لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

شیخ علی محمد، مقبوضہ کشمیر
معاون قلم کار

یومِ اقبال کی مناسبت سے خصوصی تحریر

علامہ محمداقبال 9 نومبر 1877ء بمطابق 3 ذوالقعدہ 1294ھ کو برطانوی ہند کے شہرسیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔علامہ اقبال کے آبا و اجداد کشمیر وادی کے کولگام علاقے کے مکیں تھے۔ذرا پیچھے جاکر یہ ہندو براہمنوں کا معزز خاندان تھا لیکن اسلام کی حقانیت نے اس خاندان کو اپنے اندر جذب کرلیا۔چونکہ کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں تھا اور مختلف زمانوں میں یہاں مختلف خود مختار فرماں روا رہے، ان میں ہندو راجہ اور بدھسٹ حکمران بھی گزرے ہیں اور مسلمان حاکم اور بادشاہ بھی، ان ادوار میں ڈوگرہ شاہی کا ایک دورِ سیاہ بھی تھا،اس کا آغاز 1846ء کے معاہدۂ امرتسر سے ہوا جس کو بیع نامۂ امرتسر بھی کہتے ہیں۔اس معاہدے کے تحت سات لاکھ روپیہ کے عوض کشمیر کو گلاب سنگھ (ڈوگرہ)کے ہاتھ فروخت کردیا گیا۔ڈوگرہ راج مسلمانوں کے لیے بہت ہی اذیت ناک دور تھا اور بہت سے مسلمان ان کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے ہجرت کرگئے، زیادہ تر نے متحدہ پنجاب کا رخ کیا اور آج بھی کشمیر سے باہر جو شیخ ،بٹ،میراور ڈار وغیرہ برادریاں پائی جاتی ہیں وہ سب کشمیری نژاد ہیں، ان میں زیادہ تر لوگ اسی دور میں ہجرت کر گئے ہیں۔علامہ اقبال کے خاندان نے بھی اسی دور میں پنجاب کا رخ کیا اور سیالکوٹ میں آباد ہوا۔لیکن علامہ کے رگ وپے میں کشمیر کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور کشمیری مسلمانوں کی زبوں حالی پر سخت متفکر تھے، کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے جو کچھ کوشش حالات کے مطابق ہو سکتی تھی اس میں پیش پیش رہے،کشمیر کی مخدوش صورت حال کا تذکرہ آتے ہی اقبال رنجیدہ اور ملول ہوتے تھے۔ علامہ کے کلام،خطوط اور ملاقاتوں میں جابجا اس کا ثبوت ملتا ہے۔علامہ اقبال نے کشمیر میں اسلام کے بانی حضرت شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ پر ایک نظم رقم فرمائی ہے اس میں اور باتوں کے علاوہ بیع نامۂ امرتسر کے بارے میں اپنے کرب کایوں اظہار کیا:

بادِ صبا اگر بہ جنیوا گُزر کُنی
حرفے زِ ما بہ مجلسِ اقوام باز گوئے
دہقان وکشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چِہ اَرزان فروختند

(باد صبا! اگر جنیوا کی طرف تیرا گُزر ہو تو ہماری ایک بات مجلسِ اقوام تک پہنچا دینا۔دہقان، اس کی کھیتی، ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا ، ایک قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر سستا فروخت کر دیا) غرض اقبال کا دل کشمیر کے ساتھ دھڑکتا تھا۔

نوٹ:اقوامِ متحدہ سے پہلے جو عالمی تنظیم تنازعات حل کرنے کے نام پر بنائی گئی تھی اس کا نام لیگ آف نیشنز تھا اور اس کا صدر دفتر سوئیزرلینڈ کے شہر جنیوا میں تھا۔

جب متحدہ ہندوستان کے باشندے اپنے حقوق اور آزادی کےلیے اپنی قد آور لیڈر شپ کے تحت انگریزوں کے ساتھ نبرد آزما تھے تو اس وقت گو یہ ریاست بظاہر کسی بیرونی طاقت کے زیرِ تسلط نہیں تھی لیکن اندرونی طور پر ڈوگرہ شاہی کا عفریت اس کی اکثریت (مسلمانوں)کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا لیکن کوئی قد آور لیڈر شپ ان کو میسر نہیں تھی اس بارے میں علامہ فرماتے ہیں:

بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب

ایک اور جگہ فرمایا:

