لاگ ان

ہفتہ 21 محرم 1446 بہ مطابق 27 جولائی 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 محرم 1446 بہ مطابق 27 جولائی 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 محرم 1446 بہ مطابق 27 جولائی 2024

ہفتہ 21 محرم 1446 بہ مطابق 27 جولائی 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف
سورہ الفرقان آیت: ۶۴تا ۶۶

﴿وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّهِم سُجَّدًا وَّقِیَامًا، وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصرِف عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ،ِنَّ عَذَابَهَا کَانَ غَرَامًا، إِنَّهَا سَاءَت مُسَتقَرًّا وَّمُقَامًا﴾

’’اور جو راتیں اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں، اور (کبھی) قیام میں۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ: ہمارے پروردگار! جہنم کے عذاب کو ہم سے دور رکھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عذاب وہ تباہی ہے جو چمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یقیناً وہ کسی کا مستقر اور قیام گاہ بننے کے لیے بدترین جگہ ہے‘‘۔

تفسیر وتوضیح

سورۂ فرقان کی آیت نمبر تریسٹھ سے اسی سورتکے آخر تک کی آیات میں اللہ جل شانہ نے اپنے خاص بندوں کے وہ خصوصی اوصاف بیان فرمائے ہیں، جو ان کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ہیں اور ان اوصاف کی بدولت اللہ تعالیٰ کے بعض بندے امتیازی مقام پر فائز ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں جنھیں اپنے معمول کا حصہ بنانے اور ان کو اختیار کرنے سے ایک بندہ ’’عباد الرحمٰن‘‘ کے عظیم لقب کا مستحق ٹھہرتا ہے، یہ کل گیارہ اوصاف ہیں۔ ان میں سے پہلے دو اوصاف ہم آیت نمبر تریسٹھ کے ذیل میں ملاحظہ کر چکے ہیں جبکہ باقی اوصاف میں سے مزید دو اوصاف کو حسبِ بالا مذکورہ آیات کے مطالعے کے ضمن میں ذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام

اللہ تعالیٰ کے ان نیک اور صالح بندوں کے وہ عظیماوصاف جن کی بنا پر یہ دیگر بندوں سے بلند تر ہیں، ان میں سے تیسرا مہتم بالشان وصف قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام ہے، چنانچہ یہاں فرمایا گیا ہے:﴿وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّهِم سُجَّدًا وَّقِیَامًا﴾’’اور جو راتیں اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں، اور (کبھی) قیام میں‘‘۔ یعنی رات کی گھڑیوں میں جب تنہائی ہو، سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے سامنے عبادت کرنے کا شائبہ بھی دل میں نہ گذرے، ایسے وقت میں تہجد کا اہتمام کرنا بندۂ مومن کی اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان کی دلیل ہے۔ چنانچہ مذکورہ آیت میں ان خاصانِ خدا کی راتوں کی کیفیت اور نقشہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وہ راتیں اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے کبھی سجدے میں ہوتے ہیں اور کبھی قیام میں ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی جو محبت ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ محبت انھیں رات کے وقت سونے نہیں دیتی، بلکہ وہ اپنے رب کے سامنے نمازوں میں دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے پروردگار کے در پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے ایک اور مقام پر ان کا نقشہ یوں کھینچا ہے:﴿تَتَجَافٰی جُنُوبُهُم عَنِ المَضَاجِعِ یَدعُونَ رَبَّهُم خَوفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقنٰهُم یُنفِقُونَ، فَلَا تَعلَمُ نَفسٌ مَّا اُخفِیَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعیُنٍ، جَزَآءً بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ﴾(سورہ السجدۃ آیت : ۱۶۔۱۷) ’’ان کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا ہوتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کو ڈر اور امید (کے ملے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، وہ اس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتا نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے‘‘۔ اس آیت کی رو سے ایسے نیک لوگوں کے لیے جو تہجد کی نمازکا اہتمام کرتے ہیں، ان کے لیے پروردگارِ عالم کے ہاں جونعمتیں تیار کی گئی ہیں وہ انسان کے تصور سے بھی بلند ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:«أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ»(جامع ترمذی، حدیث نمبر:۴۳۸) ’’رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے‘‘۔ اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:«لَا تَدَعْ قِيَامَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺكَانَ لَا يَدَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ كَسِلَ صَلَّى قَاعِدًا»(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۰۷) ’’تہجد (قیام اللیل) نہ چھوڑو کیونکہ رسول اللہﷺ اسے نہیں چھوڑتے تھے، جب آپ بیمار یا تھکے ہوئے ہوتے تو بیٹھ کر پڑھتے تھے‘‘۔قرآن وسنت میں قیام اللیل کی دوسری نفلی نمازوں کے مقابلے میں اتنی زیادہ فضیلت بیان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ باقی نمازوں میں ریا کا امکان پایا جاتا ہے جبکہ اس اہم عبادت میں سرے سے یہ امکان ہی نہیں پایا جاتا بلکہ یہاں سر تا سر اخلاص ہی کی فرماں روائی ہے۔ اسی طرح رات کے اوقات میں چونکہ خاموشی طاری ہوتی ہے، اس خاموشی اور تنہائی میں محبوبِ حقیقی کے ساتھ راز و نیاز میں منہمک رہنے اور اس کے حضور کھڑے ہوکر گڑگڑانے میں دن کی نسبت استحضار اور خشوع وخضوع کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اَلصِّفَةُ الثَّالِثَةُ:اَلتَّهَجُّدُ لَيْلًا: أَيْ اَلْعِبَادَةُ الْخَالِصَةُ للهِ تَعَالىٰ في جَوْفِ اللَّيْلِ، فَإِنَّهَا أَكْثَرُ خُشُوْعًا، وَ أَضْبَطُ مَعْنًى، وَ أَبْعَدُ عَنِ الرِّيَاءِ.(التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،ج:۱۹، ص:۱۱۴) ’’عباد الرحمٰن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تہجد کا اہتمام کرتے ہیں، یہ رات کے وقت میں ایسی عبادت ہے جو خالص اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ خشوع کے اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے، ضبطِ معنوی پیدا کرنے میں اکسیر ہےاور ریا سے پاک ہے‘‘۔ یعنی تہجد کی نماز میں خشوع وخضوع، استحضارِ قلب کے ساتھ اخلاص کا یہ عالم ہے کہ یہاں ریا اور سمعہ کا گزر نہیں ہے، ان خصوصیات کی بنا پر یہ نماز دیگر نوافل کی بنسبت زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔ البتہ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تہجد کی نماز کی جتنی بڑی فضیلتیں ہیں، اسی طرح اس کے چند آداب بھی ہیں جنھیں عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ نماز فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ سنت ہے، اس لیے اسے فرض یا واجب کے درجے تک لے جانا اور جونہ پڑھے اسے ہدف ِملامت بنانا درست نہیں ہے، اسی طرح اس بات کا خیال رکھنا بھی از حد ضروری ہے کہ جب کوئی شخص اس نماز کے لیے اٹھے تو اپنے گھر والوں کے آرام میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے، کیونکہ تہجد پڑھنا باعثِ ثواب ضرور ہے مگر ایذاے مسلم سے بچنا بہرحال واجب ہے، اس لیے طاعات میں فرقِ مراتب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

