لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

صوفی جمیل الرحمن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

۶۴۲ ھ میں بیت المقدس، غزہ اور ساحلی علاقے، صلیبی قبضے سے آزاد کرانے کے بعد الملک الصالح نجم الدین ایوب تین سال شام ہی میں مقیم رہے۔ انھوں نے بیت المقدس اور یہاں کی عوام پر کثیر مال خرچ کیا اور شہر کی تعمیرِ نو بھی کرائی۔ ۶۴۵ ھ میں انھوں نے بیت المقدس کی الوداعی زیارت کی اور مصر کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ طبریہ اور عسقلان بدستور فرنگی قبضے میں تھے۔ واپسی کے سفر کے دوران انھوں نے ان دونوں شہروں پر حملہ کر کے انھیں آزاد کرایا۔ ۶۴۶ ھ میں نجم الدین ایوب مصر لوٹ آئے۔ آئندہ کچھ عرصے وہ مختلف ایوبی حکمرانوں سے برسرِپیکار رہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر) ۶۴۷ ھ میں فرنگیوں نے دمیاط پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور یہاں کے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ سلطان نجم الدین ایوب فوج لے کر یہاں روانہ ہوئے لیکن راستے میں ان کی بیماری شدت پکڑ گئی، منصورہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ ملکہ شجرۃ الدرنے ان کے انتقال کی خبر کو چھپایا اور اپنے بیٹے الملک المعظم توران شاہ کو دوسرے علاقے سے بلایا۔ ان کے آنے پر بادشاہ کے انتقال کی خبر نشر کی گئی اور توران شاہ کو بادشاہ بنایا گیا۔

توران شاہ فوج لے کر دمیاط روانہ ہوئے اور ماہِ محرم ۶۴۸ (۱۲۵۰ ء) کو پہلے معرکۂ منصورہ میں اور پھر معرکۂ فارسکور میں فرنگیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ شاہ فرانس لوئیس نہم اس جنگ میں قیدی بنایا گیا جو فدیہ دے کر آزاد ہوا۔ البتہ تھوڑی مدت بعد الملک المعظم توران شاہ کو ان کے امرا نے ایک سازش کے تحت قتل کر دیا۔ اس کے بعد ان کے والد کے ایک مملوک عزالدین ایبک ترکمانی کو حکمران بنایا گیا۔ اس طرح سلطنتِ ممالیک کی داغ بیل پڑی۔ جس سے مملوک سلطنت اور ایوبی حکمرانوں کی باہم چپقلش شروع ہوئی۔ کئی ایک لڑائیاں بھی ہوئیں۔ فرانس کے بادشاہ لوئیس نہم کی فوجیں عکا میں موجود تھیں۔ پہلے تو ایوبیوں نے اس شرط پر فرنگیوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کی کہ فتح کے بعد بیت المقدس فرنگیوں کو دے دیا جائے گا لیکن مملوکوں نے فرنگیوں کو اس اتحاد میں شامل ہونے سے، عیسائی قیدیوں کے قتل کی دھمکی دے کر باز رکھا۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ جنگ کی نوبت آئی تو اس بار عز الدین ایبک اسی شرط پر فرنگیوں سے اتحاد کرنے پر راضی ہو گئے۔ لیکن ۶۵۱ ھ میں عباسی خلیفہ المستعصم بالله نے دونوں مسلمان گروہوں کے درمیان اس تقسیم پر صلح کرا دی کہ مصر اور جنوبی فلسطین (غزہ اور بیت المقدس) مملوکوں کے پاس رہیں گے جب کہ بقیہ شام ایوبیوں کے زیرِ نگیں رہے گا۔ اس کامیاب سیاست نے فرنگیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔(تاریخِ شاکر ۶ : ۲۶)

