لاگ ان
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
لاگ ان
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024

گفتگو: ڈاکٹر رشید ارشد
ٹرانسکرپشن: عبد اللہ جان

ٹیکنالوجی نے ہمیں کیسے تبدیل کیا؟
قسط نمبر ۴

ٹیکنالوجی کے بارے میں بندۂ مومن کا نقطۂ نظر

اب تک ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ٹیکنالوجی کو اہلِ مغرب کس طرح دیکھتے ہیں۔ اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے بارے میں کیا تصور رکھنا چاہیے۔ہماری بنیادی پہچان یہ ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اوراللّٰہ کے بندے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف یکسو رہنا ہے۔ایک بدّو ،رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اسلام کے قوانین مجھ پر زیادہ ہوگئے ہیں، میں ایک دیہاتی سا آدمی ہوں۔ میں کہاں اتنی باتیں یاد رکھوں گا، آپ مجھے کوئی ایسی مختصربات بتادیجیے جس سے میں چمٹ جاؤں۔ تو نبی اکرمﷺنے فرمایا:«لا يزالُ لِسانُك رَطبًا مِن ذِكرِ اللهِ تعالى»’’تمھاری زبان برابر اللہ کی یاد سے تر رہے‘‘۔ تو ہمارا دین ہم سے بہت کچھ تقاضا کرتا ہے اور ان تمام تقاضوں کا حاصل یہ ہے کہ ہم اللّٰہ سے غافل نہ ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس دنیا کو ’’دارالغرور‘‘ یعنی دھوکے کا گھرنہ بننے دیں۔ہم اس وقت Technologically Mediated World میں رہتے ہیں۔ اس دنیا کے اندر دارالغرور بننے کی پوری صلاحیت موجودہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى لْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا﴾ ’’اس زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اس کو زمین کے لیےزینت بنایا‘‘۔لیکن Technologically Mediated World Life میں تو بہت زیادہ ہی اس کا رنگ آگیا اور تعیش بہت زیادہ ہوگیا، تو اب ہم سےتقاضا یہ ہے کہ ہم اس دنیا کو دھوکے کا گھر نہ بننے دیں۔ ارشاد ہے:﴿فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ﴾’’دیکھنا کہیں دنیا کی زندگی تمھیں دھو کے میں مبتلا نہ کرےاور سب سے بڑا دھوکے باز (شیطان) تمھیں اللہ(کی بندگی) کے بارے دھوکے میں نہ ڈال دے‘‘۔

ٹیکنالوجی کا اصل ہدف تین چیزیں

تین چیزیں ہمارے لیے بہت بڑی متاع ہیں: وقت، توجہ اور کشش۔ماڈرن ٹیکنالوجی نے ان تینوں چیزوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ دن کا کتنا بڑا حصہ اس ٹیکنالوجی کو بنانے اور اس کو استعمال میں کھپ جاتا ہے ہم سب اس سے واقف ہیں اور یہ معاملہ بہرحال خطرناک ہے۔ ہم صرف ٹیکنالوجی کے صارفین ہی نہیں موجد بھی بنتے جا رہے ہیں۔ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ماڈرن ٹیکنالوجی میں پروڈیوسراور کنزیومرکا فرق بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ اسی لیے اب ڈیجیٹل میڈیا میں کچھ پلیٹ فارمز پر اس کے لیے ایک لفظ Prosumerاستعمال ہوتا ہے۔ یہ پروڈیوسربھی ہیں اور ساتھ ہی کنزیومربھی۔

