لاگ ان
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024
لاگ ان
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024
اتوار 19 شوال 1445 بہ مطابق 28 اپریل 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

معاہدۂ لوزان پسْ منظر اور پیش منظر

جنگِ عظیم اول میں اتحادی افواج نے بعد کی اصطلاح کے مطابق محوری قوتوں(جرمنی، ہنگری، بلغاریہ اور ترکی) کو شکست سے دوچار کیا۔ ترکوں کی اتحادیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ، یونان کی بندرگاہ مدروس میں ایک بحری جہاز پر ۴/ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو ہوا۔ جس میں ترکوں کی طرف سے وزیر بحریہ رؤف بے جبکہ اتحادیوں کی طرف سے ایڈمرل سمرسیٹ نے دستخط کیے۔یہ ایک ذلت آمیز معاہدہ تھا۔ اس کی پانچویں شق کے مطابق اتحادیوں کو حق حاصل ہو گیا کہ وہ جنگی حکمتِ علمی کے تحت جس علاقے پر چاہیں قابض ہو جائیں۔ چنانچہ انھوں نے نومبر ۱۹۱۸ء میں قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا۔ اب یہاں کے حاکم سلطان محمد السادس وحید الدین خان کی حیثیت وہی تھی جو کبھی بہادر شاہ ظفر کی دلی میں تھی۔ ۱۹۱۹ء میں عثمانی فوج کی نویں بریگیڈ کے انسپکٹر جنرل مصطفیٰ کمال نے سلطان سے بغاوت کرتے ہوئے قوم پرست تحریک کی بنیاد رکھی جس کو انقرہ میں مقبولیت حاصل ہوئی اور یہاں نیشنل گرینڈ اسمبلی قائم کر کے ایک متوازی حکومت قائم کر لی۔۱۹۲۰ء میں سلطنتِ عثمانیہ اور اتحادیوں کے درمیان معاہدہ سیورے (سیفرے)طے پایا چونکہ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے اس لیے انھوں نے ایک ظالمانہ معاہدہ کر کے ترکی کو اس میں جکڑ لینا چاہا۔ 

ترکوں کی طرف سے بدنامِ زمانہ معاہدہ سیورے پر فلسفی و مصنف رضا توفیق (تاسیسی رکن جمیعت اتحاد و ترقی) داماد فرید پاشا (وزیر اعظم) محمد ہادی پاشا (سیاست دان، رکن جمیعت آزادی و ایتلاف، لبرل پارٹی آف ترکی) اور رشید خالص نے دستخط کیے۔اس معاہدے میں ایک طرف تو عثمانی فوج کی تعداد کو پچاس ہزار تک محدود کر دیا گیا۔ دوسری طرف اسے مشرقی ممالک یعنی حجاز و عراق وغیرہ سے محروم کیا گیا۔ تیسری طرف اسے بحیرۂ روم کے جزائر کے ساتھ ساتھ، اناطولیہ، ازمیر اور اس کی بندرگاہ سے بھی محروم کر دیا گیا۔ قسطنطنیہ نے یہ معاہدہ تو تسلیم کر ہی لیا تھا لیکن انقرہ کی حکومت اور مصطفیٰ  کمال نے اس معاہدے کو ماننے سے ا نکار کرتے ہوئے استقلالِ وطن کی تحریک کا اعلان کر دیا۔مصطفیٰ کمال پاشا اتا ترک کے لبرل اور دین مخالف اقدامات سےتمام تر اختلاف کے باوجود؛ اس موقعے پر اس نے جراَتِ رِندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اناطولیہ اور دیگر علاقوں کے دفاع کا اعلان کیا جہاں یونانی اور دیگر افواج پیش قدمی شروع کر چکی تھیں۔ اس کے نتیجے میں جنگِ آزادیٔ ترکی شروع ہوئی اور اتاترک نے کمال بہادری دکھاتے ہوئے یونانیوں کو اناطولیہ اور دوسرے ترک علاقوں سے مار بھگایا۔

