لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024

مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی

علامہ اقبال نے ویسے تو سلاطین کی پرستاری کو ’’فتنۂ ملتِ بیضا‘‘ قرار دیا لیکن ہمیں یقین ہے کہ اِن کی مراد اُن سلاطین سے ہے جو ظلم و جور کا پیکر رہے اور سلطنت کو ذاتی جاگیر کی طرح استعمال کرتے رہے۔ ذاتی مفاد پر ملک و ملت قربان کر کے ہماری تاریخ میں سیاہی کا سبب بنے۔ ایسے حکمرانوں نے ہمیشہ غیروں سے ساز باز کی اور اسلام دشمن قوتوں کے بل بوتے پر اپنا اقتدار مسلط کیا۔ لیکن انصاف پسند سلطان جسے حدیث شریف میں ظل اللہ کہا گیا،واقعتاً اس جہانِ بے سکوں میں اپنی قوم کے لیے شجرِ سایہ دار ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ ایسے ہی نیک اور خدا خوف سلاطین سے پُر ہے۔ ان کا ذکر ہمارے دل سے احساسِ کمتری کو ختم کرتا ہے اور خود داری و جرات پیدا کرتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کا عزم بیدار ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیشِ نظر ارادہ ہوا کہ عثمانی اور مغلیہ سلاطین کے مختصر حالات قلم بند کیے جائیں اور انھیں قسط وار شایع کیا جائے۔ اولاً سلطنتِ عثمانیہ کے سلاطین کے احوال بالترتیب بیان کیے جائیں گے:

عثمانی سلاطین

۶۲۵ سال تک آب و تاب کے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ دنیا کی طویل ترین سلطنتوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی رعایا کے لیے عدل و انصاف اور بحالی و خوشحالی کو ہمیشہ مقدم رکھا اور بلاتفریقِ مذہب و قوم ہر ایک کے لیے امن و سلامتی کا پرچم لہرایا۔ اسلامی تاریخ کی چھے صدیاں عثمانیوں کے چراغ سے روشن رہیں اور انھوں نے طویل عرصہ عالمِ اسلام کو غلامی کے داغ سے بچائے رکھا۔ اگر چہ’ کعبے کو یہ پاسبا ن صنم خانے سے ملے‘ لیکن انھوں پاسبانی کا حق ادا کردیا۔ ہر ہر سلطان جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ ہے۔سلطنتِ عثمانیہ کے ۳۶ سلاطین کی ترتیب کچھ یوں ہے۔

۱) عثمان غازی(۱۲۵۸-۱۳۲۶ء)