کچھ عرصے بعد ممالیک کے دو گروہ بن گئے: ایک وہ جو عز الدین ایبک کے حامی تھے اور دوسرے وہ جو ملکہ شجرۃ الدر کے حامی تھے۔ ایک گروہ (ممالیک البحریہ الصالحیہ) کے امرا، شام اور کرک کی طرف بھاگ نکلے جہاں انھوں نے ایوبیوں سے اتحاد کر کے ممالیک المعزیہ اور عز الدین ایبک سے مصر چھیننے کی (۶۵۵ ھ اور ۶۵۶ ھ میں) دو دفعہ ناکام کوشش کی۔ عز الدین ایبک کے بعد اس کے نابالغ بیٹے نور الدین والی بنائے گئے جبکہ سیف الدین قُطُز ان کے نائب تھے۔ سلطنت کو ایوبیوں، منگولوں اور صلیبیوں کا سہ طرفی خطرہ لاحق تھا۔ اعیانِ سلطنت کے مشورے سے سیف الدین قطز کو والیٔ مصر بنا دیا گیا۔۶۵۶ ھ میں منگولوں نے بغداد پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ اس کے بعد تاتاری شام میں داخل ہوئے اور ۶۵۷ ھ میں حلب اور ۶۵۸ ھ میں دمشق پر قبضہ کر لیا۔ منگولوں کی طرف سے سیف الدین قطز کو دھمکی آمیز خط موصول ہوئے اور انھیں اطاعت اختیار کرنے کی دعوت دی۔ لیکن سیف الدین قطز نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور ۲۵ رمضان ۶۵۸ ھ میں عینِ جالوت کے مقام پر تاتاریوں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ جس کے بعد عام مسلمان بھی تاتاریوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور کچھ ہی عرصے میں دمشق اور دوسرے شامی علاقے تاتاریوں سے آزاد کرا لیے۔(تاریخِ شاکر:۷:۲۹) سیف الدین قطز کے بعد رکن الدین بیبرس سلطنتِ ممالیک کے بادشاہ بنے۔ جنھوں نے تین سال قبل بغداد میں تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہونے والی عباسی خلافت کا ۶۵۹ ھ کو قاہرہ میں احیا کیا۔ آخری عباسی خلیفہ المستعصم بالله کے چچا احمد ابن الظاہر بن الناصر العباسی المستنصر بالله کے لقب سے خلیفہ بنائے گئے۔ صلیبی اب بھی بیت المقدس پر قبضے کے خیال سے باز نہیں آئے تھے اور اس دوران شاہ لوئیس عکا، قیساریہ اور صیدا کے قلعوں کی مرمت و مضبوطی کے کام میں مشغول تھا۔۶۶۱ ھ میں بیبرس نے ناصرہ اور عکا پر حملہ کیا اگرچہ یہ شہر فتح نہ کر سکے لیکن ۶۶۳ ھ میں انھوں نے قیساریہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے یافا شہر فتح کیا۔ بیروت پر ملکہ ازابیلا کی حکومت تھی جس نے سلطان سے صلح کر لی چند دوسری ریاستوں نے بھی اپنی نصف پیداوار کے عوض سلطان سے صلح کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔ سلطان کے کماندار قلاوون نے طرطوس اور مصیصہ وغیرہ فتح کر لیے۔ اس کے بعد قلاوون نے آرمینیا صغریٰ کے بعض علاقے فتح کیے اور کثیر مالِ غنیمت حاصل کیا۔ یہ وہ علاقے تھے جو ان کے دشمنوں کے حلیف رہا کرتے تھے۔ اس کے بعد سلطان انطاکیہ کی طرف متوجہ ہوئے جو اس علاقے میں ایک اہم صلیبی ریاست تھی۔ سلطان نے ۶۶۶ ھ میں یہاں حملہ کر کے شہر فتح کر لیا اور صلیبیوں کی بڑی تعداد مقتول ہوئی۔ ۶۶۸ ھ میں سلطان نے ایک بحری فوج جزیرۂ قبرص پر حملے کے لیے روانہ کی لیکن ناموافق ہواؤں کی وجہ سے فوج کو واپس آنا پڑا۔