 سیورے معاہدے کی رو سے جو علاقے عالمی استعمار ہتھیانا چاہتا تھا وہی مصطفیٰ  کمال اور ان کے ساتھ شریک ترکوں نے چھین لیے تو معاہدے سیورے گویا ازخود ختم ہو گیا۔ اب اتحادی دوبارہ مذاکرات کی طرف آئے۔ اس بار مذاکرات کی میز پر عثمانیوں کی جگہ جدید نیشنل گرینڈ اسمبلی تھی۔ دونوں طرف کے مندوبین سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں جمع ہوئے اور ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء کوایک معاہدے پر دستخط کیے جو لوزان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کو معاہدۂ لوزانِ ثانی بھی کہا جاتا ہے تاکہ اسے معاہدۂ لوزان (معاہدۂ اوشی) سے ممتاز کیا جا سکے جو۱۹۱۲ء میں لیبیا کے محاذ پر اٹلی ترکی جنگ کے خاتمے پر ہوا تھا جس کی رو سے ترکی نے بن غازی اور طرابلس سے پسپائی اختیار کی تھی اور اطالیہ نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔اس معاہدے کے بعد ۴/اکتوبر ۱۹۲۳ء کو اتحادیوں نے قسطنطنیہ سے انخلا مکمل کیا اور ۶/ اکتوبر کو انقرہ کی فوجیں یہاں داخل ہوئیں۔ ۲۹”/ اکتوبر کو نیشنل گرینڈ اسمبلی نے جمہوریہ ترکی کے قیام کی قردار منظور کی۔

معاہدۂ لوزا ن کی سوویں سالگرہ کے نزدیک آنے کے ساتھ، اس کے بارے میں کچھ خوش کن نعرے بھی سامنے آتے جا رہے ہیں۔ ان چہ میگوئیوں کے خاتمے کی غرض سے مصر کے ایک تحقیقی سہ ماہی مجلے مجلة المعهد المصري کے ایک محقق جناب عادل رفیق صاحب نے اس معاہدے کو انگریزی سے عربی میں منتقل کیا۔یہ ترجمہ ۲۰۲۰ء میں شائع ہوا یعنی جب کہ معاہدے کو ستانوے سال گزر چکے تھے۔دیباچے میں عادل رفیق صاحب نے یہ تصریح کی کہ لوزان کے حوالے سے پھیلی ہوئی چہ میگوئیوں نے مجھے ترجمے کی طرف راغب کیا تاکہ لاعلمی میں کوئی غلط موقف اختیار نہ کرے۔ ویب سائٹس پر دستیاب معاہدے کے انگریزی متن اور اس عربی ترجمے ہر دو کی مدد سے اس معاہدے کا ایک خلاصہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد قارئین کے لیے اس معاہدے کے بارے میں پھیلی خبروں کو خود بھی سمجھنا آسان ہو گا اور کچھ معروضات ہم بھی پیش کریں گے۔

معاہدے کے دیباچے میں ۱۹۱۴ء سے جاری عالمی جنگ کے خاتمے،امن کے قیام، ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کے احترام اور باہم تجارت کے فروغ کی ضرورت بیان کی گئی۔ اس کے بعد فریقِ اول (اتحادی ملکوں) برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، یونان،رومانیہ، سربیا، کرواتیا، سولوینیا اور ان کے مندوبین کے نام دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد فریقِ ثانی گورنمنٹ آف گرینڈ نیشنل اسمبلی آف ترکیہ کے مندوبین عصمت پاشا اینونو،ڈاکٹر رضا نور بک، حسن بک کے نام دیےگئے ہیں۔

