لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024

صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی

بیت المقدس کا تاریخی خاکہ
قسط نمبر۲۲

بلاد ِ شام کا چوتھا اور جنوبی حصہ فلسطین ہے۔ فلسطین کی سرحدیں شمال میں لبنان اور سوریا سے ملتی ہیں۔ جنوب میں جمہوریہ مصر اور خلیجِ عقبہ ہے، مشرق میں اردن جبکہ اس کے مغرب میں بحر ِابیض متوسط یا بحیرۂ روم (Mediterranean sea) واقع ہے۔تاریخِ قبلِ مسیح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کا ایک نام ارضِ کنعان بھی ہے۔ کنعان ایک عرب قبیلہ تھاجس نے سب سے پہلے اس علاقے کو آباد کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے دادا اور بنی اسرائیل کے جدِ امجد تھے،ارضِ عراق سے ہجرت کر کے شام میں تشریف فرما ہوئے اور آپ کی اولاد یہاں آباد ہوئی۔ تورات میں آپ علیہ السلام کی ہجرت کا واقعہ مذکور ہے۔

جنگِ عظیم اول کے دوران، برطانیہ نے صیہونیوں سے ایک خفیہ معاہدہ کر لیا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے حکومتِ برطانیہ نے صیہونیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے سلسلے میں ان کی بھرپور مدد کرے گی۔ برطانوی کابینہ میں اس معاہدے کے متعلق ایک یادواشت پیش کی گئی جسے صیہونی لیڈر روتھ شیلڈ اور حائم وائز مین (اسرائیل کے پہلا صدر) نے تیار کیا۔ برطانوی کابینہ میں ایک یہودی رکن ہربرٹ سیموئیل نے یہ یادواشت پیش کی۔ کابینہ میں اس یادواشت کی منظوری کو اس خفیہ معاہدے کی توثیق سمجھا جاتا ہے۔برطانیہ کے فارن سیکٹری لارڈ بالفور نے کابینہ سے اس منظوری کی اطلاع روتھ شیلڈ کو ایک خط میں دی۔اس لیے یہ اعلان بالفور ڈیکلریشن کے نام سے مشہور ہوا۔

شام پر یورپی حملہ مارچ اور اپریل ۱۹۱۷ء میں ہوا تھا لیکن مسلمانوں کی طرف سے انھیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ۷ نومبر ۱۹۱۷ء کو غزہ فتح ہوا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے شہر فتح ہوتے رہے یہاں تک کہ ۹ دسمبر ۱۹۱۷ء کو بیت المقدس فتح ہوا، ترکی افواج شہر سے پسپا ہو گئیں اور ایڈمنسٹریٹر قدس حسین سلیم الحسینی اور مفتی قدس کامل الحسینی نے شہر انگریز کے حوالے کیا۔ ۱۱۸۷ء میں صلاح الدین ا یوبی نے جب بیت المقدس فتح کیا تو اس کے بعد پہلا موقع تھا کہ یہاں یورپی تسلط قائم ہوا۔جنرل ایلن بی نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو اس نے یہاں فوجی حکومت قائم کی۔ جنرل گلبرٹ کلائٹون کو اس نے یہاں کی فوجی حکومت کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا جو اس سے پہلے مصر میں متعین تھا۔

۱۹۱۸ء میں حائم وائز مین کی قیادت میں صیہونی تنظیم کا ایک وفد (یہودی کونسل) لندن سے قدس پہنچا تاکہ بالفور ڈیکلریشن کی روشنی میں یہودی ریاست کے قیام میں قابض فوجی حکومت کی مدد کر سکے۔ان کا یہ مطالبہ تھا کہ یہود کو فوجی حکومت میں شامل کیا جائے۔ یہ مطالبہ چونکہ فوجی حکومت کے قانون کے خلاف تھا اس لیے انھیں حکومت میں تو شامل نہیں کیا گیا البتہ مشاورت کے منصب پر رکھا گیا۔ قابض فوجی حکومت کے اصول و ضوابط پر مبنی ایک دستاویز (مینول آف ملٹری لا)مرتب کی گئی۔ اس ضابطے میں اگرچہ غیر یہود قوموں کے مذہبی و معاشی حقوق تسلیم کیے گئے لیکن فلسطین کی قابض حکومت کی ذمے داری یہ ظاہر کی گئی کہ وہ یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے کوشاں رہے گی ، ہجرت میں ان کی مدد کرے گی اور مناسب قانون سازی کرے گی اور ان کے ساتھ یہ اتفاق ہوا کہ یہود کے لیے زمین فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی تاکہ مسائل میں کمی ہو۔

