لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024

صوفی جمیل الرحمن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

سقوطِ خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ اور دوسرے مذاہب

عثمانی سلطنت میں دوسرے مذاہب کو مذہبی آزادی حاصل تھی اور ان کے جان و مال محفوظ رہتے تھے۔ فلسطین جب سے عثمانی قبضے میں آیا، یہاں بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو زیارت اور عبادت کی اجازت حاصل تھی۔ عیسائی یہاں بھی اور پوری سلطنت میں مختلف مقام پر آباد تھے۔ عثمانی یہود و نصاریٰ کے علاوہ خارجی یہود و نصاریٰ کو بھی زیارت و عبادت کی اجازت حاصل تھی۔ عیسائیوں میں بہت سے فرقے تھے جن کی باہم چپقلش جاری رہتی تھی۔ فرقے اپنے طور پر زیارت کے اجازت نامے لیتے رہے اور امتیازات کے لیے کوشاں رہتے اور کبھی ان میں باہم لڑائی بھی ہو جایا کرتی تھی۔ مختلف ممالک مثلاً فرانس، پرتگال، ہسپانیہ وغیرہ اپنے لوگوں کے لیے سہولیات کے لیے کوشاں رہتے۔

سلطنت کی کمزوری اور اقلیتوں کی سرکشی

اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں مختلف معاہدوں کے تحت بہت سارے یورپی علاقے سلطنتِ عثمانیہ سے جزوی یا کلی آزادی پا چکے تھےاور سلطنتِ عثمانیہ کو بھاری سیاسی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے تھے۔ اب اقوامِ یورپ سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کو اپنے انتظام میں لینا چاہتے تھے۔ سلطان عبد المجید کے دور میں ۱۸۵۳ء تا ۱۸۵۶ ءکی روس عثمانی جنگ، جنگ القرم کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس جنگ میں مجبوراً ترکوں کو فرانس اور برطانیہ کی مدد لینا پڑی۔ جنھوں نے روس کی عداوت میں عثمانیوں کی مدد کی۔ جنگ کےخاتمے پر معاہدۂ پیرس طے پایا جس میں اگرچہ کئی عثمانی علاقے روسی قبضے سے آزاد ہو گئے لیکن عثمانیوں کو کئی یورپی علاقوں کو نیم خود مختاری سے نوازنا پڑا جو آگے چل کر ان کی آزادی پر منتج ہوئی۔ عثمانیوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کر کے ان کی سہولیات میں اضافہ کریں گے اور یہ بھی کہ معاہدے کے فریق اس پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ اس سے فرانس اور برطانیہ کا سلطنت کے معاملات میں عمل دخل بڑھ گیا۔ اس دور میں سلطنت اور بالخصوص قدس میں عیسائی زائرین کی ریل پیل ہو گئی۔ مخصوص ایام میں تو قدس کی آبادی سے زیادہ زائرین آ جاتے۔ ۱۸۵۶ ء میں سلطان عبد المجید کی طرف سے ایک ضابطہ ’’ خطِ ہمایوں‘‘ جاری کیا گیا جس میں تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب و نسل مساوی حقوق دیے گئے۔ مسلم غیر مسلم کی تفریق ختم کرنے کے ساتھ اس میں غیر مسلموں پر عائد جزیہ بھی ختم کر دیا گیا۔ اس قانون کی رو سے کسی بھی عثمانی شہری کو دین و مذہب کی شرط کے بغیر حکومتی مناصب پر فائز کیا جا سکتا ہے۔ اس اعلامیے میں قرار دیا گیا کہ اپنا دین ترک کرنے پر کسی کو کوئی سزا نہیں دی جا ئے گی اور ہر بندے کو اپنی پسند کا دین اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