پہلا حصہ آرٹیکل ایک سےپینتالیس تک ہے جو سیاسی امور، اراضی کی تقسیم اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ کے بارے میں ہے۔ابتدائی شقوں میں ترکی کی دیگر ملکوں مثلاً بلغاریہ، یونان، سوریا اور عراق کے ساتھ سرحدوں اور اس کے لیے باؤنڈری کمیشن اور اس کے متعلق ضابطے اور ایک دوسرے کی سرحدوں کے احترام کا عہد کیا گیا ہے۔اسی حصے میں بحر ِایجہ کے جزیروں کی ملکیت و سیادت طے کرتے ہوئے امبروس، ٹینیڈوس اور ریبٹ جزائر ِترکی کو دیے گئے۔جبکہ لیمنوس، ساموتھریس، مائیٹیلین، چیوس،ساموس اور نیکاریا کے جزائر غیر مسلح اور غیر فوجی رکھنے کی شرط پر یونان کی تحویل میں دیے گئے۔جب کہ اسٹامپالیا (اسٹراپالیا) ڑوڈس(روڈوس) کالکی (خالکی) اسکارپینٹو، کاسوس (کاسو) پسکوپیس، ٹیلوس، میسیروس (نیسیروس) کلیمنوس،لیروس، باتموس، لیبسوس (لیبسو) سیمی، وقوس، اور کاسٹیلو ریزو جزائر پر اٹلی کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔(جنگِ عظیم اول کے بعد اتحادی طاقتوں نے معاہدۂ پیرس کے تحت یہ جزیرے یونان کو ان کی غیر فوجی حیثیت برقرار رکھنے کی شرط پر دے دیے۔ ان میں بہت سے جزیرے ترکی سے نزدیک اور یونان سے دور واقع ہیں۔ پچھلے عرصے میں یونان معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہاں فوجی سرگرمیاں اور جنگی مشقیں کر چکا ہے اور یہی بات اب دونوں ریاستوں کے درمیان وجہِ نزاع ہے)۔ ترکی کی دو اہم سمندری گزر گاہوں آبناے باسفورس آبناے درِ دانیال کے پانیوں اور فضاؤں غیر مسلح و غیر فوجی بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا۔ دوسرے ملکوں کو یہاں سے بغیر کسی ٹیکس کے گزرنے کا اختیار دیا گیا البتہ راہداری کے نام سے معمولی رقم ترکی کو لینے کی اجازت دی گئی۔

اس حصے میں ترکی کو پابند کیا گیا کہ وہ مصر، سوڈان، لیبیا اور قبرص سے دست بردار ہو جائے گا،نئی طے شدہ حدود سے باہر کسی بھی خطے پر اپنا کسی قسم کا حق نہ جتلائےگا اور اپنے جملہ حقوق سے ہر طرح سے دست بردار ہو کر اپنی حدود سے باہر سیاسی، قانونی یا انتظامی معاملات میں اپناکوئی اختیار استعمال نہیں کرے گا اور یہ کہ اس طرزِ عمل سے مسلمانوں کے باہمی روحانی تعلق پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ 

دوسرا حصہ آرٹیکل چھیالیس سے تریسٹھ تک مالی معاملات کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں عثمانی سلطنت سے الگ ہونے والی ریاستوں کے ذمے عثمانی قرضوں کا ایک حصہ لگایا گیا اور وصولی کے ضوابط بیان کیے گئے۔تمام ممالک کو جنگی تاوان وغیرہ سے بری قرار دیا گیا۔ترکیہ سے الگ ہونے والی ریاستوں کو سرکاری عثمانی املاک کی ملکیت کا حق بغیر کسی معاوضے کے دیا گیا۔ عوامی ملکیت کے بارے میں بھی اصول طے کیے گئے۔

 تیسرا حصہ : آرٹیکل چونسٹھ تاسوپر مشتمل ہے اور اس میں چھے ذیلی قسمیں ہیں۔ اس میں مختلف فوجوں کی طرف سے لوٹی گئی جائیدادوں کی واپسی اور اس کے دعوے اور ثبوت کے طریقے بیان کیے گئے ہیں اور انشورنس، تجارت، صنعت و حرفت اور ادب و فن کے ملکیتی حقوق، مقدمات کی سماعت اور فیصلوں کے طریقے، سیکرٹیریت، سیکرٹری، دفتر اور دستاویزات اور ارکان کی تنخواہوں کی برابر تقسیم وغیرہ کے بارے میں تفصیلات ہیں۔ 

چوتھا حصہ آرٹیکل ایک سو ایک تا ایک سو اٹھارہ پر مشتمل ہے۔یہاں ملکوں کے درمیان آمدو رفت اور اتصالات،امورِ تجارت، امورِ صنعت، ریلوے، ٹیلی گراف، صحت و صفائی، ملازمین اور بالخصوص بحری ملازمین کے حقوق کے تحفظ اور مقدس مقامات کے زائرین کو سفری اور صحت کی سہولیات پر بات کی گئی ہے۔

