لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024

اداریہ
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

توبہ اور خدمت

قرآنِ کریم میں ایک قوم کا ذکر کیا گیا کہ جب انھوں نے آسمان پر بادل کو دیکھا تو خوشی سے کہنے لگے ﴿هَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا﴾ ’’یہ ہم پر مینھ برسائے گا‘‘ لیکن جب وہ بدلی نزدیک آئی تو حالات بدل گئے اور پتا چلا کہ اس بدلی میں تو در اصل عذابِ الٰہی پوشیدہ تھا۔ تو ہمارا حال اس قوم سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہم بارشوں کے محتاج لوگ، بھیگے ساون کی بارشوں کے کتنی شدت سے منتظر تھے لیکن ’’کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا سیلاب بھی ساتھ‘‘ تو ساون، سیلِ بے اماں کو ساتھ لے آیا، چھوٹے چھوٹے ندی نالے ایسے بپھرے کہ ہمارے پیارے بلوچوں کو بلو کر رکھ دیا۔ پنجاب، واقعی ’’پنج آب‘‘ بن گیا اور سالوں کے سوئے دریاؤں کے سوتے بہہ نکلے اور پنج آب، زیر ِ آب آگیا۔ شریف اور تابع فرمانسندھ کی بدحالی پر آسمان ایسا ٹوٹ کر رویا کہ اس کے اشکوں میں پورا سندھ بہہ نکلا، چناں چہ ’’زیادہ بارش ہوئی اور زیادہ پانی آیا‘‘ اور زیرِ عتاب سندھ غرقاب ہو گیا۔ نتیجہ یہ کہ لوگوں کے مکان ٹوٹ گئے یا ڈوب گئے۔ فصلیں تباہ، باغ ویران اور جانور برباد ہو گئے۔ گھروں کا سامان کچھ بچ پایا اور کچھ غرق رہا۔ راشن اور اشیاے خور و نوش نا پید ہو گئیں۔ چادر اور چار دیواری پہلے کون سی تھی؟ رہی سہی بھی گئی۔ ذرائع آمد و رفت معطل ہو گئے۔ خشکی کے راستے چاہے پیدل ہوں یا سوار، مسدود ہو گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ انسانیت سانحے سے دو چار ہو گئی۔ مادی سطح پر سیلاب کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہم نے کالاباغ ڈیم نہیں بنایا یا انڈیا نے اضافی پانی کھول دیا وغیرہ وغیرہ لیکن اس کی حقیقی وجہ مادی نہیں بلکہ اخلاقی ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کی اطاعت میں پیچھے رہ گئے ہیں ورنہ بارشیں ہمیں نقصان نہ پہنچاتیں۔ ایک حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «لَوْ أَنَّ عبيدِي أَطَاعُونِي لَأَسْقَيْتُهُمُ الْمَطَرَ بِاللَّيْلِ وَأَطْلَعْتُ عَلَيْهِمُ الشَّمْسَ بِالنَّهَارِ وَلَمَا أَسْمَعْتُهُمْ صَوْتَ الرَّعْدِ» (مسند احمد) ’’اگر میرے بندے (ٹھیک سے) میری اطاعت کریں تو میں انھیں راتوں میں بارش سے سیراب کر دوں اور دن کو مطلع صاف کر دوں یہاں تک کہ ان پر سورج طلوع ہو جائے اور میں انھیں بادلوں کے کڑکے تک نہ سننے دوں‘‘۔ تو ہمارا اجتماعی اور اکثریتی رویہ اللہ کی نافرمانی ہے جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ اب کرنے کا پہلا کام توبہ و استغفار ہے۔ یہی توبہ ہے جس نے قومِ یونس علیہ السلام پر سے عذاب کو ٹال دیا تھا اور قرآنِ کریم میں بتلایا گیا عام اصول بھی یہی ہے: ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ (الانفال :۳۳) ’’اور اللہ انھیں عذاب دینے والا نہیں ہے جب تک وہ استغفار کرتے رہیں‘‘ اجتماعی حالات میں انفرادی معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اس باب میں احادیث بہت کثرت سے منقول ہیں جن کے مطابق بعض افراد کو اپنے اعمال کی سزا مل رہی ہوتی ہے۔ بعض کے گناہ معاف ہوتے ہیں تو بعض کے درجات بلند ہوتے ہیں اور پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کو رسول اللہﷺ نے شہادت کی بشارت بھی تو دی ہے۔ پس ہم دعا گو ہیں کہ سیلاب زدگان میں سے جو غرقاب ہوئے انھیں شہادت کا رتبہ عطا کیا جائے اور آزمائشوں میں مبتلا لوگوں کے گناہ معاف کر کے ان کے درجات بلند کیے جائیں۔ یہ تو آخرت کے حوالے سے بات ہوئی لیکن دنیا میں بہرحال اس سیلاب نے سب کچھ اتھل پتھل کردیا۔ دھرتی ماں کو اپنے خون پسینے سے سینچ کر، اپنے پلے جانوروں کی لسی پی اور اپنی گندم کی روٹی کھا کر اپنے جھونپڑے کے سکون کےمزے لینے والا کسان حقیقت میں ایک نواب کی سی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن اب حال یہ ہے کہ:

اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
اب پاس رہا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھری باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا

ایک طرف لوگ بھوک و پیاس میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ہم کچھ لوگ ہیں جو کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، پہن رہے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انھیں کھلایا، پلایا، پہنایا ہے ورنہ تھے تو ہم بھی سارے بھوکے ننگے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: «يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ فَاسْتَط ْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ» ’’اے میرے بندو تم سب کے سب بھوکے ہو سوائے جسے میں کچھ کھلا دوں پس مجھ ہی سے کھانا طلب کرو میں تمھیں کھلاؤں گا، اے میرے بندو تم سب کے سب ننگے ہو سوائے جسے میں پہنا دوں پس مجھ سے لباس طلب کرو میں تمھیں پہناؤں گا‘‘ اللہ تعالیٰ سے کھانا طلب کرنے اور اس سے لباس طلب کرنے کا ایک تو مشہور و معروف طریقہ ہے اور وہ ہے دعا اور ایک دوسرا طریقہ بھی ہے اور وہ ہے دوسروں کی خوراک، ان کی پوشاک، ان کی چھت کی فکر کرنا اور ان کی ضروریات کا اہتمام کرنا، یہ ’’آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام‘‘ والا طریقہ ہے۔ اخروی اجر و ثواب الگ اور دنیا کا فائدہ الگ۔ رسول اللہﷺ نے اس کی خبر دی اور فرمایا: «وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ» (صحیح مسلم) ’’اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے‘‘۔ «مَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ» (صحیح مسلم) ’’جو اپنے مسلمان بھائی کی ضروریات پوری کرنے پر لگ جائے ، اللہ اس کی ضروریات کے لیے کافی ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تو ہوا خدمتِ خلق کا دنیاوی فائدہ لیکن اس سے بڑھ کر بشارت یہ ہے کہ خدمت سے اللہ کی محبت ملتی ہے۔ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ کون سے لوگ اور کون سے اعمال اللہ کو محبوب ہیں؟ تو فرمایا: «أَحَبُّ النَّاسِ إلى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ وأحَبُّ الأعْمَالِ إِلَى الله عَزَّ وجَلَّ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ على مُسْلِمٍ يَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا» (صحیح الترغیب و الترہیب) ’’اللہ کے نزدیک محبوب ترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہیں اور اللہ کے نزدیک محبوب اعمال میں سے یہ ہے کہ تم کسی مسلمان کو خوش کر دو اس کی کوئی تکلیف دور کردو، اس کا کوئی قرض ادا کر دو یا اس کی بھوک مٹانے کے لیے کھانے کا انتظام کردو‘‘۔ اس مبارک عمل کا اخروی اجر و ثواب بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نےفرمایا: «مَنْ أَعَانَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ عَلَى حَاجَةٍ حَتَّى يُثْبِتَهَا لَهُ ثَبَّتَ اللهُ قَدَمَيْهِ يَوْمَ تَزُولُ الْأَقْدَامِ» (صحیح الترغیب و الترہیب) ’’جس نے کسی مسلمان کی مدد کی یہاں تک کہ اس کی حاجت پوری کر دی اللہ اسے قیامت کے دن ثابت قدم رکھے گا جب کہ عام طور پر اس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے‘‘۔

