لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
قسط نمبر ۲

گزشتہ قسط میں آپ پڑھ چکے کہ عین اس موقعے پر جبکہ سلطان بایزید نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا تھا، بعض باغی امرا کے اکسانے پر، جو امیر تیمور سے بھاگ کر بایزید کے پاس پناہ لے چکے تھے، بایزید نے امیر تیمور سے جنگ مول لی، اور اب تک کی مسلسل فتوحات کے پیشِ نظر سلطان، امیر تیمور کی فوجی قوت، لشکرِ جرار اور امیر تیمور کی خونخواری کو خاطر میں نہ لایا اور اس کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکاری ہوا۔ دونوں کے درمیان جو خط کتابت کا سلسلہ رہا وہ انتہائی تلخ مکالموں پر مشتمل تھا۔ بالآخر تیمور نے بایزید کو سبق سکھانے کے لیے اپنی مہیب فوج اناطولیہ میں اتاری اور پہلا مقابلہ بایزید کے بیٹے ارطغرل سے ہوا۔ اگرچہ ارطغرل اور اس کے سپاہی بہت جم کر لڑے لیکن تیمور ایک عمدہ تدبیر کے ذریعے قلعے کی فصیلوں کو ڈھانے میں کامیاب ہو گیا۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور بے شمار سپاہی تہِ تیغ ہوئے۔ سلطان بایزید کا بیٹا ارطغرل بھی گرفتار ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ اس پر بایزید نے انتقام لینے کی ٹھانی لیکن امیر تیمور اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ دو سال بعد پھر دونوں کے درمیان مکاتبت ہوئی اور وہی تلخ کلامی جاری رہی حتیٰ کہ اس جنگ کی نوبت آ گئی جس میں عثمانیوں کو شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً اکثر مورخین اس جنگ کو بایزید کی غلطی قرار دیتے ہیں جس نے امیر تیمور جیسے عظیم الشان فرماں روا کو جنگ کے لیے للکارا۔ عثمانیوں کی شکست کے اگرچہ بہت سے اسباب تھے لیکن تین بنیادی اسباب یہ تھے:۱) امیر تیمور کے لشکرِ جرار اور سلطان کی سوا لاکھ فوج میں عددی تفاوت۔۲) سلطان بایزید کا اپنے سپاہیوں اور سرداروں کے ساتھ ترش اور بخل پر مبنی رویہ جبکہ تیمور کا رویہ اپنے امرا وافواج کے ساتھ نہایت فیاضانہ تھا۔۳) سلطان کے امرا اور سپاہیوں کا غدر اور عین جنگ کے وقت سلطان کو چھوڑ کر امیر تیمور سے مل جانا۔ان تمام اسباب نے عثمانیوں کو بدترین شکست سے دو چار کیا۔ عثمانیوں کا قتلِ عام ہوا، تین شہزادے فرار ہونے میں کامیاب جبکہ ایک گرفتار ہوا۔ بایزید نے بھی بھاگنے کی کوشش کی لیکن گرفتار ہوا۔ امیر تیمور نے بایزید کے ساتھ انتہائی مشفقانہ برتاؤ کیا، اس کے لیے شاہی خیمہ لگوایا، اس کے بیٹے کو قیدیوں سے نکال کر بایزید کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح پایۂ تخت سے سامان منتقل ہوا تو بایزید کی بیوی اور بیٹی کو بھی بایزید کے پاس پہنچا دیا، لیکن وہ بایزید جس نے بڑے بڑے محاذوں پر فتح کے جھنڈے گاڑے تھے اور جس کی شان وشوکت اور رعب ودبدبے سے یورپ کے شہنشاہ سراسیمہ رہتے تھے اس ذلت و رسوائی پر غم و الم کی تصویر بن گیا۔ تیمور نے بایزید کی بہت قدر دانی کی اور اس کی بازنطینیوں کے خلاف فتوحات کو بہت سراہا حتیٰ کہ ایک موقعے پر یہ الفاظ بھی ادا کیے: ’’اگرچہ احوالِ عالم تمام تر خداوند تعالیٰ کے ارادۂ قدرت کے مطابق پیش آتے ہیں اور کسی دوسرے کو حقیقتاً کوئی اختیار واقتدار حاصل نہیں ہے، تاہم انصاف اور حق یہ ہے کہ تم پر جو مصیبت آئی ہے، وہ خود تمھاری لائی ہوئی ہے، تم نے بارہا اپنی حد سے باہر قدم رکھا اور بالآخر مجھے انتقام پر مجبور کر دیا، پھر بھی چوں کہ تم اس دیار میں کفار سے جہاد کر رہے تھے، میں نے بہت کچھ تحمل کیا اور ان حالات میں جو فرض ایک خیر اندیش مسلمان کا تھا، اسے بجا لایا، میری خواہش تھی کہ اگر تم فرماں برداری کی راہ اختیار کرو تو مال ولشکر کی جس قدر ضرورت تمھیں ہو اس سے تمھاری مدد کروں تا کہ تم اطمینان وقوت کے ساتھ جہاد میں مشغول رہ سکو اور دیارِ اسلام کے اطراف و اکناف سے بے دینوں کے شرک کی شوکت کو فنا کر دو، لیکن تم نے سرکشی اور عناد اختیار کیا، حتیٰ کہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا، سب جانتے ہیں کہ اگر صورتِ حال اس کے بر عکس ہوتی اور یہ قوت و غلبہ جو خداوند تعالیٰ نے مجھ کو بخشا ہے تم کو حاصل ہوتا تو اس وقت مجھ پر اور میرے لشکر پر کیا گزرتی لیکن اس فتح کے شکرانے میں جو خدا کے فضل وعنایت سے مجھے حاصل ہوئی ہے، میں تمھارے اور تمہارے آدمیوں کے ساتھ بھلائی کے سوا کچھ نہ کروں گا، دل کو مطمئن رکھو‘‘ ۔ (ظفر نامہ از مولانا شرف الدین علی نیروی، جلد دوم، ص ۳۹-۴۳۸، کلکتہ، ۱۸۸۸>ء)بایزید کو اپنے فیصلوں پر شرمندگی بھی ہوئی اور اس نے غم کا اظہار بھی کیا لیکن پھر بھی ایک دن شاہی خیمے سے بھاگنے کی کوشش کی۔ جب امیر تیمور کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے سخت پہرہ لگا دیا اور جب کبھی امیر تیمور سفر کرتا تو سلطان بایزید اس کے ساتھ ایک پالکی میں ہوتا۔ اس پالکی پر لوہے کی جالی لگی ہوئی تھی جس سے یہ مشہور ہو گیا تھا کہ امیر تیمور سلطان بایزید کو پنجرے میں بند کر کے اپنے ساتھ لیے لیے پھرتا ہے۔ بہر حال، یہ صورتِ حال زیادہ عرصہ نہ رہی اور بایزید اس ذلت ورسوائی سے دل شکستہ ہو کر جان کی بازی ہار گیا۔ سلطان بایزید کی وفات سے سلطنتِ عثمانیہ بے آسرا ہو گئی اور کچھ عرصے تک طوائف الملوکی کا دور دورہ رہا۔ سلطان بایزید کی وفات کے بعد دس سال تک سلطنت ایک انتشار کا شکار رہی، قصرِ شاہی ویران رہا اور تخت بے رونق۔