اپنے والد ارطغرل غازی کی وفات پر ۱۲۸۱ء میں کائی قبیلے سے سردار منتخب ہوئے۔ اناطولیہ کے عالم با عمل حضرت شیخ اَدبالی آفندی سے کسبِ علم کیا اور ان سے فیض پایا۔عثمان غازی بہت پابندی کے ساتھ شیخ کے دروس میں شرکت کیا کرتے اور اہتمام کرتے کہ کوئی سبق بھی فوت نہ ہو۔ ۱۲۷۷ء میں عثمان غازی نے خواب میں دیکھا کہ شیخ کے سینے سے ایک چاند نکلا اور ان کے سینے میں داخل ہو گیا۔ پھر ان کے بطن سے ایک درخت اگا اور اس نے سارے عالم کو اپنے سائے میں لے لیا۔ شیخ نے تعبیر دی کہ تمھاری اولاد کو سلطنت عطا ہو گی اور دنیا تمھارے جھنڈے تلے اکھٹی ہو گی۔ عثمان غازی نے مٹھی بھر مجاہدین کو ساتھ ملایا اورجہاد جاری رکھا۔سردار بننے کے چار سال بعد ہی ۱۲۸۵ء میں ایناکول کے حاکم سے جنگ مول لی۔ ۱۲۸۶ء میں محض تین سو سپاہیوں کے ساتھ کولاجا حصار فتح کیا، ایناکول اور قاراجا کے حاکموں نے عثمان کے خلاف متحدہ محاذ بنایا لیکن شکست سے دوچار ہوئے۔۱۲۸۸ء میں قاراجا بھی فتح ہوگیا اور پہلی مرتبہ ایک کلیسا کو مسجد میں تبدیل کیا گیا اور عثمان غازی کے نام کا خطبہ پڑھایا گیا۔۱۲۸۹ء میں سلجوقی فرماں روا نے عثمان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو تسلیم کیا،انھیں تحفے تحائف بھیجے اور انھیں ان کی اراضی پر امیر متعین کردیا۔ یہ سلجوقی سلطنت کی جانب سے مدد ونصرت کا پیغام تھا۔ ۱۲۹۸ء میں عثمانی مجاہدین نے بیل جیک اور یار حصار جیسے اہم قلعے فتح کیے۔مسلسل فتوحات جاری رہیں حتی کہ ۱۲۹۹ء میں عثمان غازی نے ایناکول فتح کر کے سلطنت کے قیام کا اعلان کیا اور ان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ پھر تو فتوحات کا گویا تانتا بندھ گیا اور جب تک عثمان غازی صحت مند رہے پے درپے فتوحات کرتے رہے۔ ۴۰۰ خیموں سے شروع ہونے والی سلطنت کو عثمان غازی نے اپنے بیٹے اورخان کے حوالے کیا تو اس کا رقبہ ۱۶ ہزار مربع کلو میٹر تھا۔

۲) اورخان غازی(۱۲۸۱-۱۳۶۰ء) :

محض ۲۰ سال کی عمر میں ایک صوبے کے گورنر متعین ہوئے۔ تمام عمر جہاد میں گزار دی۔ والد کی وفات پر ۱۳۲۶ء میں سلطان بنے۔ اورخان غازی کا ہدف بورصا تھا جس کے لیے انھوں بہت جدوجہد کی۔۱۳۲۱ء میں مودانیا فتح کر کے بورصا کی بحری گزرگاہ کو مسدود کردیا۔ بورصا کے ارد گرد کے تمام علاقے فتح کر کے اہلِ بورصا پر دانہ پانی بند کر دیا، اس کے باوجود بھی بورصا کی سخت جان فوج سالوں قلعہ بند رہی۔ بالآخر دس سال طویل محاصرے سے مضمحل بازنطینی افواج نے عام معافی کی شرط پر قلعے کے دروازے کھول دیے اور عثمانی فوج ۶ اپریل ۱۳۲۶ء کوبغیر کسی مقابلے کے شہر میں داخل ہوگئی۔ جب محاصرہ طویل ہوگیا اور اہلِ شہر محاصرے سے تنگ آگئے تو انھوں نے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی۔وہ بورصا جسے سر کرنے کی کوششیں ۱۳۱۵ء سے جاری تھیں اورخان نے ۱۳۲۶ء میں اسے فتح کرلیا۔یہ فتح اورخان کے نمایاں کارناموں میں شمار کی جاتی ہے۔ ۱۳۳۱ء سے ۱۳۳۶ء کے درمیان تاراکلی،مودورنو اور اولوبات سمیت متعدد شہر فتح کیے۔ ۱۳۳۷ء میں موجودہ ترکی کا مشہور شہر ازمیت فتح ہوا تواہم بحری راستے سلطنت کے اختیار میں آگئے۔۱۳۵۲ء میں اُسکودار فتح کیا اور صرف دو سال بعد یعنی ۱۳۵۴ء میں انقرہ (جو موجودہ ترکی کا دارالحکومت ہے) سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں آگیا۔۱۳۵۶ء میں مالکارا، کاشان اور چورلو فتح کر کے اناطولیہ میں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پرآبادکاری کا انتظام کیا جس سے بازنطینی حکام شدید مشتعل ہوئے۔’’کانتاکوزینس‘‘ بازنطینی حاکموں کا لقب ہوا کرتا تھا، چنانچہ یوخانیس کانتاکوزینس سادس ایک موقعے اپنی سلطنت کے حصول کے لیےاورخان غازی سے مدد کا طالب ہوا۔ اورخان نے قیصر کے خلاف یوخانیس کی مدد کے لیےاپنے بیٹے سلیمان پاشا کی قیادت میں دس ہزار عثمانی سپاہی روانہ کیے، مقابلے میں بازنطینی لشکر کو فتح ہوئی۔ خیر سگالی کے طور پر یوخانیس نے اپنی بیٹی تھیوڈورا کو اورخان کے نکاح میں دے دیا۔ اس جنگ سے واپسی پر عثمانی سپاہیوں کا ایک دستہ جزیرہ نماکیلی پولس کے ایک اہم قلعے جیمبا میں مقیم ہو گیا اور یہاں سے بہت سی عسکری سرگرمیاں انجام دیتا رہا۔ طویل عرصے بعد یوخانیس کو خیال ہوا کہ اپنے داماد اورخان سے جیمبا قلعہ خرید لینا چاہیے کیونکہ یہ قلعہ خطے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یوخانیس نے اورخان کو دس ہزار سونے کے سکوں کے عوض قلعے کا سودا کرنے کی پیشکش کی، جسے اورخان نے منظور نہیں کیا۔۱۳۵۹ء میں دورانِ جہاد سلیمان پاشا کی اچانک موت نے اورخان کو شدید صدمے سے دوچار کردیا ، بیٹے کے غم میں ہلکان ہو کر کچھ عرصہ بیمار رہا اور انتقال کر گیا۔ اورخان غازی نے عسکری نظام میں بے شمار اصلاحات کیں۔ جس شہر کو فتح کیا وہاں علمی و معاشی بحالی کے لیے اقدامات کیے۔ پہلا عثمانی مدرسہ اورخان غازی کے ہاتھوں قائم ہوا۔ کلیسا مساجد میں تبدیل ہوئے اور علم و عمل میں ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔

۳) مراد خان اول(۱۳۲۶-۱۳۸۹ء) :

۱۳۶۰ء میں اپنے والد اورخان کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے۔ جنگی صلاحیتوں میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ تخت نشینی کے تیسرے سال ہی عیسائیوں سے ادرنہ جیسا اہم شہر چھین لیا اور اپنی قلم رو میں شامل کیا۔ ادرنہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فتحِ قسطنطنیہ کا ایک اہم راستہ اور ذریعہ تھا اور فتحِ استنبول تک سلطنتِ عثمانیہ کا دار الحکومت بنا رہا۔ سلطان ہی کی جدو جہد سے ادرنہ علم و فن کا مرکز بن گیا اور بازنطینی خطوں سے آنے والے لوگوں کے لیے جاے پناہ ثابت ہوا۔ سلطان نے فتحِ ادرنہ کے بعدبہت سے چھوٹے بڑے شہر فتح کیے۔ سلطان مراد خان نے یہ وتیرہ بنا لیا کہ جو شہر بھی فتح کرتے، وہاں مسلمانوں کو کثیر تعداد میں لا کر آباد کر دیتے۔ اس طرح مفتوحہ علاقوں سے بازنطینیوں کا اثر و رسوخ ختم ہوتا چلا گیا۔ سلطان کے اس فعل پر عیسائی بہت سیخ پا ہوئے اور ہر سو انتقام کی خواہش سر اٹھانے لگی۔ پاپاے اعظم خامس کی ترغیب پر یورپ کے بہت سے ممالک نے طبلِ جنگ بجایا اور صلیبی افواج متحد ہو کر سلطان سے مقابلے کا عزم لیے اناطولیہ آن پہنچیں۔ ادرنہ کو نشانے پر رکھا اور پیش قدمی شروع کی۔ شیرمن نامی شہر کے قریب دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ عثمانی افواج نے ان کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ متحدہ صلیبی فوج نے ایڑی چوٹی کازور لگایا لیکن اللہ کی مدد اور مراد خان کی جنگی حکمتِ عملی کے آگے ان کی پیش نہ گئی۔ مراد خان کے لشکر نے تین اطراف سے حملہ کیا اور انھیں پیس کر رکھ دیا۔ اس کے بعد سلطان نے بلقان کو ہدف بنایا اور سربیا سے ملحق علاقوں کو زیرِ نگیں کیا۔ سلطان کے عہد میں مقدونیا، سربیا، بوسنیا، البانیا، دالماتیا (دالماشا) تک عثمانی افواج کی یلغار رہی۔ ۱۳۷۶ء میں بلغاریہ عثمانی سلطنت کے زیرِ نگیں آ گیا۔ اگست ۱۳۸۹ء میں صلیبیوں کا ایک لشکرِ جرار عثمانی لشکر کے مدِ مقابل آیا اور شکست و ریخت سے دوچار ہوا۔ اسے معرکۂ کوسووَہ کہا جاتا ہے۔ اسی جنگ میں سلطان کے دل میں ایک خنجر لگا جس سے وہ زخمی ہو گئے۔سلطان نے تمام عمر جہاد میں گزار دی ، یہ جنگ ان کی زندگی کی آخری جنگ تھی۔ خنجر کا وار کاری ثابت ہوا اور سلطان جانبر نہ ہو سکے، سلطان کو شہادت کی سعادت نصیب ہوئی۔ مشہور ہے کہ انھیں کبھی بھی میدانِ جنگ میں شکست نہیں ہوئی۔

