعمال کیا جارہا ہے اور پاکستان میں ہر چیز آپ کرپٹو کرنسی سے خرید سکتے ہیں۔ چلیں پاکستان کو چھوڑیں، عالمی سطح پر تحقیق کرکے ثابت کیجیے کہ کرپٹو کرنسی کو آلۂ مبادلہ کےطور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ آپ کے پاس کرپٹو کرنسی کا لیجر یعنی کھاتہ موجود ہے، اس میں کی گئی تمام ٹرانزیکشنز موجود ہیں، اس کے ایڈریس بھی موجود ہیں تو کیوں آپ سائنسی طور پر ثابت نہیں کرتے ؟ اور کیوں اپنی اس سائنسی تحقیق کو دنیا کے بہترین سائنسی جرائد میں نہیں چھاپتے؟ آپ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ سائنس دانوں اور عالمی معاشی ماہرین نے پہلے ہی سائنسی طور پر ثابت کردیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کو بطورِ کرنسی استعمال نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے۔

آخری بات کہ کیوں کرپٹو کرنسی کو جوئے اور سٹے بازی کی بدترین شکل کہا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ دیکھیے جُوا، لاٹری، اور سٹے بازی غیر مسلم ممالک میں قانونی طور پر رائج ہے۔ امریکہ کا شہر لاس ویگس Las Vegas اور یورپی ملک موناکو Monaco جوئے خانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور پوری دنیا ان دو جگہوں پر جُوا کھیلنے آتی ہے۔ چاہے لاس ویگس ہو، موناکو ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک ہو، اگر کسی کو جُوا خانہ کھولنا ہے تو اس کو اس طرح کی جوئے کی مشین اور کھیل رکھنے ہوں گے جن میں جُوا کھیلنے والے صارفین کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ زید نے لاس ویگس میں ایک جُوا خانہ کھولا اور اس میں جُوا کھیلنے والے صارفین ہمیشہ جُوا ہار جائیں۔ اگر اس طرح ہوگا تو قانونی طور پر ایسے جوئے خانے کو بند کردیا جائے گا یعنی جُوا کھیلنے والے صارفین کو جیت اور ہار کے برابر مواقع ملنے چاہییں اور حکومت ان جوئے خانوں کو ریگولیٹ کرتی ہے کہ کسی جوئے خانہ کا مالک صارفین کو ہمیشہ نقصان نہ پہنچائے اور صارفین کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل کرپٹو کرنسی کے اندر جب کوئی صارف سرمایہ کاری کرتا ہے یعنی جُوا اور سٹے بازی کرتا ہے تو صارفین کے حقوق کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا اور جُوا اور سٹے بازی کرنے والے صارفین سخت خسارے میں جاتے ہیں اور حکومت کرپٹو کرنسی کے مالکان کو پکڑ بھی نہیں سکتی اور ان کے خلاف ایکشن بھی نہیں لے سکتی۔ اسی وجہ سے کرپٹو کرنسی کو جوئے اور سٹے بازی کی بدترین شکل کہا جاتا ہے اور اس کو بطورِ جُوا بھی قانوناً ان غیر مسلم ممالک میں رائج نہیں کیا جارہا۔

خلاصۂ کلام یہ کہ کرپٹوکرنسی جوئے اور سٹے بازی کی بدترین شکل ہے اور اس کے ذریعے سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس پر محض چند لوگوں یا اداروں کی اجارہ داری ہے۔ ہمیں بحیثیتِ مسلمان اپنی دین اور دنیا دونوں کو بچانا ہے اور ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ کرپٹو کرنسی میں ہر طرح کے معاملات سے اجتناب کریں اور مفتیانِ کرام کی رائے پر چلتے ہوئے اس سے بچیں۔

لرننگ پورٹل