یہود اور سبتائی فرقے کا ظہور

یہود، خلافتِ عثمانیہ کے ابتدائی دور ہی سے سلطنت میں قیام پذیر تھے۔ خلیفہ سلیمان القانونی (۱۰۷۳ ھ/ ۱۵۶۶ ء) کو تاتاریوں نے ایک روسی یہودی کنیز تحفے میں بھیجی تھی۔ سلیمان القانونی کا ولی عہد سلیم ثانی اسی یہودن کا بیٹا تھا۔ یہودی کنیز کی کوششوں سے سلطان سلیمان نے یہود کو اپنی سلطنت میں آباد ہونے کی اجازت دیاور انھیں ازمیر، ادرنہ، بورصہ وغیرہ میں آباد کیا. البتہ فلسطین اور سینا میں انھیں آباد ہونے کی اجازت نہ تھی۔ عثمانی سلطنت میں یہودیوں کو نہ صرف پناہ ملی بلکہ خوش حالی اور مذہبی آزادی سے بھی وہ خوب لطف اندوز ہوئے۔ یہودیوں کو بھی مذہبی آزادی حاصل تھی اور سلطنتِ عثمانیہ کا شہری بن کر وہ کہیں بھی رہ سکتے تھے البتہ یہ کہ قدس میں ا ن کو قیام پذیر ہونے کی اجازت نہ تھی۔ یہاں یہودیوں میں ایک گروہ پیدا ہوا جسے ترک زبان میں دونمہ کہا گیا جو ظاہری طور پر مسلمان ہو جاتے لیکن بہ باطن یہودیت پر قائم رہتے۔ ان کے عقائد و اعمال میں مسلم و یہود، دونوں کی آمیزش پائی جاتی تھی۔ اس فرقے کی بنیاد سبتائی زیفی نے رکھی جس نے اپنا اسلامی نام محمد آفندی رکھا تھا۔ یہ ہسپانوی الاصل یہودی تھا لیکن اس کی پیدائش ترکی میں ہوئی۔ ۱۶۴۸ ء میں اس نے خود کو مسیح منتظر، سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا پرتَو، ملک الملوک اور سلطان السلاطین وغیرہ کہنا شروع کیا۔ اس نے یہ نظریہ عام کیا کہ اس کے ذریعے سے فلسطین پر یہودی حکومت قائم ہو گی جو پوری دنیا پہ راج کرے گی۔ عثمانی وزیر احمد کوپریلی نے اسےگرفتار کر کے گیلا پولی قلعے میں قید کر دیا، بعد میں ایک خصوصی عدالت کے سامنے اسے پیش کیا گیا تاکہ وہ اپنے دعویٔ مسیحیت کو ثابت کر سکے لیکن وہ بظاہر مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد وہ یہود میں اسلام کی دعوت دینے لگا۔ لیکن درپردہ یہ دینِ موسوی اور صیہونیت کی دعوت تھی، وہ لوگوں کو اسلام ظاہر کرنے اور بہ باطن یہودیت پر قائم رہنے کی تلقین کرتا۔ بعد میں اس کی ریشہ دوانیاں اور بدکاریاں سامنے آنے پر اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اگرچہ اس کی موت کا فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن اس اندیشے کے تحت کہ اس کے مریدین اس کے قتل پر رفعِ آسمانی کا عقیدہ گھڑ لیں گے جو اس کی دعوتِ بد کے مزید پھیلاؤکا ذریعہ بنے گا، اسے ملک بدر کر دیا گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ میں اباحیت اور لبرل ازم پھیلنے کا ایک بڑا ذریعہ یہی فرقہ بنا۔ سالونیک ان کا مضبوط گڑھ تھا۔