عباد الرحمٰن جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں

عباد الرحمٰن کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اپنی نیکی پر کوئی فخر نہیں کرتے، رات بھر عبادت میں مشغول رہنے کے بعد بھی وہ اپنے اعمال پر مغرور نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تو بخشے بخشائے ہیں۔ بلکہ اُن کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ ہماری عبادات میں ایسی کو تاہیاں ضرور ہم سے سر زد ہوئی ہوں گی جن کی وجہ سے وہ عبادات خدا نخواستہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لائق ہی نہ ہوں۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ہولناکیوں سے پناہ مانگتے رہتے ہیں، چنانچہ ان کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ:﴿وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصرِف عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ،ِنَّ عَذَابَهَا کَانَ غَرَامًا، إِنَّهَا سَاءَتْ مُسَتقَرًّا وَّمُقَامًا﴾’’اور جو یہ کہتے ہیں کہ: ہمارے پروردگار! جہنم کے عذاب کو ہم سے دور رکھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عذاب وہ تباہی ہے جو چمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یقیناً وہ کسی کا مستقر اور قیام گاہ بننے کے لیے بدترین جگہ ہے‘‘۔ یعنی وہ ہر وقت میں اپنے پروردگار سے جہنم کی ہولناکیوں سے حفاظت کی دعا کا اہتمام کرتے ہیں، کیونکہ انھیں احساس ہے کہ جہنم ایسی جاے قرار ہے جہاں سوائے رسوائی اورہلاکت خیزی کے کچھ نہیں ہے۔ یہ تو درحقیقت ایسی جگہ ہے کہ اسے مستقل جاے قرار بنانا تو دور کی بات ہے بلکہ اسے تو تھوڑی دیر کے لیے بھی جاے قیام بنانا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس کی ہولناکیاں اور سختیاں برداشت کرنا کسی فردِِ بشر کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا ’’عباد الرحمٰن‘‘ کے اوصاف میں سے ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اَلصِّفَةُ الرَّابِعَةُ: الْخَوْفُ مِنْ عَذَابِ اللهِ تَعالىٰ: أَيْ أنَّهُمْ مَعَ طَاعَتِهِمْ مُشْفِقُوْنَ خَائِفُوْنَ وَجِلُوْنَ مِنْ عَذَابِ اللهِ، سَوَآءً في سُجُوْدِهِمْ وَ قِيَامِهِمْ لِأَنَّ عَذَابَ جَهَنَّمَ لَازِمٌ دَائِمٌ غَيْرُ مُفَارِقٍ، وَ بِئْسَ الْمُسْتَقَرُّ، وَ بِئْسَ الْمُقَامُ.(التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،ج:۱۹، ص:۱۱۵) ’’عباد الرحمٰن کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، یعنی وہ طاعات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں، خواہ سجدے کی حالت میں ہوں یا قیام کی حالت میں ہوں۔ اس لیے کہ جہنم کا عذاب مسلسل چمٹنے والا اور دائمی ہے اور یہ مستقل (کافروں) اور عارضی قیام (گناہ کار مسلمین) دونوں کے لیے بہت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘۔

لرننگ پورٹل