لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف

دعا کی اہمیت اور آداب
سورۂ اعراف، آیات: ۵۵۔ ۵۶

﴿اُدعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَّ خُفیَةً ،إِنَّه لَا یُحِبُّ المُعتَدِینَ ولَا تُفسِدُوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلَاحِهَا وَادعُوهُ خَوفًا وَّ طَمَعًا إِنَّ رَحمَتَ اللّٰهِ قَرِیبٌ مِّنَ المُحسِنِینَ﴾

’’تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو۔ یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو، اور اس کی عبادت اس طرح کرو کہ دل میں خوف بھی ہو اور امید بھی، یقیناً اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے‘‘۔

تفسیر و توضیح

ہمہ وقت درماندگی و بے بسی کی تصویر ضعیف و لاچار بندوں کے لیے مشکل کشائی اور حاجت روائی کا بہترین دروازہ دعا ہی ہے۔ دعا وہ ہتھیار ہے جس کی بدولت دکھوں کا مداوا، غموں اور پریشانیوں کا خاتمہ اور ستم رسیدہ افراد کی فریاد رسی ممکن ہے اوراسی طرح یہ ایک بندہ ٔ مومن اور اس کے پروردگار کے درمیان رابطے کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔ دعا کی عظمت وفضیلت محتاجِ بیان نہیں ہے، اس پر بکثرت آیاتِ الہٰیہ اور احادیثِ طیبہ موجود ہیں۔ چونکہ دُعا ایک عظیم الشان عبادت بھی ہے، جو درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور ہماری عبدیت کی علامت اور اس کی ذات پر کامل توکل واعتماد کا مظہر ہے۔ لہٰذا جس طرح دوسری عبادات کے آداب و حدود ہیں اور ان کی رعایت کرنا ضروری ہے، اسی طرح دعا بھی نہایت عظمت والی عبادت ہے بلکہ اسے حدیثِ مبارکہ میں عبادت کا حاصل اور نچوڑ قرار دیا گیا ہے۔ (ترمذی، حدیث: ۳۳۷۱) اس لیے اس کے آداب و حدود کا خیال رکھنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسری عبادات مثلاً نماز، روزہ وغیرہ کے آداب اور حدود کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ زیرِ مطالعہ آیاتِ مبارکہ میں اسی کے متعلق ارشاد ربانی ہے: ﴿اُدعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَّ خُفیَةً﴾ ’’تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو‘‘ ۔ یہاں اَلتَّضَرُّع کا مطلب ہے: نہایت عاجزی اور رغبت کے ساتھ مانگنا، جبکہ الخَفِّية کہتے ہیں آہستہ آہستہ پکارنا جو علانیہ کی نقیض یعنی ضد ہے۔ (لسان العرب) سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ نے مقامِ مدح میں حضرت زکریا علیہ السلام کے دعا مانگنے کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿إِذ نَادٰی رَبَّه نِدَآءً خَفِیًّا﴾ ’’یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے اپنے پروردگار کو آہستہ آہستہ آواز سے پکارا تھا‘‘۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بين دعوة السر ودعوة العلانية سبعون ضعفا ، (تفسیرِ بغوی،ج:۲ ، ص: ۱۹۸) ’’چپکے سے دعا مانگنا علانیہ دعا مانگنے سے ستّر گنا زیادہ قبولیت وفضیلت کا درجہ رکھتاہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں اصل یہ ہے کہ آہستہ آہستہ آواز سے مانگی جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ دلوں کے حال سے خوب واقف ہے، اس لیے اسے پہنچانے کے لیے بلند آواز سے پکارنے کی ضرورت نہیں ہے۔

﴿إِنَّه لَا یُحِبُّ المُعتَدِینَ﴾ ’’یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ یہ حکم اگرچہ مطلق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حد سے تجاوز کرنے والے پسند نہیں ہیں اور قرآنِ کریم میں جگہ جگہ حد سے گزرنے والوں کی مذمت آئی ہے، چونکہ یہاں دعا مانگنے کے ضمن میں یہ حکم بیان ہوا ہے، اس لیے مفسرین نے اسی تناظر میں اس کی تفسیر فرمائی ہے۔ چنانچہ امام ابنِ جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إن من الدعاء اعتداءً، يُكره رفعُ الصوتِ والنداءُ والصياحُ بالدعاء، ويُؤمر بالتضرُّع والاستكانة. (جامع البيان في تأويل القرآن، ج:۱۲، ص:۴۸۷) ’’بیشک دعا میں حد سے تجاوز بلند آواز سے دعا مانگنا اور چیخنا چلّانا ہے جسے مکروہ قرار دیا گیا ہے جبکہ اسے نہایت عاجزی، رغبت اور سکون و اطمینان کے ساتھ مانگنے کا حکم کیا گیا ہے‘‘۔ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ’’اس حد سے گزرنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ بہت اونچی آواز سے دعا مانگی جائے، اور یہ بھی کہ کوئی ناجائز یا ناممکن چیز طلب کی جائے، جو دعا کے بجائے (معاذاللہ) مذاق بن جائے، مثلاً یہ دعا کہ میں ابھی آسمان پر چڑھ جاؤں، کفار بعض اوقات آنحضرت (ﷺ) سے اس قسم کی دعائیں مانگنے کا مطالبہ کرتے تھے‘‘۔ (توضیح القرآن) ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا: اللّهم إنِّي أسألُكَ القَصرَ الأبيَضَ عن يمينِ الجنَّة إذا دخلتُها، فقال: أيْ بُنَيَّ، سَلِ اللهَ الجنَّةَ، وتعوَّذ به مِنَ النَّار، فإني سمعتُ رَسُولَ اللَّهِﷺيقول: «إنَّه سيكونُ في هذه الأمَّةِ قومٌ يَعتَدونَ في الطُّهور والدُّعاء» (سنن ابی داؤد، حدیث: ۹۶) ’’اے اللہ! میں جب جنت میں داخل ہوں تو مجھے جنت کی دائیں طرف کا سفید محل عطا فرما۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بیٹے! تم اللہ سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اس امت میں عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے‘‘۔