یہود کی فلسطین میں آباد کاری

فلسطین میں آباد ہونا اور یہاں اپنی قومی ریاست قائم کرنا یہودیوں کا قدیم خواب تھا جیسا کہ یہود کے دونمہ فرقے کے بانی سبتائی زیفی کے ہاں اس کا تذکرہ ہم پڑھ چکے۔ دورِ جدید میں اس کی اولین صدا نپولین بونا پارٹ کی جانب سے آئی۔ انیسویں صدی کے بالکل شروع میں جب مصر فتح کرنے کے بعد اس نے فلسطین کے شہر عکا پر حملہ کیا تو اس نے فلسطین میں یہود کے قومی وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ خدا کی شان کہ عکا میں اسے شکستِ فاش کا سامنا کرکے چپکے سے فرانس بھاگنا پڑا۔ انیسویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کی کمزوری ’’عروج‘‘ پر پہنچ چکی تھی۔ یہود کو اپنی منزل دوگام نظر آ رہی تھی چناں چہ انھوں نے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ ان کے پاس دولت تھی اور ’’دولت کے ہاتھ صحافت‘‘ تھی چناں چہ انھوں نے عالمی صحافت اور عالمی سیاست میں اپنے منصوبے کے لیے زمین ہموار کرنا شروع کی۔ شافٹسبری کے نواب اور برطانوی رکن پارلیمان لارڈ انتھونی کوپر نے مختلف اخبارات میں یہود کی واپسی اور ان کے قومی وطن کی تشکیل کے بارے میں متعدد مضامین اخبارات میں شائع کیے۔ اسی نے ۱۸۳۸ ء میں برطانوی وزیرِ خارجہ پالمرسن سے درخواست کی کہ وہ فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کے لیے کوشش کرے۔

سفارت خانوں کا قیام

مختلف حکومتوں کا دوسرے ملک میں اپنے سفارت خانے قائم کرنے کا رواج قدیم عرصے سے چلا آ رہا تھا۔ جو عام طور پر دار الحکومتوں میں ہوا کرتے تھے۔ فلسطین میں پہلا سفارت خانہ برطانیہ نے ۱۸۳۷ ء میں قائم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب والیِ مصر محمد علی پاشا نے نپولین کے حملے کے بعد مصر میں خود مختاری کا اعلان کرنے کے بعد فرانس کی اشیر باد سے شام اور فلسطین پر قبضہ کر لیا تھا۔ ۱۸۳۱ ءسے ۱۸۴۱ ء تک مصر نے حکومت کی۔ ۱۸۴۱ ء میں عثمانیوں نے شام پر سے مصری قبضہ چھڑایا لیکن فلسطین میں برطانوی سفارت خانہ قائم ہی رہا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں قدس میں مغربی طاقتوں کے سفارت خانے قائم ہونے لگے، ۱۸۵۸ ء میں روسی سفارت خانہ کھولا گیا، ۱۸۸۵ ءمیں جرمنی کا سفارت خانہ، ۱۸۸۶ ءمیں بروسیا کا سفارت خانہ قائم کیا گیا۔ یہ دفاتر سفارت کاری سے زیادہ یہود کے لیے سہولت کاری کرتے تھے۔

فرنگی اداروں اور یہودی بستیوں کا قیام

یہود و نصاریٰ کی ایک یہ کوشش بھی تھی کہ سرزمینِ قدس میں زیادہ سے زیادہ ادارے قائم کیے جائیں جو ایک طرف تو ان کی ثقافت و سیاست کو فروغ دینے کا ذریعہ ہوں اور دوسری طرف یہود کے لیے پناہ گاہوں کا کام دیں۔ ان اداروں میں کبھی تو خفیہ اور کبھی اعلانیہ یہودی بستیاں قائم کر لی جاتی تھیں۔۱۸۵۴ء میں یہود نے قدس میں ایک کنیسہ بنانے کی اجازت طلب کی جو انھیں نہ دی گئی، اس پر انھوں نے برطانیہ سے ساز باز کر کے پروٹسٹنٹ کے لیے گرجا تعمیر کرنے کی اجازت لے لی جو دے دی گئی۔۱۸۵۶ ء میں صلاح الدین ایوبی کا قائم کردہ مدرسہ الصلاحیہ فرانس کے حوالے کرنا پڑا۔ عیسائیوں نے یہاں اپنا گرجا تعمیر کیا۔ ۱۸۶۴ ء میں صلاح الدین ہسپتال (بیمارستان ِ صلاحی) کی کچھ ویران زمین جرمنی کے حوالے کی گئی جہاں جرمنی نے ایک گرجا تعمیر کیا۔۱۸۵۹ ء میں برطانوی یہودی سرمایہ دار موشے مونٹیفور نے سلطان عبد المجید سے یافا اور قدس میں، ہسپتال کی تعمیر کے لیے زمین خریدنے کی اجازت حاصل کی جو اس سے پہلے ممنوع تھی۔ موشے نے اس کے علاوہ ایک قطعۂ زمین اور بھی خریدا۔ بعد میں اس نے ہسپتال کے ساتھ یہودی بستی قائم کرنے کی کوشش کی تو فلسطین کے گورنر نے تعمیرات رکوا دیں۔ لیکن برطانوی سفارت خانے کی مداخلت سے استنبول سے اجازت کی تجدید کرائی گئی۔ چناں چہ یہاں یہودی بستی بنا لی گئی جو محلہ مونٹیفور کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسی طرح کی چالوں سے جرمن یہودیوں کی ایک بستی ۱۸۷۴ء میں بھی قائم کی گئی جو ابتدائی طور پر ’’۲۷۵ ‘‘ افراد پر مشتمل تھی۔

