لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024

اداریہ
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

ٹرانس جینڈر ایکٹ

سیلاب کی تباہ کاریوں پر ابھی قابو پایا نہیں جا سکا تھا اور حکومت و اپوزیشن اور سیاسی جماعتوں کی اس بحث کا بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ سیلاب متاثرین کی اصل خدمت کس نے کی کہ ملک میں ٹرانس جینڈر ایکٹ نے دھوم مچا دی۔ اس کے بعد قوم کو ’’ڈار اور ڈالر ‘‘ میں الجھا دیا گیا۔ شاعر نے شاید پاکستان ہی کے بارے میں کہا ہو:

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے

جب ہمارا قاری یہ لفظ پڑھ رہا ہو گا پتا نہیں اس وقت تک کیا کیا ٹوٹ چکا ہو گا اور کتنے نئے ’’گُل‘‘ کھل چکے ہوں گے۔ لیکن اس وقت ہم اس متنازع قانون ہی کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام سے مشہور ہو چکا ہے۔ دینِ اسلام سے دوری، آسمانی مذاہب کی تحریف اور انسانوں کے اپنے تشکیل کردہ مختلف مذاہب کے رواج کے سبب پوری دنیا ’’سحرِ جنس‘‘ کا شکار ہے۔ اس جذبے کی تسکین کی خاطر بہت سارے نت نئے نظریے اور راستے بنائے گئے۔ ان راستوں میں ایک یہ بھی ہے کہ اچھے خاصے کسی انسانی بہبود کے قانون و ضابطے میں کچھ ایسے چور دروازے بنا دیے جاتے ہیں جہاں سے جنس کے بازار کی طرف جھانکا جا سکے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کچھ ایسا ہی کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطنِ عزیز میں ’’صنف ِ ناقص‘‘ جنھیں عرفِ عام میں خسرے یا انٹر سیکس کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ جی ہم نے اچھا سلوک کسی سے کیا ہو تو بتائیں جو آپ انٹر سیکس کے بارے میں ہم سے گلہ کرتے ہیں۔ بہرحال دوسری جنسوں کے ساتھ حسنِ سلوک نہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اللہ کی اس مخلوق ’’جنسِ مخلوط‘‘ کے ساتھ حسنِ سلوک کی قانون سازی نہ کی جائے۔ ضرور کی جائے لیکن اچھے طریقے سے قانون سازی کی جائے۔ خیر قانون سازی ہوئی لیکن کسی ساز باز کے سے انداز میں، بہرحال اب یہ معاملہ وفاقی شریعت کورٹ میں زیرِ بحث آ چکا ہے اور مختلف اطراف کے لوگ بطورِ فریق اس مقدمے میں شمولیت کی درخواستیں دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس قانون میں پائے جانے والے نقائص کی اصلاح کر دی جائے گی۔ اس قانون کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہمارے مقام و مرتبے سے اوپر کی بات ہے اس لیے ہم کچھ گزارشات اپنے اس دیوالیے کی بابت کرنا چاہتے ہیں جو اس طرح کے کئی مواقع پر سامنے آ چکا ہے۔ موجودہ مسئلے نے یہ ثابت کیا کہ بحیثیتِ مجموعی ہم میں لیاقت و دیانت دونوں کی کمی ہے۔ بعض مخلصین وہ ہیں جو اس بل کو ہم جنس پرستی اور یک جنسی شادیوں کا قانون اور پروانہ قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ سب الفاظ میں لکھا ہوا نہیں ہے ہاں اس کے مضمرات میں یقیناً شامل ہے۔ دوسری طرف وہ لبرل انتہا پسند ہیں جو اس الزام کی نفی کرتے ہوئے ایکٹ کو ایک قابلِ فخر کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ بلکہ معترض مسلمانوں کی مذمت کرتے کرتے اب وہ اسلام ہی کو برا بھلا کہنا شروع ہو گئے۔ جید علماے کرام کا معتدل نظریہ اس بابت یہ ہے کہ اس بل میں بعض ایسے مبہم الفاظ و نکات شامل کیے گئے ہیں کہ جو مندرجہ بالا قبیح امور کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس بل کے پیش کار اور ترتیب کنندہ خواتین و حضرات کو بھی معصوم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے لیکن ان کے بیانات اور عمومی کردار و رجحانات کو دیکھتے ہوئے شک گزرتا ہے کہ اس طرح کے مشکوک خلا شاید جان بوجھ کر رکھے گئے ہیں۔ ایک قانون ساز ادارے کے اراکین سے بڑھ کر قانونی موشگافیوں سے کون واقف ہو سکتا ہے اور اگر خدانخواستہ ان لوگوں کو یہ واقفیت نہیں ہے تو یہ ستم بالاے ستم ہے۔ پھر گلستان کے انجام کا سوچیں کیسا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کے ’’نابالغ‘‘ کارکنوں کا حال دیکھیں کہ وہ اتنے سادہ لوح ہیں کہ ایک دوسرے کو اس بل کی منظوری کا ذمے دار قرار دے کر ایک دوسرے پر لعن طعن کر رہے ہیں حالانکہ سینیٹر ڈاکٹر مشتاق صاحب کے بیانات کے مطابق چار بڑی سیاسی جماعتوں کی خواتین ارکان اس بل کی ’’پیش کاریاں‘‘ تھیں اور اس بل سے اتفاق کرنے والے تو خیر سارے ہی تھے۔ فقہِ اسلامی میں ’’صنفِ ناقص‘‘ پر بہت تفصیل سے کلام کیا گیا ہے۔ وضو، طہارت و غسل اور اس کے وجوب کی صورتیں، اذان و نماز اور امامت کے احکام، رضاعت خلوت و جلوت و سفرِعمرہ، حج احرام کے مسائل، گواہی، میراث، حدود و تعزیرات، قصاص و دیت، لباس، زیور، تجہیز و تدفین حتیٰ کہ ان کے نکاح کے جواز و عدمِ جواز کی صورتوں پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ ہیجڑوں کے متعلق مسائل میں سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ ان کی جنس و صنف کا تعین ہے۔ ہمارے فقہا نے اس پر بھی کلام کیا ہے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی سے اس مسئلے کے کچھ نئے پہلو ضرور سامنے آئے ہیں۔ جنس کے تعین یا جسمانی بناوٹ اور نفسانی لگاوٹ کو کسی ایک جنس کی طرف یکسو کرنے میں جدید طبی سہولیات سے استفادے کے جواز و عدمِ جواز کی حدود و قیود اور شروط پر بھی علماے کرام نے کلام کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کی اصلاح کرتے وقت ملک کے نامور ماہرینِ شریعت سے ضرور راہنمائی لی جائے اور ان کی مشاورت سے نیا قانون بنایا جائے۔

لرننگ پورٹل