۶۶۹ ھ (۱۲۷۰ ء) میں انھوں نے صافيتا اور عكار وغیرہ کے قلعے فتح کیے پھر انھوں نے طرابلس پر حملہ کیا جو ایک عرصے سے صلیبیوں کے تسلط میں تھا۔ کئی سرحدی علاقے فتح کرنے کے بعد قریب تھا کہ وہ پورا طرابلس فتح کر لیتے کہ انھی دنوں فرانس کا بادشاہ لوئیس نہم آٹھویں صلیبی حملے کی قیادت کرتے ہوئے فرانس سے نکلا۔ سلطان نے سمجھا کہ وہ شام یا مصر کی طرف آ رہا ہے۔ اسی دوران طرابلس کے صلیبی حکمران بوہمانڈ کی طرف سے صلح کی درخواست آئی تو سلطان نے صلیبی حملے کے خطرے کی وجہ سے یہ درخواست قبول کر لی اور دس سال کے لیے صلح کا معاہدہ طے پا گیا۔(آٹھویں صلیبی حملے کا رخ تیونس کی طرف تھا۔ لیکن طویل محاصرے میں اہلِ فرانس بھوک اور وبائی امراض کا شکار بنے۔ خود بادشاہ اور بڑی تعداد میں صلیبی جان کی بازی ہار گئے۔ بعد میں چارلس اہلِ تیونس سے پندرہ سالہ صلح کا معاہدہ کر کے واپس لوٹا)۔ (المماليك البحرية وقضائهم على الصليبيين في الشام، شفيق جاسر أحمد محمود)

