لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024

مولانا زاہد الراشدی زید مجدہ
معروف عالمِ دین اور اسلامی اسکالر

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے رخصت ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کچھ عرصہ قبل کراچی حاضری کے دوران ان کی بیمارپرسی کا موقع ملا تو والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا آخری دور یا دآ گیا، انھوں نے بھی ضعف و علالت کا خاصا عرصہ بسترِ علالت پر گزارا تھا اور میں ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفاً ‌و شَیْبَة کا اظہار ہے کہ جس بزرگ کے ساتھ ان کی جوانی کے دور میں پیدل چلنا بھی ہمارے لیے مشکل ہوتا تھا، آج وہ اپنے ہاتھ سے منھ میں لقمہ ڈالنے کی سکت نہیں رکھتے ’’ رہے نام اللہ کا‘‘ ۔حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر ماضی کے بہت سے مناظر ذہن میں تازہ ہو گئے اور تھوڑی دیر ان کے سامنے کھڑے رہ کر حسرت کے ساتھ وہاں سے نکل آیا، اب وہ اس مرحلہ سے بھی گزر گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند فرمائیں اور ان کے سب متعلقین کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے والد گرامی مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزند و جانشین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی علمی، دینی اور سیاسی روایات کے امین و پاسدار بھی تھے۔ اور ان کی مختلف النوع سرگرمیاں دیکھ کر حضرت مفتیٔ اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہو جایا کرتی تھی۔ بڑے مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی تو صرف زیارت کاشرف حاصل ہوا تھا، یا والدِ گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ سے وقتاً‌ فوقتاً‌ ان کا تذکرہ سنتے رہتے تھے جو ان دونوں کے استاذِ محترم تھے اور علمی و فقہی مسائل میں ان کا مرجع بھی تھے کہ کسی بھی ضرورت کے وقت وہ راہنمائی اور فتوٰی کے لیے ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔

البتہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ دامت فیوضہم کے ساتھ نیازمندی کا تعلق عرصے سے چلا آ رہا ہے، دونوں بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں سے فیض یاب ہوتا آ رہا ہوں، بلکہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اندرونِ ملک بہت سی مجالس میں شرکت کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کے بعض اسفار میں بھی رفاقت رہی ہے جو میری زندگی کے بہترین ایام میں سے ہے۔مفتی صاحب مرحوم کے ذوق کا یہ پہلو میرے لیے ہمیشہ باعث توجہ رہا ہے کہ وہ علمی و دینی مجالس میں روایتی خطاب کی بجائے عوام اور علما دونوں کے لیے راہنمائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور اجاگر کرتے تھے جن میں سے بعض باتوں کا میں اپنے مختلف کالموں میں ذکر کر چکا ہوں۔ موقع و محل کے مطابق ضرورت کے امور کو محسوس کرنا اور اس کے مطابق راہنمائی کرنا ان کا خاص ذوق تھا جو یقیناً‌ علماے کرام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وہ تربیت و اصلاح کی طرف بطورِ خاص توجہ دیتے تھے اور جہاں اس حوالے سے کوئی کمی یا کوتاہی دیکھتے اسے نظرانداز کرنے کی بجائے اس کی نشاندہی کر کے اصلاح کی طرف متوجہ کرتے تھے۔

مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ متعلقہ امور میں مشورہ کرتے تھے اور مشورہ قبول بھی کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کا معاملہ کرتے تھے۔ میں نے امریکہ کے ایک سفر میں ان سے گزارش کی کہ ہمیں اپنے فضلا اور منتہی طلبہ کو موجودہ عالمی فکری وتہذیبی ماحول سے روشناس کرانے اور آج کے علمی، فکری اور ثقافتی مسائل پر ان کی تیاری کرانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بالخصوص بین الاقوامی قوانین و معاہدات اور ان کے عملی و تہذیبی اثرات سے انھیں آگاہ کرنا چاہیے جو ہمارے ہاں عام طور پر نہیں ہوتا۔ انھوں نے میری اس گزارش سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ مجھے دو تین بار اس بات کا موقع فراہم کیا کہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے شرکا کے سامنے مختلف نشستوں میں اپنے ذوق کے مطابق عالمِ اسلام اور مغرب کی فکری و تہذیبی کشمکش کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر تفصیل کے ساتھ بیان کر سکوں۔

مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ صاحبِ علم اور صاحبِ عمل تو تھے ہی، صاحبِ نسبت اور صاحبِ کردار بھی تھے۔ نئی نسل بالخصوص نوجوان علماے کرام کی ایسی جامع الاوصاف شخصیات سے شعوری ماحول میں وابستگی ہمارے دور کی اہم دینی ضروریات میں سے ہے، اور اس حوالے سے میری گزارش عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ بڑی شخصیات کے افکار و فیوض کو تحریری صورت میں پڑھنےکے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ملاقاتوں اور مجالس کے ذریعے ان سے استفادہ زیادہ موثر اور نفع بخش ہوتا ہے اور نوجوان علماے کرام کو اس طر ف توجہ دینی چاہیے۔ گوجرانوالہ میں ایک بار تشریف آوری کے موقعے پر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ جامعہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی میں بھی رونق افروز ہوئے اور ’’آج کی فکری اور تعلیمی ضروریات‘‘ پر اکادمی کی نشست میں بہت پُرمغز گفتگو کی جو ہمارے لیے راہنمائی اور حوصلہ افزائی کا باعث بنی۔

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں لیکن ان کی یادیں ان کی کمی کا احساس دلاتی رہیں گی۔ البتہ دل کو یہ تسلی ہے کہ ان کے بھائی اور ہم سب کے مخدوم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم ہمارے درمیان موجود ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کے علماے کرام اور دینی کارکنوں کے لیے رہبر و راہنما ہیں بلکہ دنیاے اسلام میں پاکستان کی علمی پہچان اور اہلِ حق کی آبرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور حضرت مفتی محمد رفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند مولانا محمد زبیر اشرف عثمانی اپنے والدِ گرامی کی تعلیمی اور اصلاحی جدوجہد کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں جامعہ دارالعلوم کراچی کو اپنے علمی، فکری اور دینی سفر میں مسلسل پیش رفت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: یہ تحریر فیس بک وال سے کاپی کر کےشایع کی گئی۔

لرننگ پورٹل