لاگ ان
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024
لاگ ان
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

نصفِ معیشت

خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی مشہور مُسَدّس’’مد وجزرِ اسلام‘‘قیامِ پاکستان سے نصف صدی قبل لکھی تھی لیکن پاکستانیوں کی ہمت دیکھیں کہ کس طرح ’’محنت‘‘ کر کے کئی ایک شعروں کا مصداقِ صادق خود کو ثابت کیا۔ ذرا پڑھیے شعر اور بتلائیے کہ یہ ہمارا نہیں تو کس کا حال بیان ہوا ہے:

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے

واقعہ یہ ہے کہ مختلف قسم کے طوفانوں میں گھری پاکستان کی کشتی بری طرح ڈول رہی ہے اور ان میں سب سے بڑا معاشی طوفان ہے۔ پچھلے دنوں ہمارا ملک ڈیفالٹ ہوتے ہوتے بچ تو گیا۔ لیکن نئے سودی قرضوں، ظالمانہ ٹیکسوں اور مہنگائی کے ساتھ۔ لیکن حالات ہیں کہ سدھر کر نہیں دے رہے۔ اصل میں ہماری اقتصادیات چاہے سرکاری و اجتماعی ہو چاہے نجی و انفرادی دونوں ’’بِلا اقتصاد‘‘ ہیں۔حالانکہ معیشت کا اصل اسلامی اصول ہے ہی اقتصاد یعنی میانہ روی:فرمانِ نبوی ہے:«اَلِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ». (شعب الایمان) ’’خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لینا، معیشت کا نصف ہے‘‘۔ یعنی ذرائع آمدن، محنت و مشقت اور دیگر تمام وسائل وغیرہ سب کچھ مل کر معیشت کا نصف حصہ بنے اور دوسری طرف اکیلا اقتصاد (میانہ روی سے خرچ کرنا) معیشت کا نصف کہلایا تو کہا جا سکتا ہے کہ معیشت کا بہت زیادہ یعنی پچاس فیصد انحصار اندازِ خرچ پر ہے نہ کہ کمائی پر۔ 

 نصفِ معیشت کی ایک دوسری توجیہ کی طرف ایک لطیف و عمیق اشارہ علامہ طیبی نے ’’الکاشف عن حقائق السنن‘‘ میں کیا ہے۔ اس کی توجیہ میں جائیں تو ’اقتصاد‘ نصف نہیں بلکہ ’’پوری اور مکمل‘‘ معیشت کہلانے کا حقدار ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: والعيش نوعان: عيش الدنيا وعيش الآخرة’’زندگی کی دو قسمیں ہیں دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی‘‘ اصل میں تو زندگی ایک ہی ہے جو عالمِ ارواح سے شروع ہوئی، کچھ عرصہ یہ عالَمِ دنیا میں کاٹے گی اور پھر عالمِ برزخ سے ہوتے ہوئے عالمِ آخرت میں ظہور پذیر ہو کر امر ہو جائے گی :

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

تو اس جاوداں اور پیہم دواں زندگی کا نصف حیاتِ دنیوی ہے۔ پس جب اقتصاد کو نصفِ حیات قرار دیا گیا تو اس میں دنیا کی پوری زندگی شامل ہے گویا خرچ میں میانہ روی اختیار کرنا ہی کل معیشت ہے۔ اقتصاد یعنی سرمایے کو احتیاط سے خرچ کرنا ہمارے ہاں تو کچھ اہمیت نہیں رکھتا، ہمارا پانی کا نلکا اور بجلی کا پنکھا، جب تک پانی اور بجلی ساتھ دے چلتا ہی رہتا ہے۔ بھلے وقتوں میں ہم نے وہ ہوٹل اور گھر بھی دیکھے ہیں جو سوئی گیس استعمال کرتے ہوئے،چولہا بجھاتے نہیں بلکہ آہستہ کر دیا کرتے تھے تاکہ ’’دیا سلائی کی بچت‘‘ ہو سکے۔ خالی کمروں میں بجلی کے قمقمے، پنکھے بلکہ ایئر کنڈیشنر تک چلتے عام دکھائی دیتے ہیں۔ شادیوں پر آتش بازی اور روشنائیوں کا اہتمام، کئی کئی اقسام کے کھانے، استعمال کی چیزوں میں ’’برینڈز‘‘ کی شریعت کے جیسی پابندی، خیر یہ تو عوامی باتیں ہیں، سرکار کا حال کیا ہے کہ نمائندے لاکھوں کی تنخواہوں کے بعد لاکھوں کی مراعات بھی یوں سمیٹ رہے ہیں جیسے حلوائی کی دکان پر ’نانا جی‘ کی فاتحہ کھلا رہے ہوں (بعض کے ہاں فاتحہ دادا جان، ابا جان بلکہ بیوی جان کی بھی ہو سکتی ہے)۔ ٹینکوں کی مانند بڑی بڑی گاڑیاں اور درجنوں گارڈ ز جیسے کسی ملک کے بادشاہ سلامت تشریف لا رہے ہوں۔اندرونی و بیرونی دوروں پر وہ شاہ خرچیاں کہ اللہ کی پناہ۔ تو اس معیشتِ بلا اقتصاد کی بہتری ہو تو کیوں کر۔ ماہرینِ معیشت تو آپ نے اِدھر اُدھر سے بہت جمع کیے لیکن ان کھوٹے سکوں نے کوئی فائدہ نہ دیا تو ہم فقیروں کی صدا پر بھی کان دھر کر کچھ دعائیں لیتے جائیں:

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
’’میاں‘‘ خوش رہو ہم دعا کر چلے

امام مالک رحمہ اللہ نے جو فرمایا کہ سنت کی مثال سفینہ نوح کی طرح ہے تو مہنگائی اور افراطِ زر کے سیلاب و طوفان سے ہمیں اگر کوئی بچا سکتا ہے تو نبی کریم ﷺ کا طرزِ زندگی ہے۔ آئیے!ذرا اس کی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں:’’رسولِ خدا ﷺ روزے سے ہیں اور اس دن کا روزہ بھی کچھ سخت ہی تھا۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک اونٹنی کا دودھ نکالا اور جب افطار کا وقت نزدیک آیا تو ہم نے ایک پیالے میں دودھ ڈالا اور اس میں شہد شامل کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ جب آپ نے دودھ چکھ لیا تو ہاتھ کے اشارے سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کا اکرام کرتے ہوئے دودھ میں شہد شامل کیا ہے۔آپ ﷺ نے ہمیں دعا دی اور فرمایا:«أَكْرَمَكَ اللَّهُ بِمَا أَكْرَمْتَنِي»’’اللہ تعالیٰ تمھارا بھی اکرام کرے جیسا تم نے میر ا اِکرام کیا‘‘۔اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:«مَنِ اقْتَصَدَ أَغْنَاهُ اللَّهُ وَمَنْ بَذَّرَ أَفْقَرَهُ اللَّهُ وَمَنْ تَوَاضَعَ رَفَعَهُ اللَّهُ وَمَنْ تَجَبَّرَ قَصَمَهُ اللَّهُ».(مجمع الزوائد)’’جو میا نہ روی سے خرچ کرے گا اللہ اسے غنی کرے گا اور جو بے جا اڑائے گا اللہ اسے فقیر کرے گا اور جو تواضع کرے گا اللہ اسے بلندی دے گا اور جو تکبر کرے گا اللہ اسے ذلیل و خوار کرے گا‘‘۔اس فرمانِ رسول میں متضادات پر مبنی دو جوڑے ہیں اور ایک جوڑے کا تعلق دوسرے جوڑے کے ساتھ بھی ہے۔پہلے جوڑے یعنی اقتصاد و تبذیر میں سے پہلا امر مطلوب ہے اور دوسرا قابلِ ترک ہے۔ 

اقتصاد، قصد سے ہے جس کا معنی وسط ہے اور اصطلاح میں اس سے مراد ہے خرچ کرنے میں بچت کا خیال کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی سے کام لینا۔ جب کہ بذر، زمین میں بیج بکھیرنے کو کہتے ہیں اسی سے تبذیر بنتا ہے۔اصطلاح میں اس سے مراد ہے مال کو بے تحاشا لٹانا، فضول خرچی کرنا۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اس امر سے روکتے ہوئے فرمایا:﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا*إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴾’’مال بے جا نہ اڑاؤ، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘۔ فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی اس لیے قرار دیا گیا کہ ان کے طرزِ عمل سے لوگوں میں احساسِ محرومی اور طبقاتی نفرت و عداوت پیدا ہو جاتی ہے۔ آگے چل کر فرمایا:﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾’’اور اپنے ہاتھ (کنجوسی کے مارے) بالکل گردن سے نہ لگائے رکھو اور نہ ہاتھ بالکل کھول ہی دو (اور فضول خرچی کرنے لگو) تب تم بیٹھ رہو گے ملامت زدہ ہو کر اور شکست خوردہ ہو کر‘‘۔یعنی جب مال فضول میں اڑا دیا تو اب ضرورت کے وقت خرچ کرنے کے لیے رقم نہ بچے گی۔ ہو سکتا ہے کہ مجبور ہو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے تو یہ باعثِ ملامت ہے اس میں لوگوں کی ملامت، اپنے ضمیر کی ملامت بلکہ بیوی بچوں کی ملامت بھی شامل ہو سکتی ہے۔ یہی شکست خوردگی ہے جس کا مندرجہ بالا فرمانِ رسول میں ذکر ہوا ہے:«وَمَنْ بَذَّرَ أَفْقَرَهُ اللَّهُ»’’جو تبذیر کرے گا اللہ اسے فقیر بنا دے گا‘‘۔اسی لیے حدیث پاک میں آتا ہے:«مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ».(مسند أحمد)’’وہ غریب نہ ہو گا جو میانہ روی اختیار کرےگا‘‘۔

خرچ میں اعتدال اہلِ ایمان کی لازمی صفت ہے :﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا﴾(الفرقان:۶۷) ’’وہ جب خرچ کریں تو نہ ہی اسراف کریں اور نہ ہی کنجوسی کریں بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن نو چیزوں کا حکم دیا ان میں یہ بھی ہے کہ: «وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى».(مشكاة المصابيح) ’’تنگ دستی اور خوش حالی دونوں میں میانہ روی سے خرچ کرنا‘‘۔ نبی کریم ﷺ اس حکم کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کیا کرتے:«وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَنْفَدُ».(سنن النسَائِي)’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، میانہ روی سے خرچ کرنے کا، چاہے محتاجی ہو چاہے امیری اور میں سوال کرتا ہوں اس نعمت کا جو کبھی فنا نہ ہو‘‘ اور نوٹ کریں کہ اقتصاد کے ساتھ نعمتوں کی بقا کا ذکر کیا گیا یعنی نعمتوں کی بقا بچت میں ہے اور ان کا فنا فضول خرچی میں ہے۔

اوپر ہم نے سیرت کے جس واقعے پر بات شروع کی تھی اس میں مذکور فرمان ِ رسول کا دوسرا حصہ یوں ہے: «وَمَنْ تَوَاضَعَ رَفَعَهُ اللَّهُ وَمَنْ تَجَبَّرَ قَصَمَهُ اللَّهُ».(مجمع الزوائد) ’’جو تواضع کرے گا اللہ اسے بلندی دے گا اور جو تکبر کرے گا اللہ اسے ذلیل و خوار کرے گا‘‘۔ اصل میں تواضع اور تکبر کا تعلق پہلی دو چیزوں یعنی اقتصاد اور فضول خرچی سے ہے کہ جس میں عاجزی ہو گی وہی باجود وسائل کے سادگی اختیار کرے گا اور جس میں تکبر ہو گا وہ اپنے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرےگا۔مندرجہ بالا واقعے سے مشابہ ایک اور واقعے میں بھی یہی پہلو بیان بیان ہوا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک پیالہ دودھ لایا گیا جس میں شہد شامل کیا گیا تھا، اسے دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:«شَرْبَتَيْنِ فِي شَرْبَةٍ؟ وَأُدُمَيْنِ فِي قَدَحٍ؟ لَا حَاجَةَ لِي بِهِ، أَمَا إِنِّي لَا أَزْعُمُ أَنَّهُ حَرَامٌ، أَكْرَهُ أَنْ يَسْأَلَنِي اللَّهُ عَنْ فُضُولِ الدُّنْيَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَتَوَاضَعُ لِلَّهِ، فَمَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَهُ اللَّهُ، وَمَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَهُ اللَّهُ، وَمَنِ اقْتَصَدَ أَغْنَاهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَكْثَرَ ذِكْرَ الْمَوْتِ أَحَبَّهُ اللَّهُ».(مجمع الزوائد)’’ایک مشروب میں دو شربت اور ایک پیالے میں کھانے کی دو چیزیں ؟ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔البتہ میں اسے حرام بھی نہیں کہتا لیکن اسے ناپسند کرتا ہوں کہ مبادا کل آخرت میں اللہ مجھ سے دنیا کے ’ فضول استعمال ‘ کے بارے باز پرس کر لے، میں اللہ کے لیے عاجزی کرتا ہوں (اور اسی سبب سادگی اختیار کرتا ہوں)اور جو اللہ کے لیے تواضع کرے گا اللہ اسے بلندی دے گا اور جو تکبر کرے گا اللہ اسے ذلیل کرے گا اور جو خرچ میں میانہ روی کرے گا اللہ اسے غنی کرے گا اور جو موت کا زیادہ ذکر کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا‘‘۔تو ہماری معاشی بقا اسی میں ہے کہ اسوۂ رسولﷺپر عمل کرتے ہوئے حلال کو حرام کہے بغیر سادگی اختیار کریں اور انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر خرچ میں میانہ روی کو فروغ دیں اور اسراف و تبذیر سے مکمل پرہیز کریں۔

لرننگ پورٹل