لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: «الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ وَحَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ» (مسند احمد)

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان؛ مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے (کسی خراب صورتِ حال میں) تنہا چھوڑتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ اور بندے کے برے ہونے کی یہی نشانی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے‘‘۔

تشریح

قرآنِ پاک میں اہلِ ایمان کو باہم بھائی قرار دیا گیا: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات:۱۰) ’’بے شک اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ حدیث مندرجہ بالا گویا اسی فرمان ِخداوندی کی تفصیل ہے جس میں ایمانی اخوت کے چند مظاہر بیان ہوئے ہیں۔ ظلم کی حرمت: ایمانی اخوت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان بھائی دوسرے پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے۔ سنن ترمذی کی ایک حدیث میں آتا ہے: «كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ» ’’ہر مسلمان کی عزت، اس کا مال اور اس کی جان دوسرے مسلمان پر محترم ہے‘‘۔

خذلان کی حرمت: امام ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ نے خذلان کی تعریف میں لکھا ہے: تَرْكُ النُّصْرَةِ وَالْإِعَانَةِ ’’اس کی نصرت اور اعانت کو ترک کرنا، ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں آئی ہے: «وَلَا يَنْسَاهُ فِي مُصِيبَةٍ نَزَلَتْ بِهِ» ’’مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو اس کی مصیبت کے وقت میں نہیں بھولتا‘‘ ایک حدیث میں فرمایا گیا: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى» (صحیح مسلم) ’’باہمی محبت و رحمت اور لطف و مہربانی میں اہلِ ایمان کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو بقیہ سارا جسم بھی بے چینی و درد اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔

حقارت کی ممانعت: حقارت کا مطلب ہے کسی کو ناقابلِ التفات، خود سے کم تر اور گھٹیا سمجھنا، اس کی برائی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اسے بندے کے برے ہونے کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھنے سے تکبر کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے جو رائی کے دانے کے برابر بھی پایا جائے تو جنت میں داخلہ ممنوع ہو سکتا ہے۔ حدیث زیرِ مطالعہ میں جو دوسرے ممنوع امور ہیں مثلاً خذلان اور ظلم وہ بھی اکثر و بیشتر حقارت ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ انسان جس کو حقیر سمجھتا ہے نہ تو اسکی مدد کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ عدل وانصاف کر سکتا ہے۔

لرننگ پورٹل