لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف
سورالفرقان آیت: 63

﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا﴾

’’اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں‘‘۔

تفسیر وتوضیح

اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندوں کے وہ عظیم اوصاف کیا ہیں، جن کی بنا پر یہ دیگر بندوں سے بلند تر ہیں، سورۂ فرقان کی آیت ۶۳ تا ۷۷ تک ان آیات میں اللہ جل شانہ نے اپنے خاص بندوں کی وہ خاص صفات بیان فرمائی ہیں، جو اُسے بہت ہی پسند اور محبوب ہیں اور جن کی بدولت وہ خاص بندے دیگر بندوں سے ممتاز ہیں۔ یہ وہ بلند واعلیٰ اقدار واوصاف ہیں کہ جن سے متصف ہو کر کوئی شخص مدارجِ کمال طے کرسکتا ہے اور باریِ تعالیٰ کے خاص اور ممتاز بندوں کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ وہ اوصاف جن کے اختیار کرنے سے ایک بندہ ’’عباد الرحمٰن‘‘ کے لقب کا مستحق ٹھہرتا ہے، ان کا حاصل کل گیارہ اوصاف ہیں۔ یہاں ترتیب کے ساتھ ان اوصاف کو ان آیات کے مطالعے کے ضمن میں ذکر کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ ان کی وضاحت بھی درج کی جائے گی۔ ان شاء اللہ