اگر کوئی باوجود استطاعت کے مسلمان بھائیوں کی خدمت نہ کرے تو بات اتنی ہی نہیں ہے کہ مندرجہ بالا اجرو ثواب اور فضیلتوں سے محروم ہو جائے بلکہ ایسے افراد کو اخروی جواب دہی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں قیامت کے دن کے کچھ سوال وجواب نقل کیے گئے ہیں۔ اس میں یہ سوال بھی ہے کہ اللہ پوچھے گا: «يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي» ’’اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے کھلایا نہیں بندہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کیسے کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو جانتا نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا اگر تو اسے کھلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا پھر اللہ کہے گا: «يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي» ’’اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے مجھے پلایا نہیں بندہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے اللہ کہے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا‘‘۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہمارے مالوں میں محتاجوں اور ضرورت مندوں کا حصہ رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ‎﴿٢٤﴾‏لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ‎﴿٢٥﴾‏ (المعارج: ۲۴، ۲۵) ’’اور وہ (نیک لوگ) جن کے مالوں میں ایک معلوم حق رکھا گیا ہے سائل کے لیے اور محتاج کے لیے‘‘۔ رسول اللہﷺ نے اس حق کو مؤکد کرتے ہوئے فرمایا: «إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ» (سنن ترمذی) ’’بے شک مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حق ہے‘‘۔ اب آخری بات یہ جان لینی چاہیے کہ اگر کوئی یہ حق ادا نہ کرے تو اللہ مالوں میں رکھا گیا محتاجوں کا حصہ چھین بھی لیتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إِنَّ للهِ أَقْوَامًا اخْتَصَّهُمْ بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ العِبَادِ يُقِرُّهُمْ فِيهَا مَا يَبْذُلُونَهَا فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا مِنْهُمْ فَحَوَّلَهَا إِلى غَيْرِهِمْ» (صحیح الترغیب و الترہیب) ’’بے شک اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنھیں اللہ نے لوگوں کے نفع کی خاطر اپنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ بندے جب تک اپنے مال و دولت (ضرورت مند) لوگوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں اللہ ان کی نعمتوں کو برقرار رکھتا ہے اور جب یہ لوگوں کو دینے سے رک جاتے ہیں تو اللہ اِن سے اپنی نعمتیں چھین کر دوسرے بندوں کی طرف منتقل کر دیتا ہے‘‘۔

اب ہم سیلاب سے بڑی مصیبت کی طرف آتے ہیں جس میں ہم اس وقت مبتلا ہیں۔ یہ سیلاب کوئی اتنی بڑی مصیبت نہیں اس لیے کہ یہ جتنا بھی زور مارے اور جتنوں کو مارے، میرے نبیﷺ کی دعا کے مطابق امت ختم ہونے والی نہیں۔ سیلاب سے بڑی مصیبت جس میں ہم مبتلا ہیں جس نے ہماری قوم کو سیلِ رواں کے بجائے غُثاء السیل (سیلاب کی جھاگ اور خس و خاشاک) بنا دیا وہ باہمی سَر پُھٹَوَّل ہے۔ رسول اللہﷺ اپنی امت کے لیے مانگی گئی ایک دعا کے بارے میں یوں بتاتے ہیں: «وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَهُمْ غَرَقًا فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ» ’’میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری (کل کی کل) امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے تو اللہ نے میری دعا قبول کر لی اور میں نے رب سے سوال کیا کہ ان کی باہم لڑائی نہ ہو لیکن یہ دعا منظور نہیں کی گئی‘‘ (سنن ابنِ ماجہ) اب اس تفرقہ باہمی اور کھینچا تانی کا بڑا ظہور سیاسی میدان میں ہے کہ معاشی عدمِ استحکام سمیت بہت سارے مسائل کی جڑ یہی ہے اور بڑی مصیبت یہ کہ اصحابِ حکومت (حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف) سیلاب زدگان کی طرف گویا متوجہ ہی نہیں ہیں۔ تو ان لوگوں کو چاہیے کہ اس دھرتی کو تھوڑا سا سکون لینے دیں اور عوام کی خدمت کی طرف متوجہ ہوں۔

لرننگ پورٹل