سلطان عبد الحمید ثانی

سلطان عبد الحميد ثانی ۱۸۷۶ ء میں تخت نشین ہوئے اور ۱۹۰۹ ء تک تختِ خلافت پہ رونق افروز رہے۔ آپ حافظِ قرآن، پابند ِ صوم و صلاۃ اور متدین شخص تھے۔ امور ِ سیاست میں شاہی خواتین کی دخل اندازی کے خلاف تھے۔ آپ کی تخت نشینی کے وقت سلطنتِ عثمانیہ بہت مقروض ہو چکی تھی۔ سلطان عبد الحمید نے عثمانی دستور نافذ کیا جس کے تحت دو ایوان منتخب کیے گئے جس میں عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی ان کے حجم کے مطابق نمائندگی دی گئی۔ لیکن جلد ہی وزیرِ اعظم مدحت پاشا اور ان کے حامی جمہوریت پسندوں سے ان کے اختلاف ہو گئے۔ ان مسائل میں اہم یہ تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ صوبوں کے گورنر کے منصب پر عیسائیوں کو بھی متعین کیا جائے اور عثمانی فوجی سکولوں میں عیسائیوں کو داخل کیا جائے اور عثمانی فوج سے الگ اور با اختیار فوج تشکیل دی جائے جس میں عیسائیوں کو بھی نمائندگی حاصل ہو۔ ان اختلافات پر انھوں نے دستور معطل کر دیا اور سابقہ حیثیت میں شخصی حکومت کو جاری رکھا۔ سلطان نے متعدد مواقع پر اس کا اظہار کیا کہ بہت سارے اعیانِ سلطنت عالمی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ سلطنت کو ختم کرنے پر رشوت لے رہے ہیں۔ سالونیک کے منافق فرقے کی حقیقت سے بھی آپ باخبر تھے جیسا کہ آپ نے اپنی ڈائری میں تفصیل سے لکھا ہے۔آپ انھیں مرکز سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کرتے لیکن ترکی کے داخلی حالات اور یورپی طاقتوں کی نظر اور اس فرقے کا اندرونِ سلطنت اور بیرونِ سلطنت پھیلاؤ اور وسعت کسی بڑے اقدام کی اجازت نہ دیتی تھی۔ فوج اور مختلف مناصب پر انھوں نے خاص محنت کی۔ ایک موقعے پر انھوں نے کہا کہ مغربی طاقتیں ایک طرف تو ہماری عیسائی رعایا کو ہمارے خلاف اکسا رہی ہیں اور دوسری طرف ہمیں جمہوریت کی راہ پر ڈال رہی ہیں۔ ان کے پیشِ نظر نہ عوام کے حقوق ہیں اور نہ ہی جمہوریت بلکہ ہماری ریاست میں تفرقہ اور انتشار پھیلانا ان کے پیشِ نظرہے۔ سلطان نے قدس میں یہودیوں کے داخلے اور عمل دخل کو محدود کرنے کے لیے متعدد بار قانون سازی کی لیکن سلطنت میں رشوت ستانی کے سبب ان احکامات پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل