ادیب رائے پوری (۱۹۲۸۔۲۰۰۴)
معروف نعت گو شاعر
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار، تو کھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رہتے ہیں وہ توصیف و ثناے شہِ ابرار میں ہر لحظہ گہر بار |
ورنہ وہ سیدِ عالی نسبی، ہاں وہی امی لقبی ، ہاشمی و مُطلبی و عربی و قرشی و مدَنی اور کہاں ہم سے گنہ گار |
سو نگھ لوں خوشبوے گیسوے محمد، وہ سیاہ زلف، نہیں جس کے مقابل یہ بنفشہ، یہ سیوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گلِ لالہ و چمپا کا نکھار |
جس کی نکہت پہ ہیں قربان، گل و برگ و ثمن، نافۂ آہوے ختن، بادِ چمن، بوے چمن، نازِ چمن، نورِ چمن، رنگِ چمن، سارا چمن زار |
بخش دیتے ہیں شہنشاہ؛ سمر قند و بخارا ،کسی محبوب کے رخسار کےتل پر، مگر اے خلق کے رہبر، اے مرے مہر ِمنور |
میں کروں تجھ پہ تصدق، دمِ عیسی، یدِ بیضا، در و دیوارِ حرم کعبۂ دل، ان سے بڑی کوئی نہیں شے مرے پاس، مری چشم گہربار |
ورفعنا لک ذکرک کی اس اک آیتِ توصیف کی توصیف میں، تفسیر میں، تشریح میں، توضیح میں، تضمین میں ہر عہد کی شامل ہے زبان |
لبِ حسان و رواحہ و لبِ فاطمہ زہرا و علی، عابدِ بیمار و بوصیری، دہَنِ عرفی و جامی لبِ سعدی و رضا سب سرشار |
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون و بلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی، کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار |
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار |
ایسا محبوب دیا حق نے تمھیں صل علی، جس کا مماثل نہ مقابل کہ لقب جس کو حریصٌ کا دیا، اتنا کیا جس نے گنہ گاروں سے پیار |
اے خدا ! اے شہِ کونین کے رب! لفظ حریصٌ کے سبب، ایک ہوں سب، وہ عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امتِ مرحوم کو پھر کھویا وقار |
اے ادیؔب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال |
ان کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے، صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اس میں شعار |