محمد خان چلبی(۱۳۸۶۱۴۲۱ء)

سلطان محمد خان چلبی بایزید کے چھوٹے بیٹے تھے جنھیں محمد اول بھی کہا جاتا ہے۔ محمد خان نے بڑے بڑے علما سے علم حاصل کیا اور ان کے زیرِ تربیت رہے۔ سلطان بایزید کو اپنے اس ہونہار بیٹے پر اتنا بھروسا تھا کہ کم سنی میں ہی آماسیہ کی گورنری اسے سونپ دی۔ نوجوان گورنر محمد خان چلبی نے بھی کبھی اپنے والد کو مایوس نہیں کیا اور اپنی بہترین حکمتِ عملی سے یہ ثابت کیا کہ سلطان بایزید کا فیصلہ درست تھا۔ وہ زمانہ جس میں سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز معطل تھا، شہزادوں کی باہمی کشمکش کا شکار رہا، سلطان بایزید کے چاروں بیٹے اپنی سلطانی کا اعلان کر کے سلطنت کے مختلف خطوں پر قابض رہے اور ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ کبھی دو شہزادے مل کر دوسرے دو کے خلاف محاذ بناتے اور کبھی ایک شہزادہ دوسرے کے تخت کے درپے ہوتا۔اس زمانے میں محمد خان نے بھی کئی جنگیں لڑیں اور اپنے بھائیوں کو شکست دی۔ بالآخر مقابلے میں شہزادہ محمد کو فتح ہوئی اور وہ تخت نشین ہوا۔ ۱۴۱۳ء میں چلپی محمد خان باقاعدہ اعلان کے ساتھ تختِ عثمانی پر جلوہ افروز ہوئےاوریوں سلطنتِ عثمانیہ کا یہ عارضی زوال ختم ہو گیا۔ محمد اول نے جس مہارت سے عثمانی سلطنت کو انتشار سے نکالا اور سلطنت کے دعوے داروں اور باغیوں کا قلع قمع کیا قابل تحسین ہے۔ محمد خان صرف عسکری امور میں ہی مہارت کے حامل نہیں تھے بلکہ علم وفضل میں بھی یکتا تھے۔ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی انھیں اپنے اجداد سے وراثت میں ملی تھی۔محمد خان چلبی کے سامنے سب سے بڑا محاذ یہ تھا کہ بایزید کی وفات کے بعد سلطنت جس شکست وریخت کا شکار ہوئی تھی اسے مربوط کیا جائے اور اس بکھرے ہوئے شیراز ےکو مجتمع کیا جائے۔ گزشتہ دس سالوں کی کشمکش سے بہت سے خطوں میں خود مختار حکومتیں قائم ہوگئی تھیں۔ بازنطینی بھی ازسرنِو عثمانیوں پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ ہر ایک کو یہ وہم تھا کہ اس دگرد وں صورتِ حال میں سلطنت کو توڑنا آسان ہوگا، لیکن سلطان محمد خان چلبی عثمانیوں کے لیے مسیحا ثابت ہوئے جنھوں نے محض آٹھ سال کے عرصے میں نہ صرف دشمنوں کے دانت کھٹے کیے بلکہ وہ تمام علاقے جو عثمانیوں کے ہاتھ سے جاتے رہے تھے، انھیں پھر سے زیرِنگیں کرلیا۔اسی سبب سے انھیں دولتِ عثمانیہ کا موسسِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔محض سات سال میں سلطان محمد خان چلبی نے چوبیس جنگیں لڑیں۔ ان کے جسم پر کم و بیش چالیس گھاؤ اپنے آثار چھوڑ چکے تھے۔ سلطان کی یہ محنت رنگ لائی اور سلطنتِ عثمانیہ کو استحکام نصیب ہوا لیکن اس جُہدِ مسلسل نے سلطان کو بہت تھکا دیا اور بیمار کر دیا۔ مسلسل کی مشقتوں، اور بار بار کی جراحتوں نے سلطان کو بیمار کر دیا۔علاج معالجے کے باوجود آپ کی بیماری طول پکڑتی گئی اور بالآخر۱۴۲۱ء میں محمد خان اول خالقِ حقیقی سے جاملے۔ سلطان کی دولتِ عثمانیہ کے لیے خدمات غیر معمولی نوعیت کی ہیں۔وہ بساط جو سلطان بایزید کی وفات کے بعد لپیٹ دی گئی تھی سلطان محمد خان نے چند سالوں میں اسے دوبارہ بھی بچھا دیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے مردہ جسم میں جان ڈال دی۔ اگر چہ ان کا دورِ حکومت جنگوں میں گزر گیا لیکن سلطان کی توجہ ملک و ملت کی فلاح و بہبود سے کبھی نہ ہٹی۔ اس مشکل گھڑی میں بھی سلطان نے ادرنہ کی جامع مسجد کو مکمل کی۔ بورصا میں ایک مسجد تعمیر کی، ایک مدرسہ اور مسافر خانہ بنایا۔ مورخین متفق ہیں کہ سلطان محمد خان اول ایک کریم النفس، زیرک، سخی اور علم پرور حاکم تھے۔ان کی نظر تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی تھی۔ مردِ میدان تھے۔ ہمیشہ سر ہتھیلی پر لیے جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار رہتے تھے۔محمد خان چلبی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مراد کو تخت کا وارث قرار دیا گیا۔ سلطان کی وفات کی خبر کچھ عرصہ مخفی رکھی گئی۔ سلطان کا جسدِ خاکی بورصا میں خود ان کے بنائے ہوئے مزار میں سپردِ خاک کیا گیا۔

جاری ہے

کتابیات
السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول\،۲۰۱۸
آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵
تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء

لرننگ پورٹل