لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024

تحریر: مفتی نثار احمد مصباحی

ہمارے محقق علما اور قابلِ قدر علمی کام کرنے والے مصنفین ہماری جماعت کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ہم ان کی محنتوں کی قدر کریں۔ وہ شب و روز کی جاں گسل محنت کے بعد کوئی علمی اور تحقیقی کتاب تیار کرتے ہیں اور کسی طرح پیسوں کا انتظام کرکے اسے چھپواتے اور منظرِ عام پر لاتے ہیں اور ہم جیسے ناکارہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ کتاب مفت میں ہمیں مل جائے تاکہ ہم لائبریری یا الماری کی زینت بنا کر رکھ سکیں۔ ہمیں یہ رویّہ بدلنا ہوگا۔ کتاب خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔

جو کتابیں دسترس میں ہیں یا جنھیں ہم بآسانی خرید سکتے ہیں ان کی پی ڈی ایف طلب کرنے کے بجائے ان پر پیسہ خرچ کرکے انھیں پڑھنا چاہیے۔ تاکہ کتاب کی برکت بھی ملے، مصنفین کی محنت کی قدر بھی ہو، اور دینی کتب کے ناشرین کی روز بروز خستہ ہوتی حالت بھی کچھ سنبھل سکے۔

خاکسار کو اپنی حیثیت کے مطابق کتابیں خرید کر پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ اور وقتاً فوقتا خریدتا بھی رہتا ہے۔ یہ محض اس لیے بتا اور لکھ رہا ہوں تاکہ جو لوگ استطاعت کے باوجود کتابیں نہیں خریدتے انھیں کچھ ترغیب دے سکوں۔

شیخ نور الدین عِتر حلبی (وفات: 6 صفر 1442ھ) معاصر شامی علما و محدثین میں اپنے علم و عمل اور تصنیفات و تحقیقات کی بنیاد پر ایک منفرد عظمت و اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ان کا بہت مشہور قول ہے:

’’شِرَاءُ الكُتُبِ يُورِثُ الغِنى‘‘ (کتابیں خریدنے سے مالداری آتی ہے۔)

یہ بات بزرگوں کے مجربات میں سے ہے۔

علامہ محمود بن سعید مقدیش صفاقسی تونسی (وفات: 1228ھ) نے اپنی کتاب "نزھۃ الأنظار فی عجائب التواريخ و الأخبار" کے خاتمے میں شیخ ابو عبد اللہ محمد الغراب (وفات: 1135ھ) کے احوال میں لکھا ہے کہ ان کے والد ایک تاجر تھے۔ ایک بار انھیں ڈھیر سارا مال دیا اور کہا جاؤ حج کر آؤ۔ اور بچے ہوئے پیسے سے (واپسی میں مصر سے) مالِ تجارت خریدتے آنا۔ (تاکہ انھیں بیچ کر نفع حاصل کیا جا سکے۔) شیخ ابو عبد اللہ حج سے واپسی پر جب مصر پہنچے تو بچے ہوئے سارے پیسے کی کتابیں خرید کر اپنے ساز و سامان کے ساتھ بھر لیں۔!!! جب گھر پہنچے تو ان کے والد نے سمجھا یہ سب مال تجارت ہے، مگر جب اتارا گیا تو کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا_ ان کے والد نے کہا: بیٹے! مالِ تجارت کہاں ہے؟ شیخ ابو عبد اللہ نے فرمایا: یہ کتابیں ہی میری تجارت ہیں(یعنی تجارتِ اخروی)۔ ان کے والد غضبناک ہو گئے اور بولے کہ تو نے میرا سارا مال برباد کر دیا اور مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ شیخ ابو عبد اللہ نے اپنے شیخ سے ماجرا عرض کیا تو ان کے شیخ نے ان کے والد کو بلوایا اور فرمایا:

’’لمَ غضبتَ من التجارة الرابحۃ الباقیۃ؟ طيب قلبك، و أبشر بالغنى فإن شراء الكتب يورث الغنى. فهذه تجارة الآخرة حصلت، و يعوضك الله بتجارة الدنيا‘‘

یعنی : (تجارتِ فانیہ کے بجاے) نفع بخش تجارتِ باقیہ(تجارتِ اخروی) کر لینے پر آپ ناراض کیوں ہو گئے؟ اطمینان رکھیں۔ اور مالداری کی بشارت لیں۔ کیوں کہ کتابوں کی خریداری، خوش حالی و مال داری لاتی ہے۔ (یہ جو آپ کے لڑکے نے کیا) یہ تجارتِ اُخروی ہوئی، اور اس کے عوض میں اللہ عزوجل آپ کو تجارتِ دنیوی عطا فرمائے گا۔

پھر شیخ نے ان کے لیے اور ان کی نسل کے لیے حفاظت و برکت کی دعا کی۔ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور آگے چل کر دنیوی کاروبار میں بہت نفع ہوا اور انھیں ڈھیر ساری دولت ملی۔!!! شیخ محمود مقدیش بتاتے ہیں کہ: وہ کتابیں آج تک(تیرہویں صدی کے پہلی چوتھائی تک) محفوظ و موجود ہیں اور لوگ ان کتابوں سے آج تک (دینی و علمی) نفع پا رہے ہیں۔!!!

(محمود سعید مقدیش الصفاقسی: نزھۃ الأنظار فی عجائب التواريخ و الأخبار، ج 2 ، ص 370، 371۔ دار الغرب الاِسلامی، بیروت، طبع اول 1988ء)

حدیث شریف میں روزے کے بارے میں آیا ہے: صوموا تصحوا (روزہ رکھو صحت مند ہو جاؤ گے)، اور حج کے بارے میں آیا ہے: حجوا تستغنوا (حج کرو مال دار ہو جاؤ گے) علما فرماتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحت کے لیے روزہ رکھے یا مال کے حصول کے لیے حج کرے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان خالص رضاے الٰہی کے لیے روزہ و حج کرے۔ اور پھر اسے روزے کی برکت سے صحت، اور حج کی برکت سے دولت نصیب ہو گی۔ اسی طرح بزرگوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر جو یہ فرمایا ہے کہ کتابیں خریدنے سے مال داری آتی ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ محض مالدار و خوش حال بننے کی نیت سے آدمی کتابیں خریدتا رہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حصولِ علم، نشرِ علم، نفعِ عباد، اور تجارتِ اُخروی کی نیت سے بندہ دینی کتابیں خریدے تو اس کی برکت سے اللہ عزوجل دولتِ دنیوی بھی عطا فرماتا ہے اور تجارت و رزق میں برکاتِ الہی کا ظہور ہوتا ہے۔!!!

لہذا دینی کتابیں خریدیں، پڑھیں، اور اپنے وارثین کے لیے دنیوی وراثت کے ساتھ ایک بہتر اور نفعِ اخروی والی وراثت بھی چھوڑ کر جائیں۔

لرننگ پورٹل