لاگ ان
پیر 20 شوال 1445 بہ مطابق 29 اپریل 2024
لاگ ان
پیر 20 شوال 1445 بہ مطابق 29 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
پیر 20 شوال 1445 بہ مطابق 29 اپریل 2024
پیر 20 شوال 1445 بہ مطابق 29 اپریل 2024

مولانا محمد اقبال
رکنِ شعبۂ تحقیق و تصنیف

کتابِ قیم: مومنین کے لیے دستورِ حیات

سورۃ الکہف، آیت: ۱تا۳

﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا* قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا* مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا﴾

’’تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھی۔ ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوش خبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ 

سورۃ الکہف کا شانِ نزول اور وجہِ تسمیہ

مفسرین نے سورۃ الکہف کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ مشرکینِ مکہ کے پاس حضور اکرمﷺ کی نبوّت کی تکذیب کی کوئی معقول وجہ نہ رہی تو انھوں نے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو مدینہ کے یہودی علما کے پاس بھیجا کہ یہ دو افراد علماے یہود جو اہل کتاب ہیں اور کتبِ سماویہ؛ تورات اور انجیل پر ایمان رکھتے ہیں ان سے حضور اکرمﷺ کے دعوۂ نبوّت کے متعلق دریافت کریں کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ علماے یہود نے ان سے کہا کہ آپ حضور اکرمﷺ سے ان تین سوالوں کے جواب دریافت کیجیے کہ ان نوجوانوں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو شرک سے بچنے کی خاطر اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔ دوسرا ان سے دریافت کریں کہ اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔ جبکہ تیسرا سوال یہ ان سے پوچھیں کہ روح کی حقیقت کیا ہے۔ پھر اگر وہ ان تین سوالوں کا صحیح جواب دے دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، کیونکہ ان سوالوں کا جواب صرف نبی مرسل کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو ان کا نبوّت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے اور سوالوں کی یہ تفصیل مشرکینِ مکہ سے ذکر کی۔ لہذا انھوں نے علماے یہود کی ہدایت کے مطابق حضور اکرمﷺ سے مذکورہ تین سوال پوچھ لیے۔ ان سوالات میں سے تیسرے کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں آیاہے جبکہ بقیہ دو سوالات کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (جامع البيان في تأويل القرآن، ج: ۱۷، ص:۵۹۳) کہف کے معنیٰ غار کے ہیں، اور اس سورت میں اصحاب ِ کہف یعنی غار والے حضرات کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، چنانچہ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۃ الکہف‘‘ رکھا گیا ہے۔

سورۃ الکہف کی فضیلت

حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’ جو آدمی سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے گا وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم: 1883) حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعے کے دن سورۃ الکہف پڑھے گا تو وہ اگلے آٹھ دنوں تک ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ اور اگر دجال بھی نکل آئے تو وہ اس کے فتنے سے بھی محفوظ رہےگا‘‘۔ (المستخرج من الأحاديث المختارة: 430) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’جو شخص جمعے کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرے گا تو وہ اس کے لیے اگلے جمعے تک ایک نور روشن کرے گی‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين: 3392) حسبِ بالا روایات کے علاوہ اور بہت ساری روایات میں سورة الکہف کی تلاوت کے کثیر فضائل وارد ہوئے ہیں، اور خاص طور پر جمعے کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

 آیاتِ مبارکہ کی تفسیر و توضیح

اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی حمد و ثنا سے ابتدا کی کہ اس نے اپنی کتاب کو اپنے بندے اور رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل کی ہے، اور یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن، کوئی کجی نہیں ہے۔ اس کے ذریعے صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ راہ سے ہٹے ہوئے لوگوں کے لیے اس میں انذار جبکہ مومنین کے لیے اس میں بشارت و خوش خبری ہے۔ ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ﴾ ’’تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی‘‘۔ یعنی تمام شکر کا حق دار وہ ذات ہے جس نے اپنے بندے حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو کتبِ سماویہ میں سب سے زیادہ کمالات کی حامل ہے۔ اس آیت میں ایک طرف قرآنِ کریم کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، دوسری طرف اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ رسول اللہﷺ کی نسبت بحیثیت عبد اپنی طرف کر کے حضورﷺ کی عظمت اور جلالتِ شان کی وضاحت کے ساتھ اس طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ رسول بندہ ہوتا ہے، اس کی شان یہی ہونی چاہیے، نہ کہ جیسے نصاریٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیاہے۔

قرآنِ کریم کے دو اوصاف کا بیان

آگے قرآنِ کریم کے دو اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا﴾ ’’اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھی‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کوئی کجی باقی نہیں رکھی، نہ اس کے نظم میں کوئی کجی ہے کہ وہ فصاحت وبلاغت کے خلاف ہو اور نہ ہی اس کے معانی ومفاہیم میں کوئی تناقض پایا جاتا ہے کہ وہ حکمت کے خلاف ہو۔ اسی طرح اس میں ہدایت سے کوئی انحراف کا بھی کوئی شائبہ نہیں ہے۔ یعنی قرآن کریم اپنے لفظی اور معنوی کمال کے ساتھ ہر قسم کی ظاہری وباطنی خوبیوں سے مزین ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر اس کی وضاحت یوں کی ہے: ﴿أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾ (النساء: ۸۲) ’’ کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت اختلافات پاتے‘‘۔ لہذا قرآنِ کریم کے اندر نظم اور معنیٰ کے لحاظ سے ایک ایسا ربط ہے، جس کا التزام کرنا سواے رب ذو الجلال کے کسی فردِ بشر کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس وصف کے بیان کے بعد کلامِ الٰہی کا دوسرا وصف بیان کیا جا رہا ہے کہ: ﴿قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ﴾ ’’ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے‘‘۔ یعنی اس کتاب کا دوسرا وصف یہ ہے کہ معتدل اور ٹھیک ٹھیک راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہاں بعض مفسرین نے ﴿قَيِّمًا﴾ کی تفسیر مستقیماً سے کیا ہے کہ اس کتاب کا دوسرا وصف یہ ہے کہ یہ سیدھی اور راست رو ہے، اس میں کسی جانب میلان نہیں ہے۔ اس صورت میں یہ پہلے وصف کے لیے تاکید ہے، کیونکہ پہلے وصف کا حاصل بھی یہی ہے۔ اسی طرح قیم کے معنیٰ مهیمن کے بھی ہو سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآنِ کریم تمام کتبِ سماویہ پر گواہ، سابقہ کتب کے علوم کا جامع اور ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے۔ اسی طرح قیم کو نگران کے معنیٰ میں بھی لیا جا سکتا ہے کہ قرآن ِ کریم بندوں کے دینی و دنیوی مصالح کا کفیل ہے، امام رازی رحمہ اللہ نے یہی تفسیر راجح قرار دی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم نگران ہے اس لیے کہ یہ لوگوں کے لیے ہدایت کا سبب ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ چھوٹے بچوں پر کوئی نگران مقرر کیا جائے، اس لیے کہ انسانی ارواح بمنزلۂ اطفال کے ہیں اور قرآن کریم ان ارواح کے مصالح کے متعلق شفیق نگران کی طرح ہے۔ مذکورہ تفسیر پر دلیل دیتے ہوئے وہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کا قول ﴿وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا﴾ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اپنی ذات میں کامل ہے۔ جبکہ ﴿قَيِّماً﴾ کے وصف سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ غیر کی تکمیل کرنے والا ہے، اس لیے کہ قیم ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کے مصالح کا خیال رکھتا ہو۔ ان دونوں اوصاف کی نظیر سورۃ البقرۃ کی یہ آیت: ﴿لَا رَيْبَ فِيهِ هُدىً لِلْمُتَّقِينَ﴾ ہے۔ اس میں ﴿لَا رَيْبَ فِيهِ﴾ سے اشارہ ہے کہ یہ کتاب اپنی ذات میں صحت اور عدمِ اخلال یعنی نظم کے لحاظ سے کسی عیب سے حفاظت میں انتہا درجے پر ہے، اس طور پر کہ عقلاً اس میں شک نہ کرنا واجب ہے۔ اور ﴿هُدىً لِلْمُتَّقِينَ﴾ سے اشارہ ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کی ہدایت اور ان کی حالت کی تکمیل کا سبب ہے ۔ یہاں قولِ باری تعالیٰ: ﴿وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا﴾ سورۃ البقرۃ میں مذکور ﴿لَا رَيْبَ فِيهِ﴾ کا قائم مقام ہے جبکہ ﴿قَيِّماً﴾﴿هُدىً لِلْمُتَّقِينَ﴾ کا قائم مقام ہے۔اور یہ قرآنِ کریم کے لطیف حِکَم و اسرار ہیں۔ (مفاتيح الغيب، ج:۲۱، ص:۴۲۳) خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم اپنی ذات میں کامل ہونے کے ساتھ غیر کی تکمیل کے وصف سے بھی متصف ہے، یہ اعتدال کے اس درجے پر ہے جہاں نہ افراط کی گنجائش ہے اور نہ ہی تفریط کی، اور اسی طرح یہ ایسا نگران ہے جو معاش ومعاد کے معاملات میں سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن اس مقصد کے لیے نازل فرمایا کہ اس کی پیروی کی جائے، اگر کوئی اس کی پیروی سے منھ موڑ لے اسے تو اس کے متعلق واضح فرمایا کہ: ﴿لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ﴾ ’’ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے تاکہ (اس کتاب کے ذریعے) لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے۔ اور جو اس کتاب کی تعلیمات کے موافق نیک عمل کرتے ہیں ان کو بہترین اجر کی خوش خبری دے۔

ایک تکوینی امر کی طرف اشارہ

سورۃالکہف میں اصحابِ کہف اور حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے واقعات موجود ہیں، جن میں مافوق الفطرت امور کے صادر ہونے کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح یاجوج ماجوج کا تذکرہ بھی موجود ہے جو قربِ قیامت میں نمودار ہوں گے اور ان کا دجال سے تعلق اخبار و روایات میں بیان ہوا ہے۔ چونکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دو طرح کے احکام؛ تشریعی امور اور تکوینی امور جاری ہیں۔ انسان صرف تشریعی امور کا مکلف ہے، تکوینی امور اللہ تعالیٰ کے حکم سے براہ راست صادر ہوتے ہیں، ان میں بندوں کا عمل دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان واقعات کے ظہور کا کوئی مکلف ہوتا ہے۔ بہر حال، اصحابِ کہف کا واقعہ ہو یا حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کا واقعہ ہو یا آخری زمانے میں یاجوج ماجوج اور دجال کی آمد ہو، یہ سب تکوینی امور سے متعلق ہیں۔ یہاں حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے اپنی اہم کتاب ’’تذکیر بسورۃ الکہف‘‘ میں ﴿بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ﴾ کے کلمات کے ضمن میں دجالی فتنے کے متعلق ایک نکتے کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک اہم تکوینی امر کے وقوع کے متعلق تحریر کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’بہر حال ﴿بَأْس شَدِيد﴾ کے ساتھ ﴿مِنْ لَدُنْهُ﴾ کا اضافہ دھمکی میں جو کیا گیا ہے بغیر کسی تاویل کے اس کا یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ شدید جنگ جس کی یہاں دھمکی دی گئی ہے اسباب وعلل سے بالاتر ہوگی اور براہ راست قدرت کی طرف سے ایسے ’’من لدني‘‘ حالات پیش آئیں گے کہ اسباب کی راہ سے مقابلہ کرنے والوں کے سارے عقلی داؤ پیچ اور فکری تگ ودو، ذہنی اُدھیڑیں سب کے سب بے کار ہو کر رہ جائیں گے کیونکہ اسباب کی راہ سے تو ان ہی چیزوں کا مقابلہ ممکن ہے جو اسباب ہی کی راہوں سے پیدا ہورہی ہوں لیکن ’’من لدني‘‘ قانون کے تحت قدرت کا ہاتھ جب چیزوں کو پیدا کر لے گا ان کا مقابلہ بھلا کون کرسکتا ہے‘‘۔ (تذکیر بسورۃ الکہف،ص:۴۲)

اہلِ ایمان کےلیے خوش خبری

جس سخت عذاب سے لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے، اس کے متعلق فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کی پیروی سے منھ موڑ لے، البتہ اہلِ ایمان کے لیے اس عذاب سے عافیت کی خوش خبری دی جا رہی ہے کہ: ﴿وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا﴾ ’’اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوش خبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے‘‘۔ یعنی اس قرآن پر ایمان رکھنے والے مومنین جنھوں نے اس کی تعلیمات کے موافق اعمالِ صالحہ کا اہتمام کیا ہے، ان کو خوش خبری دے کہ ان کے لیے بہترین اجر کا وعدہ ہے، جو جنت کی صورت میں ملنے والاہے۔ اس کی تائید آنے والی آیتِ مبارکہ سے ہو رہی ہے: ﴿مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا﴾ ’’جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ یعنی وہ اہلِ ایمان جو تعلیماتِ قرآن کے موافق زندگی کے شب و روز بسر کر نے کا اہتمام کرتے ہیں وہ اپنے اجر یعنی جنت میں ہمیشہ کے لیے مقیم رہیں گے، نہ وہاں سے انھیں کبھی نکالا جائے گا اور نہ ہی ان نعمتوں کو زوال ہوگا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل و کرم کی بدولت جنت میں ان کو خلود عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتابِ قیم کی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین

لرننگ پورٹل