۶۷۶ ھ میں الملک الظاہر سلطان بیبرس کا انتقال ہوا۔ جس کے بعد ان کے دو بیٹے پے در پے حکمران بنے لیکن وہ سلطنت نہیں چلا سکے تب ایک مملوک سردار سیف الدین قلاوون المنصور نے حکومت سنبھالی۔ یہ ایک باصلاحیت انسان تھے جو بیبرس کے نقشِ قدم پر چلے اور صلیبیوں کو بلادِ شام سے نکالنے کی جدو جہد شروع کی۔۶۸۶ ھ میں انھوں نے لاذقیہ فتح کیا۔ طرابلس کا حکمران بوہیمانڈ انتقال کر چکا تھا۔ اس کے ورثا تخت پر باہم لڑ رہے تھے۔ ایک گروہ کی طرف سے سلطان قلاوون کو حملے کی دعوت دی گئی جسے غنیمت سمجھتے ہوئے ۶۸۸ ھ میں حملہ کر کے طرابلس فتح کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے بیروت اور جبلہ وغیرہ کو صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔ اب صور اور صیدا، عکا اور چند دوسرے علاقے صلیبی قبضے میں رہ گئے تھے۔ صلیبیوں کی طرف سے دس سالہ صلح کےمعاہدے کی پیشکش ہوئی۔ سلطان نے محسوس کیا کہ فوجوں کو آرام کی ضرورت ہے نیز انھیں تاتاریوں کی طرف سے بھی خطرہ لاحق تھا۔ اس لیے انھوں نے معاہدہ کر لیا لیکن ۶۸۹ ھ (۱۲۹۰ ء) میں ایطالیہ کی طرف سے ایک صلیبی لشکر عکا میں اترا اور آس پاس کے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ سلطان اس واقعے پر سخت غصے میں آئے اور صلیبیوں سے انتقام لینے کے لیے روانہ ہوئے لیکن راستے ہی میں اچانک موت نے انھیں آ لیا۔ اس کے بعد الاشرف خلیل بن قلاوون حکمران بنے۔۶۹۰ ھ میں وہ مصر اور شام کی مشترکہ فوجوں کے ساتھ عکا کی طرف روانہ ہوئے جو صلیبیوں کا ایک مضبوط گڑھ اور نئے صلیبی حملے کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور جسے جزیرۂ قبرص سے امداد بھی مل رہی تھی۔ سلطان نے عکا کا سختی سے محاصرہ کر لیا اور چوالیس روز کے محاصرے کے بعد یہ شہر ایک سو سالہ غاصبانہ صلیبی قبضے سے آزاد کرا لیا۔ بڑی تعداد میں صلیبی واصلِ جہنم کیے گئے۔ اس کے بعد الاشرف خلیل نے آسانی کے ساتھ صور اور حیفا فتح کر لیے۔ اس کے بعد انھوں نے عتلیت اور صیدا وغیرہ فتح کر لیے اس کے ساتھ ہی شام سے صلیبیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ البتہ ارواد جزیرے میں وہ موجود تھے آخر کار ۷۰۲ ھ میں ایک بحری فوج جزیرے کی طرف روانہ کی گئی اور اسے فتح کر لیا گیا۔ السلطان الاشرف خلیل کے انتقال کے بعد الملک الناصر محمد بن قلاوون بادشاہ بنے ۶۹۳ ھ سے ۷۰۸ ھ تک سرداروں کی بغاوت کی وجہ سے انھیں دو مرتبہ منصب چھوڑنا پڑا۔ ان کا تیسرا دور (۷۰۸ ھ تا ۷۴۱ ھ ) مملوک سلطنت کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس میں سلطنت اپنے بامِ عروج کو پہنچ گئی۔ الملك الناصر محمد بن قلاوون کے دور میں یورپ کے اکثر ملکوں کے سفیر دربار میں تحفے تحائف اور اپنے ہم مذہبوں کے لیے مذہبی اور تجارتی بہتری کی درخواستوں کے ساتھ حاضر ہوتے۔ قلاوون خاندان کی حکومت ۷۸۴ ھ تک رہی۔ ان کے آخری بادشاہ حاجی بن شعبان تھے جو کم عمری میں حاکم بنائے گئے تھے۔ سلطنت کے حالات دگرگوں تھے۔ قاضی بدر الدین نے اعیانِ سلطنت کو حاجی بن شعبان کی جگہ کسی طاقتور سردار کو حاکم بنانے کی تجویز دی چناچہ حاجی بن شعبان کے اتالیق امیر برقوق کو سلطان قرار دیا گیا۔ حاجی بن شعبان کے دور کے خاتمے کے ساتھ ہی ممالیک البحریہ کا دور ختم ہوا۔ سلطان برقوق سے جو سلسلہ شروع ہوا، وہ ممالیک البُرجیہ کہلاتا ہے۔ ان کا دور ۷۸۶ ھ سے شروع ہو کر ۹۲۳ ھ تک رہا (۱۳۴۱ء تا ۱۵۱۷ ء) ان کے دور میں زیادہ تر داخلی انتشار ہی رہا۔ ۸۲۵ ھ میں الملک الاشرف برسبائی حکمران بنے جن کا دور سولہ سال پر محیط رہا۔ ان کے دور میں سلطنت کو خاصا استحکام نصیب ہوا۔ انھوں نے سمندری راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ بنا کر تجارت کو استحکام بخشا۔ جزیرۂ قبرص عرصۂ دراز سے صلیبیوں کا گڑھ تھا۔ سلطان نے یہاں حملہ کیا اور ایک زبردست معرکے میں عیسائیوں کو عبرتناک شکست دی اور ان کے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑ کر قاہرہ لایا گیا۔ عثمانیوں کے عروج تک قبرص جزیرہ ممالیک ہی کے تصرف میں رہا۔ سلطان برسبائی کے بعد کچھ عرصہ وہی عدمِ استحکام پھر جاری ہوا یہاں تک کہ سلطان قايتبائی ۸۷۲ ھ تا ۹۰۱ ھ (۱۴۶۷ء تا ۱۴۹۶ ء) کے علاوہ کوئی حکمران لمبا عرصہ حکومت نہ کر سکا۔ یہاں تک کہ ۹۲۳ ھ میں عثمانیوں نے ممالیک کی حکومت کا خاتمہ کر کے مصر اور شام کو اپنی تولیت میں لے لیا۔ سلطان سلیم اول فاتحانہ طور پر قاہرہ میں داخل ہوئے۔ بعد میں حجاز وغیرہ بھی عثمانیوں کے تسلط میں آ گیا۔ آخری عباسی خلیفہ المتوكل على الله محمد بن المستمسك بالله، سلطان سلیم اول کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ بعض روایات کے مطابق استنبول میں آیا صوفیا کے مقام پر ایک تقریب میں انھیں خِلعتِ خلافت سے نوازا گیا۔ اس تقریب میں آخری عباسی خلیفہ کے ساتھ علماے ازہر اور عثمانی علاقوں کے دیگر علماے کرام و فقہاے عظام بھی شامل ہوئے۔ اگلی چند صدیوں میں عالمِ اسلام کی سیادت و قیادت اور قبلۂ اول و دوم کی تولیت عثمانیوں کے ہاتھ رہی۔(موسوعة سفير للتاريخ الإسلامي،وا قدساہ، دکتور سید حسین العَفّانی)

جاری ہے

لرننگ پورٹل