لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

صوفی جمیل الرحمن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

بیت المقدس کا تاریخی خاکہ

قسط نمبر ۱۹

۱۹۰۸ ء کا انقلاب

عالمی صیہونی طاقتوں کی کوشش یہ تھی کہ سلطان کے مخالفین کو جمع کیا جائے، اس کے لیے انھوں نے جمیعتِ اتحاد و ترقی کو استعمال کیا ۔ نامق كمال شاعر ،علی سعاوی اور محمد ضيا پاشا وغیرہ نے 1865ء میں اٹلی کی انقلابی تنظیم young Italy کی طرز پر ایک خفیہ تنظیم کی بنیاد رکھی جو بعد میں ترک جوان کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو انقلابِ فرانس اور اس کے فکری راہنماوں سے متاثر تھے۔ یہ لوگ جدید عثمانی بھی کہلائے جاتے تھے۔نامق کمال ، صدر الاعظم مدحت پاشا کے دوست تھے ۔انھوں نے فرانسیسی دستور اور نظریۂ حیات مدحت پاشا کے سامنے پیش کیا اور فرانسیسی طرز پر مملکت کی اصلاح کی تجویز دی، چنانچہ مدحت پاشا ان کے ہمنوا بن گئے۔آخری چند حکومتوں میں ترک فوج کی مغربی خطوط پر تنظیم نَو کا کام زور و شور سے شروع ہوا تھا ۔ یورپ کے کئی فوجی استاد ترک فوج کی تربیت کے لیے یہاں آ چکے تھے ۔ ان لوگوں نے فوجی تعلیم کے ساتھ ، سیاسی و سماجی نظریات سے بھی افواجِ ترک کو روشناس کرایا ۔اس کے نتیجے میں فوجی اسکولوں ،ان کے طلبہ اور فوجی افسران میں انقلابی خیالات رچ بس گئے ۔اس کے علاوہ اعلی تعلیم کے اداروں خصوصا میڈیکل کالج وغیرہ میں یہ انقلابی دعوت پھیلنے لگی ۔ ابراہیم تيمورومانی ان کا لیڈر تھا ۔جو صیہونی تنظیم فری میسن کا تربیت یافتہ تھا اور ان کی محفلوں میں شرکت کیا کرتا تھا۔ ابراہیم تیمو نے یہاں الاتحاد العثمانی کے نام سے خفیہ تنظیم قائم کی ۔ سالونیک (موجودہ تھیسالونیکی، یونان ) میں ان کے اجلاس اور اکٹھ ہونے لگے ۔یہ حریت ،جمہوریت اور آزادیٔ رائے کے عنوانات سے ہوتے تھے۔ انجمنِ اتحاد و ترقی کو ، ماسونی تنظیم مقدونیہ رستورا ، کا پورا تعاون حاصل تھا جس کا بانی ایمانویل قاراسوہ سلانیکی تھا ۔

عالمی صیہونی تنظیم اور سالونیک کے مسلم نما یہود بھی اس جمعیت کے حمایتی بن گئے تھے ۔ ان کے بعض ارکان جنیوا اور فرانس وغیرہ فرار ہو گئے اور وہاں سے سلطنت کے خلاف اخبار مثلاً عثمانلی وغیرہ نکالنا شروع کیے۔ انقلابی تنظیم کا پہلا دفتر جنیوا میں قائم کیا گیا اور اس کے بعد پیرس اور لندن وغیرہ میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں ۔دولتِ عثمانیہ میں ایک جاہلی تصور تورانی تصورِ قومیت سامنے آ رہا تھا ۔ جس میں منگولوں اور ترکوں کو ایک ہی اصل پر قائم دکھایا گیا تھا اور اس فکر کے ماننے والے دین کے بجائے قومیت پر جمع ہونا چاہتے تھے۔ یہ وحدتِ ادیان کی تحریک کہلائی جا سکتی ہے ۔یہ لوگ چنگیز خان اور ہلاکو وغیرہ کی فتوحات پر فخر کیا کرتے اور ان کے قصائد پڑھتے ۔ تورانی یہودی الاصل ترک فلاسفر مؤئيز كوہين کی کتابوں الکمالیہ ، الروح الترکیہ ، سياسیة التتريك کو مقدس کتابوں کا رتبہ دیتے تھے ۔