انھوں نے عثمانی دور کی علاقائی تقسیم میں رد بدل کرتے ہوئے فلسطین کو پہلے تیرہ اور پھر دس اکائیوں میں تقسیم کیا۔ ان تمام ضلعوں یا صوبوں کے سربراہان برطانوی فوجی افسر تھے جن کو اختیارات دیے گئے تھے۔ ان کے ماتحت لوگوں میں وہ عرب بھی شامل کیے گئے جو عثمانیوں سے بغاوت کر کے جنرل ایلن بی کی فوج میں شامل ہوئے تھے، لیکن یہ کسی با اختیار منصب پر نہ تھے۔ عسکری ادارے نے ان قوانین کی خلاف وزری کی۔عسکری حکومت نے پہلے تو عدالتی نظام کو کچھ عرصے کے لیے معطل کر دیا پھر انھوں نے عثمانی دور کے قوانین اور عدالتی طریقِ کار میں ردو بدل کر کے دوبارہ عدالتی نظام شروع کیا۔اگرچہ عسکری حکومت میں امن وامان کا کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن ایک پھر بھی پولیس کا ایک محکمہ قائم کیا گیا، جس کی ابتدائی تعداد تو ایک ہزار افراد کے لگ بھگ تھی لیکن بتدریج اس میں اضافہ کیا جاتا رہا۔

مالی معاملات میں یہ طے کیا گیا کہ جوکرنسی پہلے یہاں تبادلے میں رائج تھی وہی چلتی رہے گی۔ یہاں کے ٹیکس اور محصولات قابض حکومت وصول کرے گی اور وہ رقم اسی طرح یہاں کے عوام پر خرچ کی جاتی رہے گی جیسے پچھلی حکومت خرچ کرتی تھی۔ لیکن جلد ہی ضابطے کی دوسری شق عمل سے باہر ہو گئی۔تعلیمی میدان میں انھوں نے فلسطینی ادارے مجلس المعارف کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ ادارہ معارف قائم کیا جس کا ڈائریکٹر ایک برطانوی تھا۔

اسی سال یعنی ۱۹۱۸ء میں مسلم عیسائی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں فلسطین کے عیسائی اور مسلمان شامل تھے۔ ان کے مقاصد میں آزادی کی حمایت اور یہودی ہجرت و ریاست اور بالفور ڈیکلریشن کی مخالفت شامل تھے۔اسی تنظیم نے سال بھر بعد فلسطین عرب کانگریس کا روپ لیا۔ یہ رائے عامہ ہموار کرتی اور مظاہرے بھی کرتی۔ یہ اپنے سالانہ جلسے مختلف شہروں میں کرتی محمد عزت دروزہ، یوسف العیسی اور عارف الدجانی وغیرہ مختلف وقتوں میں اس کی صدارت پر فائز رہے۔ موسی الحسینی اور امین الحسینی بھی اس اجتماعیت میں شامل رہے۔

یہودی کونسل کے ابتدا میں تو سات ارکان تھے لیکن بتدریج ان میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۲۰ء میں ان کی تعداد ۱یک سو تک جا پہنچی۔ یہودیوں نے کونسل کے اراکین کے تعین کے لیے یہود کے درمیان انتخابات بھی کرائے تاکہ تمام یہودیوں کو کونسل کے ساتھ جوڑا جا سکے۔ اس سے ووٹر، امیدوار اور منتخب ارکان تمام کونسل کی لڑی میں پروئے گئے۔ اس کے ساتھ انھوں نے دوسرے شہروں مثلا ً یافا، حیفہ، الخلیل، صفد، طبریا وغیرہ میں اپنے نمائندے بھیجے۔ اس کے علاوہ انھوں نے قاہرہ، اسکندریہ اور پورٹ سعید وغیرہ میں بھی قونصلر سے مشابہ اپنے نمائندے متعین کیے۔یافا کی بلدیہ نے داخلی طور عربی زبان کو لازمی زبان کی حیثیت دی تو یہودی کونسل نے اس کی مخالفت کی اور فلسطین کی فوجی حکومت نے اس قانون کو منسوخ کرا دیا۔ انگریزی اور عبرانی کو لازمی زبانیں قرار دیا گیا، اخبارِ فلسطین کے نام سے روزنامہ جاری کیا گیا،یہ اخبار پروپیگنڈا کرتا کہ یہود؛ عرب سے الگ نہیں بلکہ نسلِ ابراہیمی کی وجہ سے مشترک ہیں، یہود کا یہاں رہنا کوئی قبضہ نہیں بلکہ آباد کاری ہے اور ان کے توسط سے یہ علاقے ترقی کریں گے اور یہودیوں کی ہجرت عربوں کے فائدے کا باعث ہے۔ بعض لوگ جو یہود و عرب میں افتراق پیدا کر رہے ہیں ان کے اپنے مفادات ہیں۔ یہودیوں نے ایسی کانفرنسوں کا اہتمام بھی کیا،جن میں وہ عیسائیت اور اسلام کا احترام اور ان کےساتھ یہودیت کو تیسرے مذہب کے طور پر قبول کراتے اور بتاتے کہ عرب اور یہود میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔

۱۹۱۹ء میں پیرس امن کانفرس کا انعقاد ہوا۔ اس میں امریکہ کے صدر ولسن، برطانیہ کے وزیرِ اعظم لائیڈ جارج، فرانس کے وزیرِ اعظم جارج کلیمانسو، اور اٹلی کے وزیرِ اعظم اورلانڈو شامل ہوئے۔اس کے علاوہ بھی کئی ملکوں نے اپنے نمائندے بھیجے تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ اس کانفرنس میں بہت سارے معاہدوں کی بنیاد رکھی گئی اور بہت سارے ملکوں کے حصے بخرے کیے گئے۔صیہونیوں نے اپنا ایک وفد ہربرٹ سیموئیل کی قیادت میں یہاں روانہ کیا جس نے اپنا موقف یہاں تفصیل سے نہ صرف بیان کیا بلکہ اس کے لیے لابنگ بھی کی۔انھوں نے تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر یہ ثابت کیا کہ فلسطین پر صرف یہودیوں کا حق ہے اور یہود پر ہونے والے (مزعومہ) مظالم کا ازالہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کر دی جائے۔

اس کانفرنس میں امیر فیصل نے بھی شرکت کی اور سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف، اتحادیوں کی مدد کا گویا ’’واسطہ‘‘ دے کر عرب علاقوں سے اتحادی افواج کے انخلا اور ان ملکوں کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ البتہ اس مطالبے میں فلسطین کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے بعد امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے سربراہان کا ایک خصوصی اجلاس ہوا۔ صدر ولسن کی رائے یہ تھی کہ ایک کمیشن فلسطین اور شام میں روانہ کیا جائے تاکہ وہاں کے لوگوں کی مرضی بھی سامنے لائی جا سکے۔ لائیڈ جارج اور جارج کلیمانسو نے اس بات سے اختلاف کیا اور اپنا کوئی نمائندہ اس مشن میں شامل نہیں کیا۔ صدر ولسن نے ہنری کنگ اور چارلس کرین کی قیادت میں ایک امریکی وفد بلادِ شام کی طرف روانہ کیا۔ یہ مشن، کنگ کرین کمیشن کے نام سے مشہور ہوا۔اس کمیشن نے فلسطین اور شام کا تفصیلی دورہ کیا کئی شہروں اور مختلف قومیتوں اور مذاہب کے سرکردہ لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ کنگ کرین مشن کی سفارشات ایک عرصہ تک صیغۂ راز میں رکھی گئیں، اور بالاخر ۱۹۲۲ء میں امریکی جرنل ’’ ایڈیٹر اینڈ پبلشر‘‘ نے شائع کیں۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق شام میں مسلمانوں کی آبادی تئیس لاکھ پینسٹھ ہزار، عیسائی پانچ لاکھ ستاسی ہزار جبکہ یہودی ایک لاکھ دس ہزار تھے۔(یاد رہے کہ ۱۸۴۹ءکے عثمانی دفاتر کے مطابق یہاں صرف سترہ سو نوے یہودی آباد تھے)۔

اس کمیشن نے مختلف قسم کے سروے بھی کرائے۔ ان میں شام کے مستقبل کے حوالے سے بھی سروے تھا۔فلسطین کو الگ ملک کے طور پر قائم رکھنے کے حق میں صرف ایک اعشاریہ ایک فی صد جب کہ فلسطین اور دوسرے علاقوں کو شام کے ساتھ متحد رکھنے کے حق میں اسی فی صد آرا سامنے آئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام، یہاں کے رہنے والوں کے سماجی و شہری اور دینی حقوق پر ایک بڑا ڈاکا ہے۔ یہود یہاں سے غیر یہود کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں اور تمام غیر یہود عناصر یہودی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں۔ یہاں کی اکثریت آزاد متحدہ شام کی حامی ہے۔کمیشن نے قرار دیا کہ امن و امان کے ساتھ بالفور ڈیکلریشن کے مطابق یہودی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے لہذا یہودیوں کی فلسطین کی طرف ہجرت کو روکا جائے۔ کمیشن نے یہودی پروگرام اور یہودی ریاست کے قیام پر پابندی لگانے کی تجویز دی۔ کمیشن نے قرار دیا کہ خلافِ عدل و انصاف معاہدوں کی تنفیذ اور یہودی ریاست کے قیام کے لیے فوجوں کو استعمال کرنا کوئی دانش مندی نہیں ہےاور جو لوگ یہاں یہودی ریاست کے قیام کے حامی ہیں انھیں نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔ دو ہزار سالہ پرانی روایات کی بنیاد پر یہود کا فلسطین پر دعوی لائقِ اعتنا نہیں ہے۔ 