عباد الرحمٰن کے اوصاف

﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الأَرْضِ هَوْنًا﴾ ’’اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں‘‘۔ جنابِ باریِ تعالیٰ نے یہاں ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ﴾ فرما کر انتہائی محبت اور شفقت کا انداز اپنایا ہے، یعنی اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندے وہ ہیں جو ان اعلیٰ اوصاف کے حامل ہوں۔ ﴿يَمْشُونَ عَلَى الأَرْضِ هَوْنًا﴾ ’’جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب ہے: أَي مشيًا لينا بسكينة ووقار وتواضع. (التفسير الوسيط للقرآن الكريم، ج:۷، ص: ۱۵۳۸) ’’وہ سکون، وقار اور انکساری کے ساتھ نرم چال چلتے ہیں‘‘۔ چنانچہ مذکورہ اوصاف میں سے پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اللہ کے نیک بندے عاجزی اور انکساری سے کام لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی زمین میں متکبر بن کر نہیں رہتے۔ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’پہلی صفت یہ ہے کہ انکساری سے کام لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے عقاب کے خوف، اس کے احکام کی معرفت اور اس کے عذاب کے ڈر کی بدولت ممکن ہے‘‘۔ (التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج، ج:۱۹، ص:۱۱۴) یہاں اس ارشاد سے دو باتیں پتا چلتی ہیں: ایک یہ کہ آدمی کی چال ڈھال اور اس کا انداز دراصل اس کی سیرت وکردار کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ایک ظالم وجابر جو خود پسندی کے مَرَض میں گرفتار ہے اس کی چال اور ایک شریف النفس اور مہذَّب آدمی کی چال میں واضح فرق ہوتا ہے جسے با آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے، کیونکہ آدمی کی چال ورفتار سے اس کی شخصیت کی تر جمانی ہوتی ہے۔ لہٰذا جو واقعی اللہ کے بندے ہوتے ہیں ان کی چال ڈھال اور انداز واطوار سے عاجزی اور فروتنی نمایاں ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو آقا نہیں بلکہ بندہ تصور کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مجید میں دوسری جگہ فرمایا ہے: ﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا﴾ ”اور زمین پر اتر اتے ہوئے مت چلو‘‘۔ یعنی فخر وغرور سے اجتناب کرتے ہوئےاپنی چال ڈھال میں عاجزی و فروتنی اختیار کرنی چاہیے۔ اسی طرح اس ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے کاروبارِ زندگی اور معاشرے سے کٹ کر کسی گوشۂ تنہائی میں نہیں رہتے، بلکہ وہ انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں مشغول رہتے ہیں اور لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے انکساری سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے سے کٹ کر اگر کوئی شخص کسی پہاڑ یا غار میں زندگی بسر کر رہا ہو تو اسے پھر مذکورہ وصف اپنانےاور اس کے اظہار کا موقع کیسے میسر آئے گا، ظاہر ہے یہ منشاے حکمِ خداوندی کے خلاف ہے۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس ارشاد کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے کہ بہ تکلف اپنے آپ کو ذلیل بناکر پیش کریں یا ریا کاری سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو عاجز ثابت کرنے کی کوشش کریں یا مریض آدمی کی طرح دکھنے کا تکلف کیا جائے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا جو آہستہ چال چل رہا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: تمھیں کیا ہوگیا ہے، کیا تم بیمار ہو؟ تو اس نے کہا کہ نہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے درہ اٹھایا اور اسے حکم دیا کہ قوت کے ساتھ قدم اٹھا ئے۔ (تفسیر ابنِ کثیر، ج:۶، ص:۱۱۰) ﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا﴾ ’’اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں‘‘۔ یعنی جب کبھی ان کا جاہلوں کے ساتھ مکالمہ ہوتا ہے تو وہ ان کی بدکلامی کا جواب شائستہ اور شریفانہ انداز میں دیتے ہوئے ان سے الگ ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ الجھتے نہیں۔ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دوسری صفت حلم، بردباری اور پاکیزہ وعمدہ گفتگو ہے۔ جب انھیں تکلیف پہنچائی جائے تو وہ برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ دیتے ہیں‘‘۔ (التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج، ج:۱۹، ص:۱۱۴) اسی طرح التفسير الوسيط للقرآن الكريم میں اس کی تفسیر یوں کی گئی ہے: مَعْنَاه إِذَا تَكَلَّمَ مَعَهُمُ السُّفَهَاءُ بالسّوءِ أَو بِكلامٍ يُؤْذِيهم ويَكَرَهونَ سَمَاعَهٗ أَعْرَضُوا عنهم تَحَلُّمًا وسَمَاحَةً. (التفسير الوسيط للقرآن الكريم، ج:۷، ص: ۱۵۳۹) ’’اس کا مطلب ہے کہ جب احمق لوگ رحمٰن کے ان بندوں سے برائی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں یا ایسا طرزِ کلام اختیار کرتے ہیں جو ان کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو وہ برے الفاظ میں جواب دینے کے بجائے ان سے بردباری اور عفو کا معاملہ کرتے ہوئے اعراض کرتے ہیں‘‘۔ قرآنِ کریم میں ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: ﴿وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقالُوا لَنا أَعْمالُنا وَلَكُمْ أَعْمالُكُمْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجاهِلِينَ﴾ ’’اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اسے ٹال جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں، اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ ہم تمھیں سلام کرتے ہیں، ہم نادان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے‘‘۔ یہاں جاہل سے مراد ان پڑھ آدمی نہیں ہے بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی پر اتر آئے تو اس کے جواب میں شریف آدمی کا رویہ اور طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی خوبصورتی سے سلام کہہ کر الگ ہوجاتا ہے اور اس سے الجھ کر اپنا وقار خراب نہیں کرتا۔ کیونکہ اکثر اوقات ایسے جہلا کے ساتھ بحث ومباحثہ فائدے سے خالی ہوتا ہے، جب ایسی صورت حال ہو کہ انسان کو یہ اندازہ ہوجائے کہ اس کا مخاطَب ہٹ دھرمی میں مبتلا ہے اور ضد اور عناد پر اتر آیا ہے اور کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے تو مناسب طریقہ اختیار کر کے اس سے الگ ہوجانا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اس کے ساتھ بحث و نزاع میں پڑ کر بلاوجہ اپنا وقار مجروح نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ اس سے بعض امور مستثنیٰ ہیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مطلب یہ کہ اپنے نفس کے لیے انتقام قولی یا فعلی نہیں لیتے اور جو خشونت تادیب و اصلاح و سیاستِ شرعیہ یا اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہو، اس کی نفی مقصود نہیں۔ (بیان القرآن، ج:۳، ص:۳۲) لہٰذا اس آیتِ زیرِ مطالعہ میں مذکورہ اوصاف کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور چنیدہ بندے عاجزی وفروتنی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور متکبرانہ چال ڈھال سے دور رہتے ہیں۔ جب کبھی جاہل لوگ ان سے الجھتے ہیں تو وہ شائستہ انداز میں انھیں نظر انداز کرتے ہوئے اور ان سے الجھے بغیر جدا ہوجاتے ہیں اور اپنے وقار کو مجروح نہیں کرتے۔

لرننگ پورٹل