انقلابیوں کےکچھ لوگ اٹلی کی خفیہ انقلابی تنظیم کاربوناری سے متاثر تھے۔ ان میں سے احمد رضا بک نے فرانس میں سکونت اختیار کی اور ۱۸۹۵ ء میں مشورات کے نام سے ایک اخبار جاری کیا ۔ احمد رضا؛ کانٹ سے متاثر تھا اور اس کے نظریات کو فروغ دیتا تھا ۔جمیعتِ اتحاد کے موسس ابراہیم تیمو اپنے ساتھیوں کے خفیہ اجلاس منعقد کرتا جن میں نامق کمال اور ضیا پاشا کے انقلابی اشعار و نثر یا پھر صیہونی کارکنوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا جاتا ۔ یہ تمام دھڑے سلطان کے خلاف علمی و عملی مزاحمت پر متفق تھے ۔ ان تمام دھڑوں کو ملا کر ایک تنظیم بنا دیا گیا جس کا نام جمیعتِ اتحاد و ترقی رکھا گیا۔ اس جماعت کی تنظیم سازی کا کام اطالوی خفیہ تنظیموں کی طرز پر کیا گیا۔ سلطنت کے پولیس اور انٹلی جنس ارکان ان کی کھوج میں لگے رہتے اور بہت سوں کو جلاوطن یا قید کیا گیا اور بعضوں کو موت تک کی سزا دی جاتی ۔ لیکن پُر تشدد رویہ ان انقلابی خیالات کو دبا نہ سکا بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا گیا ۔ سلطنت میں ان دنوں معاشی حالات بھی ابتر تھے ۔ اگرچہ بیرونی قرضوں کی وجہ سے عوام اور کاشتکاروں پر ٹیکس لگایا گیا تھا لیکن وہ معمولی قسم کا تھا۔ لیکن ان کی آڑ میں سرکاری اہلکاروں اور افسروں کی خلافِ ضابطہ وصولیوں اور من مانیوں میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ چنانچہ عوام میں حکومت بیزاری پھیلنے کگی جس کے نتیجے میں انقلابیوں کی سرگرمیاں بڑھتی ہی گئیں۔۱۹۰۶ء میں مقدونیہ کے علاقے سولونیکا (سالونیک )میں خفیہ انقلابی دفتر قائم کیا گیا ۔ مقدونیہ کا صوبہ عرصہ دراز سے عدمِ امن اور بین الاقوامی مداخلت کا شکار تھا چنانچہ یہاں انقلابی دعوت کو بہت پذیرائی ملی۔دسمبر ۱۹۰۷ ء تک مقدونیہ کی تقریباً پوری فوج سے انقلابی حکومت کی مدد کا عہد لے لیا گیا۔اس کے علاوہ ادرنہ ، قسطنطنیہ اور اناطولیہ کی فوجوں کے ایک بڑے حصے نے انقلابی تحریک کے ساتھ اپنی ہمدردی ظاہر کر دی۔