جون ۱۹۱۹ء میں شامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام علاقوں کے نمائندگان نے شرکت کی،اس کانفرس میں اسی کے لگ بھگ نمائندوں نے شرکت کی جن میں محمد عزت دروزہ اور محمد فوزی عظیم کے علاوہ شامی علاقوں کے عثمانی نواب (ارکانِ پارلیمنٹ) شامل تھے۔ کانفرنس نے شام کی تقسیم،یہودی ریاست کے قیام، اور تمام خفیہ معاہدوں کی مذمت کی، انھوں شام کی متحدہ حیثیت کو بحال کرنے پر زور دیا۔انھوں نے صدر ولسن کی خدمت میں ایک یاداشت ارسال کی جس میں اپنے مطالبات خصوصاً اکثریتِ رائے کی بنیاد پر حکومت کے قیام کی رائے پیش کی۔ ایک آپشن کے طور پر انھوں نے امیر فیصل کو متحدہ شام کا حاکم تسلیم کر نے کا بھی عندیہ دیا۔

دسمبر ۱۹۱۹ء میں یہودیوں نے یافا میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں فلسطین کو یہود کا قومی وطن قرار دیا گیا اور اس کا نام اسرائیل تجویز کیا گیا۔ اور صیہونی جھنڈے کو اسرائیل کا قومی نشان قرار دیا گیا۔اس کے جواب میں فلسطینیوں اور دوسرے عربوں نے قدس میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں یہودی عزائم کی نفی کی گئی۔ کانفرنس نے مطالبہ کیا کہ فلسطین کو شام کا حصہ بنایا جائے اور سان پیکو معاہدے کی اس شق کو باطل قرار دیا جائے جو فرانس کو شام پر قبضے اور حکومت کا اختیار دیتی تھی۔مؤتمر کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ وہ ہمارے ملکوں کے بارے میں جو فیصلے بھی اتحادیوں نے کیے ہیں، صدر ولسن کی رائے کے مطابق وہ باطل قرار دیے جائیں۔ کانفرنس نے اپنا ایک وفد شام روانہ کیا تاکہ وہاں اپنے موقف کی اشاعت کر سکے۔

دوسری طرف برطانیہ اور فرانس،شام کی تقسیم پر متفق و مُصِر تھے۔ انھوں نے کنگ کرین کمیشن کی سفارشات، شامی کانفرنس اور دیگر مواقف کو چنداں اہمیت نہ دی۔۱۹۲۰ء کے دوران انھوں نے، معاہدۂ پیرس میں یہودیوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے یہودی ریاست کے نقشے کے مطابق، بلادِ شام کی تقسیم اور مختلف ملکوں کے درمیان حدود بندی کی۔

فروری اور مارچ ۱۹۲۰ء میں برطانوی فرانسیسی گٹھ جوڑ کے خلاف شامی اور عربی اخبارات میں بہت کچھ لکھا گیا اور غم و غصے کے اظہار کے لیے جلوس نکالے گئے۔ اسی عرصے میں فلسطینی جوانوں کے دو مسلح گروہوں نے شامی سرحد کے نزدیک ایک یہودی بستی پر حملہ کر دیا اور ایک اہم یہودی سردار ٹرامپ بلیدور سمیت چھے یہودیوں کو واصلِ جہنم کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی یہود مسلم جھڑپیں ہوئیں جن میں پانچ یہودی ہلاک جبکہ چار مسلمان شہید ہوئے۔ زخمیوں میں یہود کی تعداد دو سو تک پہنچ گئی تھی۔

اسی سال وائزمین نے برطانوی فوجی حکومت سے ساز باز کر کے دیوارِ براق(دیوارِ گریہ) تک پہنچنے کا ایک رستہ اسی ہزار پونڈ اسٹرلنگ میں خریدنے کی کوشش کی۔مسلمانوں نے اس پر سخت اعتراض کیا اور مفتی کامل الحسینی نے فتویٰ دیا کہ یہ علاقہ مسلمانوں کا وقف ہے جس کی قانوناً اور شرعاً خرید و فروخت نہیں ہو سکتی لیکن دھاندلی کرتے ہوئے یہ جگہ ان کو دے دی گئی۔فلسطین میں برطانیہ کی فوجی حکومت جولائی ۱۹۲۰ء تک قائم رہی۔ اس کے بعد سول حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا تذکرہ آئندہ قسط میں کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ 

جاری ہے

کتابیات

القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار

فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین

تذکیر النفس بحدیث القدس، دکتور سید حسین العفاني

لرننگ پورٹل