۴) یلدرم بایزید خان (۱۳۶۰ء-۱۴۰۴ء):

سلطان بایزید اول اپنے والد مراد خان کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے حاکم ہوئے۔ دینی، عصری اور عسکری ہر نوع کی تعلیم دل جمعی سے حاصل کی۔ ۲۱ سال کی عمر میں پہلی ذمے داری ’کوتاہیا‘ کے والی کی حیثیت سے سنبھالی اور ۲۹ سال کی عمر میں والد کی شہادت کے بعد تخت نشین ہوئے۔ یلدرم کا معنی ہے ’’بجلی‘‘۔ میدانِ جنگ میں آپ کی سرعت اور برق رفتاری و مہارت کے سبب اس لقب کو حاصل کیا۔ سلطان با یزید نے سلطنت کی توسیع کو ہدف بنایا اور بہت سے معرکے سر کیے۔ سلانیک اور ینی شہر کو فتح کر کے حدودِ سلطنت کوہنگری سے ملا دیا۔ سلطان کی نظریں یورپ پر لگی ہوئی تھیں جس سے اہلِ یورپ خوفزدہ تھے۔ چنانچہ شاہِ ہنگری کی درخواست پر پاپاے اعظم کو حرکت میں آنا پڑا اور پوری عیسائی دنیا سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف محاذ بنا کر امڈ آئی، چودھویں صدی عیسوی کی ’’نیٹو افواج‘‘ میں بڑی بڑی قوتوں کا حصہ تھا۔ فرانس، برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، جرمنی، پولینڈ، بوہیمیا، آسٹریا، ہنگری، اٹلی، سوئیٹزر لینڈ، بیلجیم اور دیگر بہت سے یورپی ممالک لاؤ لشکر اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ آور ہوئے۔ ان کا مقصد اولاً یورپ اور بالآخر اناطولیہ کو عثمانیوں سے خالی کرانا تھا اور القدس کو حاصل کرنا تھا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب سلطان فتحِ قسطنطنیہ کا خواب لیے استنبول کے گرد حصار قائم کر چکے تھے اور یہ حصار شدت پکڑتا جا رہا تھا۔ اس غیر متوقع عیسائی حملے نے سلطان کو محاصرہ اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ ۲ ستمبر ۱۳۹۶ء کی صبح عثمانی اور بازنطینی لشکر میدان میں اترے اور گھمسان کا رن پڑا۔ دوپہر سے پہلے پہلے عثمانی لشکر نے بازنطینوں کو بد ترین شکست دے کر ان کی قباے دریدہ پر ذلت و رسوائی کا نہ مٹنے والا داغ لگا دیا۔ اس جنگ کو معرکۂ نکوپولِس کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی جنگیں لڑیں اور سلطنت کو طرابزون تک وسیع کر دیا۔ ایک بار پھر بایزید نے استنبول کا محاصرہ کر لیا لیکن ایک اور واقعے نے دوبارہ سلطان کو محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا۔ ہوا یہ کہ ماوراء النہر اور ایران پر قبضے کے بعد جب امیر تیمور خان نے بغداد پر قبضہ کیا تو وہاں سے فرار ہونے والے سرداروں کو سلطان با یزید نے پناہ دی۔ اور سلطان کے پاس سے بہت سے لوگ فرار ہو کر تیمور کے پاس چلے گئے۔ دونوں بادشاہوں کو جھوٹی سچی شکایتوں اور حکایتوں کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا گیا۔ دونوں کو ہی اپنی قوت اور سلطنت کا زعم تھا۔ تیمور نے بایزید سے مطالبہ کیا کہ مفرور سرداروں کو میرے حوالے کیا جائے لیکن با یزید نے اس کا حکم ٹھکرا دیا، جس پر امیر تیمور غضب ناک ہوا اور ایک لشکرِ جرار لے کر اناطولیہ میں داخل ہو گیا۔ چنانچہ چوتھی مرتبہ با یزید کو استنبول سے محاصرہ اٹھانا پڑا اور بورصا میں دفاعی نظام مستحکم کرنا پڑا۔ عثمانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی جبکہ تیمور تین لاکھ خونخوار سپاہیوں کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ جنگ شروع ہوئی تو ایسا شدید مقابلہ تھا کہ کسی کے بچنے کی امید نظر نہ آتی تھی لیکن عین معرکے میں بایزید کے بعض مشہور سردار تیمور کے لشکر میں شامل ہو گئے۔ با یزید کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور اسے قیدی بنا لیا گیا۔ اگرچہ تیمور نے با یزید سے بہت اچھا سلوک کیا لیکن با یزید اسیری کی ذلت نہ سہہ سکا، سات ماہ قید میں رہا اور محض ۴۳ سال کی عمر میں جان؛ جان آفریں کے سپرد کر دی۔سلطان بایزید اول کے دور میں بےشمار مساجد، مدارس، فلاحی ادارےمسافرخانے، بازار، ہسپتال، حمام، سڑکیں، پُل اور پانی کی سبیلیں قائم ہوئیں۔ان کا سب سے نمایاں کارنامہ بورصا کی جامع مسجد’’اولو جامی‘‘ ہے۔ آپ کے عہد میں بحری لشکر کی تشکیل و تنظیم ہوئی اور باقاعدہ بحری فوج کے لیے تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔

ایک بات اس موقعے پر دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جس سال یعنی ۱۳۶۰ء میں مراد خان اول تخت نشین ہوئے، اسی سال ان کے یہاں بایزید کی ولادت ہوئی، اگرچہ اولاد تو اور بھی تھی لیکن جس نے تخت کا وارث ہونا تھا، وہ بیٹا ۱۳۶۰ء میں پیدا ہوا۔ اسی مراد خان اول بھی اسی سال پیدا ہوئے جس سال ان کے والد اورخان غازی تخت نشین ہوئے۔ اسی طرح اورخان غازی بھی اسی سال پیدا ہوئے جس سال ان کے والد عثمان غازی قبیلے کے سردار منتخب ہوئے۔

جاری ہے

کتابیات
السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول۲۰۱۸ء
آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء

لرننگ پورٹل