انجمن اتحاد و ترقی نے عثمانی مخالف طاقتوں کو ساتھ ملانے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔سلطان عبد الحمید کا بہنوئی محمود جلال الدین پاشا سلطان سے بعض مالی معاملات کی وجہ سے پرخاش رکھتا تھا۔ یہ شخص ۱۸۹۹ ء میں سلطنت سے بھاگ کر بروکسل میں آباد ہو گیا اور یہاں سے سلطان کے خلاف بیان بازی شروع کی۔ ۱۹۰۴ ء میں یہ فوت ہو گیا تو اس کا بیٹا صباح الدین بک خلافت کی مخالفت پر کمر بستہ ہوا۔ کہا جا تا ہے کہ اس نے مشہور فرانسیسی سوشیالوجسٹ، درخائم کی شاگردی بھی اختیار کی ۔ بہرحال یہ بھی خفیہ انقلابی تحریکوں کا رکن تھا ۔ انگریز اسے خاص رتبہ دیتے تھے اور اس نے مغرب میں سلطان مخالف جذبات کو بہت زیادہ فرغ دیا۔ انقلابی تنظیموں میں عدمِ مرکزیت کا فلسفہ اسی نے پھیلایا جس کی رو سے ہر صوبے اور مقبوضے کو سلطنت سے آزادی دلانا ان کے منشور میں داخل تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ سے بغاوت کر کے مصر میں آزاد حکومت قائم کر نے والے محمد علی پاشا کے ایک پوتے سعید حلیم پاشا اور ایک پڑپوتے عمر طوسون پاشا بھی سلطان عبد الحمید کی عداوت میں جمیعتِ اتحاد و ترقی کے ارکان بن گئے ۔دمشق میں متعین عثمانی فوج کے بریگیڈ ۵ کے ڈاکٹر مصطفیٰ جانتکین نے وطن اور آزادی کے نام سے ایک خفیہ تنظیم ۱۹۰۶ ء میں قائم کی۔ مصطفی کمال پاشا سالونیکی سمیت بہت سارے فوجی افسران اس تنظیم کے رکن بنتے گئے۔ بعد میں یہ تنظیم جمیعتِ اتحاد و ترقی میں ضم کر دی گئی۔ طویل محنت کے بعد پیرس میں ایک انقلابی کانفرنس احمد رضا بک کی زیرِ صدارت منعقد کی گئی جس میں کئی عثمانی مقبوضات کے لوگ شامل ہوئے ۔ اس اجلاس میں انجمنِ اتحاد و ترقی کے علاوہ ، آرمینی ، بلغاری ، یہودی، عربی اور البانوی کمیٹیاں شامل ہوئیں ۔تمام مندوبین نے ایک اعلامیے پر اتفاق کیا: سلطان عبد الحمید کو معزول کیا جائے گا۔ سلطنتِ عثمانیہ کی سالمیت کا تحفظ کیا جائے گا۔ قانون کی نگاہ میں ہر نسل و مذہب کو کامل مساوات حاصل ہو گی۔ مدحت پاشا کے مرتب کردہ اساسی دستور پر دستوری حکومت قائم کی جائے گی۔ یہ ایک اہم پیش رفت تھی چنانچہ اخبارات میں اس خبر کو خاص اہمیت دی گئی اور انقلابی جماعت کے اخباروں نے اس خبر کو خوب نمایا ں کیا۔جمیعتِ اتحاد و ترقی کی قیادت میں عالمی صیہونیت اور ماسونیت کے ایجنٹ شامل تھے۔ بلکہ ان کی قیادت میں بھی ان کا ہدف یہ تھا کہ وہ کسی طرح سلطان کو نہ صرف حکومت بلکہ اس کی جائداد و املاک تک سے معزول کر یں۔ انھوں نے نہ صرف جمیعت کے ارکان میں مال و دولت تقسیم کی بلکہ ان میں اسلحہ بھی تقسیم کیا گیا۔قراصوہ صیہونی اپنے اجتماعات میں جمیعت کے اجلاس منعقد کرنے لگا ،سلانیک کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ تھے ۔ عثمانی مقبوضات کے لوگ خاص طور پر عرب قوم پرست بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے ۔

جولائی ۱۹۰۸ء میں سالونیک کمیٹی نے اعلانِ انقلاب کر دیا ۔ چنانچہ ۵ جولائی ۱۹۰۸ء کو ترک فوج کے ایک کماندار؛احمد نیازی بے نے دو سو آدمیوں کے ساتھ مقدونیہ کے شہر رسنہ کی پہاڑیوں پر علمِ بغاوت بلند کیا۔ اس کے بعد سالونیک میں تعینات تیسرے آرمی ڈویژن کے کمانڈر اسماعیل انور پاشا بے اور کچھ دوسرے افسران نے بھی اعلانِ بغاوت کر دیا۔ سلطان کو جوں ہی بغاوت کی اطلاع ملی انھوں نے نزدیکی علاقے مناستر میں متعین شمسی پاشا کو بغاوت فرو کرنے کا حکم بھیجا لیکن وہ روانہ ہونے کے لیے گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ ایک ماتحت فوجی نے گاڑی ہی میں انھیں گولی مار کر قتل کر دیا۔ ازمیر شہر سے افواج ، سالونیک کی طرف بھیجی گئیں لیکن وہ جا کر انقلابیوں سے مل گئیں۔اس کے بعد بھی جتنے افسران بغاوت کچلنے کے لیے بھیجے جاتے یا تو اپنے ماتحتوں کے ہاتھوں مارے جاتے یا پھر ان کے ماتحت ، مخالفین پر گولی چلانے سے انکار کر دیتے یا وہ انقلابیوں سے مل جاتے ۔ حکومتی فوج اور نظم اتنا ناکارہ ہو گیا کہ بغاوت میں نامزد ، کمانڈروں اور سرداروں کو گرفتار کرنا ممکن نہ رہا ۔ اب انقلابیوں نے اگلا کام یہ کیا کہ حکومت کے وفادار منصب داروں کے قتل کا اعلان کر دیا ۔ ان میں سے جو جہاں نظر آتا دن دھاڑے مار دیا جاتا اور مارنے والا کوئی نہ کوئی فوجی افسر ہوتا ۔ اس طرح حکومت بالکل بے دست وپا ہو گئی۔

مناستر کے فوجی کیمپ پر شمسی پاشا کے بعد عثمان فیضی پاشا تعینات تھے جو اگرچہ سلطان کے وفادار تھے لیکن اپنے ماتحت فوجیوں کے جذبات سے واقف ہونے کے بعد کسی فیصلہ کن کاروائی سے ہچکچا رہے تھے۔ ۲۲ جولائی کو نیازی بے نے اچانک مناستر پر حملہ کر کے عثمان فیضی پاشا کو گرفتار کر لیا ۔ انقلابیوں نے مقدونیہ میں قیام پذیر مرکز مخالف بلغاری کسانوں اور البانیوں میں اسلحہ تقسیم کر دیا تھا جو عام بغاوت میں متحرک ہونے کے لیے حکم کے منتظر تھے۔ اس کے علاوہ روس کی بحری فوجیں بھی باغیوں کی حمایت میں کسی فوجی کاروائی کے لیے تیار تھیں ۔

۲۳ جولائی کو صبح ہی صبح سلانیک میں لوگ گھروں سے نکلے اور ایک میدان میں جمع ہو گئے۔ وہ یہ نعرے لگا رہے تھے آزادی یا موت، غالب آفندی ، سلیمان آفندی اور فضلی بک نے ترکی زبان جب کہ امانویل قراصوہ نے ہسپانوی، روصو آفندی نے فرانسیسی میں تقاریر کیں۔اس کے بعد سالونیک کمیٹی نے جنرل عثمان پاشا کی طرف سے یہ ٹیلی گراف پیغام مرکز ارسال کیا: میں فوج کے پاس ہوں اور اس نے قسم اٹھائی ہے کہ اگر فوری دستور نافذ نہ کیا گیا تو وہ استنبول پر حملہ کر دے گی اور میرا ارادہ فوج کی قیادت کرنے کا ہے ۔۲۲ جولائی کو رات بھر قصر یلدیز میں اجلاس جاری رہا لیکن کسی فیصلےپر نہ پہنچا جا سکا ۔۲۳ جولائی کو انجمنِ اتحاد و ترقی نے اعلان کیا کہ اگر چوبیس گھنٹے میں دستوری حکومت کا اعلان نہیں کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ مقدونیا کا انسپکٹر حلمی پاشا قتل کر دیا جائے گا بلکہ فوجیں استنبول کی طرف روانہ کر دی جائیں گے ۔ ۲۳ جولائی کی رات کو وزرا کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو آج رات فیصلہ ہو گیا کہ دستوری حکومت کا اعلان کر دیا جائے گا ۔ چنانچہ صدرِ اعظم سعید پاشا نے اس ضابطے کا ایک مسودہ بنا کر سلطان کی خدمت میں پیش کیا جنھوں نے اس پر اپنے دستخط ثبت کر دیے اور ۲۴ جولائی کو علی الصبح ، انقلابی طاقتوں کو ان کے مطالبے کی منظوری کی اطلاع دے دی گئی۔سلطنتِ عثمانیہ کئی ملکوں اور کئی قوموں کو خود میں سمیٹے ہوئے تھی اور کئی علاقے خود کو اس سلطنت سے الگ کرنے کے درپے تھے ۔ انقلاب نے مرکز مخالف قوتوں کو سخت مہمیز دے دی ۔ چنانچہ جولائی ۱۹۰۸ء میں انقلاب برپا ہوا تو اکتوبر کے شروع میں بلغاریا نے سلطنتِ عثمانیہ سے علاحدگی اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔چند روز بعد آسٹریا ہنگری سلطنت نے بوسنیا ہرزیگوینیا کا الحاق اپنے ساتھ کر لیا اور پھر کریٹ جزیرے کو یونان کے ساتھ ملا دیا گیا۔

دسمبر ۱۹۰۸ ء میں سلطنت میں پہلے انتخابات کا انعقاد کیا گیا تو مجلس مبعوثان(پارلیمنٹ) کے ۲۷۵ ، ارکان میں صرف ۱۴۰ ترک تھے جب کہ باقی ۱۳۵ مختلف اقوام سے تعلق رکھتے تھے۔ جمعیتِ اتحاد و ترقی کے منشور میں سلطنت کا تحفظ بھی ایک شرط تھی لیکن غیر ترک ارکان؛ سلطنت کے اتحاد و مفاد کے بجائے اپنے علاقائی مفاد کو ترجیح دینے لگے تھے۔ آرمینیا کی انقلابی تنظیم طاشناق نے اناطولیہ اور استنبول وغیرہ میں آزادی کے حق میں مظاہرے کرنے شروع کر دیے۔ اپریل ۱۹۰۹ ء میں ان لوگوں نے عام نافرمانی کا اعلان کر دیا بلکہ اضنہ شہر میں انھوں نے مسلمانوں پر حملے کر کے دو ہزار کے لگ بھگ افراد کو شہید کر دیا جس کے جواب میں مسلمانوں نے ہزاروں آرمینی قتل کر دیے۔ جمیعتِ اتحاد و ترقی کی حکومت مملکت کو نہ تو امن دے سکی اور نہ اتحاد، تو نتیجے کے طور پر عوام الناس میں بے چینی پھیل گئی ۔ اسی دوران اتحادیوں نے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانا شروع کیا ۔ استنبول میں متعین بریگیڈ نمبر ایک سلطان کا وفادار اور طاقتور بریگیڈ تھا۔ اتحادیوں نے محمود مختار پاشا کو بریگیڈ نمبر ایک کا سالارِ اعلی مقرر کیا جو اتحادی تھا۔ ۷/ اپریل کو نامور صحافی حسن فہمی بک کو قتل کر دیا گیا جو سربستی اخبار کے ایڈیٹر اور سلطان کے حامی تھے اور جمیعتِ اتحاد و ترقی کے زبردست ناقد تھے ۔ طلبہ اور دینی عناصر میں سخت بے چینی پھیل رہی تھی۔ جمیعتِ محمدیہ کے نام سے ایک تنظیم بنا لی گئی جس کی قیادت مراد بک الداغستانی کر رہے تھے۔اسی طرح ایک جمیعت الاحرار بھی قائم کر لی گئی جس میں عوام الناس کے ساتھ کئی علماے کرام بھی شامل تھے۔ ۱۳ /اپریل کی صبح کو عوام الناس کا ایک جمِّ غفیر آیا صوفیہ مسجد کے سامنے جمع ہو گیا ۔ ان کے ساتھ سینکڑوں علماے کرام اور تقریباً پانچ چھے ہزار فوجی بھی تھے۔ان کی تقریروں کا لبِ لباب یہ تھا کہ ہماری فوج کو تقسیم کر دیا گیا اور احکام ِ دینی کو پاؤں تلے روند ڈالا گیا اور اس سب کی وجہ جمعیتِ اتحاد و ترقی ہے۔ان کے مطالبات مختصر تھے: شریعت کا احیا ،صدرِ اعظم حسین حلمی پاشا ، رئیسِ مجلسِ مبعوثین احمد رضا بک ، حسین جاہد بک ، جاوید بک ، رحمی بک ،طلعت بک ، اسماعیل حقی بک اور دیگر یہود نواز عناصر کو سبکدوش کرنا ۔ اتحادی عہدے دار وں نے راہِ فرار اختیار کی جب کہ چند عہدے داروں کو قتل بھی کیا گیا۔

جاری ہے

کتابیات

السلطان عبد الحمید و هرتزل، دکتور بها الأمیر

الدولة العُثمانية – عَوَامل النهُوض وأسباب السُّقوط، عَلي محمد الصَّلاَّبي

القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ ، دکتور محمد علي البار

المفصل في تاريخ القدس ، عارف العارف

أسرار انقلاب عثماني مصطفی طوران

لرننگ پورٹل