پانچواں حصہ آرٹیکل ایک سو انیس تا ایک سو تینتالیس پر مشتمل ہے۔اس میں جنگی قیدیوں کی واپسی، جنگی مجرموں کی سزاؤں، فوجیوں کی قبروں کی نشاندہی، شہیدوں کی یادگاروں کا احترام برقرار رکھنے، اور دوسرے ملکوں کو ان تک رسائی اور سہولیات،قسطنطنیہ پر قبضہ (نومبر ۱۹۱۸ تا اکتوبر ۱۹۲۳ء) کرنے والی طاقتوں کے اس عہد میں صادر ہونے والے فیصلوں کو تحفظ دیا گیا ہے۔ آرٹیکل۱۴۳، اس معاہدے کی آخری شق ہے جو معاہد حکومتوں کی طرف سے معاہدے کی تصدیق اور دستاویز کے ریکارڈ اور کاپی وغیرہ کے بارے میں ہے۔ یہاں قرار دیا گیا ہے کہ معاہدے کی اصل کاپی حکومتِ فرانس کے حوالے کی جائے گی جو اس کی نقول تیار کر کے متعلقہ ممالک کو فراہم کرے گا۔یہ تو تھا معاہدے کا خلاصہ اب ہم ان اشکالات کی طرف آتے ہیں جو عوام میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ترکی خلافت کا اعلان کرنے جا رہا ہے اور وہ اپنے تمام علاقے دوبارہ حاصل کر لے گا جو کبھی سلطنتِ عثمانیہ کے جھنڈے تلے جمع تھے۔جہاں تک خلافت کی بات ہے تو اپنے دین دوست اقدامات کے باوجود اردوغان کو ابھی تک سیکولر آئین کے تحفظ کا عہد کرتے ہوئے حلف اٹھانا پڑتا ہے تو وہ خلافت کا دعوی کہا ں سے کرے گا اور نہ ہی کسی دعوے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک یہ کہنا کہ ترکیہ اپنے سابقہ مقبوضات دوبارہ حاصل کر لے گا تو یہ معاہدے کے خلاف بھی ہے اور خلافِ قیاس بھی کہ اول تو ترکی نئی سرحدیں تسلیم کر چکا ہے، لیکن اگر وہ اس کے خلاف کرنا بھی چاہے تو یہ کسی تیسری عالمی جنگ کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے کہ سلطنتِ عثمانیہ سے الگ ہونے والے ممالک کوئی ایک دو نہیں، چالیس کے قریب ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے میں ترکی پر پابندی لگائی گئی تھی کہ وہ اپنی زمینوں میں سے گیس اور پٹرول کے لیے ڈرلنگ نہیں کر سکتا۔ یہ بات بھی خلافِ حقیقت ہے، ایسی کوئی دفعہ معاہدےمیں موجود نہیں بلکہ ۱۹۲۶ء کے ترکی قوانین میں ڈرلنگ کے متعلق ضابطے اور بعد میں ترک پٹرولیم کارپوریشن کا قیام اور اس کی ڈرلنگ اور پھر کئی مزید کمپنیوں کا اس میدان میں متحرک ہونا اس طرح کے دعووں کے بطلان کو کافی ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ سو سال میں ازخود ختم ہو جائے گا یا اس معاہدے کی کچھ شرائط پوشیدہ تھیں۔تو معاہدے کی شقوں سے ظاہر ہے کہ یہ معاہدہ کسی ٹائم فریم کا پابند نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ معاہدہ آپ سے آپ ختم ہو جائے گا، یہ ایک غلط رائے ہے۔ مزید یہ کہناکہ اس کی کچھ شرائط پوشیدہ تھیں تویہ بات بھی ٹھیک نہیں۔ دس ملکوں کے نمائندوں کے سامنے ایک چیز کا لکھا جانا اور پھر ترکی پارلیمنٹ کا اس کی توثیق کرنا پوشیدہ شقوں کے امکان کو رد کرتا ہے اور وہ معاہدہ اتفاقی اور قانونی کہلا ہی نہیں سکتا جس میں ایسے سقم پائے جائیں۔ چنانچہ پچھلی ترک اسمبلی کے اسپیکر مصطفیٰ  شنطوب نے ایک صحافی کے جواب میں صاف کہا کہ یہاں نہ کوئی پوشیدہ شق ہے اور نہ ہی یہ معاہدہ کسی وقت ِ معین کے لیے ہے۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ترکی اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ وہ لوزان معاہدے سے صاف مکر نے والا ہے تو یہ بات آدھی درست کہلا سکتی ہے۔ معاہدے کا انکار تو ایک عجیب اور خلافِ عقل و شرافت بات ہے۔ البتہ ایک دوسری صورت ممکن ہے لیکن اس سے پہلے لوزان کی حقیقت کوسمجھنا چاہیے۔معاہدۂ لوزان ایک ہارے ہوئے کمزور فریق کا اقرار نامہ تھا جو اس نے بہت سارے مضبوط فاتحین کے سامنے بحالتِ مجبوری کیا تھا۔ کسی فریق کی جتنی کمزوری ختم ہوتی جائے گی اتنی ہی اس کی مجبوری بھی گھٹتی جائے گی۔ عالمی سیاست اور معاہدات میں طاقت کا عنصر کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی ہی کی تاریخ سے مثال دیں تو معاہدۂ سیفرے یا سیورے کے موقعے پر جو کہ لوزان سے بھی ظالمانہ تھا، تختِ قسطنطنیہ کمزور بلکہ اتحادیوں کا اسیر تھا تو اسے ماننا پڑا۔ لیکن اس موقعے پر چونکہ مصطفیٰ  کمال پاشا اتحادیوں کی گرفت سے باہر تھا اور اس نے ہمت دکھا کر اتحادیوں کو اناطولیہ وغیرہ کی طرف شکست سے دوچار کیا تو معاہدہ سیورے کی دھجیا ں خود سے اڑ گئیں۔ کسی نے اس سے تقاضا نہیں کیا کہ صاحب ہمارا معاہدہ ہو چکا خدا را یوں نہ کرو۔!! 

یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

حقیقت یہ ہے کہ اب ترکی ۱۹۲۳ء جیسا کمزور نہیں رہا۔ اقتصادی مسائل کے باوجود، صنعتی، تکنیکی اور سیاسی میدان میں وہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ جتنا وہ مضبوط ہو گا اتنی ہی اس کی مجبوری کم ہو گی اور اتنا ہی وہ ظالمانہ لوزانی شیطانی چنگل سے آزاد ہوتا جائے گا۔ بالکلیہ نہیں البتہ اس کی ظالمانہ شقوں سے۔اس کی آسان صورت یہ ہے کہ ترکی اس کی بعض دفعات پر نظرثانی کرنے کا کہہ سکتا ہے اور اگر خارجی اور عالمی حالات اس کے حق میں سازگار ہوئے تو یہ انہونی نہیں ہے۔ ترکی کی تاریخ سے اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جب ۱۹۳۶ء میں اس نے محسوس کیا کہ باسفورس اور درِ دانیال کی غیر فوجی اور بین الاقوامی حیثیت اس کے لیے فوجی اور اقتصادی حیثیت سے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے اور کچھ مخالفین اس خطے میں فوجی حرکت شروع کر رہے ہیں تو وقت کے وزیرِ خارجہ توفیق رشدی آر،اس معاملے کو لیگ آف نیشنز میں لے گئے۔ چنانچہ ایک نئے معاہدے مونٹرو کنونشن پر دستخط ہوئے جس کے تحت ترکی کو باسفورس اور درِدانیال کی آبی گزرگاہوں میں اپنے جنگی جہاز داخل کرنے کی اجازت دی گئی۔البتہ اس کی بین الاقوامی گزر گاہ والی حیثیت برقرار رہی۔تو یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے ڈھانچے میں ایسی تبدیلیاں کریں جو مخالفین کی چالوں کا تدارک کر دیں۔ ترکی یہ کام بھی کر رہا ہے۔مثال کے طور پر ایک طرف اس نے باسفورس میں بحری ٹریفک کے ازدحام اور یوکرین جنگ کی وجہ سے کچھ پابندیاں لگا ئی ہیں تو دوسری طرف ۲۰۱۸ء سے باسفورس کے متوازی ایک مصنوعی آبی گزرگاہ نہر ِاستنبول کے نام سے زیرِ تعمیر ہے جو آبنائے باسفورس پر سے ٹریفک کے دباؤ کوکم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ اب جب جہازوں کو باسفورس سے گزرنے کا راستہ کم کم ملے گا تو یقینی طور پر وہ نہر ِاستنبول کا رخ کریں گے، چونکہ اس نہر پر مونٹرو معاہدے کا اطلاق نہیں ہوتا لہذا یہاں سے گزرنے والے جہازوں سے ٹیکس لیا جا سکے گا۔

اگر دیکھا جائے تو جب بھی ترکوں کو اپنے مفاد کے لیے کسی اقدام کی ضرورت پڑی اور اس کی طاقت اور وسائل بھی میسر ہوئے تو محض لوزان معاہدہ ان کے قدموں کی بیڑی نہیں بن سکا۔۱۹۷۴ء میں قبرص پر حملہ کر کے یہاں کے تقریباً ایک تہائی رقبے پر قبضہ کر کے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام کی راہ ہموار کرنا اور پھر دنیا بھر میں تنہا ترکی ہی کا اس ریاست کو قبول کرنا، اس کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح ترکی کا شام میں اپنی پارلیمنٹ کی منظور ی کے ساتھ فوج کشی کر تے ہوئے اپنےمفادات کا تحفظ کرنا اور نگورو کاراباغ کے مسئلے پر، روس اور امریکہ دونوں کے انتباہ کے باوجود آذر بائیجان کی اعلانیہ حمایت بلکہ مخالفین کے مطابق بالفعل مدد بھی اس کی ’’ روشن مثال‘‘ ہے۔ اسی طرح فلسطین کی حمایت بھی ایک عمدہ مثال بن سکتی ہے۔اب یہ جو طرزِ عمل ہے، یہ معاہدے کی ان شقوں کے برعکس ہے جن میں ترکی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی معین حدود سے باہر کوئی سروکار نہیں رکھے گا۔ یہ تو ترکوں کے چند اعمال کا بیان ہوا۔ اب کچھ اقوال کا ذکر ہو جائے۔

۲۰۱۶ء میں اردگان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ بحر ِایجہ کے جزیرے ہماری ملکیت ہیں یہاں ہماری مساجد اور مقدس مقامات ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ساحلوں کے نزدیکی جزیرے دوسروں کو دے دیے گئے اور یہ خلافِ انصاف ہے۔ ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھایا گیا۔ انھوں نے معاہدۂ لوزان کو نصرت کے بجائے ہزیمت قرار دیا،، جس پر لبرل طبقات کے طرف سے بہت تنقید کی گئی۔ نصرت یا ہزیمت ایک اعتباری شے ہے یعنی اگر لوزان کو سلطنتِ عثمانیہ کی وسعت اور عظمتِ رفتہ کی روشنی میں دیکھیں تو یہ صاف ہزیمت ہے لیکن یاد رہنا چاہیے کہ یہ عظمت، رفت ہو چکی ہے تو اب اگر لوزان کو معاہدۂ سیفرے اور اتحادیوں کے قسطنطنیہ پر قبضے کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو یہ ایک فتح ہے۔ خود اردگان نے بعض موقعے پر لوزان کو فتح اور فخر قرار دیا ہے اور بعض جگہ اس کی مذمت کی ہے تو مذمت اس کے ظالمانہ پہلو کی ہے اور مسرت اس میں موجودہ ترکی کی سرحددوں کو تسلیم کرنے کی ہے۔۲۰۱۷ ءکے دورۂ یونان کے موقعے پر بھی اردگان اپنے یونانی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس میں جزیروں پر فوجی حرکت کے ضمن میں یونان پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ لوزان معاہدے کی بعض شقیں خلافِ عدل و انصاف اور قابلِ اصلاح ہیں۔ 

۲۴ جولائی ۲۰۲۱ء کو لوزان کی اٹھانویں سالگرہ پر اردگان نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم نے مشکلات کے باوجود جنگِ آزادی میں کامیابی حاصل کی اور لوزان امن معاہدے کے ذریعے عالمی پہچان حاصل کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔ کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے بلکہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ ہم سال ۲۰۲۳ء میں اقتصادی بہتری اور عسکری و سیاسی مضبوطی کے ساتھ داخل ہونے کے لیے پر امید ہیں۔ جولائی ۲۰۲۲ء میں لوزان کی ننانویں سالگرہ پر اردگان نے کہا کہ آج لوزان امن معاہدے کی نناویں سالگرہ ہے جو ہماری جمہوریہ کی بانی دستاویز ہے۔ان کے انداز ِ بیان سے لگتاہے کہ وہ کسی غیر معمولی دعوے یا معاہدۂ لوزان کی کلی تنسیخ کے بغیر انھی دائروں میں رہتے ہوئے اپنا راستہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی ان کی سابقہ سیاست ہے اور مصلحت و حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے۔یہاں لوزان کہانی ختم ہوئی، ہم جولائی ۲۰۲۳ء میں ہیں۔ لوزان کی سوویں سالگرہ سر پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ حیران کر دینے والے اردگان اس بار ہمیں کیا سرپرائز دیتے ہیں۔

لرننگ پورٹل