﴿وَلَا تُفسِدُوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلَاحِهَا﴾ ’’اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ مچاؤ، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین میں بسایا تو اس وقت تک یہاں نافرمانی کا کوئی تصور نہیں تھا، گویا اس کی اصلاح ہوچکی تھی۔ مگر بعد میں انسان نے یہاں نافرمانیاں کر کے زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد برپا کر دیا۔ لہٰذا یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو اور اللہ کی نافرمانیوں سے اسے آلودہ نہ کرو۔ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: يعني تعالى ذكره بقوله : ﴿وَلَا تُفسِدُوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلَاحِهَا﴾ لا تشركوا بالله في الأرض ولا تعصوه فيها، وذلك هو الفساد فيها. (جامع البیان فی تاویل القرآن، ج:۱۲ ، ص:۴۸۷) ’’اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: ﴿وَلَا تُفسِدُوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلَاحِهَا﴾ کا مفہوم ہے کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مت ٹھہراؤ اور نہ ہی اس میں گناہ کرو، اس لیے کہ یہی تو زمین میں فساد ہے‘‘۔

﴿وَادعُوهُ خَوفًا وَّطَمَعًا إِنَّ رَحمَتَ اللّٰهِ قَرِیبٌ مِّنَ المُحسِنِینَ﴾ ’’اور اس کی عبادت اس طرح کرو کہ دل میں خوف بھی ہو اور امید بھی۔ یقیناً اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے‘‘ ۔ آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں دعا کا صیغہ عبادت کے لیے بھی آیا ہے اور دعا یعنی مانگنے کے لیے بھی آیا ہے۔ چونکہ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں دعا سے مراد عبادت ہےاسی لیے یہاں یہ بتلایا گیا ہے کہ عبادت کرنے والے کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر ہونی چاہیے کہ میں جو عبادت کر رہا ہوں یا میں نے کی ہے نہ جانے اس کا میں ٹھیک ٹھیک حق ادا کرسکا ہوں یا نہیں اور ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید بھی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اپنی بارگاہ میں اسے قبول کر لے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: خوفا من عقابه وطمعا في ثوابه. (الوسیط فی تفسیر القرآن المجید، ج:۲ ، ص: ۳۷۷) ’’اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کی امید رکھنا چاہیے‘‘۔

اسی طرح بعض مفسرین نے یہاں دعا کے صیغے کو مانگنے کے مفہوم میں لیا ہے تو پھر زیرِ مطالعہ آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا اس طرح مانگو کہ دل میں خوف بھی ہو اور امید بھی یعنی دعا کی قبولیت کی امید بھی ہو اور یہ ڈر بھی ہو کہ دعا کی حدود کی رعایت میں کہیں مجھ سے کوتاہی نہ ہو جو حرمانِ نصیبی کا باعث بنے۔ لہٰذا اگر یہاں دعا کو اسی مفہوم میں لیا جائے تو یہ عبادت بھی ہے جیسے کہ ہم ماقبل میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں اور ساتھ اس میں قرآنِ کریم کی آیات کے مفہوم میں ایک باریک اور معنوی ربط بھی سمجھ میں آتا ہے جو قرآن کریم ہی کا اعجاز ہے، ورنہ بندہ جتنا بھی ذہین ہو وہ اس معنوی ربط کا خیال نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّ رَحمَتَ اللّٰهِ قَرِیبٌ مِّنَ المُحسِنِینَ﴾ ’’یقیناً اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے‘‘ ۔ یعنی دعا کو اللہ تعالیٰ نے رحمت سے تعبیر کیا ہے جبکہ سورۂ مریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ﴿ذِکرُ رَحمَتِ رَبِّکَ عَبدَه زَکَرِیَّا﴾ ’’یہ تذکرہ ہے اس رحمت کا جو تمہارے پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی‘‘ ۔ یہ رحمت کیا تھی؟ تو آگے اللہ تعالیٰ نے خود وضاحت فرمائی: ﴿إِذ نَادٰی رَبَّه نِدَآءً خَفِیًّا﴾ ’’یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے اپنے پروردگار کو آہستہ آہستہ آواز سے پکارا تھا‘‘ ۔ یعنی جب انھوں نے آہستہ آہستہ آواز سے دعا مانگی تھی، تو اس کی قبولیت کو رحمتِ خداوندی قرار دیا ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ دعا بذاتِ خود ایک اہم عبادت ہے، اس کی ان حدود کی رعایت رکھنا بہت ضروری ہے جو مذکورہ آیات میں بیان ہوئی ہیں اور ہمیں ان تمام آداب کا خیال رکھتے ہوئے دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ چونکہ دعا ایک ایسی عبادت ہے، جس کے لیے نہ کوئی وقت متعین ہے اور نہ ہی کسی حالت کی قید ہے، البتہ دعا کے کچھ آداب ہیں ان کی رعایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بندے کو ہر وقت ہر حالت میں خواہ سفر ہو یا حضر، تندرست ہو یا مریض، آزمائش و مصیبت میں گرفتار ہو یا آسائش میں ہو غرض کسی بھی حالت میں دعا سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دعا کی اہمیت و فضیلت اور اس کے آداب جاننے کی توفیق عطا فرمائیں اورہمیں اپنے خزانوں سے خوب لینے والا اور مانگنے والا بنادیں۔ آمین

لرننگ پورٹل