جو لوگ ٹیکنالوجی یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں کام کرتے ہیں یا اس طرح کی دیگر فیلڈز میں ،تو انھیں تجربہ ہے کہ یہ بہت وقت لینے والی چیزیں ہیں۔ہمارے بزرگوں کا ایک بڑا مقصد ’’ اِغتنام الاوقات‘‘ہوتا تھا یعنی اپنے اوقات کو قیمتی بنانا ،ان سے غنیمت حاصل کرنا۔پہلے ہم کہیں پر بھی بیٹھے ہوتے تھے اورکچھ فرصت کے لمحات میسر ہوتے تو ذکر کرنے لگتے تھے یا کچھ مطالعہ کر لیتے تھے۔ اب کہیں پر بھی لوگ بیٹھے ہوں تو ایسے نہیں بیٹھتے، چند منٹ بھی ان کو بیٹھنا ہو تو سب اپنا موبائل نکال کر اس کے اندر مشغول ہوجاتے ہیں۔ہمیں غور کرنا چاہیے کہ یہ جو بظاہر ٹیکنالوجی کا ایک آلہ ہے، اس نے ہمیں بہت فوائد بھی دیے ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ ہمارے وقت کو کھاتا چلا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کتنا وقت بچا یا ہے، پہلے لوگ اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے تھے اور اتنا وقت لگتا تھا اور فلاں کام کرنے میں اتنے گھنٹے لگتے تھے، اب وہ منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا وقت بچا کر انسان نے کیا کیا ؟ کیا اس وقت کو اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے میں استعمال کیا ؟کیا اس وقت میں انسانوں سے تعلق میں اضافہ کیا ؟یا پھر اس وقت کو اسی ٹیکنالوجی کے آگے نثار کردیا؟ یعنی جو وقت بچتا ہے وہ بھی تو اسی کے آگے ختم ہو جاتا ہے۔اس ٹیکنالوجی ہی کو دیکھتے دیکھتے گھنٹے گزر جائیں گے اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا۔ آپ کو معلوم ہے کہ شطرنج کی حرمت پر ہمارے ہاں فتاویٰ دیے گئے، اس میں بھی یہ بات پیشِ نظر تھی کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں آدمی بالکل گم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ماڈرن ٹیکنالوجی انسانوں کوایسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ اس کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا دوسرا ہدف ’توجہ‘ ہے۔یہ بات آپ سب جانتے ہیں کہ اٹینشن اکانومی سب سے بڑی اکانومی ہے۔موجودہ  عالم ’’صورتوں کا عالم‘‘ ہے، اس امیج کلچر میں ہم سب کھو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا تھا کہ ہم حقیقت سے منا سبت پیدا کریں، لیکن ہم نے اتنی صورتیں بڑھا لی ہیں کہ ہم حقیقت سے یا غیب سے متعلق ہونے کے قابل نہیں رہے۔ قاری طیب قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک رسالہ ہے: ’’تصویر قرآن کے آئینے میں ‘‘ کہ جتنا زیادہ ہم تصویروں میں مشغول رہیں گے ،ہماری توجہ صورتوں پر مرکوز رہے گی اتنا زیادہ ہم حقیقت سے بیزار ہوتے جائیں گے اور اتنا زیادہ ہم غیب سے تعلق قائم رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

تیسراہدف ہم نے  ذکر کیا’ کشش‘۔ٹیکنالوجی کے ذ ریعے دنیا کی کشش میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا ہے۔ Rudolf  Otto کی ایک کتاب ہےThe Idea Of The Holy ،یہ جو لوگوں میں ایک تقدیس کا تصور تھا اور اس میں پُر اسراریت ہوتی تھی ،ایک دبدبہ ہوتا تھا اور یہ معبدوں، مسجدوں ، کلیسا ؤں اور مندروں میں جاکر انسانوں کو حاصل ہوتی تھی اور ایک ہیبت طاری ہوجاتی تھی،اب یہ سارا گرینجر لوگوں کو شاپنگ مالز اور اسٹیڈیمز کے اندر محسوس ہوتا ہے۔جیسا کہ George Ritzer نے کہا کہ یہ شاپنگ مالز Cathedrals of Consumption ہیں۔ لوگ جب دبئی جاکر شاپنگ مالز دیکھتے ہیں تو حیران پریشان رہ جاتے ہیں۔ جو کچھ ٹیکنالوجی میں ان کو دکھا یا جا رہا ہے، وہ اس میں ایسا   تعجب اور ایسی حیرانی ہے کہ اس سےکشش میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا ایک سادہ سا تجربہ کرکے دیکھ لیں، آج سے کوئی چالیس پچاس سال پہلے کاکرکٹ میچ دیکھ لیں اور پھرآج  کل کی وڈیودیکھ لیں۔یہ جو رنگ و نور اس کے اندر آگیا ہے اب وہ کوئی سادہ کھیل تھوڑی رہا ہے، یوں کہیے کہ اب تواسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ کی شادی ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے دنیا میں کشش کو بڑھا دیاہے۔

خمول

ہمارے بزرگوں میں ایک بہت بڑی قدر تھی جسے’’خمول‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کا مطلب ہے ’’ گمنامی ‘‘ یعنی لوگ یہ چاہیں کہ ہم مشہور نہ ہوں، ہمیں شہرت حاصل نہ ہو۔ لیکن یہ جو ماڈرن میڈیا ہے، یعنی ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا ،یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے شہرت کے کارخانے ہیں اور اس میں آدمی ایک دفعہ چلا جائے، تو اسے خود اندازہ نہیں ہوتا کہ کتنی جلدی وہ اس جال میں آجا تا ہے۔اور اس پھندے میں بہت سے علما بھی آ جاتے ہیں۔اس پر غور کرنا چاہیے کہ خمول کی قدر کیسے ختم ہوتی جارہی ہے۔ تواضع اختیار کرنا یا  شہرت سے بھاگنا ، یا اپنی تعریف کو پسند نہ کرنا یہ اوصاف کیوں معدوم ہوتے جا رہے  ہیں۔ یہ جوسوشل میڈیا  پر ہم ایک پوسٹ کرتے ہیں اور اس پر دادکے ڈونگرے برسنے شروع ہوجاتے ہیں، ہر طرف تعریفیں ہورہی ہوتی ہیں ،یہ ابنارمل ہے۔ یعنی اس دنیا سے آپ باہر نکل جائیں تو نارمل دنیا میں ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں چار شعر اور چھے اقوالِ زرّیں نقل کیے اور ہر ایک پر آٹھ دس بے وقوفوں نے آکر ستارے بنا دیے،ایک انجمنِ ستائشِ باہمی بنا رکھی ہے اور سب بے وقوف مل کر ایک دوسرے کو خوش رکھتے ہیں۔ من تورا حاجی بگویم   تو مرا ملا بگو۔

خاص طور پر وہ لوگ جو بہت زیادہ اس  میڈیا کے سحرمیں مبتلا ہیں ، ایک تو وہ نرگسیت سے نہیں نکل پاتے اور دوسرا وہ بازاری پن سے نہیں بچ سکتے۔ یعنی ہم میں بعض ایسے علما اور مفتیانِ کرام بھی ہیں ،ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ عام گفتگو میں وہ لطیفے سنائیں جو وہ اس میڈیا پرجاکر کردیتے ہیں۔ اس لیے Marshall McLuhan نے کہا تھا The Medium Is The Message ۔اس میڈیم کے ساتھ کچھ چیزیں جڑی ہوئی ہیں جس سےہم ان کو ہم نکال نہیں سکتے، مثلاً ٹی وی ہے ،یہ انٹرٹینمنٹ   کابنیادی میڈیم ہے۔ اگر اس میں کوئی مذہبی پروگرام بھی آئے گا  تو اگر وہ Entertaining نہیں ہے تو وہ نہیں چلے گا۔ اس کو انٹرٹینمنٹ کے اندازمیں ہی آکر آپ کو بیان کرنا اور چلانا پڑےگا۔اور اب یہ ذوق بلکہ بدذوقی بہت بڑھ گئی ہے کہ علما بھی لطیفے سنائیں اور چٹکلے چھوڑیں اور پھر ان کا کلپ وائرل ہو جائے۔ ستم بالاے ستم کہ اسے مذہبی لوگ ہنستے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو بھیجنے لگیں، تو اس طرف لوگ سوچ ہی نہیں رہے کہ ان کی دینی اقدار کو اس سےکہاں کہاں پر نقصان ہورہا ہےاور کہاں کہاں اسے ڈینٹ لگ رہا ہے۔

حرفِ آخر

آپ جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے اندر مستقل بہتر سے بہتر ہونے کا معاملہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والی ایجاد پچھلی ایجاد سے بہتر ہے،ہر آنے والا زمانہ پہلے والے زمانے سے بہتر ہے۔ کبھی اسی پر غور کرلیں کہ ہمارے سلف سے جو ہمارا تعلق ہے، اس کو کیسے نقصان پہنچ رہا ہے۔ کبھی آپ اس پر غور کیجیے گا کہ آپ کے بچے جس ماحول اور جس طریقے سے پل رہے ہیں اور کس طرح gadgetاستعمال کررہے ہیں، جب بڑے ہوکر ان کو یہ بتایا جائے گا کہ پیغمبر ﷺکے پاس یہ سب ذرائع نہیں تھے، مجھے بہت ڈر ہے کہ پیغمبر کے بارے میں ان کی رائے بہت عجیب سی ہوجائےگی۔بہت پریشانی بھی ہوگی اور خیال بھی ہوگا کے ان سب کے بغیر زندگی کاکیا مطلب ہے اور اس کے بغیر ذہانت کیسے اتنی ہوسکتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی بڑا کام کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اس پر بھی کبھی غور کیجیے گا بقولC. S. Lewis کہ یہ Chronological Snobberyہے، ہم اس کاشکار ہیں، یعنی جو چیز جتنی نئی ہے اتنی اچھی ہے، اور جو پچھلے زمانے کی چیزیں ہیں چاہے ٹیکنالوجی یا علم، وہ ادنیٰ ہیں۔ 

 اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دجل کوہمیں سمجھنے کی توفیق دے اور اس کے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے،کوئی آدمی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ با لکل اس سے متاثر نہیں ہورہا بلکہ ہم سب پر اس کا اثر ہورہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو ریگولرائز کرنے کی کوشش کریں، ہم  جب کبھی اس کو استعمال کریں تو ایک حذر کے ساتھ۔ اسے ایک Inevitable چیز سمجھ کر نہ لیں اور اس کے اخلاقی پہلوؤں پر نظر رکھیں۔

لرننگ پورٹل