نصیبِ خطہ ہو یارب وہ بندۂ درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ

اور ستم ظریفی دیکھیے کہ اقبال کی دعاؤں سے جب وہ مردِ درویش سید علی شاہ گیلانی کے نام سے پیدا ہوا تو جس قوم کی آزادی کا خاکہ 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا اور اسی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کا وجود ممکن ہوا،اسی قوم کے اربابِ اختیار نےاقبال کے سچے جانشین اورمردِ قلندراور اس کی قوم کے ساتھ مصلحتوں کے پیشِ نظر آنکھ مچولی شروع کردی۔البتہ وہاں کے عوام کا دل علامہ کی طرح ہمیشہ کشمیر کے ساتھ دھڑکتا رہا۔علامہ اقبال کشمیر کے ساتھ اپنی نسبت کو یوں بیان کرتے ہیں:

تنم گلے زِ خیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا زِ شیراز است

(میرا بدن جنت کشمیر کے چمن کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے ہے،اور نوا شیراز سے)

اقبال کشمیر کے مناظرِ قدرت کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

رخت بہ کاشمر گشا کوہ و تل و دمن نِگر
سبزہ جہان جہان بِبین لالہ چمن چمن نِگر
بادِ بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج
صلصل و سار زوج زوج بر سر نارون نگر

(کشمیر کا سفر اختیار کر اور پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں دیکھ، ہر طرف اگا ہوا سبزہ اور ہر چمن میں کِھلا ہوا لالہ دیکھ،باد بہار کی موجیں دیکھ، طائرانِ بہار کے پرے کے پرے دیکھ، نروان کے درخت پر قُمریوں اور فاختاؤں کے جوڑے جوڑے دیکھ)

علامہ کی ایک نظم’’زیارتِ حضرت سید علی ہمدانی و ملا طاہر غنی کشمیری‘‘ کےآخری اشعار پر اس مضمون کا خاتمہ کرتا ہوں:

شاعر رنگیں نوا طاہر غنی
فقرِ او باطن غنی، ظاہر غنی

(یہ رنگین نوا شاعر غنی ہے جس کا فقر اندر سے بھی اور باہر سے بھی بے نیازہے)

نغمۂ مے خواند آن مست مدام
در حضورِ سیدِ والا مقام

(یہ مست مدام شاعر سیدِ والا مُقام (علی ہمدانی) کے سامنے شعر پڑھ رہا ہے)

سیدُ السّادات، سالارِ عجم
دستِ او معمارِ تقدیرِ اُمم

(سیدوں کا سردار عجم کا سردار جس کا ہاتھ امتوں کی تقدیر بنا نے والا ہے)

تا غزالی درسِ اﷲ ہو گرفت
ذکر و فکر از دودمانِ او گِرفت

(جب غزالی نے اللہ ہو کا سبق لیا تو سید علی ہمدانی کے خاندان سے ذکر و فکر کی تعلیم پا‏ئی)

مُرشدِ آں کشورِ مینو نظیر
میر و درویش و سلاطین را مشیر

(آپ جنت نظیر(کشمیر) کے مرشد تھے اور میر و درویش و سلاطین کے مشیر)

خطہ را آں شاہ دریا آستین
داد علم و صنعت و تہذیب و دین

(اس شاہ دریا آستین (فیاض) نے خطۂ کشمیر کو علم و صنعت و تہذیب و دین سے نوازا)

آفرید آں مرد ایرانِ صغیر
ا ہنر ہاے غریب و دلپذیر

(انھوں نے نادر اور دلپذیر فنون سے اس خطے کو ایرانِ صغیر بنا دیا)

یک نگاہِ او گشاید صد گرہ
خیز و تیرش را بَدِل راہے بِدِہ

(اس کی ایک نگاہ نے سینکڑوں گرہیں کھول دیں، اٹھ اور اس کے تیر کو اپنے دل میں جگہ دے)

علامہ اقبال کو بجا طور پر پاکستان کا نظریاتی باپ کہا جاتا ہے۔ انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس زبان میں پاکستان کے اس قومی شاعر نے اپنےبیش بہا افکار پیش کیے،اس ملک کے اربابِ اختیارنے اسی زبان کو گویادیس نکالا دےدیا اور منظم طور پر نئی نسل کو علامہ کے انقلابی فلسفے سے دور رکھنے کا سامان کردیا۔

لرننگ پورٹل