لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

مدیر
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

جرمِ غریبی

حضرت علامہ اقبال نے جو اشعار ’’جمیعتِ اقوام ‘‘ کے لیے کہے تھے اور کچھ عرصہ بعد وہ مر بھی گئی تھی، وہ پاکستانی معیشت پر بھی صادق آتے ہیں :

بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبرِ بد مرے منھ سے نہ نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن
پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

ملک کے کرتا دھرتا طبقے کی تقدیر ٹل جانے کی دعا کے باوجود ، خاکم بہ دہن اب لگتا ہے کہ ہونی ہو کر رہے گی ۔ جس طرح پاکستانی حکومتوں کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تو ہمارے لیے بھی اقبال کے حضور پہنچے بنا کوئی چارہ نہیں ، چنانچہ علامہ ہمیں بتاتے ہیں:

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مُفاجات

آج اگر اقبال زندہ ہوتے اور الٹی عمرانی چھلانگیں دیکھنے کے بعد انھوں نے شہباز کی کرگسی پروازیں دیکھی ہوتیں تو شاید دوسرا مصرع یوں ارشاد فرماتے:’’ہے جرمِ غریبی کی سزا مرگِ مفادات‘‘۔ تو غریب پاکستانی قوم کے مفادات گئے بھاڑ میں، اس بے چاری کو آئے دن یہی سننا پڑتا ہے کہ’’آئی ایم ایف کی شرائط مانے بغیر کوئی چارہ نہیں‘‘، ’’سخت فیصلے کرنا ہوں گے‘‘، ’’گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھائے بغیر کوئی چارہ نہیں‘‘، ’’شرحِ سود بڑھانی پڑے گی‘‘۔

ہماری معیشت کا دم جو لبوں پر ہے تو یہ مغرب کے معاشی نظام (جسے حقیقت کے اعتبار سے ’’بدمعاشی نظام‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے) کے سبب ہے ۔ مغرب کی اقتصادی دہشت گردی کو سمجھنے کے لیے ہمیں پھر اقبال کے حضور جانا پڑے گا جب وہ لینن کا مقدمہ خدا کے حضور پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

رعنائیٔ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گِرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ عِلم، یہ حِکمت، یہ تدبُّر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عُریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مَدنِیّت کے فتوحات؟
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہم مغرب کو کیا کہیں کہ بقولِ سلیم احمد: ’’مغرب مغرب ہے‘‘۔ وہاں سورج بھی جائے تو ڈوب جاتا ہے ۔ وہ اندھیر نگری ، فیضانِ سماوی ، ہدایتِ آسمانی ، وحیٔ ربانی سے تو محروم ہے ہی ۔ مشرق کے حالات بتاتے ہیں کہ اس کی بدحالی؛ فیضانِ سماوی ، ہدایتِ ربانی اور تعلیمِ پیغمبری سے روگردانی اور بے اعتنائی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم میں اتباعِ محمدیﷺ کی کچھ بھی رمق ہوتی تو ہم قرضوں کی دلدل میں یوں نہ پھنستے جیسے کہ اب پھنسے ہوئے ہیں ۔ کہ ہمارے نبیٔ کریم ﷺ تو ہمیں اپنی دعاؤں میں قرض سے بچنے کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔ نبی کریمﷺ کی ایک دعا ملتی ہے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ» ’’ اے اللہ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں قرض اور گناہ سے‘‘۔مَأْثَم کا عام ترجمہ تو گناہ کا کام کیا جاتا ہے لیکن اس سے وہ امر بھی مراد ہو سکتا ہے جو کسی گناہ کا ذریعہ بنتا ہو۔ مَغْرَم غیر ضروری یا اس قرضے کو کہتے ہیں جس کی واپسی کی سکت نہ ہو۔قرضِ مغرم کو گناہ کے ساتھ ذکر کرنے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تعجب ہوا تو پوچھا: ’’یا رسول اللہ! کیا بات ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے رہتے ہیں فرمایا:«إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ، حَدَّثَ فَكَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ»’’بے شک بندہ جب قرض کے زیرِبار ہو جاتا ہے تو جھوٹ بھی بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے‘‘ ۔ تو گناہ کے ساتھ قرض کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ گناہ کا ذریعہ بنتا ہے۔ انفرادی سطح پر تو اس گناہ کی دو مثالوں کا حدیث میں ذکر ہو گیا ،ان دونوں اور اس جیسے دوسرے گناہوں کا ارتکاب ’’ریاستی سطح ‘‘ پر بھی کرنا پڑتا ہے کہ اگر ریاست قرض کے بوجھ تلے دبی ہو۔ تو الیکشن کے وقت بجلی ،تیل اور دیگر اشیاے ضرورت کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے ہوتے ہیں لیکن جب حکومت میں آنے کے بعد ’’ عالمی ساہوکاروں‘‘ کی قسط دینے کا وقت آتا ہے اور اس قسط کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے تب انتخابی وعدوں کو پسِ پشت ڈال کر آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنا پڑتی ہیں۔ یہ وہ جرم ِ غریبی ہے جس کی سزا کے طور پر ہم اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے مفادات کے بجائے عالمی اداروں کے مفادات کا تحفظ کرنا پڑتا ہے۔ آئے دن ہم سنتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا ہر شہری اتنے اتنے ڈالر کا مقروض ہے ۔ حالانکہ ڈالر تو کیا عوام بے چاروں کو تو پھوٹی کوڑی تک نہیں دی گئی اور قرضے تو مقتدر قوتوں نے ہڑپ کیے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرضے نہ ہم واپس کر سکے نہ وہ ہماری معیشت کو سہارا دے سکے بلکہ وہ ’’ خود بھی ڈوبے اور ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبے‘‘۔ اس کی حقیقی وجہ تو یہ ہے کہ یہ قرضے سود پر مبنی ہیں جن کی ہلاکت گویا پہلے ہی سے طے ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ ( البقرہ ۲۷۴) ’’اللہ سود کو تباہ کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«الرِّبَا وَإِنْ كَثُرَ، فَإِنَّ عَاقِبَتَهُ تَصِيرُ إِلَى قُلٍّ»(مسندِ احمد) سود کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اس کا آخری انجام قلت ہی ہے‘‘۔یہ تو معنوی اور حقیقی وجہ تھی، مادی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرض کا آٹا نہیں کھایا بلکہ قرض کی مے پی ہے ۔ یعنی ہم نے غیر ترقیاتی اور غیر پیداواری میدانوں میں روپیہ خرچ کیا۔ صنعت و زراعت جو ہماری آمدن کے حقیقی ذریعے تھے انھیں ہم ترقی نہ دے سکے ۔ نتیجے کے طور پر ہماری برآمدات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ بطورِ مثال ہم صرف دو چیزوں کا ذکر کرتے ہیں: دونوں مٹی سے نکلنے والی ہیں، گندم اور لکڑی ۔ ہم ہزاروں کنٹینر لکڑی اور لاکھوں ٹن گندم سالانہ باہر سے درآمد کر رہے ہیں ۔ہم اہم مصنوعات اور پیداواروں کی بات نہیں کر رہے ، ادرک ، لہسن ، کینولا، سویابین وغیرہ جیسی عام اشیا جو کسی فیکٹری میں نہیں کھیت میں اگتی ہیں ہم دوسرے ملکوں سے منگوا رہے ہیں ۔زراعت اور صنعت میں ترقی نہ کر کے گویا ہم اپنے فقر اور اپنی غربت پر راضی ہیں جو دیگر مشکلات کے ساتھ ہماری ملی و قومی ذلت کا باعث بن رہی ہے ،دیکھیں رسول اللہ ﷺ نےان چیزوں سے کیسے پناہ مانگی:«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ» (سنن ابی داؤد)’’اے اللہ! میں فقر ، قلت اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ اس فقر نے ہمیں کفر ِعملی تک تو پہنچا دیا۔اللہ کے نبی ﷺ کی دعائیں دیکھیں: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ»(سنن ابى داؤد ) ’’اے اللہ!میں کفر سے اور فقر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ‘‘۔ یا پھر وہ فرمانِ نبی دیکھیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:«كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا»(مشکاۃ ) ’’قریب ہے کہ غربت کفر تک پہنچا دے‘‘۔

اب حکومت کا حال تو بدحال ہے، فی الوقت ان سے اصلاح کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ پہلا کام تو یہ کہ جیسے گزشتہ ماہ حضرت شیخ الاسلام صاحب مدظلہ نے بھی اپنے ٹوئیٹ میں فرمایا تھا، ہر رات خود بھی سورۃ الواقعہ پڑھیں اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کریں کیونکہ حدیث شریف میں ہے:«مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْوَاقِعَةِ فيِ كُلِّ لَيْلَةٍ لَمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ أَبَدًا».(رواه البيهقي في شعب الإيمان)’’جو شخص شب میں سورۃالواقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی بھی فاقے کی حالت کو نہیں پہنچتا‘‘، حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہر شب میں یہ سورت پڑھا کریں۔دوسری چیز استغفار ہے، اسے لازم پکڑیں اس لیے کہ یہ روزی میں برکت اور اضافے کا ذریعہ ہے۔ طلبِ مغفرت کے ساتھ طلبِ ہدایت کا اہتمام بھی کرنا چاہیے،اس کے علاوہ چند چیزیں اگر سب سے پہلے میں اور پھر ہم سب کرنا شروع کردیں تو بہتری لائی جا سکتی ہے۔سب سے پہلے تو محنت کو اپنا شعار بنائیں۔ غیر ضروری اخراجات میں کمی لائیں۔ کھانے، پہننے اور استعمال کی وہ چیزیں جو بیرونِ ملک سے آتی ہیں ان کا استعمال ترک کر دیں اور خود کچھ نہ کچھ بنانا یا اگانا شروع کر دیں ہر وہ چھوٹی سی چیز ہماری ترقی کی ضامن ہے جو یا تو ہماری بر آمدات میں اضافہ کرے یا ہماری در آمدات میں کمی کرے ۔

لرننگ پورٹل